از افاضاتِ خلفائے احمدیت

جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے

پانچویں شرط بیعت(حصہ سوم)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے۔ مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں۔ جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہوسکتے، نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے، نہ آسمانی ابتلائوں اور آزمائشوں سے۔ اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دَم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال ان کے پہلے سے بدتر ہوگا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں۔ کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلائوں سے خوفناک ہوجائیں گے۔ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں ہوسکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جائیں ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عنداللہ ایسی عزت نہیں ہوگی جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں کیونکہ بدظنی اور غداری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے‘‘۔

(انوارالاسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد9۔ صفحہ23-24)

کامل وفا اور استقامت کا نمونہ دکھائیں

آج سے سو سال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی زندگی میں دو بزرگوں نے کامل وفا کا اوراستقامت کا نمونہ دکھایا تھا اور اپنے عہد بیعت کو نبھایا تھا اور خوب نبھایا۔ عہد بیعت کو توڑ نے کیلئے مختلف لالچ ان کو دیئے گئے مگر ان استقامت کے شہزادوں نے ذرہ بھر بھی اس کی پرواہ نہ کی اور عہد بیعت پر قائم رہے۔ حضرت اقدسؑ نے ان کو زبردست خراج تحسین پیش فرمایا۔ یہ حضرت صاحبزادہ سیدعبداللطیف شہیدؓ اور عبدا لرحمان خان صاحبؓ ہیں۔ حضورؑ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں فرماتے ہیں:

’’اب ایمان اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ جس سلسلہ کا تمام مدار مکر اور فریب اور جھوٹ اور افترا ء پر ہو کیا اس سلسلہ کے لوگ ایسی استقامت اور شجاعت دکھلاسکتے ہیں کہ اس راہ میں پتھروں سے کچلا جانا قبول کریں اور اپنے بچوں اور بیوی کی کچھ بھی پرواہ نہ کریں اور ایسی مردانگی کے ساتھ جان دیں اور باربار رہائی کاوعدہ بشرط فسخ بیعت دیاجاوے مگر اس راہ کو نہ چھوڑیں۔ اسی طرح شیخ عبد الرحمٰن بھی کابل میں ذبح کیا گیا اوردم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو۔ میں بیعت کو توڑتا ہوں۔ اور یہی سچے مذہب او ر سچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے ہاں جو سطحی ایمان رکھتے ہیں اور ان کے رگ و ریشہ میں ایمان داخل نہیں ہوتا وہ یہودا اسکریوطی کی طرح تھوڑے سے لالچ سے مرتد ہوسکتے ہیں۔ ایسے ناپاک مرتدوں کے بھی ہر ایک نبی کے وقت میں بہت نمونے ہیں۔ سو خدا کا شکر ہے کہ مخلصین کی ایک بھاری جماعت میرے ساتھ ہے اور ہر ایک ان میں سے میرے لئے ایک نشان ہے یہ میرے خدا کا فضل ہے۔

رَبِّ اِنَّکَ جَنَّتِیْ وَ رَحْمَتُکَ جُنَّتِیْ وَآیَاتُکَ غِذَائِیْ وَفَضْلُکَ رِدَائِیْ ‘‘

(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد22۔ صفحہ360-361)

یعنی اے میرے ربّ تو میری جنت ہے اور تیری رحمت میری ڈھال ہے تیرے آیات و نشانات میری غذا ہیں اور تیرا فضل میری چادر ہے۔

اس کے بعد بھی جماعت کی سو سال سے زائد کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ وفا اور استقامت کی مثالیں قائم ہوتی رہیں۔ مالی و جانی نقصان پہنچائے گئے، شہید کئے گئے، بیٹا باپ کے سامنے اور باپ بیٹے کے سامنے مارا گیا تو کیاخدا نے جو سب سے بڑھ کر وفائوں کا جواب دینے والا ہے اس خون کو یوں ہی رائیگاں جانے دیا؟نہیں اس نے پہلے سے بڑھ کر ان کی نسلوں پر رحمتوں اور فضلوں کی بارش برسائی۔ آپ میں سے کئی جو یہاں موجود ہیں یا دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اس بات کے چشم دید گواہ ہیں۔ بلکہ آپ میں سے اکثر ان فضلوں کے مورد بنے ہوئے ہیں۔ یہ اس وفا کا ہی نتیجہ ہے جو آپ نے خدا تعالیٰ سے کی اورحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کئے عہد بیعت کو سچ کردکھایا۔ کشائش میں کہیں آپ یا آپ کی نسلیں اس عہد بیعت کو بھول نہ جائیں۔ اس پیارے خدا سے ہمیشہ وفا کا تعلق رکھیں تاکہ یہ فضل آپ کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور اس وفا کے تعلق کو اگلی نسلوں میں بھی منتقل کرتے چلے جائیں۔

چھٹی شرط بیعت

’’یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گااور قرآن شریف کی حکومت کو بکلّی اپنے سرپر قبول کرے گا اور قَالَ اللّٰہ اور قَالَ الرَّسُوْلکو اپنے ہر یک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا‘‘۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں کہ تم میرے سے اس بات پر بھی عہد بیعت کرو کہ رسم و رواج کے پیچھے نہیں چلوگے۔ ایسے رسم و رواج جو تم نے دین میں صرف اور صرف اس لئے شامل کرلئے ہیں کہ تم جس معاشرے میں رہ رہے ہو اس کا وہ حصہ ہیں۔ دوسرے مذاہب میں چونکہ وہ رسمیں تھیں اس لئے تم نے بھی اختیار کرلیں۔ مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر بعض فضول قسم کی رسمیں ہیں۔ جیسے بری کو دکھانا یا وہ سامان جو دولہا والے دو لہن کے لئے بھیجتے ہیں اس کا اظہار، پھر جہیز کا اظہار۔ باقاعدہ نمائش لگائی جاتی ہے۔ اسلام تو صرف حق مہر کے اظہار کے ساتھ نکاح کا اعلان کرتا ہے۔ باقی سب فضول رسمیں ہیں۔ ایک تو بری یا جہیز کی نمائش سے اُن لوگوں کا مقصدجو صاحبِ توفیق ہیں صرف بڑھائی کا اظہارکرنا ہوتا ہے کہ دیکھ لیا ہمارے شریکوں نے بھائی بہن یا بیٹا بیٹی کو شادی پرجو کچھ دیا تھا ہم نے دیکھو کس طرح اس سے بڑھ کر دیا ہے۔ صرف مقابلہ اور نمود و نمائش ہے۔ آج کل آپ میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے یہاں آنے کے بعد بہت نوازا ہے۔ بہت کشائش عطا فرمائی ہے۔ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت ہے اور ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو آپ کے بزرگوں نے دیں اور ان کی دعائوں کی برکت ہے۔ تو بعض ایسے ہیں جو بجائے اس کے کہ ان فضلوں اور برکتوں کا اظہار اس کے حضور جھکتے ہوئے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے کریں اس کی بجائے شادی بیاہوں میں نام و نمود کی خاطر، خودنما ئی کی خاطر ان رسموں میں پڑکر یہ اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر شادیوں پر، ولیموں پر کھانوں کا ضیاع ہو رہا ہوتا ہے۔ اور دکھاوے کی خاطر کئی کئی ڈشیں بنائی جارہی ہوتی ہیں تو جو غریب یا کم استطاعت والے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی دیکھا دیکھی جہیز وغیرہ کی نمائش کی خاطر مقروض ہو رہے ہوتے ہیں پھر بعض دفعہ بچیوں والے لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کے مطالبہ کی وجہ سے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ بہو جہیز بھی نہیں لائی، مقروض ہوتے ہیں۔ تو لڑکے والوں کو بھی کچھ خوف خدا کرنا چاہئے۔ صرف رسموں کی وجہ سے، اپنا ناک اونچا رکھنے کی وجہ سے غریبوں کو مشکلات میں، قرضوں میں نہ گرفتار کر یں اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں اور بیعت کی دس شرائط پر پوری طرح عمل کریں گے۔ تو یہ مختصراً میں نے ایک شادی کی رسم پر عرض کیا ہے۔ اگر اس کو مزید کھولوں تو اس شادی کی رسم پر ہی خوفناک بھیانک نتائج سامنے لانے والی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ اور جب رسمیں بڑھتی ہیں تو پھر انسان بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور پھر اگلا قدم یہ ہوتا ہے کہ مکمل طور پر ہواو ہوس کے قبضہ میں چلا جاتا ہے جبکہ بیعت کرنے کے بعد تو وہ یہ عہد کر رہا ہے کہ ہواو ہوس سے باز آجائے گا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت مکمل طور پر اپنے اوپر طاری کرلے گا۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button