یادِ رفتگاں

میری امی سلیم اختر صاحبہ

(بشارت احمد انیس۔ سوئٹزرلینڈ)

دِ ل پُر سوز کے ساتھ لکھ رہا ہو ں کہ میری امّی مکرمہ سلیم اختر صاحبہ زوجہ رانا محمدشہباز خاں صاحب مورخہ 17؍اکتوبر 2019ء اپنی بے شمار دعاؤں ،محبتوں اور یادوں کو چھوڑکر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

نمازِ جنازہ مورخہ18؍اکتوبر بروز جمعہ مکرم و محترم ناظرصاحب اعلیٰ نے مسجد مبارک ربوہ میں پڑھائی اور اسی روزحضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خصوصی شفقت سے بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں تدفین ہوئی۔ نمازِ جنازہ میں احمدی احباب کے علاوہ بہت سے غیر احمدی احباب نے بھی شرکت کی۔

علاوہ ازیں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ24؍اکتوبر2019ء مہدی آباد جرمنی میں نمازِ جنازہ غائب پڑھائی۔ والدہ صاحبہ نہایت اعلیٰ اخلاقِ حمیدہ کی مالکہ تھیں ۔آغازِعمر سے ہی بہت پاکیزہ صفات کی حامل تھیں ۔ آپ کے دا دا مکرم نواب خاں صاحب نمبردار فتح پور (انڈیا) سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔آپ کی پیدائش فتح پور میں ہی مکرم چوہدری اللہ رکھا صاحب کے ہاں 1943ءمیں ہوئی۔

پابند صوم و صلوٰۃ تو تھیں ہی اس سے بڑھ کر نمازِتہجد کی پابند تھیں اس شدّت ِشوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفات سے قبل اپنی پہلی اور آخری ایسی بیماری جس میں آپ کو کئی روز تک اکثر بستر پر ہی رہنا پڑا۔کئی لوگوں سے کہا کہ مجھ میں اب ہمت نہیں اس لیے میرے حصے کے دو نوافل ادا کیا کریں ۔چنانچہ کئی لوگوں نے آپ کی اس پیاری خواہش پر عمل کیااور اب بھی کر رہے ہیں ۔

آپ کی تعلیم صرف پرائمری تھی مگر لگتا تھا کہ کافی پڑھی لکھی ہیں ۔قرآنِ کریم کی تلاوت بہت خوش الحانی سے کرتی تھیں ۔اسی طرح بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا۔ ہم کئی جگہوں پر رہائش پذیر رہے ہر جگہ آپ سے احمدی بچوں کے علاوہ بہت سے غیر احمدی بچوں نےبھی قرآنِ کریم پڑھا۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کا منظوم کلام خصوصاًکلامِ محمود بڑے پیارے اور پُرسوز انداز میں پڑھتی تھیں ۔حضرت مصلح موعود ؓ کی نظم ’’قادیان کی یاد‘‘ توبہت زیادہ دہرائی جاتی تھی۔دراصل یہ اس محبت کا نتیجہ تھا جو آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اورآپ کے خلفاء سے تھی۔اور اِن باتوں کا وِرد دراصل اس لیے تھا کہ آئندہ بچوں میں بھی جماعت اور خلافتِ احمدیہ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی جائےکہ اسی میں ہماری نجات ہے۔ خلافت ہی ہماری جان ہے اور اس سلسلے میں ہر قربانی معمولی ہے۔اس کے عملی نمومہ کی ایک جھلک1974ء کے فسادات کا موقع بھی ہے۔جبکہ ہم سب کو مار دینے ،ملک سے نکال دینے ،سب کچھ جلادینے وغیرہ کی صرف دھمکیاں ہی نہیں مل رہی تھیں بلکہ پاکستان کے نام نہاد سرکاری مسلما ن ایسا کر بھی رہے تھے ۔ہمارے گاؤں میں بھی حالات بہت خراب تھے اور مخالفت کی انتہاتھی۔ہمارا مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا ۔ گھروں کے آگے لا تعدادلوگ جمع ہو کر غلیظ زبان استعمال کرتے اور نعرے لگا کر تنگ کرتے اسی وجہ سے والدہ صاحبہ کو بچوں کے ساتھ ایک دوسرے گاؤں میں اپنے عزیزوں کے ہاں ہجرت کرنا پڑی مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری مشکلات کے باوجود ہمیشہ بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا ۔بلکہ ان دنوں میں بھی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔

آپ کو صدر لجنہ اما ء اللہ کوٹ سوہندا اور صدر حلقہ بیت المبارک شیخوپورہ رہنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔نظامِ جماعت اور عہدیداران خصوصاً مربیان سلسلہ کی خدمت کر کے بہت خوش ہوتیں ۔اپنے گھر میں اجلاسات بڑے شوق سے کرواتیں ۔2018ء کا جلسہ یومِ مصلح موعود گھر پر ہوا تو گھر کو خوب سجایا اور ہمیں تصاویر بھی ارسال کیں ۔چندوں کی پابند تھیں ۔اسی طرح غرباء اور مستحقین پر ہمیشہ خرچ کرتی رہیں ۔اس خدمت کے لیے الگ غلہ رکھا ہوا تھاجس میں ہمیشہ پیسے ہوتے تھے اور حسبِ ضرورت خرچ کرتی رہتیں ۔

رشتہ داروں اور ہمسایوں کا بہت خیال رکھتیں ۔مہمان نوازی توآپ کا خاص وصف تھااس خدمت سے نہ کبھیتھکتیں نہ اکتاتیں ۔اگر کوئی زیادتی بھی کر جاتا تو نہ صرف در گزر کرتیں بلکہ بہت دفعہ ایسا بھی ہوا کہ دکھ دینے والوں کی تکلیف دہ باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہر رنگ میں مدد کی۔ غرباء کی ہمدردی کا جذبہ تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔غرض ایسا رویّہ اور انداز تھا کہ ہر کوئی متاثر ہو جاتا۔اپنے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں مگر پھر بھی کئی بیٹے اور بیٹیاں بنائی ہوئی تھیں اور وہ بھی آپ کو امّی کہتے تھے۔مثلاً فاروق بھائی قریباً ساری زندگی ہمارے گھر میں ہی رہے۔ ان کا واقعہ تو بہت دکھ بھرا بھی ہے ۔ہم جب خانقاہ ڈوگراں رہتے تھے تو ہمارا قالینوں کا کاروبار بھی تھا۔گھر کے ایک حصے میں مزدور کام کرتے تھے ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ شام کو تمام مزدور جا چکے ہیں جبکہ ایک نوعمر لڑکا وہاں بیٹھا ہے۔مَیں نے گھر آ کر امّی جان کو بتایا کہ ایک لڑکا وہاں بیٹھا ہے کیونکہ والد صاحب گھر پر نہیں تھے۔مَیں اور والدہ صاحبہ اُس کے پاس گئے۔امّی نے پوچھا بیٹے تم گھر نہیں گئے تو اس نے جواب دیا میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ اس کا چہرہ تو بتا ہی رہا تھاپوچھنے پر پتہ چلا کھانا بھی نہیں کھایا۔فوراً کھانا کھلایا اور والدہ کا ایسا پیار کہ فاروق ہمارے گھر کاہی ہو کر رہ گیااور خدا تعالیٰ کے فضل سے1983ء میں میرے ساتھ ربوہ جا کر قصرِ خلافت میں حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع ؒ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت بھی حاصل کی۔فالحمد للہ علیٰ ذالک

اپنے تما م بچوں سے بے حد محبت تھی۔اسی طرح اپنے خاوند سے بے مثال وفا کا نمونہ دکھانے کے ساتھ ساتھ آخر دم تک اُن کی خدمت کا حق ادا کر دیا ۔گذشتہ مارچ میں والد صاحب سخت بیمار ہو گئے۔یہاں تک کہ ڈاکٹروں کی طرف سے جواب ہی تھا۔ اس موقع پر والدہ صاحبہ نے بیرونِ ممالک میں مقیم تمام بچوں کو فوراً پاکستان پہنچ کر اپنے والد صاحب سے آخری ملاقات اور خدمت کرنے کی تلقین کی۔اگرچہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ انو ر ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاؤں سے معجزانہ شفاء عطا فرمائی ۔مگراس موقع پر اُن کا خدا کی رضا پر راضی رہنا،مضبوط حوصلہ اورصبر قابلِ تقلید تھا۔

امّی جان کی والدہ بچپن میں ہی وفات پا گئیں ۔جوان بھائی اور بہن بھی فوت ہوئے اَور بھی بہت سے دکھ اور مشکلات دیکھیں ۔مگر خدا کی رضا پر راضی رہتے ہوئے ہمیشہ صبر و رضا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا۔اپنے والد، دوسرے بھائیوں اور عزیزوں اسی طرح سسرال میں تمام عزیزوں کے ساتھ ہمیشہ پیار و محبت اور حسنِ سلوک سے پیش آئیں ۔با سلیقہ تھیں ۔اورخدا تعالیٰ کے فضل سے بہت فعال زندگی گزاری۔زندگی کے آخری ایّام تک بہت سے کام خود کرتی تھیں ۔گھرمیں بے شمار پودے لگائے ہوئے تھے اُن کو پانی دینے اور دیکھ بھال میں خود شریک رہتیں ۔

باپردہ ،نہایت سادہ، بے لوث اور تکلفات سے دُور، لباس سادہ مگر ہمیشہ صاف سُتھراہوتا تھا۔کھانا نہایت عمدہ اور لذیذ ہوتا تھا ۔حدیث شریف میں ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس ہدایت پر عمل اُن کے ہر فعل سے اُجاگرہوتا تھا۔ آٹا پیسنے کے لیے گندم چکّی پر بھیجنے سے پہلے ہمیشہ دھوتی تھیں اور عجیب بات ہے شاید تسلّی نہیں ہوتی تھی آخر عمر تک بھی یہ کام خود کرتی تھیں ۔چنانچہ مَیں جب گذشتہ مارچ میں پاکستان گیا تو کہنے لگیں گندم اوپر چھت پر پہنچا دیں ۔مَیں نے دھونی ہے۔

خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری والدہ ماجدہ کے درجات بلند فرمائے ، جنّت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں اُن کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button