متفرق مضامین

کورونا وائرس: پاکستان کیا کرسکتا ہے؟

(ڈاکٹر فہیم یونس۔ امریکہ)

دس نکاتی تجاویز

ڈاکٹرفہیم یونس صاحب انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہر ہیں۔ آپ کا یہ مضمون پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’دی نیوزآن سنڈے‘‘ میں 12 ؍اپریل 2020ء کو شائع ہوا۔ اس مضمون کا اردو ترجمہ افادہ عام کی خاطرقارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اصل انگریزی مضمون پڑھنے کےلیے درج ذیل لنک پر جائیں:

۔ نن

٭…٭…٭

اب تک دنیا کے پانچ ممالک نے اپنے ہاں نوول کوروناوائرس (Covid-19) میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد ایک ایک لاکھ سے زیادہ بتائی ہے۔

پاکستان میں ان کی تعداد پانچ ہزارسے بھی کم ہے۔

اتنی تھوڑی تعداد ظاہرکرتی ہے کہ پاکستان میں اس قسم کا کورونا پھیلا ہے جو نسبتاً کمزورقسم کا ہے اور اس کا واسطہ بھی ایسے لوگوں سے پڑا ہے جن کی قوت مدافعت بی سی جی (BCG) ویکسین اور باربارملیریا میں مبتلا ہونے کی بدولت پہلے سے مضبوط چلی آرہی تھی، ٹھیک؟ بالکل غلط

امریکہ میں ہم نے فروری کا مہینہ یہ سوچ کر ہی ضائع کردیا کہ ہمارے ہاں صرف 100کیس ہیں۔ (یہ یاد ہی نہ رہاکہ ہم نے تو ٹیسٹ ہی 500 سے کم کیے تھے )۔

اسی طرح ہم نےاپنی اس ’’کامیابی‘‘ کا سہرا مختلف نوعیت کے مقامی عوامل کے سرباندھ دیا، نہ جانتے ہوئے کہ اس کا باعث پہلے سے موجود عوامل اوران کا باہمی تعلق ہرگز نہ تھا۔

امریکہ نے ٹیسٹ کرنے کا اصل سلسلہ مارچ میں شروع کیا تو 10مارچ تک کووِڈ-19 کے مریضوں کی تعداد ایک دم 1000 تک جاپہنچی۔ 20 مارچ کو یہ تعداد 10000 اور شروع اپریل میں 350000سے بھی تجاوزکرگئی۔

تو، تبدیل کیا ہوا ؟ ہماراذہن ( Mindset) !

امریکہ ’’میں نہ ما نوں ” کے خول سے باہرنکل آیاتھا۔ پاکستان کو بھی لازماًایسا ہی کرنا چاہیے اورایک ایسے منصوبے کو اپناناچاہیے جو اس کے وسائل کےمطابق ہو۔

گذشتہ دو دہائیوں سےبھی زائد عرصے سے امریکہ میں ماہر متعدی امراض ( Infectious Disease Expert) کے طورپر کام کرنے اور سارس(SARS)، ایچ وَن این وَن(H1N1) نامی انفلوئنزا اور ایبولا کی وباؤں کے تجربے کی بنا پر مَیں جانتا ہوںکہ امریکہ میں جو کچھ کیا جاسکتا ہے، وہ محدود وسائل کےحامل ملک پاکستان میں کرنا ممکن نہ ہوگا۔ اس لیے میں اپنی ابتدائی تجاویزاس نقطہ ٔنظر سے پیش کروں گا کہ کیاکیا جاسکتا ہے، نہ یہ کہ کیا ہوناچاہیے۔

میں اس سلسلے میں مندرجہ ذیل دس نکات پر مبنی تجاویز پیش کرتا ہوں جن پر عمل کرکے ہم کووِڈ19 کے خلاف ایسا دفاع استوار کر سکتے ہیں جو ہماری دسترس میں ہو :

لوگوں کو احساسِ تحفظ دیں

لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔ اگرمیرا ٹیسٹ مثبت آجاتا ہے تو کیا ہوگا؟ کون میرے خاندان کی کفالت کرے گا؟ بِل کون ادا کرے گا؟ بیماری کادورانیہ کتنا ہوگا؟ کیا میری موت واقع ہو جائے گی؟

تسلیم کریں کہ لوگ واقعی اس قسم کے شدید خوفوں میں مبتلا ہیں۔

لیکن ’’میں نہ مانوں‘‘ کی کیفیت کو ترک کرنےکا یہ مطلب بھی نہیں کہ بالکل ہی حواس باختہ ہوجائیں۔

اعتدال میں رہیں، کہ یہی تحفظ اور تیاری پکڑنے کاطریق ہے۔

شعور اجاگر کریں

حفاظت کےبارہ میں قابلِ فہم اندازمیں معلومات فراہم کریں اوربارباردیں۔

مریضوں کوتسلی دیں کہ ٹیسٹ کا مثبت نتیجہ آنے پرنہ تو پولیس ان کے گھر پہ چھاپہ مارے گی اور نہ ہی ان کی مرضی کے بغیر انہیں ہسپتال یا قرنطینہ مرکزمیں محصورکردیا جائے گااور نہ ہی انہیں گھروں سےبےدخل کیا جائے گا۔

میڈیا کے ذریعہ ان افواہوں کاقلع قمع کریں جو میڈیا کواستعمال کرکے پھیلائی گئی ہوں۔

سائنسی بیانیہ جاری کرنے کی اجازت صرف متعدی امراض اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین کو ہونی چاہیے۔

یہ کام حکومت پرچھوڑ دیں کہ وہ عوامی فلاح وبہبود کے لیے کیےگئےاقدامات کی تفاصیل بتائے۔

فیس ماسک (FaceMask) پہنیں

حفاظتی بچاؤ کی غرض سے لوگوں کو ترغیب دیں کہ جب وہ گھروں سے باہرنکلیں تو فیس ماسک پہن کر پھریں جو کہ عام سرجیکل فیس ماسک ہو۔ ( مخصوص این95 ماسک پہننے کی ضرورت نہیں)

فیس ماسک کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آس پاس موجود لوگوں کو ماسک پہننے والے شخص ( کے ناک اور منہ ) سے خارج ہونے والے قطرات وبخارات (Droplet) سے محفوظ رکھاجائے۔

جن دنوں سارس (SARS) پھیلا ہوا تھا، ہانگ کانگ میں (جوکہ انتہائی گنجان آباد مقام ہے)90 فیصد لوگ اس قسم کے حفاظتی ماسک پہن کر باہرنکلاکرتے تھے۔

اگر اس قسم کے ماسک دستیاب نہ ہوں یا قوت خرید سےباہر ہوں تو گھرمیں موجود کاٹن کے کسی فالتو کپڑے کو سی کر خود ہی تیارکرلیں جو دو تہوں پر مشتمل ہوں۔

لاک ڈاؤن، حکمت کے سا تھ

پاکستان چین یا امریکہ نہیں۔ یہاں مکمل لاک ڈاؤن کرنا ان لاکھوں افراد کو حواس باختہ کر دے گا جو کچھ نہ کرنے کے نتیجے میں بھوک سے مرجائیں گے۔

اندورن شہر علاقوں اور گنجان آباد کچی آبادیوں (Slums) میں بھی مؤثرلاک ڈاؤن کرنا ممکن نہیں۔

اس لیے اتنا کافی ہوگا کہ جبکہ بنیادی ضروری ادارے، گورنمنٹ کے ہوں یا پرائیویٹ، اپنا کام جاری رکھیں، شادی بیاہ، جنازوں، کھیلوں، تفریحی محافل (موسیقی وغیرہ)، نیزمذہبی، اور تعلیمی اجتماعات پر کم از کم تین تا چار ہفتوں کے لیے پابندی عائدکردی جائے۔

فرنٹ لائن کوتحفظ دیں

اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہیلتھ کیئرورکرز کے (Health care workers) بچاؤ کی خاطر ان کے پاس خاطرخواہ تعدادمیں حفاظتی لباس (گاؤن، ماسک، دستانے، عینک وغیرہ) دستیاب ہوں۔ این 95 اور فیس شیلڈز (Face Shields)صرف طبی عملہ کے استعمال کے لیے مختص کردیں۔

گارمنٹ فیکٹریوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی روزمرہ مصنوعات بنانے کی بجائے حفاظتی گاؤن اور ماسک تیارکرنا شروع کردیں تاکہ ان کی فراہمی میں کوئی کمی واقع نہ ہونے پائے۔

پاکستان کو اس وقت خاص طور پر یہی مسئلہ درپیش ہے، جہاں 2000؍ افراد کے لیے صرف ایک نرس اور 1000؍ افراد کےلیے صرف ایک ڈاکٹر ہے(لہٰذا ان کا تحفظ یقینی بنائیں)۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب بالترتیب 3؍ اور 10؍گنا زیادہ ہے۔

ٹیسٹ اینڈ ٹریس (Test and Trace)

محدود وسائل کےحامل اور 81 ؍ملین آبادی پر مشتمل ملک، ایران نےدعویٰ کیاہےکہ وہ ملک کے 33 ؍ملین افراد کا ٹیسٹ کرچکا ہے۔

پاکستان کو، جوکہ 200؍ ملین سے زائد آبادی پر مشتمل ملک ہے، چاہیے کہ وہ آئندہ چند ہفتوں تک دس ہزار(10000) ٹیسٹ روزانہ کرے۔

ہر اس شخص کا (کورونا) ٹیسٹ کریں جو کسی کلینک یا ہسپتال میں بخار، گلا خراب، کھانسی، سانس کی گھٹن، اور سونگھنے یاذائقہ کی حس کے اچانک زائل ہوجانے کی علامات کے ساتھ آتا ہے۔

مریض کے کوائف حاصل کرلیں اور اگر مثبت رزلٹ آتا ہے تو اس مریض کےاہل خانہ سےرابطہ کریں۔ اعداد وشمار کے مطابق مریض کے 10 تا 20؍فیصداہل خانہ اس انفیکشن میں مبتلا ہو سکتےہیں۔

اس کے بعد مریض سے ملنے جلنے والے افراد کا پتہ لگا کر ان کے ساتھ بھی یہی عمل دہرائیں اور یہ عمل وسیع ترکرتے چلے جائیں۔ اس طریق کو کانٹیکٹ ٹریسنگ (Contact Tracing) کہاجاتاہے، اسی کے اصولوں پر یہ عمل جاری رکھاجائے۔

قرنطینہ (Quarantine)

جہاں تک ممکن ہو کووِڈ 19 کے مثبت ٹیسٹ والے افراد کوان کے گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کریں تاکہ پہلے سے محدود وسائل کے حامل ہسپتالوں کومزید بوجھ تلے دبنے سے بچایا جا سکے۔

پاکستان کے ہسپتالوں میں بستروں کی شدیدقلت ہے۔ ہر 1000؍افراد کے لیے عام بستر صفراعشاریہ چھ (0.6)اور انتہائی نگہداشت کا اس سے بھی کم یعنی صفراعشاریہ صفرایک (0.01) بستر فی ہزارافراد دستیاب ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان کی تعداد 10تا 20گنا زیادہ ہے۔

مریضوں کو ہدایت کی جائے کہ گھر میں رہتے ہیں تو 10 تا 14دنوں تک الگ کمرہ میں رہیں، غسل خانہ، بیت الخلاء بھی جدا رکھیں۔

اگر افرادِ خانہ کی تعداد زیادہ ہے یا گھرچھوٹا ہے تو چھت سے فرش تک ایک سکرین یا بھاری پردہ لٹکا کر آپس میں کمرہ تقسیم کرلیں تاکہ افراد خانہ سےبراہ راست سامنا ہونے سے محفوظ رہا جائے۔

اگر مریضوں کوگھرکے اندرچلنا پھرناہو تو لازماًماسک پہن کرایساکریں۔

نیبولائزر( Nebuliser) کا استعمال

پاکستان کی تقریباً 10 فیصد آبادی کو دمہ کا مرض لاحق ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگ نیبولائزرمشین (Nebuliser) استعمال کرتے ہیں اور انہیں اس بات کا علم نہیں کہ بظاہر معمول کی بنیادپر کیاجانے والا یہ عمل لاکھوں کی تعداد میں وائرس کوفضا میں پھیلا سکتا ہے۔

چونکہ کووِڈ19کے مریضوں کی 25 فیصد تک کی تعداد میں کوئی ظاہری علامات نہیں ہوتیں اس لیے نیبولائزر استعمال کرنے والے تمام افرادالگ کمرے میں بیٹھ کر اس کا استعمال کریں اور بعد میں کمرے کو اچھی طرح سے صاف بھی کریں۔

وینٹی لیٹرز(Ventilators)

مزید وینٹی لیٹرز (مشینی آلاتِ تنفس ) خریدنے کی بجائے اس معاملہ پرپہلے بہت ہی سنجیدگی سے بحث کی ضرورت ہے تاکہ ایک واضح پالیسی اپنائی جاسکے۔

اعداد وشمار کے مطابق وینٹی لیٹرمشینوں پہ رکھے گئے مریضوں میں سے 50 فیصد سے بھی کم مریض جانبر ہوپاتے ہیں۔ پاکستان جیسے کم وسائل والے ملک میں یہ شرح اور بھی کم ہوسکتی ہے۔

جبکہ یہ صورت حال ہے تو ہم پہلے ایسی چیز کے پیچھے کیوں پڑگئے ہیں جو دنیا میں کمیاب ہے؟

ایک وینٹی لیٹر کی قیمت میں ہم کتنے ہزارماسک خرید سکتے ہیں؟

کیا ہمیں اس ’’غیر-کووِڈ ” مریض کی ضرورتوں کا بھی کوئی احساس ہے جسے وینٹی لیٹر کی زیادہ ضرورت ہو اور اس کے زندہ بچ جانے کے امکانات بھی زیادہ ہوں بہ نسبت ایک ’’کووِڈ مریض” کے؟ ان دونوں میں توازن کیسے برقراررکھیں گے؟

ٹیکنالوجی

نت نئے طریق ایجادکرنے والی تخلیقی سوچ پیداکریں۔

کیا ڈاکٹر خودکو خطرے سے بچانے کی غرض سے دوسرے کمرے میں بیٹھ کر کھانسی والے مریض کے ساتھ وڈیو لنک یا فون کال کے ذریعہ بات کر سکتاہے؟

کیا کووِڈ کے کسی مریض کواس کے عدم تعاون کے شبہ میں ہسپتال میں بیڈ کے ساتھ باندھ دینے کی بجائے ایک نو ایجاد کردہ ایپ Appکے ذریعہ ٹریک کیا جاسکتاہے؟

کیا سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعہ کووِڈ19کمیونٹی کے ’’ہاٹ سپاٹس” کی (جہاں ان کی تعداد پائی جاتی ہو) نشاندہی کرنا ممکن ہے؟

اپنی ٹیکنیکل انڈسٹری کو ساتھ ملائیں، انہیں نت نئے ارزاں قسم کے حل تلاش کرنے کی دعوت دیں۔

حرفِ آخر

آخرپر یہ کہ کوئی بھی تجویز، خواہ وہ دولتمند ممالک میں بھی کیو ں نہ پیش کی گئی ہو، ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی اگر پوری قوم وائرس کی طرح آپس میں متحد نہ ہوگی۔

وائرس یہ نہیں پوچھتا کہ تم مرد ہو یا عورت، امیر ہو یا غریب، ترقی پسند ہو یا قدامت پرست، سندھی ہو یا پنجابی، پی ٹی آئی کے سپورٹرہو یا پی ایم ایل-ن کے؟

یہ صرف ایک سوال پوچھتا ہے:کیا تم انسان ہو؟

کووِڈ19نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم انسانی کے خلاف متحد ہے۔ اس لیے (بحیثیت انسان) تمام پاکستانیوں کا اس کے خلاف متحد ہونالازمی ہے۔ پاکستانی حکومت اور طبی ماہرین نہ توخود کامل ہیں اورنہ ہی ان کے فیصلے۔ لیکن ان کے پیغام پرہمارا متحد ہوجانا سستا ترین علاج ہے جوہماری دسترس میں ہے۔

اسی طرح اپنے سارے تفرقات کو ایک طرف رکھ دینا سب سے طاقت ور ویکسین ہے…اور یہ دستیاب بھی ہے۔

آیئے اس سے فائدہ اٹھائیں !۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button