متفرق مضامین

غیروں کی نظر میں خلافت کی ضرورت و اہمیت

(ظہیر احمد طاہر۔ جرمنی)

خداتعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر عظیم فضل واحسان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جماعت میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا جو بابرکت نظام شروع ہوا وہ ایک صدی گزرنے کے بعدبھی قائم ودائم ہے۔ اوراس ایک صدی کے دوران مخالفت کے بے شمار طوفانوں اور لرزہ بر اندام کر دینے والی ان گنت سازشوں کے باوجود سُرعت سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے آج آفتاب عالمتاب بن کر ساری دنیا کو منور کررہا ہے۔ شمع خلافت کے کروڑوں پروانے اپنے امام خلیفۂ وقت کی اطاعت میں شب وروز دامے درمے، قدمے سخنے خدمت دین بجالارہے ہیں۔ دنیا کے 200سے زائدممالک میں ایم ٹی اے کے مختلف چینلوں کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح کی آواز جو درحقیقت خدائے ذوالجلال کی توحید، محمد مصطفیٰ نبیوں کے سردارﷺ کی عظمت وشوکت اور دین اسلام اور قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے والی آواز ہے جو ہر لحظہ پوری دنیا میں گونج رہی ہے۔ مخلصین جماعت اپنی تمام طاقتوں، وسائل، اپنی بے مثال قربانیوں اور اخلاص ووفا کی انمول مطاع، اپنے امام ہمام کے حضور پیش کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں۔ یہ فرزندان احمدیت اپنے امام کے ادنیٰ اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں۔ اور اُس کے اشارہ ٔ ابرو پر سب کچھ اُس کے حضور قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت بےقرار رہتے ہیں۔ خلافت کی اس قوت وبرکت اور تاثیر کو دیکھ کر اغیار بھی اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اور وہ شدّت سے اس کی کمی محسوس کررہے ہیں۔ ایک عرصہ سے بڑے تکرار اور کثرت سے خلافت کی اہمیت اور نظام خلافت کے قیام کی ضرورت کے بارےمیں آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ مذہبی اور سیاسی تنظیموں، جماعتوں اور گروہوں کے سربراہ اور لیڈر اپنے بیانوں میں اس امر کا اظہار کررہے ہیں کہ خلافت راشدہ ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔ نمونے کے طور پر ایسے کچھ بیانات وآراء درج ذیل ہیں:

٭… فروری 1974ء میں مسلم سربراہان کی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس تاریخی موقع پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی ایڈیٹر صدق جدید نے ’’خلافت کے بغیر اندھیرا‘‘ کا عنوان دے کر ایک نہایت اہم مضمون لکھا۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اتنے تفرق و تشتت کے باوجود کبھی کسی کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ عراق کا منہ کدھر اور شام کا رخ کس طرف ہے؟ مصر کدھر اور حجاز اور یمن کی منزل کونسی ہے اور لیبیا کی کونسی؟ ایک خلافت اسلامیہ آج ہوتی تو اتنی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں آج مملکت اسلامیہ کیوں تقسیم در تقسیم ہوتی؟ ایک اسرائیل کے مقابل پر سب کی الگ الگ فوجیں کیوں لانا پڑتیں۔ ترک اور دوسرے فرمانروا آج تک تنسیخ خلافت کی سزا بھگت رہے ہیں اور خلافت کو چھوڑ کر قومیتوں کا جو افسوںشیطان نے کان میں پھونک دیا وہ دماغوں سے نہیں نکالتے۔ ‘‘

(روزنامہ صدق جدید، لکھنؤ۔ یکم مارچ 1974ء)

٭…مشہور صحافی م۔ ش تحریر کرتے ہیں کہ

’’پاکستان کے مقاصد کی تکمیل پارلیمانی یا صدارتی نظام ہائے حکومت رائج کرنے سے نہیں بلکہ خلافت کے قیام سے ہی کی جاسکتی ہے۔ ‘‘

(روزنامہ نوائے وقت لاہور 21؍مارچ 1967ء)

٭…اہل قرآن کے لیڈر غلام احمد صاحب پرویز لکھتے ہیں:

’’ہمارے لئے کرنے کا کام یہ ہے کہ پھر سے خلافت علیٰ منہاج رسالت کا سلسلہ قائم کیا جائے جو امت کو احکام و قوانین خداوندی کے مطابق چلائے۔ ‘‘

(ماہنامہ طلوع اسلام مارچ 1977ء صفحہ6)

٭…ماہنامہ جدوجہد لاہور لکھتا ہے:

’’مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک تیس ممالک کا ایک عظیم اسلامی بلاک صرف اتحاد اتفاق کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مغربی اقوام سے پٹ رہا ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس دشمن اسلام اقوام متحدہ کو چھوڑ کر خلافت اسلامیہ کا احیاء کریں۔ ایک فعال قوت کی حیثیت سے زندہ رہنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ‘‘

(ماہنامہ جدوجہد لاہور اگست1974ء)

٭…اخبار تنظیم اہل حدیث کے مدیر نہایت حسرت سے لکھتے ہیں کہ

’’اگر زندگی کے ان آخری لمحات میں ایک دفعہ بھی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظارہ نصیب ہوگیا تو ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کی بگڑی سنور جائے اور روٹھا ہوا خدا پھر سے مان جائے اور بھنور میں گھری ہوئی ملت اسلامیہ کی یہ ناؤ شاید کسی طرح اس کے نرغے سے نکل کر ساحل عافیت سے ہمکنار ہوجائے ورنہ قیامت میں خدا ہم سے پوچھے گا کہ دنیا میں تم نے ہر ایک اقتدار کے لئے زمین ہموار کی۔ کیا اسلام کے غلبہ اور قرآن کریم کے اقتدار کے لئے بھی کچھ کیا؟‘‘

(ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث لاہور12؍ستمبر1969ء)

٭…احیائے خلافت کی حالیہ تحریکوں میں سے ایک تحریک کے داعی چوہدری رحمت علی صاحب اپنی کتاب ’’دارالسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’نفاذ غلبۂ اسلام اور وجود قیام خلافت لازم و ملزوم ہیں۔ بالفاظ دیگر جیسے دن سورج کا محتاج ہے اور بغیر اندھیرے کے رات کا تصور ناممکن ہے۔ اسی طرح خلافت معرض وجود میں ہوگی تو اسلام کا نفاذ غلبہ ممکن ہوگا ورنہ ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ نیز تاریخ مزید ثبوت مہیا کرتی ہے کہ جب خلافت اپنے عروج پر تھی۔ اسلام کا بھی وہی سنہری دور تھا۔ ‘‘

(دارالسلام عمران پبلیکیشنز اچھرہ لاہور 1985ء صفحہ3)

٭…معاند احمدیت مولانا ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں :

’’اس وقت عالم اسلام خلافت کے اس ضروری ادارے اور اس مبارک نظام سے محروم ہے جس کے قیام کے مسلمان مکلّف بنائے گئے تھے اور جس سے محرومی کا جرمانہ وہ مختلف شکلوں میں اداکررہے ہیں۔ ‘‘

(تعمیر حیات لکھنؤبحوالہ ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان جولائی 2002ء صفحہ 14-15)

٭…جناب فضل محمد یوسف زئی استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی لکھتے ہیں:

’’مسلمان ترس رہے ہیں کہ کاش ہماری ایک خلافت ہوتی، ہمارا ایک خلیفہ ہوتا، کاش ہماری ایک بادشاہت ہوتی، کاش ہمارا ایک بادشاہ ہوتا جس کی بات پوری دنیا کے مسلمانوں کی بات ہوتی جس میں وزن ہوتا جس میں عظمت ہوتی جس میں شجاعت ہوتی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ میں ان کی حیثیت ہوتی عالمی برادری میں ان کی قیمت ہوتی ویٹوپاور میں ان کا مقام ہوتا سلامتی کونسل میں اس کا نام ہوتا۔ ‘‘

(ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک۔ مارچ 2000ء صفحہ58)

٭…تحریک خلافت کے داعی اور تنظیم اسلامی کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں:

’’اول دور خود حضورؐ اور خلفائے راشدین کا دور ہے۔ جسے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے اور قیامت سے پہلے آخری دور میں پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام قائم ہوگا۔ اس قول سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ حضورؐ نے اسلام کا نظام عدل اجتماعی جس طریقے سے قائم فرمایا تھا صرف اسی طریقے سے اب یہ نظام قائم ہوسکتا ہے وہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے ہر شخص اپنی ذات میں اللہ کا خلیفہ بنے پھر اپنے گھر اور دائرہ اختیار میںخلافت کا حق ادا کرے، اس کا تقاضا پورا کرے اور جو لوگ یہ دو مرحلے طےکرلیں انہیں بنیان مرصوص بنا کر ایک نظم میں پرو دیا جائے اور پھر یہی لوگ باطل کے ساتھ ٹکرا جائیں، میدان میں آکر منکرات کو چیلنج کریں اور اپنے سینوں میں گولیاں کھائیں۔ ‘‘

(پاکستان میں نظام خلافت۔ امکانات، خدوخال اور اس کے قیام کا طریق صفحہ32انجمن خدام القرآن لاہور1992ء)

٭…اخبار وکیل 15؍جنوری 1927ء میں لکھا ہے :

’’اس مرض کا حدوث آج سے نہیں بلکہ آج سے بہت پہلے شروع ہوچکا ہے۔ مسلمانوں نے پہلے انفرادی زندگی میں یہودو نصاریٰ کی اتباع کی اور اب اجتماعی زندگی میں کرنے لگے ہیں۔ اس کا نتیجہ تنسیخ ِ خلافت ہے۔ ‘‘

(بحوالہ ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان جولائی 2002ء صفحہ 14)

٭…جناب واصف علی واصف ’’یا الٰہی، یاالٰہی‘‘ کے زیر عنوان اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’یاالٰہی ہمیں لیڈروں کی یلغار سے بچا ہمیں ایک قائد عطا فرما، ایسا قائد جو تیرے حبیب کے تابع فرمان ہو۔ اس کی اطاعت کریں تو تیری اطاعت کے حقوق ادا ہوتے رہیں۔ ‘‘

(روزنامہ نوائے وقت لاہور26؍ستمبر1991ء)

٭…اخبار الجمیۃ دہلی 14؍اپریل 1914ء کو لکھتا ہے :

’’دفعۃً پردہ اٹھ گیا دنیا کو صاف نظر آگیا کہ امت مسلمہ اگر کسی مجتمع شیرازہ اور کسی بندھی ہوئی تسبیح کا نام ہے تو آج صحیح معنوں میں امت مسلمہ موجود نہیں ہی نہیں ہے۔ بلکہ منتشر اوراق ہیں۔ چند بکھرے ہوئے دانے ہیں۔ چند بھٹکی ہوئی بھیڑیں ہیں جن کا نہ کوئی ریوڑ ہے اور نہ گلہ بان۔ ‘‘

(بحوالہ ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان جولائی 2002ء صفحہ 14)

٭…ماہنامہ ’’سبق پھر پڑھ‘‘ اچھرہ لاہور کے مدیر چوہدری رحمت علی صاحب لکھتے ہیں:

’’حیرت و تأسف تو اس بات پر ہے کہ آج کی دنیا میں صرف کفار و مشرکین ہی طاغوتی نظاموں کی سرپرستی نہیں کررہے مسلمان بھی خلافت سے منہ موڑ کر ایسی ہی من مرضی کی حکومتیں رواں دواں رکھے ہوئے ہیں۔ اس میں کیا شک کہ قرآن و سنت کے مطابق پوری اسلامی دنیا کا صرف ایک ہی خلیفہ (سربراہ) ہو سکتا ہے۔

حل ایک ہی ہے کہ خلافت کی گاڑی جہاں سے پٹڑی سے اتری تھی وہیں سے اسے پھر پٹڑی پر ڈال دیا جائے۔ واضح اور دو ٹوک تشخیص کے بعد امت کے تمام دکھوں کے لئے ایک ہی شافی نسخہ ہے کہ خلافت کو اس دنیا میں پھر بحال کردیا جائے وقت گزرتا جارہا ہے۔ ہمارے وہ محترم بھائی جو آج کسی نہ کسی طور امت کی قیادت پر متمکن ہیں اور وہ جہالت کے سرداروں کی طرف باہم دگر رہتے ہیں، خلافت کو بحال کرنے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ پھر قائدانہ مناصب پر ہوتے ہوئے ان کے لئے بحالی خلافت کا کام قدرے آسان بھی ہے۔ لہٰذا وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے سے پہلے اگر یہ کام کرجائیں تو انشاء اللہ قیامت کے دن اپنے رب کے ہاں سرخرو ہوں گے۔ ‘‘

(ماہنامہ ’’سبق پھر پڑھ‘‘ جلد2شمارہ8؍اگست1992ء صفحہ16)

٭…رسالہ جدو جہد لاہور اپنی ایک اشاعت میں لکھتا ہے :

’’سب سے بڑا ظلم جو مسلمانوں نے اپنی خود غرضی سے کیا وہ یہ تھا کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا سلسلہ ختم کرکے دم لیا اور امت مسلمانوں کو بھیڑ وں کے ریوڑ کی طرح جنگل میں ہانک دیا کہ جائو چرو، چُگو صرف اپنا پیٹ پالو۔ صرف خلافت ہی ایک ایسا منصب تھا جو مسلمانوں کو منتشر ہونے کی بجائے ایک مرکز پر جمع رکھتا اور ایک نصب العین مقرر کرکے ان کی تنظیمی قوت کو محفوظ رکھتا۔ ‘‘

(جدو جہد لاہور دسمبر 1960ء بحوالہ ماہنامہ مشکوٰ ۃ قادیان نومبر 2003ء صفحہ 25)

٭…ذوالفقار علی شاہ صاحب صفوی بریلوی اپنی کتاب ’’چراغ رہنمائے جہاں ‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ صحیح خلیفہ کی پہچان کیا ہے ؟ یہ کہ جو شخص تمام دنیا سے علوم ظاہر ی اور علم باطن اور تمام علوم سے باخبر ہوگا اور تمام دنیا کے عقلمندوں سے زیادہ عقلمند ہوگا اور اللہ کی قوت اس کے ساتھ ہوگی۔ یہ مختصر پہچان صحیح خلیفہ کی عرض کی گئی ہے اب ہدایت یا تو خلیفہ وقت سے یا جو کوئی اہل اللہ خلیفہ وقت سے کامیاب ہوچکا ہو اس سے ہوگی۔ پس اس سے بھی ہدایت ہوسکتی ہے مگر یہ ولی اللہ بھی اطاعت کرے گا خلیفہ وقت اور ولی اللہ کی اطاعت جو کوئی بندۂ خدا کرے گا تو حقیقت میں اس کی اطاعت نہیں ہے بلکہ سلسلہ بسلسلہ حضرت رسول اللہﷺ کی اطاعت ہے اس لئے اللہ پاک نے اپنے کلام میں پانچویں پارہ سورۃ النساء کے آٹھویں رکوع میں ارشاد فرمایا

اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ

یعنی اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اطاعت کرو صاحب امر کی یعنی خلیفہ کی جو تم سے یعنی تم میں سے ہو۔ تو حقیقت میں خلیفہ کی جو اطاعت ہے وہ خلیفہ کی نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت ہے اور خلیفہ کے ہاتھ پر جو بیعت کی جاتی ہے وہ خلیفہ کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کا ہاتھ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں چھبیسویں پارہ سورۃ الفتح کے پہلے رکوع میں ارشاد فرماتا ہے کہ

’’ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ

یعنی اللہ کا ہاتھ اوپر ہاتھ ان کے ‘‘

(چراغ رہنمائے جہاں، صفحہ 5بار دوئم مطبع احتشامیہ پریس مرادآباد 1930ءبحوالہ:ماہنامہ مشکوٰۃ قادیان مئی 2001ء صفحہ 11)

٭…قاہرہ کے اخبار الفتح کو بھی لکھنا پڑا کہ

’’میں نے بغور دیکھا تو قادیانیوں کی تحریک حیرت انگیز پائی۔ انہوں نے بذریعہ تحریر و تقریر مختلف زبانوں میں اپنی آواز بلند کی ہے۔ اور مشرق و مغرب کی مختلف ممالک و اقوام میں بصرف زر کثیر اپنے دعویٰ کو تقویت پہنچائی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی انجمنیں منظم کرکے زبردست حملہ کیا ہے اور ایشیا و یورپ، امریکہ اور افریقہ میں ان کے ایسے تبلیغی مراکز قائم ہو گئے ہیں جو علم و عمل کے لحاظ سے تو عیسائیوں کی انجمنوں کے برابر ہیں لیکن تاثیرات و کامیابی میں عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت نہیں۔ قادیانی لوگ بہت بڑھ چڑھ کر کامیاب ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس اسلام کی صداقتیں اور پُرحکمت باتیں ہیں۔ جو شخص بھی ان کے حیرت زدہ کارناموں کو دیکھے گا وہ حیران و ششدر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کس طرح اس چھوٹی سی جماعت نے اتنا بڑا جہاد کیا ہے جسے کروڑوں مسلمان نہیں کرسکے۔ صرف وہی ہیں جو اس راہ میں اپنے اموال اور جانیں خرچ کر رہے ہیں۔ اگر دوسرے مدعیان اصلاح اس جہاد کے لئے بلائیں یہاں تک کہ ان کی آوازیں بیٹھ جائیں اور لکھتے لکھتے ان کے قلم شکستہ ہو جائیں تب بھی عالم اسلام میں ان کا دسواں حصہ بھی اکٹھا نہ کرسکیں گے۔ جتنا یہ تھوڑی سی جماعت مال و افراد کے لحاظ سے خرچ کررہی ہے۔ ‘‘

(الفتح 2؍جمادی الثانی 1351ھ)

٭…پاکستان کے ایک ریٹائرڈ جج اے۔ آر۔ چنگیز بعنوان ’’ ایک ریٹائرڈ جج ملزم کے کٹہرے میں ‘‘ لکھتے ہیں :

’’ تم نے پاکستان کے قیام کی جدو جہد کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے عہد کیاتھا کہ پاکستان میں تم اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزارو گے اور خلافت قائم کرو گے۔ مگر پاکستان کے بنتے ہی تم نے اس عہد کو فراموش کردیا اور آج تک نظام خلافت قائم نہیں کیا۔ ‘‘

(نوائے وقت 30؍اکتوبر 1977ء )

٭…دہلی کے مشہور اخبار الجمیعت کے ایڈیٹر نہایت حسرت بھرے الفاظ میں لکھتے ہیں:

’’کیا یہ خوش قسمتی صرف مال گاڑی کے ویگنوں کے لئے مقدر ہے ؟میں نے سوچا مال کے ڈبوں کے لئے انجن ہے۔ کیا ہمارے لئے انسانی قافلہ کے لئے انجن نہیں، کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارا بھی ایک انجن ہو اور سارے افراد ملت اس سے جڑ کر ایک سوچی سمجھی راہ پر رواں دواں ہوں۔ آہ وہ بھیڑ جو ایک قافلہ نہیں بن سکتی اور آہ وہ قافلہ جو اپنے آپ کو ایک انجن کے سپر د کرنے کو تیا ر نہیں۔ ‘‘

(ہفت روزہ الجمیعت جمعہ ایڈیشن 9؍مئی 1949ء)

٭…مشہور کالم نویس جناب شاہد بدر فلاحی رقم طراز ہیں کہ

’’ خلافت ناگزیر ہے خلافت کے بغیر نہ تو دین غالب آسکتا ہے نہ عدل و انصاف کا قیام عمل میں آسکتا ہے نہ مشرکانہ نظام کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ نہ نماز کا مکمل قیام ہوسکتا ہے۔ نہ زکوٰۃ کا پورا انتظام نافذ ہوسکتا ہے۔ نہ نیکی فروغ پاسکتی ہے نہ برائی ختم ہوسکتی ہے۔ نہ جمعہ وعیدین کا انتظام ہوسکتا ہے۔ نہ اللہ کے رسول کی پوری اطاعت ہوسکتی ہے۔ نہ مسلمانوں کی حالت درست ہوسکتی ہے۔ خلافت کے بغیر زندگی گزارنا جاہلیت ہے۔ بلکہ جینا درست نہیں۔ خلافت کے بغیر اسلام اپاہج لُولا اور لنگڑا ہے۔ ‘‘

(ہفت روزہ نئی دنیا دہلی 11؍مارچ 1992ء)

٭…ہفت روزہ ’’وفاق‘‘ لائل پور راوی ہے کہ

’’ سعودی عرب کے بعض حلقے جو دوبارہ خلافت کے احیاء کی کوشش کررہے ہیں وہ اپنے اقدام کے جواز میں کہہ رہے ہیں کہ خلافت کا منصب ہی وہ واحد منصب ہے جو دنیائے اسلام کو متحد کرانے کا باعث ہوسکتا ہے اور زمانہ ماضی میں اسی منصب نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کے رشتے میں پرو دیا تھا۔ ‘‘

(وفاق، 21؍اکتوبر 1960ء۔ بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ، نومبر 1960ء )

٭…روزنامہ نوائے وقت میں عمران یوسف زئی لکھتے ہیں:

’’بیشک جس چیز کی اب ہمیں نہ صرف اشد ضرورت بلکہ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں خالص اسلامی خلافت کی بحالی ہے وہ نظام جو کہ ہر طرح تمام زمانوں سے ہم آہنگ، آزمایا ہوا اور لامحدود دانائی کی بنیاد سے اخذ کیا گیا ہے یعنی اسلامی عقیدہ سے نیز اس کے دوبارہ قیام کی بشارت ہمیں الصادق والامینﷺ نے خود فرمائی ہے۔ ‘‘

( نوائے وقت 26؍اگست2006ء )

آخر میں دو بیانات درج ذیل ہیں جن میں سے ایک، ایک سیاسی لیڈر کا ہے اور دوسرا ایک عالم دین کا، جن میں خلافت احمدیہ کی برکات کو واضح طور پر تسلیم کیاگیا ہے اور اُس کی قوت اور تاثیرات کا برملا اقرار واعلان کیا گیا ہے :

٭…جناب ابوبکر بلوچ حیدرآباد رقمطراز ہیں :

’’قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ قادیانیوں کے قتل کو مباح (حلال ) قرار دیا گیا مگر یہ ختم نہ ہوئے۔ قتل کے جھوٹے ڈرامے رچائے گئے لیکن بیکار۔ …ہمارے معاشرہ سے دن بدن امن اُٹھ رہا ہے۔ بے حیائی اور گناہ زوروں پر پل رہا ہے۔ رشوت، غبن اور فراڈ ہمارے ماتھے پر کلنک ہیں۔ بڑے بڑوں کے گند کھل کر عوام کے سامنے آرہے ہیں۔ نائٹ کلب، فیشن شو، ویڈیو اور ڈش کی تباہ کاریاں اخلاقی اقدار کو کچلے جارہی ہیں اور ہمارے محترم علماء آپس میں دست و گریباں ہیں۔ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم قادیانیوں کا برطانیہ سے صفایا کرآئے ہیں۔ یہ اچھا صفایا ہے کہ ہر سال گمراہ ہونے والوں کی تعداد دو گنا ہوجاتی ہے …قادیانیوں کی روز افزوں ترقی، لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کا قادیانی مذہب میں داخل ہونا اور دنیا کا قادیانیت کی طرف بڑھتا ہوا میلان، بظاہر اس بات کی علامت معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ اِ ن کی طرف کھڑاہے، کیونکہ ہر آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ ساری اُمت ایک طرف اور ایک چھوٹی سی جماعت دوسری طرف۔ تیل کی دولت، حکومتوں کا ساتھ، سوادِ اعظم کا دعویٰ نتیجہ صفر۔ کفر پھیلتا جارہا ہے اور یہ مسلمان دن بدن اخلاقی، روحانی، مالی اور دینی انحطاط کا شکار۔ آخر کیوں !اگر یہ ساری طاقتیں اور وسائل قادیانیت کا مقابلہ کرنے اور اُسے ختم کرنے کے لئے ناکافی ہیں تو پھر ہم سب بارگاہِ الٰہی میں گر کیوں نہیں جاتے۔ اس کے مقابل پر ہر مسجد سے یہ اعلان کیوں نہیں ہوتا کہ فتنۂ قادیانیت کے قلع قمع کے لئے ساری اُمّت راتوں کو جاگ جاگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑائے کہ اے خدا تو نے ہمیں سارے وسائل عطا کیے لیکن ہم آپس کے اختلافات اور اپنی کمزوری ایمان کے باعث اس فتنہ کو کچلنے میں ناکام رہے ہیں۔ اے خدا تو تو جانتا ہے کہ قادیانی جھوٹے ہیں اس لئے ہم دردمندانہ دعا کرتے ہیں کہ تُو اِن کی پشت پناہی اور تائید چھوڑ کر انہیں ذلیل اور رسوا کردے۔ اور ہمیں ان پستیوں سے نکال جن میں گرے ہوئے ہیں۔

میری علماء اور درد مند دل رکھنے والے مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس میدان میں نکلیں اور خدا تعالیٰ کو محمد رسول اللہﷺ کی محبت کا واسطہ دے کر اس سے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس مٹھی بھر گروہ کے خلاف ہماری مدد فرمائے۔ اگر ہم نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ پر غور اور عمل نہ کیا تو جس رفتار سے قادیانیت کا یہ سیلاب بڑھ رہا ہے۔ اس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ چند برسوں میں یہ ساری دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی بہا لے جائے گا…اگر علماء حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی نے فیصلہ کردیاتھا کہ قادیانی غیر مسلم ہیںاور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لئے اب اور کسی فیصلے کی ضرورت نہیں تو میری عاجزانہ سی درخواست کا جواب دیں کہ کیا خدا کی ناراضگی اور غضب کی یہ علامات ہیں کہ ایسے گروہ کو ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے جو ساری امت مسلمہ کے فیصلہ کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اور دوسری طر ف اس کی تائید ونصرت اس رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہے بے سہارا، بے بس اور مغلوب ہے۔ افغانستان میں وہ جہاد کے نام پر ایک دوسرے کو بھون رہا ہے تو اسرائیل اور کشمیر میں ہنود ویہود کا تختۂ مشق بن کر رہ گیا ہے۔ کویت اور عراق میں امریکی اسلحہ کا نشانہ بن رہا ہے تو پاکستان میں خود ہم وطنوں کی شعلہ زن بندوقوں کی زد میں ہے۔ ‘‘

( ماہنامہ دفاع کراچی، اگست 1997ء صفحہ 40)

(2)مولانا عبدالرحیم اشرف مدیر المنبر لائلپور (فیصل آباد) اپنے اخبار میں لکھتے ہیں :

’’ہمارے واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی۔ مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا اُن میں سے اکثر تقویٰ، تعلق باللہ، دیانت، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے۔ سید نذیر حسین صاحب، مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر کے بارہ میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثرو رسوخ بھی اتنا زیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں۔ جو ان کے ہم پایہ ہوں …ہم اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کاوشوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھے۔ تقسیم ملک کے بعد اس گروہ نے نہ صرف پائوں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں اُن کے کام کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ سے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں … اور دوسری جانب 1953ء کے عظیم ترین ہنگاموں کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا 1956-1957ء کا بجٹ پچیس لاکھ کا ہو۔ ‘‘

(اخبار المنبر 23؍فروری 1956ء صفحہ 10)

اسی طرح وہ علماء اور عوام کی غفلت پر انہیں یو ں مخاطب کرتے ہیں کہ

’’تبلیغ واشاعت اسلام سے آپ کی بے اعتنائی کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ آج بلادِ مغرب ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں تبلیغ کے میدا ن پر احمدی حضرات قابض ہیں۔ یورپ اور امریکہ کے علاوہ ان کے مبلغین اُن علاقوں اور اُن جزیروں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں جن کا نام بھی ہمارے عربی مدارس کے اکثر طلباء نے نہیں سنا ہوگا۔ مثلاً فجی، ماریشس، ٹرینیڈاڈ، سیرالیون، نائیجیریا وغیرہ۔ ‘‘

( المنبر 16؍اپریل 1971ء صفحہ 5بحوالہ ماہنامہ الفرقان ربوہ نومبر1971ء)

خلیفہ بنانا خدا تعالیٰ کا کام ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’سارا عالم اسلام مل کر زور لگالے اور خلیفہ بناکر دکھادے وہ نہیں بنا سکتا کیونکہ خلافت کا تعلق خدا کی پسند سے ہے اورخدا کی پسند اس شخص پر خود انگلی رکھتی ہے جسے وہ صاحب تقویٰ سمجھتا ہے اس کے بعد پھر وہ متقیوں کا ایک گروہ اپنے گرد پیدا کردیتا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اپریل 1993ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد12 صفحہ256تا257)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ اردو بولنے والے احباب کی ملاقات کا پروگرام9؍جون 1995ء کو نشرہوا اور حضور رحمہ اللہ نے ’’کیا عوام کی تحریک سے خلافت بن سکتی ہے؟‘‘سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’عوام کی خلافت تو جمہوریت ہے اور وہ چل رہی ہے۔ اللہ اپنا خلیفہ خود بناتا ہے اور تیسری خلافت وہ ہے جو خدا کے خلیفہ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام انبیاء کی خلافت کا خدا نے خود انتظام کیا جو خلیفۃ اللہ کے بعد ہوتا ہے۔ نبی کے وصال کے بعد خلافت کا قیام خداتعالیٰ کی ذمہ داری ہے اور اس کے لئے علاوہ اور شرائط کے خلافت پر ایمان رکھنا بھی ایک شرط ہے۔ حضور نے آیت استخلاف کے حوالے سے فرمایا کہ یہ بہت خوبصورت مضمون ہے کہ خدا سے خلافت پانے کے لئے اچھے اعمال کرنے پڑیں گے اور تمہارے اندر سے خلیفہ بنائے گا جیسے آنحضرتﷺ کے بعد خدا نے خلافت جاری فرمائی۔ وہ خلافت جو خدا کی طرف سے قائم ہوتی ہے وہ دین کی تمکنت کو قائم کرتی ہے۔ یہ خلافت حقہ کی علامت ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک وقت میں دو خلیفہ نہیں ہوسکتے اس لئے بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ خلافت حقہ کی تین نشانیاں ہیں۔

(1)تمکنت دین۔ (2)خوف کی حالت کو امن اور بےخوفی کی حالت میں بدل دے گا۔ (3)ملت واحدہ کا قیام اور آیت کے آخر میں جس کفر کا ذکر ہے وہ خلافت کا کفر اور ناشکری ہے۔ تو اب بتائیں جب یہ لوگ خلیفۃ اللہ کا انکار کر بیٹھے ہیں تو خلافت انہیں کہاں سے ملے گی۔ آنحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق جب نبی اللہ ظاہر ہوگا تو پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہوگی۔

… میں نے مخالفین کو چیلنج کیا تھا کہ اگر تم واقعی اپنی نیتوں میں سچے ہو تو خدا سے دعا کرکے مسیح کو اتار لاؤ تو ہم تمہیں ایک کروڑ روپیہ انعام دیں گے۔ پھر ان سے یہ بھی پوچھو کہ تم کس طرح کی خلافت قائم کروگے۔ خلیفہ سنی ہوگا یا شیعہ یا بریلوی؟ انسان کے ہاتھوں بنائی ہوئی خلافت ناممکن ہے۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 26؍مارچ 1999ء )

پس خلافت سے محرومی کا شکار بھی اس آس میں ہیں کہ اے کاش اُن میں بھی نظام خلافت قائم ہو تاکہ وہ بھی ترقیات کا منہ دیکھیںاور اس قہر ومذلت کی زندگی سے نکل کر دین ودنیا میں سرخروئی حاصل کریں لیکن انہیں کون سمجھائے کہ اللہ تعالیٰ نے جس کے سر پر یہ تاج سجانا تھا وہ تو سجا چکا لیکن تم اندھیرے میں چمگادڑ کی طرح پھڑ پھڑا رہے ہو اور نور کی روشنوں سے کوسوں دور ہو۔

انہیں کون باور کرائے کہ خلافت حقہ اسلامیہ احمدیہ ہی صداقت کی وہ ارفع چٹان ہے جس سے قرآنی علوم کے چشمے جاری ہورہے ہیں۔ جو زندگی اور نجات کا چشمہ ہے اور مردہ روحوں کے لئے آب حیات ہے۔ جو اس شیریں چشمے سے پیے گا وہی ابدی زندگی سے ہم کنار ہوگا اور جو اس سے دوررہے گا وہ ناکامی، نامرادی اور حسرت کی آگ میں جلتا رہے گا۔

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے۔ اس لئے اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح اس سے وابستہ ہوجائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہوجائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہوجائے۔ ‘‘

(ماہنامہ خالد ربوہ سیدنا طاہر نمبر مارچ، اپریل 2004ء)

خلافت کے ساتھ وابستگی کا اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور خطبات کو باقاعدگی سے سن کر اُن پر عمل کیا جائے۔ حضور انور فرماتے ہیں :

’’ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو…جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نے خلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے، اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی اس کا مخاطب سمجھتے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍اپریل 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍مئی 2010ءصفحہ5)

اللہ تعالیٰ کا کس قدرفضل و احسان ہے کہ اُس نے ہمیں نعمت خلافت سے ہم کنار کیا ہے۔ اس خوش قسمتی پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ اس شکر کا بہترین طریق یہ ہے کہ ہم خلیفۂ وقت کی آواز کو سنیں، اس کی ہدایات کو سنیں اور پھر اُن پر عمل کریں کیونکہ خلافت کی آواز کو سننا باعث ثواب اور خلافت کی باتوں پر عمل کرنا دین و دنیا میں بھلائی اور سرخروئی کا موجب ہے۔ خلیفۂ وقت کی آواز وقت کی آواز ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ وقت زمانے کی ضرورت کے مطابق بولتا اور خدائی تقدیروں کے اشارے سمجھتے ہوئے لب کشائی کرتا ہے۔ اس کی آواز کے ساتھ الٰہی تائیدات ونصرت شامل ہوتی ہے۔ پس ہر احمدی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وقت کی آواز کو پہچانے اور اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اس آسمانی رسی کے ساتھ وابستہ کرلے۔

اللہ کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ کامل اخلاص ووفا کے ساتھ خلافت حقہ اسلامیہ کے سائے تلے اس انعام خداوندی سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ خلیفہ ٔوقت کے ہر ارشاد اورہر حکم پر لبیک کہنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوںتاکہ خلافت کی رہنمائی میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاقیام عمل میں آئے اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے۔ آمین

حسیں دلربا ہیں خلافت کی باتیں

خدا کی عطا ہیں خلافت کی باتیں

یہ تشنہ لبوں کے لئے زندگی ہیں

بہت جانفزا ہیں خلافت کی باتیں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button