یادِ رفتگاں

ہماری والدہ محترمہ تسلیم بیگم صاحبہ مرحومہ

(ڈاکٹر محمد اشرف میلو ۔امریکہ)

والدہ صاحبہ 1929ء میں ضلع گورداسپور کے گاؤں دارا پور میں چوہدری شرف الدین صاحب دارا پوری کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ 9بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔

ہمارے نانا جان نے 1937ء میں احمدیت قبول کی۔ قبولیت احمدیت کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس علاقے کے ایک گاؤں میں احمدی مبلغین نے جلسہ قائم کرنا چاہا لیکن لوگوں نے ان کو منع کر دیا۔ احمدی مبلغین نے نانا جان کے پاس علاقے کے رئیس ہونے کے ناطے شکایت کی۔ نانا جان اگرچہ خود غیر احمدی تھے لیکن انصاف کے تقاضوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے اُس گاؤں میں احمدیوں کا جلسہ کرا دیا۔

اس کے بعد نانا جان کے پاس احمدی مبلغین کا آنا جانا شروع ہوگیا۔ نانا جان کے دیوان خانے میں 15-20آدمی روزانہ کھانا کھانے والے ہوتے تھے۔ اُس زمانے میں رواج کے مطابق مسافر بھی ہوتے تھے۔ جب نانا جان نے احمدیت قبول کی تو قادیان سے ایک معلم مولوی میر ولی صاحب کو نومبائعین کی تربیت کے لیے خاص طور پر بھجوایا گیا۔ آپ نے نانا جان کے پاس رہائش رکھ لی اور بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کر دیا۔ والدہ صاحبہ نے آپ سے قرآن پڑھنا سیکھا۔ گھر میں الفضل اخبار بھی آنا شروع ہوگیا۔

والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ جونہی مجھے قرآن پڑھنا آگیا مجھے اُردو پڑھنی بھی آگئی۔ فرماتی تھیں کہ میں نے الفضل کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھنا اور مجھے اگلے الفضل کا انتظار لگ جانا۔

ہماری والدہ صاحبہ اگرچہ دنیاوی لحاظ سے بالکل اَن پڑھ تھیں لیکن قرآن کی تعلیم اور الفضل کے مضامین نے آپ کو زندہ خدا سے تعلق، دعائیں اور ان کی قبولیت کے حصول کے گُر سکھا دیے۔ آپ نے شروع سے ہی تہجد، نمازوں، قرآن مجید کی روزانہ تلاوت اور دعاؤں سے اپنے خدا سے ایک تعلق قائم کر لیا۔ اور اس تعلق کو آخر دم تک اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ہم نے خود آپ کو ہمیشہ 7نمازوں(نماز اشراق اور تہجد) کے علاوہ کم از کم دن میں دومرتبہ قرآن مجید اور کئی بار نفل پڑھتے دیکھا۔ اس کے علاوہ ہم نے دن کے وقت ہمیشہ گھر کے کام کاج کرتے ہوئے آپ کے ہونٹوں کو دعائیں کرتے ہوئے ہلتے ہوئے دیکھا۔ بعض اوقات آپ کی آواز تھوڑی اونچی بھی ہوجاتی۔ اکثر آپ درود شریف اور دیگر مسنون دعائیں کرتی رہتی تھیں۔

جب ہجرت کے وقت 1947ء میں ہندوستان سے پاکستان آنا تھاتو اس انتہائی غم کے زمانے میں آپ نے خواب دیکھا کہ آپ نئے بنے ہوئے مکان جس پہ چوبارہ بھی ہے رہ رہے ہیں۔ آپ نے یہ خواب سب کو بتا دی۔ پاکستان کے گاؤں رلیوکے ضلع سیالکوٹ میں آپ کو جو گھر ملا وہ بالکل نیا تھا۔ صرف صفائی ہونے والی تھی۔ اور اُس پہ چوبارہ بھی تھا۔

فرماتی تھیں کہ آپ نانا جان کے ساتھ علیحدہ گھوڑی پر بیٹھ کر قادیان جایا کرتی تھیں۔ نانا جان فرمایا کرتے تھے کہ تسلیم میرے مقابل پہ گھوڑی چلایا کرو۔

احمدیت قبول کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ساتھ نانا جان کی دوستی ہوگئی۔ والدہ صاحبہ فرماتیں کہ حضورؒ کئی مرتبہ دارا پور تشریف لائے۔ نانا جان کے ساتھ مل کر دریائے بیاس کے کنارے مرغابی کا شکار بھی کھیلا۔

ایک مرتبہ حضورؒ اُس علاقے میں تشریف لے گئے ایک اور گاڑی میں احمدیوں سے ملے۔ اُن صاحب نے ایک لڑکے سے کہا کہ جاؤ گھر سے دودھ کا گلاس لے کر آؤ۔ میاں صاحب آئے ہیں۔ حضورؒ نے فوراً منع کر دیا اور فرمایا کہ میرا کھانا پینا چوہدری شرف الدین کے ہاں ہوتا ہے۔

ہمارے خالو چوہدری نثار احمد آف لاہور ڈیفنس بتاتے ہیں کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خلیفہ منتخب ہو کر قصر خلافت میں آئے تو آپؒ نے نانا جان کو کھڑے دیکھ کر گاڑی رکوائی اور نانا جان کو مصافحہ کا شرف بخشا۔

نانا جان کے ساتھ اُس زمانے میں اردگرد کے دیہات کے کچھ اور زمیندار بھی احمدی ہوگئے۔

ہمارے دادا جان چوہدری غلام علی صاحب کے گاؤں میلوان(یہ گاؤں کئی پشتوں پہلے ہمارے خاندان کے ایک بزرگ صاحب خان میلو نے آباد کیا تھا) جو کہ نانا جان کے گاؤں دارا پور سے زیادہ دور نہیں تھا، سے ہمارے دادا جان اور ان کے ایک کزن چوہدری بوٹا صاحب نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ (چوہدری بوٹا صاحب مرحوم کے پوتے چوہدری امتیاز احمد صاحب کو 34سال کی عمر میں مسجد دارالذکر پرحملہ کے وقت شہادت نصیب ہوئی۔ )

1974ء میں ہمارے والد صاحب مرحوم قادیان میں F.Aکے طالب علم تھے۔ تقسیم کے بعد دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ رشوت یا دوسری حرام کی کمائی بالکل نہیں کھانی۔ چونکہ زمینداری بھی تھی لہٰذا کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ والد صاحب نے ملازمت ایسی جگہوں پہ کی جہاں لوگوں سے واسطہ نہ پڑے۔ مثلاً جب آپ اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے۔ تو آپ نے خود اپنا تبادلہ پولیس اکیڈمی لاہور میں بطور لاء انسٹرکٹر کے کروا لیا۔ وہاں آپ کو گھر بھی مِل گیا اور دن میں صرف دو تا تین لیکچر دینے ہوتے تھے۔

والدہ صاحبہ نے اپنی عبادت اور دعاؤں سے خدا تعالیٰ کے ساتھ کچھ ایسا تعلق قائم کرلیا تھا۔ فرماتی تھیں کہ پہلے بچے کی پیدائش کے وقت میں نے بہت دعا کی بیٹا پیدا ہو اور وہ بھی جمعہ والے دن۔ بتاتی تھیں کہ جب ایک جمعہ گزر جاتا۔ میں کہتی اب اگلے جمعہ کو پیدائش ہوگی۔

آخر خدا خدا کر کے اس عاجز کی جمعہ والے دن پیدائش ہوئی۔ مولوی میر ولی صاحب نانا جان کے ساتھ پاکستان آگئے تھے۔ نانا جان کا گاؤں ہمارے گاؤں سے تقریباً ایک میل سے کم فاصلے پر ہے۔ ایک دن میں جب بہت چھوٹا تھا ساری رات روتا رہا۔ مولوی میر ولی صاحب صبح صبح نماز پڑھ کر خود ہی ہمارے گاؤں آگئے۔ کہنے لگے کہ جب میں نے نماز ختم کی تو ایسے لگا کہ کوئی فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ بچہ بیمار ہے جا کر خبر لو۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ جونہی مولوی صاحب نے چند دعائیں پڑھ کر مجھے پھونکیں ماریں تو میں نے اچانک ہنسنا اور کھیلنا شروع کردیا۔

والدہ صاحبہ نے عبادت اور غریبوں کی خدمت کو آخر دم تک اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھا۔

ہمارے گاؤں میں ایک غریب بوڑھا آدمی تھا۔ اُس کے دو بیٹے معذور تھے۔ والدہ صاحبہ روزانہ اُن کو کھانا بھجواتیں۔ اگر کبھی دیر ہوجاتی توآپ انتہائی پریشان ہوجاتیں کہ’’ہائے وہ بھوکے ہوںگے‘‘۔

میڈیکل کالج کے آخری سالوں میں جب میں چھٹیوں میںگاؤں آتا تو گاؤں کی عورتیں اکثر اپنے لیے یا اپنے بچوں کے لیے دوائی لکھوانے کے لیے آجاتیں۔ ادھر میں دوائی لکھتا اور والدہ صاحبہ اُس عورت کو 15-20روپے چپکے سے دے دیتیں اور ساتھ کہتیں کہ میرے بیٹے کے لیے دعا کرنا۔ جو کوئی سائل دروازے پر آیا والدہ صاحبہ نے کبھی اُسے خالی ہاتھ واپس نہ جانے دیا۔

والدہ صاحبہ نے اپنی ذات کے لیے کبھی ہم سے کچھ نہ لیا۔ لیکن غریبوں کی مدد کے لیے ہم سے پیسے لے لیتی تھیں۔

ایک دفعہ میں پاکستان گیا ہوا تھا۔ والدہ صاحبہ لاہور میں ہمارے چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتی تھیں۔ بڑی عید کے دن تھے۔ گاؤں جا کر عید کرنے کا فیصلہ ہوا۔ والدہ صاحبہ کے پاس تقریباً تین لاکھ روپے تھے۔ گاؤں جا کر آپ نے ایک بڑے پلنگ پہ اپنا ڈیرہ جمالیا۔ اب نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ ساتھ والے گاؤں سے بھی عورتیں آرہی ہیں۔ اپنے مسائل بیان کر رہی ہیں اور والدہ صاحبہ اُن کو پیسے دے رہی ہیں۔ تیسرے دن جب پیسے ختم ہوگئے تو فرمانے لگیں کہ آؤ واپس چلیں پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ اُس وقت آپ کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ اور بشاشت تھی کہ مجھے اب تک یاد ہے۔

گاؤں کی بچیاں شادی سے پہلے یا فوراً بعد اپنے شادی کے لباس میں والدہ صاحبہ سے ملنے کے لیے آتیں۔ اُس وقت والد صاحب مرحوم کے ساتھ آپ گاؤں میں رہتی تھیں۔ آپ بچیوں سے پوچھتیں کہ بیٹی تمہیں جہیز میں کونسی چیز پسند ہے۔ کوئی کہتی واشنگ مشین یا ٹیلی ویژن وغیرہ آپ فوراً اس کا بندوبست کر دیتیں۔

جب وزیر اعلیٰ پنجاب میرے اپنے والد صاحب کے نام پر بنائے ہوئے ہسپتال کا میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مبشر احمد چوہدری(ہارٹ سپیشلسٹ امریکہ) کے توسط سے ہمارے گاؤں افتتاح کرنے آئے۔ بہت سی عورتیں مبارک باد دینے آئیں۔ والدہ صاحبہ شکر اور دعاؤں کے ساتھ اُن سے ملتیں اور غریب عورتوں کو پیسے دیتیں۔

جب ہمارے ایک بھائی گاڑی کے حادثہ میں تین چار مہینے بے ہوش رہے۔ والدہ صاحبہ نے صبر اور دعاؤں کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ جب میں گاؤں سے میڈیکل کالج جانے لگا۔ والدہ صاحبہ نے بڑی محبت سے مجھے ایک نصیحت کی کہ بیٹا روزانہ قرآن شریف پڑھنا خواہ ایک رکوع ہی کیوں نہ ہو۔ یہ عاجز اب تک اُس نصیحت پہ عمل کرتا ہے۔

فرماتی تھیں کہ 1953ء کے فسادات میں پتہ چلا کہ ایک جتھہ تین میل دور ایک قصبہ سے ہم پر حملہ کرنے آرہا ہے۔ آپ نے ایک کمرے میں جا کر دو نفل نیت لیے اور دعا کی۔ جب نفل ختم کر کے باہر نکلیں تو پتا چلا کہ جتھہ واپس چلا گیا ہے۔

آپ کی سچی خوابوں اور قبولیت دعا کے کئی واقعات ہیں۔ خاندان کے اکثر لوگ اپنی مشکلوں کے وقت خاص طور پر آپ کو دعا کے لیے کہتے۔

مجھے بچپن سے یاد ہے کہ کھانے کے بعد بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں کو اور چھوٹا کر کے اپنے مکان کی چھت کی طرف کووں اور دوسرے پرندوں کی طرف پھینکتیں اور ساتھ کہتیں اِن کے کونسے ہل چل رہے ہیں۔

والدہ صاحبہ جب بھی TVکے سامنے خبریں سننے یا جماعت کا کوئی پروگرام دیکھنے بیٹھتیں تو اپنے منہ کو کپڑے سے ڈھانپ کر پردہ کر لیتیں سوائے خلیفۂ وقت کے۔ ہم کہتے کہ امی جان وہ کونسا آپ کو دیکھ رہے ہیں تو آپ ایک حدیث کا حوالہ دیتیں جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کو ایک اندھے شخص سے پردہ کرنے کے لیے کہا تھا۔

آخری عمر میں آپ کہا کرتی تھیں کہ میں اپنے خدا کا کیسے شکریہ ادا کروں۔ مجھے اُس نے وہ بھی دیا جو میں نے مانگا تھا اور وہ بھی دیا جو نہ میں نے مانگا تھا اور نہ مجھے پتہ تھا۔ مجھ اَن پڑھ کو کیا پتا تھا کہ اس کے دو بیٹے امریکہ میں سپیشلسٹ ڈاکٹر بن جائیں گے۔

اپنے زندہ خدا کی انتہائی عبادت اور اخلاص نے ہماری اَن پڑھ والدہ صاحبہ کو ایک عالم بنا دیا جو کہ بہت سی پڑھی لکھی عورتوں کو نصیب نہیں۔ آپ دعا کیا کرتی تھیں کہ خدایا مجھے آخری وقت میں کسی پہ بوجھ نہ بنانا۔

2016ء میں رمضان کے پہلے روزے والے دن جب گھر پہ ایک کمپاؤڈر آپ کے گھٹنے پر پٹی کرنے کے لیے آیا۔ آپ کا چہرہ ایک طرف کو ڈھلک گیا اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔

دعا ہے کہ خدا تعالیٰ جنت میں آپ کے درجات بلند فرمائے اور ہم ہمیشہ آپ کی دعاؤں سے مستفیض ہوتے رہیں۔ نیز ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ احمدیت کا سچا خادم خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق اور آپ کی طرح عبادت کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button