متفرق

بےگھر افراد کا عالمی دن

World Refugee Day

یونائیٹڈ نیشن ہیومن رائٹس کمیشن(UNHRC) اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے۔ جس کے ذمہ دیگر فرائض کے علاوہ دنیا میں بے گھر افراد اور کسی بھی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور انسانوں کی مدد کرنا شامل ہے۔ اس کی بنیاد 1950ء میں جنیوا کنونشن کے بعد رکھی گئی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر ابھی بھی جنیوا ، سوئٹزرلینڈ میں ہے۔ البتہ یو این ایچ آر سی نے تین گلوبل سنٹر اردن ، کوپن ہیگن اور بڈاپسٹ (ہنگری) میں قائم کر رکھے ہیں ۔

135؍ممالک جنیوا کنونشن میں ہونے والے معاہدہ میں شامل ہوئے تھے۔ جو مہاجرین کی آباد کاری میں UNHRCکی مدد کرنے کے پابند ہیں۔

UNHRCکے سربراہ کو اقوام متحدہ کا کمشنر برائے مہاجرین کہا جاتا ہے اور آج کل اٹلی کے Filipo Grandi صاحب اس عہدے پر فائز ہیں۔

وہ گذشتہ تیس سال سے اقوام متحدہ میں انہی امور سے متعلق خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ فلسطین اور افغانستان کے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر نمائندہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ 20؍جون کو اقوام متحدہ نے ورلڈ رفیوجی ڈے کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔ امسال بھی اس دن یعنی 20؍جون کو اقوام متحدہ کی طرف سے خصوصی طور پر منایا گیا۔ اس روز کمشنر برائے مہاجرین نے جو پیغام جاری کیا اس نے بتایا کہ 2019ء میں 79.5 ملین لوگ بے گھر افراد کی فہرست میں شامل ہیں ۔ جن میں 73؍فیصد نے ہمسایہ ملکوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں ترکی میں 3.6 ملین ، کولمبیا 1.8 ملین، پاکستان میں 1.4ملین، یوگنڈا میں 1.3ملین اور جرمنی میں 1.2 ملین بے گھر افراد رہ رہے ہیں۔ ان میں بہت بڑی تعداد ملک شام Rohingya-venezuela۔ افغانستان اور جنوبی سوڈان کے لوگوں کی ہے۔ ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے پیغام کے ساتھ جو فلم ریلیز کی گئی ہے اس میں برکینا فاسو میں افریقی مہاجرین اور بنگلہ دیش میں روہنگیا کے مہاجرین کی حالتِ زار دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہائش پذیر بجلی،پانی، بیت الخلاء اور غسل خانہ کی سہولت کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ گندگی کے باعث وبائی بیماریوں نے ہر گھر کو پریشان کر رکھا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بتایا کہ دنیا بھر سے 900 این جی اوز اور والنٹری ایجنسیاں ہمیں طاقت مہیا کرتی ہیں۔ صحت، تعلیم، پانی اور سینٹری سسٹم مہیا کرنے میں ہماری مدد گار ہیں۔ ادارہ ان 900 مددگار اداروں کے ہمراہ ماہ جولائی میں ہر سال ایک سالانہ کانفرنس منعقد کرتا ہے۔ 2019ء میں یہ کانفرنس 3اور 4؍جولائی کو جنیوا میں ہوئی تھی۔

امسال کوروناوائرس کی وجہ سے کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں ہو سکا۔ ہائی کمشنر نے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے دس ہزار رفیوجی ان ممالک میں پہنچنے سے قاصر ہیں جنہوں نے ان مہاجرین کو قبول کیا ہے ۔

ادارہ کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سال میں صرف چار لاکھ مہاجرین اپنے گھروں کو واپس جاسکے ہیں۔

جبکہ 1990ء کی دہائی میں 15 لاکھ مہاجر واپس گئے تھے جب کہ تب مہاجرین کی تعداد بھی محض 40 لاکھ تھی۔

اب مہاجرین کی تعداد 80 ملین ہے اور غریب ممالک نے 85 فیصد مہاجرین کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ نے بھی مہاجرین کے عالمی دن کے موقع پر اپنی قوم کو یاد دلایا ہے کہ دنیا کے اقتصادی،موسمی اور سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے جرمنی کی آبادی کے برابر لوگ اس وقت گھر سے بے گھر ہیں۔ جن میں سے 10 فیصد کو جرمنی نے چھت مہیا کی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی آگے آنا چاہیے۔

مہاجرین کی آبادکاری کے لیے فوری فیصلے نہ کیے گئے تو جن حالات میں مہاجرین رہ رہے ہیں کورونا وائرس کے باعث زندگی اور موت میں فاصلہ کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ دنیا ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہو ہمیں مہاجرین کے مسائل کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔

چیئرمین کونسل آف پروٹسٹنٹ چرچ Heinrich Bedfordنے بھی اپیل کی ہے کہ بے گھر افراد کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اپنے دل بند نہ کرو بلکہ مہاجرین کی مدد کے لیے آگے بڑھو۔ صرف دعا ہی سے نہیں بلکہ نقد رقم ان کو تحفہ میں دے کر ان کی مصیبت کو کم کرنے میں ان سے ہمدردی کرو۔

بریڈ فار دی ورلڈ (Bread for the World)آرگنائزیشن کی خاتون صدر نے یورپی یونین کے 27؍ممالک سے اپیل کی ہے کہ یورپی یونین رفیوجی پالیسی نئی بنائے۔ دنیا میں جو تغیرات برپا ہو رہے ہیں اس میں مستقبل میں نقل مکانی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

ان کو ملحوظ خاطر رکھ کر یورپی یونین نئی پالیسی ترتیب دے۔ انہوں نے جرمنی کو مخاطب کرکے یاد دلایا کہ یکم جولائی سے جرمنی یورپی یونین کی صدارت کی ذمہ داری سنبھال رہا ہے۔ جرمنی کو اس بارے میں مؤثر قدم اٹھانا ہوں گے۔

جرمنی نے مہاجرین کو قبول کرنے اور ان کی آبادکاری میں یورپی ممالک میں سے سب سے زیادہ بوجھ کو قبول کیا ہے۔ آنے والوں کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ ان کو جلد اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور ان کو معاشرے کا مفید بنانے کے لیے متعدد سکیمیں بھی جاری کی ہیں۔ ابھی حال ہی میں یونان اور ترکی کے کیمپوں میں رہائش پذیر ایسے بچے جو والدین کے بغیر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے تھے ان کو جرمنی میں لانے کا بندوبست کیا ہے۔ اسی طرح 247؍بچے جو کیمپوں میں شدید بیماریوں میں مبتلا تھے ان کو والدین سمیت جرمنی لاکر علاج کروانا قبول کیا ہے۔

یونان کے جزیرہ میں 38؍ہزار پناہ گزینوں کے لیے سینٹری سسٹم بنا کر دیا ہے جس پر ابھی کام جاری ہے۔ اس کیمپ سے 300 خواتین کو جرمنی میں لایا جا رہا ہے جو سینٹری سسٹم اور صفائی کا اہتمام نہ ہونے کے سبب بیماریوں کا شکار ہیں۔

جرمنی آنے والے پناہ گزینوں جن میں افسوس کے ساتھ اکثریت مسلمانوں کی ہے ان کی طرف سے جرائم کی شرح میں اضافہ جرمن شہریوں کے لیے تشویش کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ دن بدن AFDکی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

(رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل جرمنی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button