متفرق مضامین

جھوٹ کے جواز کےتازہ فتویٰ کی صدائے بازگشت (قسط دوم۔ آخری)

(حافظ مظفر احمد)

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا کردار

دوسری طرف حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ ہیں جن کا دعویٰ مسیح و مہدی زماں ہونے کا ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ قرآن شریف سے سچ بولنے کے سوا کچھ ثابت نہیں۔ چنانچہ جب ایک پادری فتح مسیح نے اسی آیت النحل 107 کے حوالہ سے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ وہ اپنے ماننے والوں کو جھوٹ بولنے اور مذہب چھپانے کی تعلیم دیتا ہے تو آپ نے جواباً تحریرفرمایا:

’’جس قدر راستی کے التزام کے لیے قرآن شریف میں تاکید ہے میں ہرگز باور نہیں کر سکتا کہ انجیل میں اس کا عشر عشیر بھی تاکید ہو … قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بُت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ(الحج 31)

یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو۔ اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ(النساء : 136)

یعنی اے ایمان والو انصاف اور راستی پر قائم ہو جاؤ اور سچی گواہیوں کو للہ ادا کرو اگرچہ تمہاری جانوں پر ان کا ضرر پہنچے یا تمہارے ماں باپ اور تمہارے اقارب ان گواہیوں سے نقصان اٹھاویں…‘‘

(نورالقرآن نمبر2 روحانی خزائن جلد9 صفحہ402-403)

رسول اللہﷺ کا سچائی اور راستبازی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے جسے آپؐ نے اہل مکہ کے سامنے اپنی سچائی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا کہ

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (يونس 17)

پس مىں اس (رسالت) سے پہلے بھى تمہارے درمىان اىک لمبى عمر گزار چکا ہوں، تو کىا تم عقل نہىں کرتے۔

چنانچہ جب دعویٔ نبوت کے بعد آپؐ نےکوہ صفا پر اپنے تمام رشتہ داروں کو جمع کرکے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر جرار تم پر حملہ آور ہے تو میری بات مان لوگے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں کیونکہ ہمارا تجربہ آپ سے آج تک صدق و راستی کے سوا کچھ نہیں۔

(بخاری کتاب تفسیر، تفسیر سورہ اللھب)

اسی طرح اس زمانہ میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے سچائی کی اس تعلیم کے ثبوت میں اپنے دعویٰ مسیح سے پہلے اپنی راستباز زندگی کانمونہ بطور چیلنج پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اس نے ابتدا سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لیے یہ ایک دلیل ہے۔ ‘‘

(تذکرة الشھادتین روحانی خزائن جلد20 صفحہ64)

آپ کی سچائی اور راستبازی کاتو یہ عالم تھا کہ خواہ کیساہی نقصان ہوجائے سچائی کا دامن نہیں چھوڑنا۔ چنانچہ 1877ء میں آپؑ نے ایک اشتہار آریہ سماج کے مقابل تحریر کیا (جس میں اسلام کی فضیلت اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف بھی اشارہ تھا) اور اشاعت کے لیے امرتسر میں ایک عیسائی وکیل رلیارام کے مطبع خانہ بھجوادیا۔ اس اشتہار کے ساتھ مضمون کے چھاپ دینے کے لیے تاکید کا ایک خط بھی تھا۔ اور آپ کو یہ خبر نہ تھی کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانوناً ایک جرم تھا، جس کی سزا قوانین ڈاک کی رو سے پانسو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے۔ رلیارام نے مخالفانہ طورپرمخبر بن کر افسران ڈاک سے حضورؑ پر مقدمہ دائر کرا دیا۔

آپؑ کو گورداسپور کی عدالت میں طلب کیا گیا۔ وکلاء مقدمہ نے یہی مشورہ دیا کہ اس طرح اظہار دے دیاجائے کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیارام نے خود ڈال دیا ہوگا اور دو چار جھوٹے گواہ دے کر بریت ہوجائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر آپؑ نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہوگا۔ چنانچہ جب حاکم عدالت نےسب سے پہلےآپؑ سے سوال کیا کہ کیا یہ خط آپ نے اپنےپیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ آپ کا ہے۔ آپؑ نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لیے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا۔ اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو آپ کی طرف پھیر دیا اور آپؑ کوبری قرار دےدیا۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں کہ’’اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھ کو نجات دی۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5 صفحہ298-299)

علماء اہل سنت کی روش

الغرض ایک طرف حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا سچائی اختیار کرنے کایہ موقف ہے اوردوسری طرف علمائے دورحاضر کے یہ فتاویٰ کہ حسب ضرورت جھوٹ بولنا جائز ہے۔ جس سے یہ موازنہ نہایت آسان ہوجاتا ہے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟دراصل آخری زمانہ کے ایسے ہی علماء کے متعلق رسول اللہﷺ نے فرمایا تھاکہ

’’عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مَنْ عِنْدَهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ‘‘(شعب الایمان للبیھقی جزء 3 صفحہ317)

کہ اس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے ان سے ہی فتنے نکلیں گے اور ان میں ہی داخل ہونگے۔

ایسے علماء سوء کا تو یہ حال ہے کہ؂

خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں

انہوں نے قرآن و حدیث سے بھی جھوٹ کے جواز کے لیے تاویلیں نکال لیں جو ایک واضح دجل و فریب ہے۔ اور جیساکہ سورة کہف کی ابتدائی دس آیات کو رسول اللہﷺ نے فتنۂ دجال سے بچنے کے لیے ایک نسخہ قرار دیااس میں بھی دجال کی ایک علامت صریح جھوٹ بولنا لکھی ہے۔ فرمایا:

إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف 6)

کہ وہ اپنے عقائد میں محض جھوٹ بولنے والے ہونگے۔ پس ایسے لوگوں کا طرزعمل دجال سے ان کی مماثلت پیداکردیتا ہے۔

چنانچہ ان علماء کے فتاویٰ سے ایک تو اس فتنہ کا دروازہ کھلا کہ انہوں نے میاں بیوی کا آپس میں جھوٹ بولنا جائز قرار دے کر ایک نیا فتنہ برپا کردیا۔

دوسرا معاشرتی فتنہ یہ ایجاد کیا کہ لوگوں کے مابین صلح کروانے کے لیے جھوٹ جائز قرار دے دیا اوریوں آئندہ مزید فتنوں کی بنیادرکھ دی۔

تیسرےجنگ میں جھوٹ کے ذریعہ بین الاقوامی فتنوں کی بنیادڈالی۔

چوتھے جھوٹ کے جواز کےفتویٰ سے فرقہ وارانہ فساد کی بنیاد رکھ دی اور یوں معاشرتی، عالمی اور مذہبی امن بربادکرکےرکھ دیا۔

علمائے دور حاضراپنےایسے ہی غلط فتاویٰ احمدیت کی مخالفت میں بھی استعمال کرتے اوربے شمار جھوٹے الزامات احمدیوں پر لگاتے ہیں اورگزشتہ قوموں کے ہولناک انجام سے عبرت حاصل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے جن کا قرآن شریف میں بیان کا مقصد ہی نصیحت تھا۔

گزشتہ قوموں کا رویّہ اور انجام

رسول اللہﷺ نے سورت ہود وغیرہ میں پہلی قوموں کی تباہی کا ہولناک ذکر پڑھ کر فرمایاتھا کہ مجھے تو اس سورت ہود اور اس کی ہم مثل سورتوں نے(فکر) سے بوڑھا کردیا ہے۔

(ترمذی ابواب تفسیر القرآب باب ومن سورة الواقعة)

جب ہم سورة ہود پڑھتے ہیں تو اس میں حضرت شعیبؑ کے ذکر میں بیان ہے کہ جب انہوں نے اپنی قوم کو حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالحؑ اور حضرت لوطؑ کی طرح عذاب سے ڈرایا تو انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی تو حضرت شعیبؑ نے بالآخر انہیں یہ تنبیہ کی کہ تم بھی عنقریب جان لوگے کہ کسے وہ عذاب آلے گا جو اسے رسوا کرے گا اور جھوٹاکون ہے؟ پس تم انتظار کرو میں بھی انتظارکرتا ہوں۔ (ہود:90تا94)

حضرت لوطؑ پر جب ان کی قوم نےسخت جھوٹا اور متکبر ہونے کا الزام لگایا تو انہوں نے متنبہ کیا کہ وہ آنے والے کل کو ضرور جان لیں گے کہ کون سخت جھوٹا اور متکبر ہے۔ (القمر:26-27)

پھر قرآن شریف کے مطابق جھوٹ بولناظلم ہے تو سچے کو جھٹلانا سب سے بڑا ظلم۔ چنانچہ اسی طرح سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے نشانات کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرلے۔ ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے رک جائیں، ضرور سخت تکلیف دہ عذاب میں مبتلا کریں گے کیونکہ وہ روگردانی کرتے تھے۔ (الانعام :158)

دورحاضر کے علماء نہ صرف وقت کے امام کو جھٹلاتے ہیں بلکہ جماعت احمدیہ پریہ جھوٹےالزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ کلمہ یا ختم نبوت اور جہاد وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے یا حضرت بانیٔ جماعت کو رسول اللہﷺ کے برابر درجہ دیتے ہیں اورظاہراً محمدرسول اللہﷺ کا کلمہ پڑھنے کے باوجوددل میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعودؑ مراد لیتے ہیں۔ حالانکہ احمدی کلمہ گو توحیدباری تعالیٰ و رسالت مآب اورہرقسم کےجہاد کے اس کی شرائط کے ساتھ قائل اوراس پر عامل ہیں۔ آنحضرتﷺ کو خاتم النبیین یقین کرتے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی دعوت مباہلہ

اسی پہلو سے10؍جون 1988ء کوجماعت احمدیہ کے چوتھے امام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے احمدیوں پراس طرح کے الزام لگانے والے علماء وغیرہ کوعام دعوت مباہلہ کاچیلنج دیاتھا کہ وہ مقابلہ پرآکریہ اعلان کریں کہ

’’…ہم یقین رکھتے ہیں کہ جماعت جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم محمد رسول اللہﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں تو ہرگز محمد رسول اللہؐ کا کلمہ نہیں پڑھتی بلکہ اپنے دل میں مرزا غلام احمد قادیانی مراد لیتی ہے اور اسی کی رسالت اور صداقت کی شہادت دیتی ہے…اے خدا تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہےاس پر اپنا غضب نازل فرما اور اس کو ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنا اور اس طور سے ان کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس…کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 ؍جون 1988ء)

لیکن آج تک کسی کومباہلہ کو قبول کرنےکی ہمت نہیں ہوئی اور ایک جنرل ضیاء الحق جس نے ذاتی مخالفت سے احمدیوں پر مذہبی پابندیاں عائدکرکے اذانیں تک بندکردیں۔ اس کےلیے مباہلہ قبول کرنے کی بھی شرط نہیں تھی بلکہ اس کا جماعت کے خلاف مخالفانہ منصوبے جاری رکھنا ہی مباہلہ قبول کرنے کے مترادف قرار دیاگیا تھا۔ امام جماعت احمدیہ نے ان کے متعلق فرمایا:

’’چونکہ تمام ائمة المکفرین کے امام ہیں اور تمام اذیت دینے والوں میں سب سے زیادہ ذمہ داری اس ایک شخص پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کیے ہیں…ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا۔ اس کا اپنے ظلم و ستم میں اسی طرح جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج کو قبول کر لیا۔ ‘‘(خطبہ جمعہ حضرت خلیفة المسیح الرابؒع مورخہ یکم جولائی 1988ء)

چنانچہ اس ڈکٹیٹرظالم کاجو انجام 17اگست 1988ء کو ہوا وہ دنیا کے سامنے ہے۔ ؂

آخر مرزا سچّا نکلا آخر ملاں نکلا جھوٹا

جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا

پس جماعت احمدیہ وہ مظلوم جماعت ہے جس کی تمام تر مخالفانہ سرگرمیوں کی بنیاد خالصةً جھوٹے پراپیگنڈا پر مبنی ہے اس لیے انصاف پسند اور اہل بصیرت لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کی اصل کتب کا مطالعہ کریں تاکہ مولویوں کے جھوٹ کا پول کھل جائے اور جو لوگ اس تحقیق حق کی کوشش کرتے ہیں انہیں لازما ًسچائی نصیب ہوتی اور صداقت کا بول بالا ہوتا ہے اور ایسی بے شمار زندہ مثالیں جماعت احمدیہ میں موجود ہیں۔

جماعت احمدیہ کی ترقیات بانی جماعت کی سچائی کی آئینہ دار

ہمارے اس بیان سےجھوٹ کے جواز کے مسلک پر قائم مولوی حضرات کے جھوٹے الزامات کی قلعی تو کھل جاتی ہے۔ مگر ان کے دعویٔ مسیح و مہدی کی حقیقت کے بارہ میں اگر پھر بھی تشنگی باقی ہوتو صاحب بصیرت کے لیے یہی ایک آیت قرآنی کافی ہے:

وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ (المومن 29)

اگر وہ جھوٹا نکلا تو ىقىناً اُس کا جھوٹ اُسى پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہوا تو جن چىزوں سے وہ تمہىں ڈراتا ہے ان مىں سے کچھ ضرور تمہىں آپکڑىں گى۔

پس حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ اگرنعوذباللہ جھوٹے ہوتے تو ان پر جھوٹ کا وبال پڑتا مگر گزشتہ صدی میں ان کی جماعت مسلسل رُوبترقی ہے۔ یہ عالمگیر جماعت213؍ممالک میں لاکھوں سے کروڑوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ دنیا کی 75زبانوں میں یہ قرآن کریم کے تراجم شائع کرواچکے ہیں۔ دنیاکے 96ممالک میں جہاں ان کے مضبوط مشن ہیں وہاں کروڑوں افراد تک لٹریچر کے ذریعہ اسلام کا پیغام امن و محبت قولاً و فعلاً پہنچا رہے ہیں۔ جہاں تک جدید ذرائع سے اسلام کا پیغام پہنچانے کا تعلق ہے تو ربع صدی سے جماعت احمدیہ کا عالمی ٹی وی اسٹیشن MTAجاری ہے۔ ایم ٹی اے کے اردو، عربی، انگریزی اور افریقن چینل کے ذریعہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ساری دنیا میں دین حق کی تبلیغ قرآن کی صداقت اور رسول اللہﷺ کی سیرت کے علاوہ اسلام پر اعتراضات کے جواب دیے جارہے ہیں۔ ایم ٹی اے پر دنیا کی 18؍زبانوں میں امام جماعت احمدیہ و خلیفة المسیح کا خطبہ ہر جمعہ لائیو نشر ہوتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی ویب سائیٹ الاسلام پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔ اور48زبانوں میں آن لائن تراجم قرآن استفادہ کے لیے موجود ہیں۔ ان کے علاوہ حضرت بانیٔ جماعت کی جملہ کتب اوربیسیوں دیگر کتب بھی موجود ہیں۔ ایم ٹی اے کے علاوہ برطانیہ میں وائس آف اسلام کے نام سے ریڈیو اسٹیشن قائم ہوچکا ہے۔ جس کے علاوہ 20؍ریڈیو اسٹیشنز کے ذریعہ 77؍ممالک میں احمدیت حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں 714سکولز، 49ممالک میں ہیومینٹی فرسٹ صاف پانی، معیاری گھر مہیا کررہی ہے۔

آج کل کورونا کی عالمی وبا کے تکلیف دہ دور میں جماعت احمدیہ کا ادارہ ہیومینٹی فرسٹ ساری دنیا میں خدمت بنی نوع میں نمایاں ہے۔ اسی پر بس نہیں دنیا میں کہیں بھی زلزلہ ہو، طوفان و سیلاب یاکورونا وائرس جیسی کوئی اور آسمانی آفت، احمدی ان خدمات میں آگے ہوتے ہیں۔ افریقہ کے 9ممالک مالی، نائیجر، بینن، سیرالیون، بورکینا فاسو، آئیوری کوسٹ اور تنزانیہ میں ماڈل ویلیج بناچکی ہے۔ جن میں پانی، بجلی اور دیگر سہولیات زندگی مہیا کی گئی ہیں۔

مذکورہ بالا آیت کے دوسرے حصہ میں یہ ذکر ہے کہ اگر یہ مدعی سچا ہے تو اس کی بعض انذاری پیشگوئیاں تمہارے اندرپوری ہونگی۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کا ایک انتباہ!

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے سو سال قبل دنیا کوجو تنبیہ کی تھی وہ آج بھی اسی طرح سچ ثابت ہورہی ہے جیسے خود حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے دور میں مختلف شکل میں پوری ہوئی۔ آپ نے ساری دنیا کو خدا کی طرف بلاتے ہوئے یہ انذار بھی کیا تھا کہ

’’اے یورپ!تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا !تو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو !کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کیے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں ‘‘۔

(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ269)

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی یاد دہانی

28 ؍جولائی 1967ء میں ایک بار پھر وانڈزورتھ ٹاؤن ہال لندن میں حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے اپنے دورۂ یورپ کے دوران دنیا کو تاریخ انسانی کے تکلیف دہ المیہ سے آگاہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی مندرجہ بالاپیشگوئی کے مطابق عالمگیر تباہیوں سے متنبہ فرمایا اور اس انذار کے ساتھ یہ بشارت دی کہ اگر انسان توبہ و استغفار کرتے ہوئے اپنے مالک کی طرف رجوع کرکے اس کے احکام کو مانے تو ان تباہیوں سے بچ سکتا ہے پس ضرورت اس امر کی ہے کہ امام الزمان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کی امان میں آجائیں اور نوع انسانی عظیم تباہیوں سے محفوظ رہے۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ دہانی

اسی طرح ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے27 ؍جنوری2006ء کے خطبہ جمعہ میں اسی پیشگوئی کا ذکرکرکے بیان فرمایا:

’’پس جہاں یہ دنیا کے لیے انذار ہے ہمارے لیے بھی فکر کا مقام ہے کہ اپنے دلوں کو پاک کریں ہم بھی کہیں ان لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں اور ان لوگوں میں شامل ہو کر خدا کے حضور حاضر نہ ہوں جن کے دامن پر کسی بھی قسم کا داغ ہو۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا تھا یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ خدا کے پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اگر اب بھی ہم نے ہر ایک تک پیغام پہنچانے کی کوشش نہ کی تو علماء یا دوسرے لوگ تو پرے ہٹ رہے ہیں یا علماء بگاڑ رہے ہیں یا لیڈر بگاڑ رہے ہیں۔ انسانیت کے ساتھ ان کو کوئی ہمدردی نہیں لیکن ہمارا بھی جوانسانیت کے ساتھ محبت اور ہمدردی کا دعویٰ ہے یہ صرف زبانی دعویٰ ہوگا۔ پس دنیا کے ہرکونے میں، ہر احمدی کو، ہر شخص تک، ہر بگڑے ہوئے تک، یہ پیغام پہنچاناچاہیے کہ اپنے پیدا کرنے والے خدا کے آگے جھکے اور اس کے حکموں پر عمل کرے۔ اللہ سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین‘‘

نیز آپ نے دنیا کو امن عالم کی طرف توجہ دلائی اور متعدد کانفرنسز اور دورہ جات میں سربراہان ممالک کو بذریعہ خطابات اور خطوط امن کی طرف دعوت دی۔ جو ’’عالمی بحران اور امن کی راہ‘‘سے شائع شدہ ہیں۔

پس موجودہ وبا کے عالمی حالات میں ہمارا یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے عبادت کے حق ادا کریں اور استغفار اور ذکر الہٰی اور عاجزانہ دعا اور زاری سے اسے راضی کرنے والے ہوں کہ یہی سچے اور خالص ایمان کا تقاضا ہے۔

نوٹ:خاکسار اس مضمون کے حوالہ جات کی تخریج کےلیے عزیزم مکرم باسل احمد بشارت صاحب مربی سلسلہ کا ممنون اور ان کے لیے دعا گو ہے۔ فجزاہ اللہ تعالیٰ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button