متفرق مضامین

حج ِبیت اللہ، استطاعت اور امن و امان سے مشروط

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

وبائی ایام  اور بد امنی کی وجہ سے 40 مواقع پر حج کا فریضہ موقوف ہوچکا ہے(مڈل ایسٹ آئی)

وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا

اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ کوبلد الامین یعنی امن وسلامتی والا شہر قرار دیا ہےاور یہی وہ مقام ہے جس کے متعلق حضرت ابراھیم علیہ السلام نے  اپنے رب کی بارگاہ میں عرض کی تھی کہ

رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا (ابراہیم:36)

کہ اے میرے رب! اس شہر کو امن وسلامتی والا بنا دے ۔یہاں خانہ خدا اور مسجد حرام واقع ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بشارت عطا فرمائی ہے کہ

وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (آل عمران:98)

کہ جو اس میں داخل ہوا وہ امن و سکینت میں رہے گااور ایک جگہ فرمایا کہ

وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ( القريش:5)

کہ بیت اللہ خوف سے امن عطا فرماتا ہے۔ نیز حرم کے بارے میں فرمایا

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا اَنَّا جَعَلۡنَا حَرَمًا اٰمِنًا (العنکبوت:68)

گویا یہ مقدس مقام امن وعافیت کا ضامن ہےاور یہی وہ بابرکت جگہ ہے جس کی زیارت او رطواف اسلام کے پانچویں رکن حج کی صورت میں فرض کردی گئی ہے۔

حج کی فرضیت کو اللہ تعالیٰ نے راستہ کی استطاعت اور امن وامان کے ساتھ مشروط فرمایا ہےاور یہ ایسی عبادت ہے جو نماز اور روزہ کی طرح روزانہ یا ہر سال بجالانی ضروری نہیں بلکہ حسب توفیق یا حسبِ سہولت زندگی میں ایک مرتبہ حج کی سعادت پا لینا بھی کافی سمجھا گیا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی پاکیزگی اور طہارت کا خیال رکھنے کی تلقین کے ساتھ حج کے مناسک میں حائل روکوں کا بھی ذکر فرمایا ہے ایک موقع پر فرمایاکہ

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّٰهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ(البقرہ:197)

یعنی حج اور عمرہ کو اللہ تعالیٰ کی خاطر مکمل کرو لیکن اگر تمہیں روک لیا جائے یا محصور کردئے جاؤ تو پھر جو قربانی میسر ہو اس کو ذبح کرکے احرام کھول دو ۔نیز فرمایا کہ

وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (آل عمران:98)

یعنی لوگوں کو چاہیے کہ وہ محض للہ حج بیت اللہ کریں لیکن صرف وہ لوگ جنہیں یہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو۔ حج بیت اللہ کی فرضیت اور استطاعت کی شرط کا ذکر کرتے ہوئے علامہ کاسانی لکھتے ہیں:

لِأَنَّ اللّٰهَ تَعَالَى شَرَطَ الِاسْتِطَاعَةَ لِوُجُوبِ الْحَجِّ، وَالْمُرَادُ مِنْهَا اسْتِطَاعَةُ التَّكْلِيفِ، وَهِيَ سَلَامَةُ الْأَسْبَابِ، وَالْآلَاتِ، وَمِنْ جُمْلَةِ الْأَسْبَابِ سَلَامَةُ الْبَدَنِ عَنْ الْآفَاتِ الْمَانِعَةِ عَنْ الْقِيَامِ بِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ فِي سَفَرِ الْحَجِّ؛ لِأَنَّ الْحَجَّ عِبَادَةٌ بَدَنِيَّةٌ، فَلَا بُدَّ مِنْ سَلَامَةِ الْبَدَنِ، وَلَا سَلَامَةَ مَعَ الْمَانِعِ، وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ – رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ – فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا} [آل عمران] أَنَّ السَّبِيلَ أَنْ يَصِحَّ بَدَنُ الْعَبْدِ

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع از علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني۔ كتاب الحج فصل شرائط فرضية الحج جلد 2 صفحہ 21)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے استطاعت کی شرط رکھی ہے۔ استطاعت سے مراد تمام وہ ضروریات ہیں جن کا سامنا انسان کو حج کے دوران کرنا پڑتا خواہ وہ مالی ہوں یا پھر سواری کے حوالے سے ہوں۔ ان ضروری امور میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے آپ کو آفات سے بچایا جائے جو حج کے دوران پیش آئیں کیونکہ حج ایک بدنی عبادت ہے اس لیے جسم کو بچانا تو نہایت ضروری ہے۔ اور اگر حج سے روکنے والی باتوں کے باوجود حج کیا جائے تو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  نےمَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا میں السبیل سے جسمانی صحت ہی مراد لی ہے۔

آخری زمانہ میں حج کے موقوف ہونے کی پیشگوئی

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج کے خروج کے بعد بھی حج جاری رہےگا لیکن یہ بھی فرمایا کہ

لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتُ

یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک حج بیت اللہ مؤقوف نہ ہوجائے۔

(الجامع الصحیح للبخاری۔ کتاب الحج ۔ بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ…)

پس اس آخری زمانہ میں امام مہدی و مسیح موعود کے ظہور کے دیگر نشانوں کی طرح حج کے موقوف ہونے کی پیش خبری بھی کئی رنگ میں پوری ہوئی۔ کبھی وباؤں کی وجہ سے حج موقوف کرنا پڑا، کبھی جنگ عظیم اوّل و دوم کے ایام میں مناسک حج کی ادائیگی متاثرہوئی۔ والیٔ شریف اور آل سعود کے تنازعات کے دوران بھی فریضہ حج کی ادائیگی مشکلات کا شکار ہوئی تو بعض مواقع پر مختلف اقوام کو حج سے روکے جانے کی صورت میں  بھی اس پیشگوئی کا ظہور ہوا۔

حضرت  امام مہدی ومسیح موعود علیہ السلام آخری زمانے کے بارہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اور یہ بھی روایت ہے کہ حج روکا جائے گا۔‘‘

(ایام الصلح،روحانی خزائن  جلد14 صفحہ 401)

’’یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح کے وقت میں طاعون پڑے گی۔ حج روکا جائے گا۔ سو یہ تمام نشان ظہور میں آگئے۔ ‘‘

(تحفہ گولڑویہ،روحانی خزائن  جلد17 صفحہ 49)

ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا:

’’یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ248)

پس تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو حج موقوف ہونے کا نشان کئی رنگ میں ظاہر ہوچکا ہے۔ لیکن موجودہ وبائی  حالات میں جب کہ لوگوں کے میل جول اور اجتماع کی صورت میں وبائی مرض Covid19 پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے تواس موقع پرایک مرتبہ پھراس بحث نے جنم لیا ہے کہ وبائی حالات میں فریضہ حج کیسے ادا ہو؟ اس صورت میں جب کہ خانہ خدا کی زیارت کرنے والوں، طواف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کی صحت وعافیت کا معاملہ درپیش ہو یا لوگوں کے جمع ہونے سے وبائی مرض پھیلنے کا اندیشہ ہو تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا موجودہ حالات میں حج کی شرائط پوری ہوسکتی ہیں؟

موجودہ وبائی حالات میں جب کہ لوگوں کے میل جول اور اجتماع کی صورت میں بیماری پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے تو یقیناً ا س صورت میں خانہ خدا کی زیارت کرنے والوں، طواف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کی صحت وعافیت کی خاطر حج بیت اللہ کو موقوف یا محدود کردینے کی تجویززیر بحث تھی۔

سعودی عرب کی حکومت نےان حالات کے پیش نظر حج کے شرکا کی تعداد محدود رکھنے اور صرف سلطنت میں مقیم افراد کو حج کرنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق ”یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ صحت عامہ کے نقطۂ نظر سے حج بیت اللہ کی محفوظ انداز میں ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ اس دوران تمام حفاظتی احتیاطی تدابیر کی پاسداری کی جائے، وبا کے خطرات سے بچنے کے لیے سوشل ڈسٹنسنگ کے پروٹوکولز کی پاسداری کی جائے اوراسلامی تعلیمات کے مطابق بنی نوع انسان کی زندگیوں کا تحفظ کیا جائے۔“

گوکہ 1930ء کے اوائل میں سعودی عرب کے قیام کے بعد حج موقوف نہیں ہوا لیکن گذشتہ صدیوں میں متعدد مواقع پر مختلف وجوہات کی وجہ سے حج کے مناسک موقوف یا محدود کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ وبائی امراض، راہزنی کے واقعات، سخت سردی اور سیلابی صورت حال کے علاوہ خانہ جنگی اورکئی دیگر تنازعات مناسک حج کی راہ میں حائل ہوچکے ہیں۔

خلیج کے معروف جریدے مڈل ایسٹ آئی نے یکم اپریل 2020ء کی اشاعت میں نشاندہی کی ہے کہ اگر امسال حج موقوف کرنا پڑا تو یہ پہلا موقع نہیں ہوگا جب حج بیت اللہ ملتوی یا منسوخ کیا جائے گا۔ بلکہ اس سے قبل بھی 40 مختلف مواقع پر بوجوہ حج بیت اللہ منسوخ یا موقوف کرنا پڑا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی نے بطور مثال جن تاریخی حوالوں کا ذکر کیا ہے ان میں سے چند قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش ہیں:

(1) 865ءمیں یوم عرفہ کے دن مکہ معظمہ میں لڑائی کے سبب حج کو معطل کرنا پڑا اور مناسک حج ادا نہیں ہوسکے۔

(2) 930ء میں  بحرین سے قرامطہ  فرقہ کے لوگوں نے مکہ مکرمہ پر حملہ کر دیا اور حجر اسود کو چرا کر لے گئے ۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق اس واقعہ کے بعدحجر اسو د کی بازیابی تک ایک دہائی تک حج موقوف رہا۔

(3) 983ء میں عباسی اور فاطمی خلفاء کی سیاسی لڑائیوں کی وجہ سے 8 سال تک فریضہ حج متاثر رہا۔

(4) 1831ءمیں ہندوستان سے پھوٹنے والی طاعون نے مکہ مکرمہ کو بھی شدید متاثر کیا اور بڑی تعداد میں زائرین کے جاں بحق ہونے کے بعد اس سال کا حج موقوف کر دیا گیا۔

(5)1837ءسے1840ء تک طاعون کی وباء پھوٹ پڑنے کی وجہ سےچار سال تک حج موقوف رہا۔

(6) 1846ء میں ہیضہ کی وباء نے مکہ مکرمہ کو بھی متاثر کیا اور یہاں15ہزار اموات کے بعد حج موقوف کرنا پڑا۔

(7) 1858ء میں ایک مرتبہ پھر ہیضہ کی وبا حملہ آور ہوئی اور اہالیان حجاز پروبائی امراض نے  شدید حملہ کیا اور اہل حجاز زندگیاں بچانے کے لئے مصر کی طرف ہجرت کرنے اور علاج کرانے پر مجبور ہوئے۔

اسی طرح 1892ء میں ہیضہ کےوبائی حملہ،1895ء میں حجاج کرام کے ٹائیفائیڈ کا شکار ہونےاور1987ء میں ہیضہ کی وبا پھیلنے کے نتیجہ میں حاجیوں کی ہلاکت کے واقعات پیش آنے پر حج کے مناسک مکمل کئے بغیر ہی حج کی عبادات کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔

خانہ کعبہ اور مسجد حرام  وہ مقدس مقام ہے جس کی عبادت اور تعظیم کا حکم دیا گیا ہے۔ جسے شعائر اللہ میں سے قرار دیا گیا ہے اور شعائر اللہ کی عظمت ومحبت دلوں میں تقویٰ پیدا کرتی ہے۔ اس مبارک گھر کی حقیقی عزت وعظمت کے قیام کے لیے دعا ہے کہ

اللَّهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَبِرًّا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مِنْ شَرَفِهِ وَكَرَمِهِ مِمَّنْ حَجَّهُ أَوْ اعْتَمَرَهُ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَبِرًّا

(السیرة الحلبیہ)

اے اللہ ! اس گھر کی بزرگی، تعظیم ،عزت اور نیکی میں اضافہ فرما۔اور جو شخص اس گھر کا حج یا عمرہ بجا لائے اس کی عزت و تکریم اور بزرگی اور نیکی میں بھی اضافہ فرما۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button