الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

……………………………………………………

شہید کا درجہ

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘(شہداء نمبر۔ شمارہ 2۔ 2010ء) میں یہ حدیث درج ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ جابر!آج مَیں تمہیں پریشان اور اُداس دیکھ رہا ہوں۔ مَیں نے عرض کیا حضوؐر! میرے والد شہید ہوگئے ہیں اور کافی قرض اور بال بچے چھوڑ گئے ہیں۔ حضورﷺ فرمانے لگے: کیا مَیں تمہیں یہ خوشخبری نہ سناؤں کہ کس طرح تمہارے والد کی اللہ تعالیٰ کے حضور پذیرائی ہوئی۔ مَیں نے کہا: ہاں حضور ضرور سنائیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے اگر کسی سے گفتگو کی ہے تو ہمیشہ پردے کے پیچھے سے کی ہے لیکن تمہارے باپ کو زندہ کیا اور اس سے آمنے سامنے گفتگو کی اور فرمایا:میرے بندے!مجھ سے جو مانگنا ہے مانگ، مَیں تجھے دوں گا۔ تو تمہارے والد نے جواباً عرض کیا: اے میرے ربّ! مَیں چاہتا ہوں کہ تُو زندہ کرکے مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ تیری خاطر دوبارہ قتل کیا جاؤں۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مَیں یہ قانون نافذ کرچکا ہوں کہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں نہیں لَوٹاؤں گا۔ (ترمذی ابواب التفسیر)

………٭………٭………٭………

مکرم الیاس احمد اسلم صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرمہ سارہ اشرف صاحبہ اپنے والد محترم الیاس احمد اسلم صاحب شہید کا ذکرخیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ شہید مرحوم نے اپنے کیریئر کا آغاز ایئرفورس سے کیا اور بارہ سال کی ملازمت کے بعد نیشنل بینک جوائن (join)کرلیا اور اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے۔ بحیثیت انسان آپ انتہائی سادہ اور شریف النفس طبیعت کے مالک تھے۔ طبیعت میں بہت عاجزی اور انکساری تھی۔ وقت کی پابندی اور ایمانداری آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ آپ پانچ سال سے اپنے حلقہ کے صدر جماعت تھے۔ گھر میں کہا ہوا تھا کہ اگر کوئی دینی کام کے سلسلے میں آئے تو مجھے نیند سے بھی اُٹھادیں۔ صدقہ خیرات بہت کرتے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ آپ ہمدرد شوہر اور شفیق باپ تھے۔ اپنا فیصلہ مسلّط کرنے کی بجائے دوسروں کی رائے کا احترام کرتے۔ گھر میں نماز باجماعت کا اہتمام کرتے۔ فجر کی نماز پر سب کو جگاتے اورباربار بھی جگانا پڑتا تو نرمی سے ایسا کرتے چلے جاتے۔ تعلیم و تربیت کا بہت خیال رہتا۔ خود تہجد گزار تھے اور روزہ کی پابندی کرتے تھے۔ جمعہ کے روز خاص اہتمام کرتے۔ وقت سے پہلے جاکر پہلی صف میں بیٹھتے۔ 28؍مئی کو بھی پچھلے ہال کی پہلی صف میں بیٹھے تھے جب دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ آپ نے دو دیگر ساتھیوں کےساتھ ہال کا دروازہ بند رکھنے کی کوشش کی اور اسی دوران زخمی ہوگئے۔ زخمی حالت میں کئی گھنٹے پڑے رہے اور شام قریباً چار بجے جامِ شہادت نوش کیا۔

………٭………٭………٭………

مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید

لجنہ اماء اللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ (شہداء نمبر۔ شمارہ2۔ 2010ء) میں مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید کا ذکرخیر شائع ہوا ہے جنہوں نے 28؍مئی 2010ءکو مسجد دارالذکر لاہور میں جام شہادت نوش کیا۔ شہید مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور ایک بیٹی پیچھے چھوڑے۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر قبل ازیں 11؍جولائی 2014ء اور 15؍اپریل 2016ء کے شماروں میں بھی ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔

مکرمہ ربیعہ طاہر صاحبہ رقمطراز ہیں کہ شہید مرحوم 13؍اکتوبر 1958ء کو پیدا ہوئے۔ میرے شوہر مکرم طاہر احمد صاحب کو بطور مربی سلسلہ گوجرانوالہ میں خدمت کی توفیق ملی تو شہید مرحوم کی غیرمعمولی خوبیوں سے آگاہی ہوئی۔ آپ مربیان کا بہت اکرام کرتے۔ جماعتی کاموں کے لیے جب بھی ضرورت پڑی آپ کی گاڑی اور مدد حاصل رہی۔ ہر مشکل کام جو آپ کے سپرد کیا جاتا اسے خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے۔ بہترین اور پُرخلوص مشورہ دیتے۔ میرے شوہر کی بیرونِ ملک روانگی کے بعد بھی چھ سال تک اپنی اہلیہ کے ذریعے فون کرواکے حال پوچھتے اور کئی بار اپنی فیملی کے ہمراہ ہمارے ہاں ربوہ آتے رہے۔ ہمارے جرمنی شفٹ ہونے کے بعد ہمارے اصرار پر یہاں بھی آئے اور ہماری بیٹی کی شادی کے موقع پر بھائی کی طرح ہرممکن مدد کی۔ گوجرانوالہ میں کئی معصوم احمدیوں کا خون بہایا گیا۔ اُن شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھنا آپ اپنا فرض سمجھتے تھے۔ گوجرانوالہ کے اسیران راہ مولیٰ اور دیگر ضرورت مند احمدیوں کی بھی ہرممکن مدد کرتے۔ خلیفۂ وقت کی اطاعت کا یہ عالم تھاکہ ایک بار لندن سے واپس آتے ہی ٹرک منگواکر گھر کا سارا سامان اور فیملی کو لاہور لے گئے۔ اور پوچھنے پر اس جلدی کی وجہ یہ بتائی کہ لندن میں حضور سے لاہور شفٹ ہونے کا مشورہ کیا تھا۔ حضور نے فرمایا ٹھیک ہے اس لیے بلاتوقف شفٹ ہورہا ہوں۔

شہید مرحوم کی اہلیہ محترمہ امۃالعزیز صاحبہ نے بتایا کہ شہید مرحوم خود بھی موصی تھے اور اپنی ساری فیملی کو بھی اس نظام میں شامل کیا ہوا تھا۔ وصیت کا چندہ اگلے چھ ماہ کا پیشگی ادا کیا ہوا تھا۔ زکوٰۃ پوری شرح سے ادا کرتے اور مرحومین کی طرف سے بھی چندہ ادا کرتے تھے۔ اپنے تمام رشتہ داروں خصوصاً والدہ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلق تھا۔ کاروباری مصروفیات کے باوجود بچوں کو بہت وقت دیتے اور اُن کی تربیت کی طرف توجہ رہتی۔ بچوں کو خلافت سے وابستہ رہنے کی نصیحت کرتے۔ باوجود اس کے کہ مَیں کاروباری معاملات کو نہیں سمجھتی تھی لیکن ہر معاملے میں مجھ سے مشورہ کرتے اور رائے کا احترام کرتے۔ ملازموں کا بہت خیال رکھتے۔ ان سے فرداً فرداً پوچھتے کہ کھانا کھالیا ہے یانہیں؟ اُن کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتے، کام کے دوران باجماعت نماز پڑھاتے اور غیرازجماعت ملازمین کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتے۔ انتہائی شفیق اور نگہداشت کرنے والے شوہر، باپ، داماد اور بیٹے تھے۔ میرے والد محترم شیخ عبدالماجد صاحب (مؤلف ’’اقبال اور احمدیت‘‘) کی شدید بیماری میں ایک بیٹے کی طرح اُن کا خیال رکھا۔

شہید مرحوم کی والدہ محترمہ نے بیان کیا کہ میرا بیٹا بہت فرمانبردار، نیک اور بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا تھا۔ مجھے اصرار کرکے اپنے پاس لے جاتا اور بہت خیال رکھتا۔ بیٹے تو سب ہی پیارے ہوتے ہیں لیکن یہ بیٹا تو مجھے بہت ہی پیارا تھا۔

شہید مرحوم کی اہلیہ کی ایک سہیلی بیان کرتی ہیں کہ احمدیت کا رشتہ اُن کے نزدیک سب سے عظیم رشتہ تھا۔ جب میرا چھوٹا بیٹا پیدا ہوا تو آپ میرے دوسرے چار بچوں کو اپنے گھر لے گئے حالانکہ اُس وقت شہید مرحوم کا بیٹا بھی صرف دو ماہ کا تھا۔ جون کی تپتی گرمی میں ہم سب کا خیال رکھا بلکہ ہمارے بچے کی خوشی میں ہسپتال میں شیرینی بھی تقسیم کی۔

شہید مرحوم کے چچا مکرم سلیمان رشید احمد سولنگی بیان کرتے ہیں کہ شہید مرحوم بہت اطاعت گزار تھے۔ ان کے والد کی وفات کے بعد جب ان کی جائیداد کا حصہ بھی دوسرے ورثاء کو دے دیا گیا تو انہوں نے کوئی جھگڑا کرنے کی بجائے اپنا کاروبار شروع کرلیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بے حد برکت دی۔ آپ بہت بہادر بھی تھے۔ ایک مرتبہ جب ڈاکو ان کی والدہ اور اہلیہ کا زیور لُوٹ کر لے گئے تو بڑی بہادری اور حکمت سے تمام اشیاء ڈاکوؤں سے واپس نکلوائیں۔

……………………………………………………

مکرم خلیل احمد سولنگی صاحب شہید کی چچی مکرمہ انیسہ سولنگی صاحبہ اہلیہ مکرم سلمان رشید احمد سولنگی صاحب اپنے مضمون میں تحریر کرتی ہیں کہ شہید مرحوم کا یہ رشتہ مجھ سے 1972ء میں منسلک ہوا لیکن وہ میرے بڑے بیٹے سے کم نہیں تھا۔ وہ ایک باادب، بااخلاق اور فرمانبردار بیٹا تھا۔

1974ء کے فسادات کے دنوں میں جب میرے شوہر کو احمدیہ مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے پولیس نے گرفتار کر لیا تو شہید مرحوم پندرہ سال کا بچہ تھا۔ میرے سسر مکرم ماسٹر محمد بخش سولنگی صاحب اور ساس صاحبہ نے مجھے اور بچوں کو حفاظت کے لیے ایک غیرازجماعت رشتہ دار کے ہاں بھجوادیا۔ ہم وہاں چھت سے دیکھ رہے تھے جب عزیزم خلیل کے والدین کے گھر کو جلادیا گیا اور سامان لُوٹ لیا گیا۔ پھر یہ جلوس وہاں آگیا جہاں ہم پناہ گزین تھے۔ گھر والوں نے کہا کہ ہمیں تمہاری وجہ سے خطرہ ہے اس لیے یہاں سے نکل جاؤ۔ پھر دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ ایک غیرازجماعت عزیز کے تہ خانے میں پانچ دن ہم چھپے رہے۔ اسی دوران ایک بدمعاش دو دوسرے مردوں کے ساتھ آکر بندوق تان کر مجھے کہنے لگا کہ تمہارا بندہ تو مارا گیا، ساس تین دن ہوئے گھر میں مرگئی ہے اور تمہارا سسر مسلمان ہوگیا ہے، تم بھی کلمہ پڑھو ورنہ ہم تمہاری عزتیں لُوٹ لیں گے۔ مجھے خدا نے غیرمعمولی ہمّت دی اور مَیں نے کلمہ سناکر کہا کہ مَیں پہلے ہی کلمہ گو ہوں تم مجھے کونسا کلمہ پڑھانا چاہتے ہو؟ وہ بولا تم مرزا کا کلمہ پڑھتے ہو۔ مَیں نے کہا کہ تمہارا کونسا کلمہ ہے اور کونسے خدا اور رسول نے کہا ہے کہ مسلمان کا سامان لُوٹو، گھر جلاؤ، عورتوں کی عزتیںلُوٹو اور قتل و غارت کرو۔ اس پر اُس کی بندوق نیچے ہوتی گئی اور وہ بولا: لڑکی تُو بڑی کٹر ہے۔ بہرحال خدا کی تقدیر نے اپنا دوسرا رنگ دکھایا اور اُسی نے مجھے لاہور کی بس کا ٹکٹ خرید کر خود بحفاظت بس میں سوار کیا۔ اسی طرح عزیزم خلیل احمد سولنگی اور اس کے چھوٹے بھائی عزیزم خالد احمد سولنگی کو ڈرایا دھمکایا تو انہوں نے بھی بڑی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اُسی طرف ہیں جس طرف ہمارے دادا ماسٹر سولنگی صاحب ہیں۔

فسادات ختم ہوئے تو میرے میاں کی ملازمت چھوٹ گئی۔ دوسری ملازمت تلاش کی۔ مَیں اپنے سسرال میں تھی۔ عزیزم خلیل اور اس کا چھوٹا بھائی میرے گھر کا تمام کام کرتے، میری آواز پر دوڑے آتے اور کبھی پس و پیش نہ کرتے۔ سخت گرمی میں ایک دن میری طبیعت خراب تھی جب کوئی مہمان آگیا تو عزیزم خلیل میرے کہنے پر گیلا تولیہ سر پر رکھ کر ہوٹل سے کھانا لایا۔ کبھی مَیں شکریہ کہتی تو کہتا مجھے صرف دعا کی ضرورت ہے، آپ حکم دیں مَیں حاضر ہوں۔

مَیں چھبیس سال سے جرمنی میں ہوں۔ میرے بیٹوں کا رشتہ پاکستان میں ہوا تو مَیں نے عزیزم خلیل اور اس کی بیوی سے کہا کہ سارے انتظامات انہوں نے کرنے ہیں، لاکھوں میں خرچ ہوگا جو آپ میرے بنک اکاؤنٹ سے لے لینا۔ تب اس غیور بیٹے نے کہا کہ چچی جان! آپ حکم کریں، کام سارے ہوجائیں گے لیکن پیسے کی بات نہیں کرنی، وہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے، بے شک لاکھوں لگیں۔ اسی طرح مَیں پاکستان جاتی تو دونوں میاں بیوی ہر کام کے لیے مجھے لے کر پھرتے اور اپنی کسی چیز کی پرو انہیں کی۔

شہید مرحوم کا مزاح کا ذوق بھی بہت عمدہ تھا لیکن اس میں بھی بڑوں کے ادب کا خیال رکھتے۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button