متفرق مضامین

الدلائل القطعیہ فی سیرۃ النبویہؐ (قسط دوم)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

شجرہ نسب میں تحریف کی ممانعت

پیڑھیوں کی تعداد کے علاوہ ایک مسئلہ کسی شجرہ میں درج ناموں کا درست ہونا بھی ہے۔ زمانہ قدیم میں نسب میں تحریف عام تھی بلکہ اب تک بھی عام ہے۔ اسی لیے متعدد احادیث میں اس کی سخت ممانعت فرمائی گئی ہے:

لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ وَمَنِ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ

(صحیح بخاری، کتاب المناقب)

یعنی اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اپنے باپ کے سوا کسی کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس نے کفر کیا۔ اور جس نے اپنے آپ کو ایسی قوم کے ساتھ ملایا جس میں سے وہ نہیں، تو اس نے اپنا پیٹ آگ سے بھرا۔

تحریف کی وجوہ

یہ قول کہ علم الانساب والوں نے جھوٹ بولا اس طرف اشارہ کرتا ہےکہ اس ضمن میں تحریف سے کام لیا گیا ہے۔ اس کی متعدد وجوہات تھیں۔

نسلی تفاخر

ایک بڑی وجہ فخر اور نسلی برتری و خصوصیت ظاہر کرنا تھا۔ تورات کے آغاز میں اسی لیے ایک شجرہ نسب دیا گیا ہے جس کا مقصد بنو اسرائیل کی خصوصیت اور خدا کی چنیدہ نسل ہونا ثابت کرنا ہے۔ اس ضمن میں عجیب و غریب دلائل سے کام لینے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا۔ مثلاً بائیبل کے مطابق بڑے بیٹے کا خصوصی حق ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت اسحاقؑ، حضرت ابراہیم ؑکے بڑے بیٹے نہ تھے اس لیے بڑے بیٹے، حضرت اسماعیلؑ، کو لونڈی کا بیٹا کہہ کر ان کا حق کالعدم قرار پایا۔ (سفر پیدائش، باب ۲۱تا باب ۴۸)لیکن بات بنی نہیں کیونکہ اگلی پیڑھی پر حضرت یعقوب ؑبھی بڑے بیٹے نہ تھے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ ان کے بڑے بھائی نے اپنا حق ان کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ اس سے اگلی نسل میں یعقوبؑ کے بارہ بیٹوں میں سے چار لونڈیوں کی اولاد تھے۔ اس جگہ مگر لونڈیوں اور بیویوں کے بیٹے برابر قرار پائے اور حضرت اسماعیلؑ کی طرح اس بنا پر ان کو کم تر نہیں سمجھا گیا۔ آگے یوسفؑ کے بیٹوں میں افرائیم کو فوقیت دی گئی حالانکہ وہ چھوٹا تھا۔

انجیل کا آغاز بھی مسیحؑ کے شجرہ سے کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ان کو داؤدؑ کی نسل سے ثابت کرنا ہے کیونکہ آنے والے مسیح کا ان کی نسل سے ہونا متوقع تھا۔ اس لیے باوجود مسیحؑ کی بن باپ پیدائش کا عقیدہ رکھنے کے انجیل میں ان کے حضرت داؤد ؑکی نسل سے ہونے پر زور دیا گیا ہے۔

مسلمانوں میں یہی حال اہل تشیع کا ہے جو بیٹوں میں امامت منتقل ہونے کا عقیدہ رکھنے کے باوجود حضرت فاطمہؓ پر جا کر استثناء کرتے ہیں۔ اس بارہ میں تفصیل ’’نور محمدی‘‘ کے متعلق حصہ میں آئے گی۔ اہل سنت بھی ہر جگہ جدی شجرہ نسب تسلیم کرنے کے باوجود ’’سیدوں‘‘ میں استثناء کرتے ہیں۔

تفاخر کی عادت میں مبتلا لوگ اپنا تعلق ہمیشہ کسی مشہور شخصیت سے جوڑتے ہیں۔ ابن قتیبیہنے عجمی خاندانوں کا جائزہ لیا تو حیرت سے یہ پوچھا کہ ان میں نائی، رنگریز، جمعدار وغیرہ کی اولادیں کہاں گئیں؟ کیا محض بادشاہوں کی نسلیں ہی باقی بچی ہیں؟ شمالی عرب کے نبطی قبائل اپنا جد امجد ایران کے بادشاہ کسریٰ قباذ کو بتاتے تھے۔ چنانچہ ان کے متعلق بھی سوال کیا گیا کہ اگر یہ سب کسریٰ کی اولاد ہیں تو اصل نبطی کہاں گئے؟ لطیفہ یہ کہ نسب ایسے مشاہیر سے بھی جوڑا جاتا ہے جن کی اولاد ہی نہیں تھی مثلاً حضرت ابو ذرغفاریؓ سے۔(ابن قتیبیہ، فضل العرب، صفحہ ۴۶۔ Szombathy صفحہ ۱۵۔ ابن قتیبہ، المعارف، صفحہ ۲)

سیاسی وابستگی

شجرہ نسب میں تحریف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانہ میں قومیت کی بنیاد عموماً نسل پر تھی۔ مختلف قبائل یا خاندان مزعومہ شجرہ نسب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قریب سمجھے جاتے اور ایک دوسرے کی حمایت کرتے تھے۔ ایک پردادا کی اولاد خاص طور پر ایک دوسرے کی معاون ہوتی تھی۔ اور یہ مدد اُس ماحول میں زندہ رہنے کے لیے ضروری تھی۔ ( Landau-Tasseron، Alliances among the Arabs، صفحہ ۱۴۴۔ Kennedy، From oral tradition …۔ صفحہ۵۳۲۔ ۵۴۴۔ ) اسی لیے سیاسی حالات کے بدلنے اور نئی وفاداریوں کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ شجرہ نسب میں بھی تبدیلیاں کر لی جاتی تھیں۔ اس کے لیے مخصوص الفاظ استعمال ہوتے مثلاً بنو قیس میں یوں شامل ہونے کو تقیس ہونا کہتے تھے جس کا ذکر قدیم جاہلی اشعار میں بھی آیا ہے۔

(ابن قتیبہ، فضل العرب، صفحہ ۵۴)

عربوں میں ایک بنیادی شجرہ موجود تھا، جس میں مختلف جگہوں پر کسی بھی قبیلہ کو پیوست کیا جا سکتا تھا۔ اس طریق کو جدید محققین genealogical parasitismکہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال شمالی افریقہ کی بربر اقوام ہیں۔ جب اسلام ان علاقوں میں پھیلا تو درباری علماء نے مختلف خیالات پیش کیے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے افریق کی اولاد ہیں۔ یا یمنی عرب ہیں۔ یا حضرت اسماعیلؑ کے پوتے بربر کی نسل ہیں۔ یا یہ کہ عام بربر تو نہیں لیکن بعض خاص قبائل عربوں کی اولاد ہیں۔

(Sozombathy، صفحہ ۵تا ۲۱)

اس کے برعکس ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض لوگوں کو سیاسی وجوہ پر شجرہ نسب میں سے نکالا گیا ہے۔ مثلاً حضرت زبیرؓ بن العوام کے خاندان نے بنو عباس کی حکومت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا تھا چنانچہ ان کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ ان میں چھ افراد ایسے ہیں جن کا ذکر دیگر مورخین تو کرتے ہیں مگر مصعب الزبیری نے ان کو اپنے خاندان کے نسب نامہ میں سے حذف کر دیا ہے۔

(Robinson,Prosopographical approaches to the nasab tradition,صفحہ ۹۲)

مالی مفادات

ایک وجہ تجارتی سفر وں کے دوران محفوظ رہنے کی کوشش یا تجارتی فوائد کا حصول بھی تھی۔ چنانچہ زمانہ جاہلیت میں حضرت عباس ؓاور ابو سفیان ؓنے یمن کے علاقہ میں اپنے آپ کو بنو کندہ مشہور کر رکھا تھا۔ ( سمعانی، الانساب، جلد ۱، صفحہ ۴۶۔ البیہقی، دلائل النبوۃ، صفحہ ۱۷۴ ) کیونکہ وہاں ان کے تجارتی قافلے جاتے تھے۔ یہ دونوں اصحاب مکہ کے مشہور اشخاص تھے۔ ان کے اپنے شجرہ میں تحریف کر لینے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نسبتاً غیر معروف خاندان والوں کے لیے ایسا کرنا کس قدر آسان ہو گا۔

متبنیٰ

اسلام سے قبل شجرہ نسب میں تبدیلی کا ایک اور طریق متبنیٰ بنانے کی رسم تھی۔ جب کسی شخص کو منہ بولا بیٹا بنا لیا جاتا، تو وہ اپنے منہ بولے باپ کا بیٹا ہی کہلاتا اور اسی کے نسب سے مشہور ہو جاتا۔ اسی طریق کے مطابق جب آنحضورؐ نے زیدؓ بن حارثہ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تو وہ زید ؓبن محمدؐ کہلاتے تھے۔ گو متبنیٰ کی یہ رسم عام نہ ہو، تاہم موجود تھی۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ باب ادعوھم لابائھم۔ حدیث ۴۷۸۲۔ Landau-Tasseron، Adoption…in Arabian and Islamic Societies صفحہ ۱۷۲) آخر کار قرآن کریم نے یہ حکم دے کر اس طریق کو ختم فرمایا کہ

اُدۡعُوۡہُمۡ لِاٰبَآئِہِمۡ

(الاحزاب ۳۳: ۶)

یعنی ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو۔

اگر یہ قرآنی حکم نہ آتا تو حضرت زیدؓ کی اولاد زیدؓ بن محمدؐ کے طریق پر ہی مشہور رہتی اور چند نسلوں بعد بنو ہاشم میں شمار ہوتی۔ اسی طرح یہ بھی رواج تھا کہ قبیلہ کا سردار کسی خاندان کو اپنے قبیلہ کا حصہ بننے کی اجازت دے دیتا۔ ایسا خاندان نئے قبیلہ کا شجرہ نسب بھی اپنا لیتا۔ ( Kennedy، From oral tradition …۔ صفحہ ۵۳۳۔ ۵۳۷)

عربوں میں نسلی تفاخر کی بیماری خاص طور پر بڑھی ہوئی تھی۔ اسلام نے اس کی مذمت کی۔ تاہم بہت جلد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ یہ تفاخر پھر سے قائم ہو گیا۔ ابتدائی مسلمان سلطنت پر فائز دونوں خاندان، بنو امیہ اور بنو عباس، سابق مہاجرین میں سے نہ تھے۔ چنانچہ دونوں نے اسلام میں اولیت پر زور دینے کے بجائے اپنے قبیلہ قریش کی فضیلت پر زور دیا۔ اسی لیے اس زمانہ کی روایات میں اکثر مہاجرین و انصار، جو کہ آنحضورؐ کے زمانہ سے رائج مشہور و معروف اصطلاحات تھیں، کی بجائے ’’قریش ‘‘و انصار کا ذکر ملتا ہے۔

(جواد علی، المفصل فی التاریخ العرب قبل الاسلام، جلد ۱، صفحہ ۴۸۵)

ماں کا کردار

عام طور پر شجرہ نسب میں آباء پر تو بہت بناکی جاتی ہے مگر امہات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ازمنہ گذشتہ میں یہ حقیقت پوری طرح عیاں نہ تھی کہ انسان کی پیدائش اور اس کی خوبیوں کی تشکیل میں باپ سے کہیں زیادہ حصہ ماں کا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسان میں موجود ۲۳کروموسومز کے جوڑوں میں سے نصف ماں کے ہوتے ہیں بلکہ مائٹوکونڈریا میں موجود جینیاتی مواد، mtDNA، تو صرف ماں ہی سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے اور باپ کا اس میں کچھ بھی حصہ نہیں ہوتا۔ ( P Mishra, DC Chan، Mitochondrial dynamics …۔ صفحہ ۶۳۷) اسی طرح کروموسومز کے جو ۲۳ جوڑے ماں اور باپ سے بچے میں نصف نصف منتقل ہوتے ہیں ان میں بھی Xکروموسوم، جو کہ ماں سے آتا ہے، Yکروموسوم سے، جو باپ سے ملتا ہے، بڑا ہوتا ہے۔ ( MT Ross، The DNA Sequence of the Human X Chromosome، صفحہ ۳۳۴ ) یعنی بچہ باپ کی نسبت ماں سے جینیاتی طور پر بھی اور تربیت کے نکتہ نظر سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس باپ کی طرف منسوب ہونا محض ایک سماجی چیز ہے جو کہ مردوں کی اپنے خاندان کی حفاظت، پرورش، جنگ، جفاکشی کی صلاحیتوں کی بنا پر اکثر اقوام میں رائج ہو چکی ہے۔ لیکن تاریخ میں بعض ایسی اقوام بھی تھیں، اور اب بھی موجود ہیں، جن میں شجرہ نسب ماں، نانی، پڑنانی وغیرہ کے طریق پر یاد رکھا جاتا تھا۔

[نوٹ: مثلاً امریکہ کے ہوپی قبائل۔ ان میں نہ صرف شجرہ نسب ماں، نانی کے طریق پر رائج تھا بلکہ شادی کے بعد مرد بیوی کے گھر جاتا تھا نہ کہ بیوی مرد کے گھر وغیرہ۔ دیکھیں Encyclopedia of Sex and Gender میں A Schlegel کا مضمون Hopi۔

اسی طرح ہندوستان میں کھاسی قبائل میں نسب ماں سے چلتا ہے، خاوند بیوی کے گھر جاتا ہے وغیرہ۔

Gneezy, Gender differences in competition,صفحہ ۱۶۳۹۔ ۱۶۴۰۔

ان کے علاوہ بھی دنیا کے متعدد قبائل میں یہ سلسلہ پایا جاتا تھا اور کسی حد تک اب بھی پایا جاتا ہے۔ ]

ماں کے کردار سے اسی لاعلمی کی وجہ سے بائیبل میں جہاں یہود کے نسب پر بہت زیادہ اور بے جا فخر کیا گیا ہے، بعض خواتین کے متعلق سخت قابل اعتراض قصے بلا تکلف بیان کیے گئے ہیں۔ اس سے زیادہ عجیب تر حال مسیحیوں کا ہے۔ متی کی انجیل کے آغاز میں مسیحؑ کا جو شجرہ نسب بیان کیا گیا ہے اس میں مروجہ طریق کے مطابق خواتین کا ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن چار جگہوں پر استثنائی طور پر خواتین کا ذکر آیا ہے۔ ( متی باب ۱) اور یہ چاروں خواتین وہ ہیں جن پر سخت قابل اعتراض الزامات خود بائیبل نے لگا رکھے ہیں۔

نسب کے متعلق قرآنی تعلیم

قرآن کریم نے نسلی تفاخر کی مذموم عادت کو رد کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی بھی قوم اور قبیلہ سے تعلق برتری اور تفوق کی بنانہیں ہو سکتا:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ

(سورۃ الحجرات ۴۹:۱۴)

اے لوگو! ہم نے تمہیں مذکر و مونث سے تخلیق کیا ہے۔ اور تمہیں اقوام اور قبائل بنایا ہے تاکہ تم پہچانے جاؤ۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معزز ترین وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

دنیا کی تمام اقوام اور قبائل میں برابری کی تعلیم دینے کے علاوہ اس جگہ مرد و عورت میں بھی برابری بیان کی گئی ہے۔ دنیاوی بادشاہوں کا تو ذکر ہی کیا، روحانی بادشاہوں یعنی انبیاء کو بھی بتا دیا گیا تھا کہ ان کی نسل کے ساتھ بھی انعام کا وعدہ مشروط ہے اور محض نبی کی اولاد ہونا فائدہ مند نہ ہو گا۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کو فرمایا گیا:

قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ

(البقرۃ : ۱۲۵)

اس نے کہا میں تجھے لوگوں کے لئے امام بناتا ہوں۔ اس نے کہا اور میری اولاد میں سے؟ اس نے کہا میرا وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا۔

اس سے پہلے حضرت نوحؑ نے جب اپنے باغی بیٹے کے متعلق درخواست کی تو انہیں بھی کہا گیا:

وَ نَادٰی نُوۡحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابۡنِیۡ مِنۡ اَہۡلِیۡ وَ اِنَّ وَعۡدَکَ الۡحَقُّ وَ اَنۡتَ اَحۡکَمُ الۡحٰکِمِیۡنَ . قَالَ یٰنُوۡحُ إِنَّهُ ۥ لَيۡسَ مِنۡ أَهۡلِكَ‌…

(سورۃ الھود، آیت ۴۶۔ ۴۷)

اور نوحؑ نے اپنے رب کو پکارا۔ پس کہا اے میرے رب میرا بیٹا میرے اہل و عیال میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو فیصلہ کرنے والوں میں سے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اس نے کہا اے نوح! وہ تیرے اہل و عیال میں نہیں…۔

آنجنابؐ نے فرمایا:

يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِى مَا شِئْتِ مِنْ مَالِى لَا أُغْنِى عَنْكِ مِنَ اللّٰهِ شَيْئًا

(صحیح بخاری، کتاب الوصایا، باب ھل یدخل النساء و الولد فی الاقارب )

اے فاطمہؓ بنت محمدؐ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے البتہ اللہ کے سامنے میں تجھے کسی بات سے نہیں بچا سکتا۔

اصولی مساوات کی اس تعلیم کی برکت سے اسلام میں ایسا کوئی خیال راہ نہ پا سکا کہ اہل اللہ یا مولوی محض کسی خاص خاندان یا نسل سے ہی ہو سکتے ہیں۔

اس کے برعکس یہود میں کاہن صرف ایک مخصوص نسل سے ہو سکتا ہے۔

(خروج باب ۳۳، آیت ۳۰۔ ۳۲۔ Abba۔ Priests and Levites in Deutereronomy۔ )

اسی طرح ہندومت میں موروثی کہانت موجود ہے۔ اور رگویدا کے زمانہ سے ہی برھمن نسلاً پروہت ہوتے تھے۔

( Dasgupta، Development of the Hindu polity۔ صفحہ ۱۷۳۔ Mcdonell، The early history of caste صفحہ ۲۴۲)

قرآن کریم اس خیال کی بھی نفی کرتا ہے کہ کوئی ایک قوم معزز ہے اور نبی صرف اسی میں آتے ہیں۔ فرماتا ہے:

وَلِكُلِّ قَوۡمٍ هَادٍ

(سورۃ الرعد ۱۳: ۸)

اور ہر قوم کے لیے ہدایت دینے والا ہے۔

وَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيہَا نَذِيرٌ۬

(سورۃ الفاطر ۳۵: ۲۵)

اور کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ڈرانے والا نہ گزر چکا ہو۔

کیا آپؐ عرب تھے ؟

شجرہ نسب کی بحث میں علماء کو ایک مشکل یہ پیش آئی ہے کہ آنحضورؐ کا حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے ہونا متفقہ امر ہے مگر حضرت ابراہیمؑ عرب نہ تھے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوا کہ آپؐ عرب ہیں یا نہیں؟ اس جگہ تو تمام علماء آپؐ کے ایک غیر عرب کی اولاد ہونے کے باوجود عرب ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ (الدمشقی، جامع الاثار، جلد ۲، صفحہ ۲۰)مگر یہی علماء دوسری جگہ اس اصول کی سختی سے نفی بھی کرتے ہیں۔ ابن قتیبیہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص دوسری زبان سیکھ کر اپنی قوم کے نسب سے نکل سکتا ہے تو پھر تو ہر عجمی جو عربی سیکھتا اور بولتا ہے عرب بن جائے گا۔ ( ابن قتیبیہ، فضل العرب، صفحہ ۵۵۔ لو کان کل من تعلم لساناًغیر لسان قومہ و نطق بہ خارجاًمن نسبھم لوجب ان یکون کل من نطق بالعربیۃ من العجم عریباً)اس سے زیادہ دلچسب امر یہ ہے کہ جرہم، ثقیف اور حمیر کے قبائل کے متعلق کہا گیا ہے کہ یہ عرب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر یہ درحقیقت عربوں سے قدیم ہیں۔ یہاں مذکور جرہم وہی قبیلہ ہے جو علماء کے نزدیک مکہ کے علاقہ میں آباد ہوا تھا اور جس سے حضرت اسماعیلؑ نے عربی سیکھی اور ان میں شادی کی تھی۔ (سمعانی، انساب، جلد ۱، صفحہ ۵۱۔ صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب یزفون…) گویا حضرت اسماعیلؑ بعد میں آ کر عرب میں آباد ہونے کے باوجود عرب کہلائے اور جرہم جو پہلے سے موجود تھے اور جن سے حضرت اسماعیل ؑنے عربی سیکھی، وہ غیر عرب ہی رہے! تاہم اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اسماعیلؑ کی اولاد اصل عرب نہیں ہیں۔

( مثلاً الدمشقی، جامع الاثار، جلد ۲، صفحہ ۲۰۔ ان اسماعیل علیہ السلام کان رجلاً عربیاً۔ جبکہ ان اسحاق کان رجلاً عبرانیاً۔

Ephal، Ishmael and the Arab(s),صفحہ ۲۳۴۔ )

اس کا ایک حل یہ ڈھونڈا گیا کہ تمام عرب قبائل کو حضرت اسماعیلؑ کی اولاد قرار دے دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ درحقیقت پہلے پہل عربی حضرت اسماعیلؑ ہی نے بولی ورنہ ان سے پہلے عبرانی بولی جاتی تھی۔

(ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، جلد ۱، صفحہ ۳۳۔ ۳۴۔ الفاکہی، اخبار مکہ، جلد ۵، صفحہ ۱۳۱۔ )

یہ تمام بحث نسب کی اہمیت کے غلط تصور پر مبنی ہے۔ کسی قوم کی زبان اور اس کے اطوار و روایات کو اپنانے کے بعد کوئی بھی خاندان رفتہ رفتہ دوسری قوم کا حصہ بن جاتا ہے۔ ہر جگہ یہی اصول کارفرما ہے۔ علماء کی تنقید اور عربوں کے اپنے شجرہ پر فخر کے باوجود اسلام کے پھیلنے کے ساتھ مختلف اقوام عربوں میں شامل ہوئیں اور آج عرب ہی کہلاتی ہیں۔ پس حضرت ابراہیمؑ کے عجمی ہونے کے باوجود آنحضورؐ کو عرب کہنا درست ہے۔

عبد الملک بن مروان کے زمانہ میں ایک عجمی النسل مگر نہایت فصیح و بلیغ شخص اس کے دربار میں گیا۔ عبد الملک کو غالباً عرب ہونے کا گھمنڈ تھا۔ کہنے لگا تم عربی ہو یا موالی؟ شاعر نے جواب دیا کہ اگر تو ’’عربی‘‘کوئی زبان ہے، تو میں عربی ہوں۔ اور اگر ’’عربی ‘‘ کسی شخص کا نام ہے تو میں عربی کی اولاد نہیں۔ عبد الملک کو خفت اٹھا کر مجبوراً کہنا پڑا کہ قرآن کریم نے بھی ’’بلسان عربی مبین ‘‘کہا ہے!

( ابو حیان التوحیدی، البصائر و الذخائر، جلد ۸، صفحہ ۳۵)

انبیاء کے خاندان کے متعلق سنت اللہ

قرآن کریم سے یہ واضح ہے کہ کسی خاندان کو کسی دوسرے خاندان پر نسلاً فوقیت حاصل نہیں نہ ہی تقویٰ و نیکی کسی خاندان کی میراث ہیں۔ تاہم انبیاء اور مامورین ہمیشہ کسی ایسے خاندان سے ہوتے ہیں جو اپنے وقت اور علاقہ میں نیک شہرت رکھتا ہے اور ایسے ذلیل اخلاقی جرائم میں ملوث نہیں ہوتا جو اس علاقہ اور زمانہ کے لوگوں کے لیے قابل نفرت ہوں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو عوام کو ایسے نبی کی پیروی اختیار کرنے میں تکلیف مالایطاق ہوتی۔ یہی اصول جسمانی ساخت پر بھی اطلاق پاتا ہے۔ جسمانی بیماری اور معذوری بھی تعلق باللہ کی راہ میں حائل نہیں، تاہم انبیاء ایسی متعدی بیماریوں اور جسمانی نقا ئص سے پاک رکھے جاتے ہیں جو لوگوں کے ان کے پاس آنے کی راہ میں حائل ہو جائیں۔

اسی سنت الٰہی کے موافق حضرت سید ولد آدمﷺ کا خاندان بھی اپنے وقت اور علاقہ میں نیک شہرت رکھتا تھا اور آپؐ کے آباء مکہ کے معززین میں سے تھے۔ تاہم انبیاء کے خاندان بھی اپنے ماحول کا حصہ اور مختلف نقائص میں مبتلا ہوتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کے آباء کا شرک میں مبتلا ہونا تو خود قرآن کریم میں مذکور ہے۔

(الانعام ۶: ۷۵۔ وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً۔

اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر کو کہا، کیا تم بتوں کو اپنے خدا پکڑتے ہو؟)انہی اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں کے خلاف انبیاء کو پہلا حکم یہ ہوتا ہے کہ

وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ

(الشعراء : ۲۱۵ )

اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردار کر۔

نبی کے ذریعہ نیا اعتقادی اور اخلاقی پیمانہ تشکیل پاتا ہے۔ اس اعلیٰ پیمانے پر زمانہ جاہلیت کے آباء کو جانچنا درست نہیں۔ اس نکتہ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بہتوں نے ٹھوکر کھائی ہے۔

آپؐ کے نسب پر اعتراضات

بعض مستشرقین نے آنحضورؐ کے نسب عالی پر رکیک اعتراضات کیے ہیں۔ مارگولیوتھ نے مختلف اعتراضات کا ایک طومار اکٹھا کیا ہے۔ اس لیے اس کے حوالے سے اب ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۱۔ اس کا کہنا ہے کہ قریش کے قرآن میں موجود اقوال سے ظاہر ہے کہ آپؐ اعلیٰ النسب نہ تھے۔

(Margoliouth، Mohammed and the rise of Islam، صفحہ ۴۷۔

The Kuraish in the Koran wonder why a prophet should be sent to them who was not of noble birth)

یہ اشارہ غالباً قرآن کریم میں منقول قریش کے اس قول کی طرف ہے:

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ

(الزخرف، ۴۳ : ۳۲)

یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن دو شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اترا؟۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آپؐ کا نسب اعلیٰ نہ تھا ایک بے جا استنباط ہے۔ مخالفین کا اشارہ آپؐ کے صاحب ثروت اور سردار مکہ نہ ہونے کی طرف تھا نہ کہ نسب کی طرف۔ نسب کے لحاظ سے تو قصی، نضر، فہر آپؐ کے بھی اسی طرح آباء تھے جس طرح دوسرے قریش کے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قریش آپؐ کے نسب کو حقیر جانتے۔ چنانچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ان کا یہ قول بھی منقول ہے:

ءَ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا

(ص، ۳۸ : ۹)

کیا یہ ذکر ہم میں سے اسی پر اترنا تھا؟

پس مشرکین مکہ کو تسلیم تھا کہ آپؐ کا خاندان ان ہی میں سے ہے تبھی وہ’’ہم میں سے‘‘ کہنے پر مجبور ہوئے۔ ( قرآن کریم میں متعدد جگہ آپؐ کے قریش میں سے ہونے کا ذکر کیا گیا ہے مثلاً

وَ عَجِبُوۡۤا اَنۡ جَآءَہُمۡ مُّنۡذِرٌ مِّنۡہُمْ ص ۳۸ : ۵۔ )

ہاں اتنی بات درست ہے کہ آپؐ مالی لحاظ سے امیر نہ ہونے کی بنا پر سرداران اور ’’عظیم‘‘ لوگوں میں شمار نہ کیے جاتے تھے۔ اسی پر ان کا اعتراض تھا کیونکہ وہ نبوت کو سرداری سمجھتے اور خیال کرتے تھے کہ شہر کے رؤساء میں سے ہی کسی کو نبی ہونا چاہیے تھا۔

۲۔ پھر وہ مسند احمد کی اس حدیث کا حوالہ دیتا ہے جس میں ذکر ہے کہ بعض انصار نے آپؐ کو بتایا کہ قریش کہتے ہیں:

انما مثل محمد مثل نخلۃ نبتت فی کباء

(احمد بن حنبل، مسند، مسند الشامیین، حدیث عبدالمطلب بن ربیعہ۔ حدیث نمبر ۱۷۹۸۰۔ Margoliouth، Mohammed and the rise of Islam، صفحہ ۴۷۔

He told the people that an end had now come to the pagan aristocracy by blood.)

یعنی محمدؐ کی مثال اس کھجور کے درخت کی سی ہے جو گندگی کے ڈھیر پر اُگ آیا ہو۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ میں محمدؐ بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں اور تم میں سے بہترین گھرانے اور قبیلے سے ہوں۔

اس بحث سے قطع نظر کہ یہ روایت کتنی معتبر ہے، یہاں جو استنباط کیا گیا ہے وہ غلط ہے۔ قریش اس مثال سے آپؐ کے نسب پر حملہ نہیں کر رہے تھے۔ کیونکہ نسب، جیسا کہ بیان ہوا ہے، تمام قریش کا ایک ہی تھا۔ یہ بات خود ان کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے ورنہ وہ آپؐ کو کھجور جیسے اہم اور مفید درخت سے کیوں تشبیہ دیتے؟ غالباً قریش کا مقصد یہ طنز کرنا تھا کہ گو آپؐ کو حکومت حاصل ہو گئی ہے تاہم آپؐ کا آبائی گھرانہ مکہ کی سیاست و سیادت میں بالکل بے حیثیت تھا۔ آپؐ کا اس کے جواب میں عبدالمطلب تک نسب بتانا بھی اسی بات کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ عبدالمطلب کا مکہ کے سرداروں میں سے ہونا سب کو مسلّم تھا۔ نیز عبدالمطلب کی والدہ کے بنو نجار میں سے ہونے کی وجہ سے انصار، جن کے یہ اعتراض آپؐ تک پہنچانے کے جواب میں یہ بات فرمائی گئی، کے لیے بھی یہ دلیل ایک حجت تھی۔

۳۔ ایک دلیل اس نے یہ دی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ اب خاندانی سرداری کا عہد ختم ہوا۔

Margoliouth, Mohammed and the rise of Islam,صفحہ ۴۷۔

He told the people that an end had now come to the pagan aristocracy by blood.

اس سے یہ استنباط کرنا چاہتا ہے کہ آپؐ کسی سردار کی اولاد نہ تھے۔ حسب سابق یہاں بھی غلط استنباط کیا گیا ہے۔ آپؐ اس موقع پر قتل و غارت کی مذمت بیان فرما رہے تھے۔ اس ضمن میں نسلی تفاخر و تکبر، جو کہ عربوں میں اکثر قتل و غارت کی وجہ بنتے تھے، کے متعلق فرمایا :

’’اے قریش اللہ نے تم میں سے جہالت کی نخوت ختم کر دی ہے اور آباء و اجداد کی بنا پر تعظیم بھی۔ تمام انسان آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ پھر سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ تلاوت فرمائی جس میں انسانوں کی اقوام اور قبائل میں تقسیم کو محض تعارف کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ ‘‘

( ابن اسحاق، سیرۃ رسول اللّٰہ۔ صفحہ ۵۳۱۔ یا معشر قریش ان اللّٰہ قد اذھب عنکم نخوۃ الجاھلیۃ، و تعظمھا بالاباء۔ الناس من آدم، و آدم من تراب)

اس سے یہ استنباط کرنا کہ آپؐ عالی النسب نہ تھے اس لیے موروثی سیادت کی مذمت کی، محض اعتراض برائے اعتراض ہے۔

۴۔ پھر اس کا کہنا ہے کہ عبدالمطلب کے نام سے ظاہر ہے کہ وہ غلام تھے جنہیں بعد میں آزاد کر کے بنو ھاشم میں شامل کر لیا گیا تھا، اس نام کی وضاحت کے بارہ میں اسلامی روایات بعد کی وضع کردہ ہیں۔

(Margoliouth، Mohammed and the rise of Islam، صفحہ ۴۹۔

… was at one time actually a slave, though afterwards manumitted and enrolled in the Hashim clan.)

یہ بھی حقائق کے برخلاف اعتراض ہے۔ اگر عبدالمطلب کے سردار مکہ ہونے کے متعلق اسلامی روایات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی عبدالمطلب کے نام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ غلام تھے۔ اس زمانہ میں غلاموں کے نام عبد کے سابقہ سے شروع کرنے کا رواج ہی نہیں تھا مثلاً حضرت زیدؓ جن کو آنحضورؐ نے آزاد کیا تھا، حضرت بلالؓ جن کو حضرت ابو بکرؓ نے آزاد کروایا تھا، اور دیگر آزاد کردہ غلاموں خبابؓ، عمارؓ وغیرہ میں سے کسی کا نام عبد کا سابقہ نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس عام طور پر عبد کا سابقہ کسی دیوتا یا خدا کے نام کے ساتھ رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ اسلام سے قبل عرب میں عبد مناف، عبدالعزیٰ، عبدالشعریٰ، عبدود، عبدیغوث، عبداللہ وغیرہ نام رائج تھے۔ پس’’عبدالمطلب‘‘میں’’عبد‘‘ کی موجودگی ہرگز ان کے غلام ہونے پر دلیل نہیں۔

اس بات پر اس نے کوئی دلیل نہیں دی کہ اگر آپؐ ایک غلام کے پوتے تھے تو قریش نے، جن کو اپنے نسب پر بڑا فخر تھا، کیوں اس پر اعتراض نہیں کیا؟ یہ محض argumentum ex silentio نہیں کہ اس پر’’عدم علم سے عدم شئی لازم نہیں آتا‘‘ کا سوال اٹھایا جائے۔ قرآن کریم میں رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ، رَجُلٌ مِنۡۢ بَیۡنِنَا وغیرہ الفاظ سے آپؐ کے قریش میں سے ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اگر قریش کو یہ بات مسلم نہ ہوتی اور ان کا خیال ہوتا کہ آپؐ کسی غلام کے پوتے ہیں تو اس پر ایک شور پڑ جاتا۔

اسی طرح بعد میں جب حضرت علیؓ، حضرت امام حسینؓ اور سفاح کے زمانہ میں اختلافات ہوئے تو بنو امیہ نے کبھی یہ اعتراض نہیں کیا کہ بنو عباس اصلاً قریشی نہیں جبکہ احادیث میں قریش کی امامت کا ذکر ہے۔ عجیب بات ہے، اور مارگولیوتھ اس بات کو تسلیم کرتا ہے، کہ مکہ کے پانچ اہم مناصب میں سے دو عبدالمطلب کے سپرد تھے یعنی سقایہ و رفادہ۔ ان مناصب کے حصول کے لیے قریش میں لڑائیاں تک ہوئیں۔ ناممکن ہے کہ کسی غلام کو ایسی اہم خدمات سپرد کر دی جاتیں۔ عبدالمطلب نے خود بھی اور ان کے بیٹوں نے بھی مکہ کے اہم ترین خاندانوں میں شادیاں کیں۔ مثلاً عبدالمطلب نے بنو مخزوم میں اور ان کے بیٹے نے بنو امیہ میں۔ کسی آزاد کردہ غلام کے لیے ایسا کرنا ناممکن تھا۔

(Ali,Sirat al-Nabi and the orientalists، صفحہ ۱۳۶۔ ۱۳۷ )

گویا کسی بھی طریق سے یہ اعتراض قابل قبول نہیں۔

۵۔ ایک اور دلیل مارگولیوتھ نے یہ دی ہے کہ خلیفہ مامون کے پاس ایک خط تھا جس میں عبدالمطلب کے ایک یمنی کو ایک ہزار درھم قرض دینے کا ذکر تھا۔ ( ن ندیم، کتاب الفہرست، صفحہ ۷۔ ۸) اس سے استنباط کرتا ہے کہ وہ سہوکار تھے۔ اس پر قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ ایک غلام کے پاس سہوکاری کے لیے مال کہاں سے آیا؟ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ ان کے پاس سقایہ کا کام تھا جس کے لیے وہ حجاج کو زمزم کے پانی میں دودھ، کشمش اور شہد وغیرہ ڈال کر دیا کرتے تھے۔ یہ کام ان کے لیے مال کمانے کا بھی ذریعہ ہو گا۔ دوسری طرف مہمان نوازی عربوں کا خاصہ ہے، اس لیے اس کام کے پیسے لینا معاشرہ میں گھٹیا بھی سمجھا جاتا ہو گا چنانچہ آنحضورؐ نے بعد میں اس سے منع بھی فرما دیا تھا۔

(Margoliouth, Mohammed and the rise of Islam,صفحہ ۴۷۔ ۴۸۔ )

اگر تو عبدالمطلب غلام تھے تو ان کے سپرد ایسی خدمت، جس سے کافی مال بھی کمایا جا سکتا ہو، کی ہی نہ جاتی۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ عبدالمطلب حجاج کو پانی فروخت کرتے تھے۔ محض اندازہ لگانا کہ چونکہ اس پر خرچہ اٹھتا ہے اس لیے ضرور فروخت کرتے ہوں گے کافی نہیں۔ یہ خیال بھی محل نظر ہے کہ ایسا کرنا مہمان نوازی کے خلاف ہے کیونکہ مہمان نوازی ایک امر ہے اور عرب بھر سے آنے والے حجاج کو پانی مہیا کرنا امرِدیگر۔ حجاج کسی شخص کے ذاتی مہمان نہیں ہوتے کہ ان کو کھانا پانی بلا قیمت مہیا کیا جاتا۔ اور اگر ان کو مجموعی طور پر اہل مکہ کا مہمان سمجھا جائے تو عبد المطلب کو تمام اہل مکہ سے بقدر حصہ رسدی قیمت وصول کرنی چاہیے تھی نہ کہ حجاج سے۔ پس کسی بھی لحاظ سے یہ دلیل قابل قبول نہیں۔

۶۔ پھر وہ کہتا ہے کہ مخالفین آپؐ کو ابن ابی کبشہ کہتے تھے تو یقیناً اس میں کوئی الزام پوشیدہ ہے تاہم اس کی نوعیت واضح نہیں۔ اس بارہ میں آئندہ مضمون میں بیان کیا جائے گا کہ ابی کبشہ کون تھا اور کیوں آپؐ کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔

۷۔ پھر یہ کہ جب آپؐ کو سردار ابن سردار کہہ کر مخاطب کیا گیا تو آپؐ نے اس کی نفی فرمائی۔

( Margoliouth، Mohammed and the rise of Islam، صفحہ ۴۷۔

He himself rejected the title, “Master and son of our master”.)

یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپؐ اعلیٰ نسب نہ تھے اس لیے سردار کا بیٹا ہونے سے انکار فرمایا۔ اصل روایت جس کا اس نے مختصر حوالہ دیا ہے یہ ہے کہ کسی شخص نے آپؐ کو

يَا مُحَمَّدُ يَا سَيِّدَنَا وَابْنَ سَيِّدِنَا، وَخَيْرَنَا وَابْنَ خَيْرِنَا

کہہ کر مخاطب کیا تو آپؐ نے جواباً فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ بِتَقْوَاكُمْ، لَا يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰهِ عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُولُهُ، وَاللّٰهِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي اللّٰهُ

(احمدابن حنبل، مسند، مسند انس بن مالک، رقم ۱۲۸۸۷)

اے لوگو، تقویٰ اختیار کرو مبادا شیطان تم پر حملہ کر دے۔ مَیں محمدؐ بن عبداللہ ہوں۔ اللہ کا بندہ اور رسول۔ خدا کی قسم میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے اس مقام سے جو اللہ نے مجھے دیا ہے بڑھا کر بیان کرو!

یہ آپؐ کی کمال انکساری ہے کہ آپؐ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ آپؐ کو سب سے بہتر قرار دیا جائے۔ اس کی بجائے اللہ کا عاجز بندہ اور اس کا رسول ہونے کو ہی اپنا مقام و مرتبہ قرار فرمایا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ آپؐ اعلیٰ خاندان سے نہ تھے محض تعصب ہے۔

انبیاء کے نسب کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد

انبیاء کے نسب کے متعلق اللہ تعالیٰ کی سنت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

کفی العبد تقویٰ القلب عند حسیبنا

و لیس لنسب ذو صلاح معیر

و لکن قضیٰ رب السماء لائمۃ

لھم نسب کیلا یھیج التنفر

و من کان ذانسب کریم ولم یکن

لہ حسب فھو الدنی المحقر

کذالک سنت اللّٰہ فی انبیائہ

جرت من قدیم الدھر فخشوا و ابصروا

(حضرت مرزا غلام احمدؑ، اعجاز احمدی، روحانی خزائن، جلد ۱۹، صفحہ ۱۸۳)

ترجمہ: ہمارے حسیب خدا کے ہاں بندہ کے دل کا تقویٰ کافی ہے۔ اور کسی صالح کو اس کے نسب کی وجہ سے ملامت نہیں کی جا سکتی۔ البتہ ائمہ کے لئے آسمان کے خدا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ کہ ان کا نسب [معزز] ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو اس وجہ سے نفرت نہ ہو۔ تاہم اعلیٰ نسب والے کا کردار اچھا نہ ہو، تو وہ حقیر ہی رہے گا۔ یہ انبیاء کے متعلق خدا کی سنت ہے۔ جو قدیم زمانہ سے جاری ہے، پس ڈرو اور دیکھو۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button