متفرق مضامین

مرہم عیسٰی (قسط دوم)

(’’ایم چودھری‘‘)

Ointment of Jesus – Secret of Second Sacrament

مرہم عیسیٰ کا تعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے

آج مختلف مسیحی فرقے روس سے ایتھوپیا تک 20سے لے کر 71تک اجزاء ڈال کر وہ مرہم تیار کرتے ہیں جو ان کے نزدیک چٹان میں کھدے نئے مقبرے میں صلیب سے اتارے جانے کے بعد مسیح علیہ السلام کے جسم پر لگائی گئی تھی۔ ابتدائی کلیسیائی روایات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک مرہم تھی جو آپ نے حواریوں کو دی تھی۔ یہ وہی مرہم تھی جو واقعہ صلیب کے بعد آپ کے جسم پر لگائی گئی۔ کلیسیاء کے اعتقاد کے مطابق حواریوں نے یہ مرہم آگے اپنے شاگردوں کے ذریعے پھیلائی۔ اسے بیماروں کو لگا یا جاتا اور برکت کے لیے اس کی مالش بھی پورے جسم پر کی جاتی تھی۔

Dionysius bar Salibi نےایک رسالہOn the Holy Myron (The Discourse on the Divine life giving Myron)کے نام سے تحریر کیا۔ اس رسالے میں وہ اس مرہم کا سریانی تلفظ’’Muro‘‘ بیان کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ دو وجوہات کی بنا پر اسے’’Myron‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک تو اس کی خوشبو کی وجہ سے او ردوسرے اس لیے کہ ہر وہ تیل جو کئی قسم کے خوشبودار پودوں سے تیار کیا جائے Myronکہلاتا ہے۔ نیز خوشبو دار بوٹیاں بھی میرون کہلاتی ہیں۔ اس کی یہ بات البتہ مضحکہ خیز ہے کہ جو مرہم مسیح علیہ السلام کے جسم پر لگائی گئی تھی وہ مردوں کو Embalmکرنے والی تھی۔ کیونکہ ایک طرف تو طب کی کتابوں میں نکودیمس کے نسخے اس کی نفی کرتے ہیں او ردوسری طرف پہلی صدی کے فلسطینی بنی اسرائیل میں ایسی کسی رسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرون مصر کے بلسان (مُرمکّی) اور زیتون کے تیل سے تیار کی جاتی ہے اور جوزیفس کے حوالے سے کرتا ہے کہ بلسان یریحو سے بھی حاصل کی جاتی تھی اور یہودیہ میں عین گادی کے مقام سے بھی۔ اس کے بقول میرون کی روایت خروج باب30آیت 23تا 25کے تحت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جاری کی اور یہ روایت چلتی چلتی آئی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس نسخے کی جگہ نیا نسخہ جاری کیا۔ وہ یعقوب 15میں Oil in the name of lord کو یہی مرہم عیسیٰ قرار دیتا ہے۔

[نوٹ: مسیحی چرچ نے انہی مقدس تحریرات میں lordکو بڑے ایل (L)سے لکھ کر جو ابہام پیدا کیا ہے اس کی وضاحت میں جانے کا اس جگہ موقع نہیں۔ ]

مرقس میں بھی جس oilکا ذکر ہے اس کے نزدیک یہ بھی مسیح کا جاری کردہ نسخہ ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جب یہ تیل تیار کیا جاتا تھا تو حواری ایک مخصوص دعا کیا کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی دعا تھی جو لاطینی دستور ِرسولان میں یوں آئی ہے:

‘‘We thank you, (our) Father, for the fragrant ointment which you have made known to us through Jesus your servant. Glory to you, forever! Amen.’’

وہ لکھتا ہے:

«From this oil and from (the oil) that lord blessed and sanctified and gave to his apostles to anoint the sick and possessed, is evident that the apostles consecrated the Myron.››

Theophilus of Antioch.(ء181)نے اسےOil of Godلکھا ہے۔

(Theophilus of Antioch, To Autolycus, 1:12 ANF,II:92)

ارمنی اور آرتھوڈوکس کلیسیاوٴں کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ مرہم جو واقعہ صلیب کے بعدحضرت مسیح علیہ السلام کے جسم پر لگائی گئی تھی اسی سے Chrism یعنی میرون کا آغاز ہوا۔ کپڑے پر یا مرہم کی ڈبیا میں جو مرہم بچ پائی تھی اسے متبرک جان کر شاگردوں نے محفوظ کر لیا۔ اور کوہِ صیہون کے بالا خانے پر اس میں مزید زیتون کا تیل ڈال کر مرہم تیار کی۔

Unguentum Christiیعنی مرہم مسیح ابتداء سے ہی چرچ کی ایک معروف اصطلاح ہے۔ دیداخی اور لاطینی دستورِرسولان میں بھی اسے عیسیٰ علیہ السلام کے ذریعے ملنے والی مرہم لکھا گیا ہے۔ آرتھو ڈوکس چرچ کے لٹریچر میں اسے ’’Christ›s balm‘‘ یعنی مرہم مسیح لکھا گیا ہے۔ مثلاً لکھا ہے:

“Through chrismation we are anointed with a priestly uncation, a royal uncation. This uncation is Christ›s balm with which we are clotred. It is prepared out of forty-five kind of natural balms and aromatic herbs cooked in oil and wine.”

(Orthodox Synthesis: The unite of Theological thought by Joseph J.Allen. p.3)

کیتھولک فارمیسی میں مرہم عیسیٰ کو Emplastrum Manus ChristiاورEmplastum Manus DeiنیزEmplastrum Divinamلکھا ہے۔ ترکستانی اور ایرانی طب کی قرابا دینوں میں اسے مرہم عیسیٰ لکھا گیا ہے۔

قرابا دین یوحنا ابن ماسویہ (اصغر) کے نام سے مروّجہ قدیم لاطینی قرابا دین میں اس مرہم کو Gratia Dei (عطائے الٰہی) اور بعد کی قرابا دینوں میں Gracia Dei لکھا گیا ہے۔

پوپ فابیان (Fabian) نے بھی لکھا ہے:

Christ himself did so instructed the apostles at the time of institution of the blessed sacrament of the alter.

(ep.2 ad ommes Orientales Epicopus in intio. to. 1 cone)

مرہم الرسل

یہاں تک تو یہ بات طے ہوئی کہ یہ مرہم مرکب تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی تھی۔ آپ نے شاگردوں یعنی رسولوں کو دی۔ اس لیے یہ مرہم عیسیٰ ہے اور دیداخی کی دعا ءبھی اسے مرہم عیسیٰ ہی قرار دیتی ہے۔

لیکن چونکہ مسیح علیہ السلام کے بعد اسے رسول لے کر آگے چلے اور واقعہ صلیب کے وقت بھی اسے رسولوں نے ہی تیار کیا لہٰذا یہ مرہم د شلیخا۔ مرہم الرسل اور مرہم حواریین بھی کہلائی۔ بار صلیبی نے Dionysius the Araepagite کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے علم میں آیا کہ مرہم کی تیاری شاگردوں سے شروع ہوئی۔ اس طرح John the Roman کے نام ایک خط میں Severios لکھتا ہے کہ مرہم روح القدس کا تحفہ ہے۔ یہ مرہم کے الہامی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ ویٹکن کی قدیم قرابا دینوں میں بھی اسے مرہم ھبۃ اللہ یا عطاء الہٰی (Grate Dei) اورمرہم یدِ مسیح (Unguentum Manus Christi)لکھا گیا ہے۔ اسی طرح موسیٰ بن کیفا نے لکھا ہے کہ میرون مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہے اورمسیح بھی مرہم ہے کیونکہ خواتین نے آپ کو (واقعہ صلیب کے بعد) مرہم لگائی۔

بار صلیبی(Bar Salibi) کا یہ اصرار کہ مرہم روغنِ مُر (بلسان) پر زیتون کا تیل ڈال کر تیار کی جاتی ہے اگر اس طبی بحث کی روشنی میں جو ہم نے گذشتہ صفحات میں کی ہے نہ دیکھا جائے تو گمراہ کن ہو سکتا ہے۔

مرہم عیسیٰ میں بارہ اجزاء کی حقیقت بھی بار صلیبی کے بیان سے واضح ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ بشپ اس مرہم کو ایک خاص خفیہ مقام پر خفیہ طور پر تیار کرتاہے جبکہ وہ سفید لباس زیب تن کیے ہوئے ہوتا ہے۔ مرہم چھپا کر رکھی جاتی ہے اور اس پر پردہ پڑا رہتا ہے۔ 12عدد ڈیکن جو بنی اسرائیل کے 12قبائل اور 12شاگردوں کی نمائندگی کرتے ہیں اسے گھیرے میں لے کر چلتے ہیں۔

مرہم کا اثنا عشری یا مرہم الرسل کہلانا بھی 12کے عدد سے چرچ کی اس مناسبت کی وجہ سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ بار صلیبی(Bar Salibi) مرہم کے باہر نکالے جانے اور پھر میز پر رکھے جانے کے سفر کو مسیح کے، صلیب کے سفر کے مشابہ قرار دیتا ہے۔ اس کے بقول یہ مرہم جمعہ کے روز اس لیے تیار کی جاتی ہے کیونکہ جمعہ کا دن واقعہ صلیب کے قریب تر ہے اور موسیٰ بن کیفا کے مطابق عیدِ فسح سے مراد یہود کی عید فسح ہے جس سے دو دن قبل مسیح کو مرہم لگائی گئی۔ خلاصہ یہ کہ مرہم جمعرات کو تیارکی جاتی ہے کیونکہ یہ واقعہ صلیب کے دن کے قریب تر دن ہے اور تیسرے گھنٹے میں تیار کی جاتی ہے۔ بشپ اکیلا ہی اسے تیار کرتا ہے کیونکہ اسے پادریوں سے ہٹ کر بھی کوئی عمل کرنا ہوتا ہے اوربشپ اسے Extolکرتے ہوئے پانچ مرتبہ’’kyrie Eleision‘‘ کہتاہے او ریہ امر جائز نہیں کہ مرہم کی تیاری کے اسرار سر عام دکھائے جائیں نیز بت پرستوں اور بدعتیوں کو یہ مرہم دینے کی اجازت نہیں۔ بار صلیبی کے زمانے تک مرہم سال میں ایک مرتبہ بنائی جاتی تھی۔

خلاصہ یہ ہے کہ مرہم عیسیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے شاگردوں سے بنوائی۔ شاگردوں نے بنائی اور پھیلائی اور یہ وہی Emollient مرہم تھی جو کمرہ نما قبر میں مسیح علیہ السلام کے جسم پر لگائی گئی اور مسیح کی مرہم کہلانے کے ساتھ ساتھ رسولوں کی مرہم بھی کہلاتی تھی۔ اور زیادہ تر رسولوں کی مرہم کے نام سے قدیم مسیحی لٹریچر اور قدیم طبی دستاویزات میں جانی گئی۔

شاگردوں نےمرہم کیسےتیار کی؟

ایتھوپی کتابِ مرہم کے مطابق شاگردوں نے تمام اجزاء کو خالص زیتون کے تیل میں پگھلایا اور یروشلم میں بالا خانے میں اس پر دعا کی۔ ابھی تک آرمینین چرچ کا ماننا ہے کہ ان کی مرہم کا تسلسل سب سے پہلی مرہم سے چلا آتا ہے۔ اور یہ کہ اس پہلی مرہم کو شاگرد آرمینیاء لائے تھے۔ اسی طرح مصری چرچ کا ماننا ہے کہ شاگردوں کی تیار کی گئی بچی کچی مرہم مرقس اپنے ساتھ اسکندریہ لے آئے تھے جہاں بیسویں پوپ تک یہ ابتدائی نسخے کے مطابق ہی تیار ہوتی رہی۔ کلیسیا کی روایات کے مطابق شاگردوں نے ہی یہ طے کیا تھا کہ جب بھی نئی مرہم بنائی جائے تو پرانی کا کچھ حصہ اس میں ملا دیا جائے تاکہ برکت کا تسلسل قائم رہے۔

کونسل آف ٹرینٹ کی رو سے جو عیسائی اس بات پر ایمان نہ رکھے کہ یہ روایت مسیح علیہ السلام سے شروع ہوئی اور آپؑ نے خود اس کا آغاز فرمایا وہ کافر ہے۔ سینٹ باسل نے اسے « A tradition of the Apostles›› قرار دیا ہے۔

Tertullian لکھتا ہے:

‘‘When we have issued from the font, we are throughly anointed with a blessed unction, (a practice derived) from the old disciplines.’’

(Tertullian, On Baptism, 7 A.Q. 206 ANF,iii 672)

مرہم عیسیٰ کا ذکر قدیم مسیحی دستاویزات میں

یعقوب کا خط (5:14)

‘‘Let them pray for him and anoint him with oil in the name of Lord’’.

دیداخی اور لاطینی دستورِ رسولان

Regarding the ointment give thanks as this: We thank you, God, for the (fragrant) ointment you have made known to us through Jesus you servant.

پطرس اوربارہ حواریوں کےاعمال

(The Acts of Peter and the twelve Apostles)

مسیح لتھر گول (مردہ سنگ) کے روپ میں واقعہٴ صلیب کے بعد کسی دور دراز علاقے میں ہاتھ میں مرہم کا ڈبہ لیے ہوئے۔

(مخالف) Celsus

زندگی کے درخت سے سفید مرہم

Dionysius Bar Salibi

Unguentum Christmatis, et omne divinum unguentum

(یہ مصنف زور دیتا ہے کہ اگرچہ مروّجہ اناجیل میں ذکر نہیں تاہم یہ مرہم مسیح علیہ السلام سے چلی آنے والی سنتِ متواترہ ہے۔ )

پوپ فابیان (تیسری صدی)

رسولوں نے یہ مرہم مسیح سے پائی اور کلیسیا کو منتقل کی۔

سینٹ تھامس فرانسس

It was instituted immediately by Christ. (Suare 3 Euma……..)

انجیل فلپ

(1) The lord (did) every thing in a mystery, a baptism and a chrism……

(2) The Chrism is superior to baptism, for it is from the word ‹›Crhism›› that we have been called christians… and it is because of the chrism that ’’The Christ‘‘ has his name. For the Father anointed the son, and the son anointed the apostles, and the apostles anointed us…

لتھر گول

ناگ حمادی سے ملنے والی ابتدائی مسیحی دستاویز پطرس اور 12حواریوں کے اعمال میں مسیح علیہ السلام کو لوبان (Styrax) کا عصا تھامے، لتھر گول کا نام اختیار کیے ایک دور دراز علاقے میں طبیب کے روپ میں دکھایا گیا۔ آپ ؑکے زخم مندمل ہو چکے ہیں۔

جہاں وہ شاگردوں کو اس حال میں ملتے ہیں کہ ان کے ایک ہاتھ میں مرہم کا ڈبہ ہے۔ وہ یہ ڈبہ حواریوں کو دے کر ان کو لوگوں کے جسمانی علاج کا حکم دیتے ہیں تاکہ لوگ ان سے روحانی علاج کرانے پر بھی رضامند ہو سکیں۔

Lithergoel کا ترجمہ ماہرین نے’’غزال کی طرح کا پتھر‘‘ کیا ہے حالانکہ اغلب یہ ہی ہے کہ اصل ترجمہ Lithergeorیعنی مردہ سنگ (Spuma Argenti)ہے۔

مرہم عیسیٰ کے نسخے میں تبدیلی

بیسویں قبطی پوپ کے زمانے تک مرہم ابتدائی نسخے پر ہی تیار ہوتی رہی اور اسی دور میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ طبی قرابادینوں میں بھی شامل ہوا۔ پوپ تھیوفلوس Theophilusاور اتھناسیوس (328ھ) نے اس مرہم کے نسخے اور اسے بنانے کے طریق میں اس طرح کی تبدیلیاں کر دیں کہ نکودیمس کی مرہم اور اس کا نسخہ صرف طب کی کتب میں ہی باقی رہ گئے۔

قبطی روایت یہ تھی کہ مرہم واقع صلیب کے معاً بعد مرقس کے گھر پر بنائی گئی۔ مرقس پطرس کی دوسری بیوی کے فرزند تھے۔ مرقس ہی واقعہ صلیب کے بعد بچی کھچی مرہم لے کر اسکندریہ چلے گئے۔ چودھویں صدی کے قبطی بزرگ ابو البرکات ابن کبرنے اپنی کتاب مصباح الظلمۃ فی ایضاح الخدمۃ میں لکھا ہے کہ مسیح کے جسم پر (کمرہ نما) قبر میں جوایلو اور مر والا ’’حنوط‘‘ لگایا گیا تھا جو یوسف اور نکودیمس لائے تھے اور آپ کے جسم پر لگایا تھا اس میں سے کچھ حصہ شاگردوں نے رکھ لیا تھا اور اس میں خالص فلسطینی زیتون کا تیل ملا کر بالائی صیہون میں مرقس کے گھر میں اس پر دعا کی۔ یہ مقدس تیل شاگردوں میں تقسیم ہوا تاکہ جہاں جائیں لوگوں کو اس سے شفا دیں۔ شاگردوں کا یہ حکم تھا کہ جب بھی یہ مقدس مرہم بنائی جائے تو اس کے ساتھ کچھ حصہ پہلی مرہم کا بھی شامل کر لیا جایا کرے تاکہ متبرک تسلسل برقرار رہے۔

( ابو البرکات ابن کبر۔ مصباح الظلمة فی ایضاح الخدمة۔ جز اول۔ صفحہ 350مکتبہ الکاروز مصرز۔ 1971ء)

390 عیسوی کے لگ بھگ پوپ تھیوفلوس نے ایک تبدیل شدہ فارمولا کے تحت مرہم بنا کر دوسرے پوپوں کو بھجوائی۔ اسی پوپ نے اس کا دن جمعرات سے تبدیل کر کے جمعہ اور مقام اسکندریہ میں مرقس الانجیلی کے گرجے سے تبدیل کر کے مغربی صحراء میں مکاریوس کی دیر میں کر دئیے۔

ابن کبر نے بھی 328 کے بعد سے ایک نسخے پر اتفا ق نہ ہو سکنے کا ماتم کیا ہے۔

اما نسخ بسایطہ فھی تختلف باختلاف وجود بعضھا و عدم وجود البعض فی زمان دون الزمان، و البسایط الکاملة التی یحتاج الیھا برسمہ مختلفة النسخ، و مما وجد فی نسخة مجملًا غیر مفصل … و الذرور یختلف ایضًا … و لما رأیت ھذہ البسایط غیر متفق علی اوزانھا فیما طبخ من المیرون و لا علی توزیعھا فی کل طبخة، رأیت ان أذکر ما استقرت علیہ الحال فی عصرنا…

مرہم عیسیٰ اور واقعہ ٔصلیب

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دعویٴ نبوت کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یہودیوں نے محسوس کر لیا تھا کہ دلائل و براہین سے آپ کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ انہوں نے آپ کو راہ سے ہٹا دینے کے لیے آپ کے قتل کی منصوبہ بندی شروع کی۔ وہ آپ کو اس رنگ میں قتل کرنا چاہتے تھے کہ قتل کو کوئی مذہبی تقدس حاصل نہ ہو سکے اوریہودی شریعت کی ایسی سزا کے تحت آپ کو قتل کیا جائے جو جھوٹے نبی وغیرہ کے لیے مقررہے۔ فریسی اور صدوقی جو باہم سخت دشمن تھے اس معاملے پر معلوم ہوتا ہے کہ درپردہ آپس میں مل گئے تھے۔ جھوٹے نبی اور ساحر وغیرہ کی سزا صلیب تھی لیکن فریسی قتل کے بعد صلیب پر لٹکانے کو جائز سمجھتے تھے جبکہ ایسینی اور صدوقی زندہ شخص کو صلیب دینے کو بھی روا رکھتے تھے۔

جس سنہدرین(Sanhedrin) یعنی یہودی کونسل نے یہ فیصلہ کرنا تھا اس میں ایک معمولی اقلیت درپردہ عیسیٰ علیہ السلام کے ہمدردوں کی بھی تھی جن میں یوسف آرمتیاہ اور نکودیمس بھی شامل تھے۔ یہ اقلیت فیصلے پر تو اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی لیکن نقصان کو کم از کم رکھنے کی کوشش ضرور کرتی رہی۔ اگر فریسی طریق پر عمل ہوتا تو عیسیٰ علیہ السلام کے بچنے کے امکانات کالمعدوم تھے کیونکہ آپ کو تلوار سے مار دیا جاتا، سنگسار کر دیا جاتا اور پھر صلیب پر لٹکایا جاتا۔ صدوقی طریق پر زندہ صلیب دیے جانے کی صورت میں مخصوص حالات میں بچنے کے امکانات کافی تھے۔ اب سنہدرین نے ایک طرف تو ایسینی اور صدوقی طرز پر صلیب کا فیصلہ کیا اور فریسیوں نے اس لیے فریسی طرزپر صلیب دینے پر اصرار نہ کیا کیونکہ مسیح کا تعلق ایسینی فرقے سے تھا۔ دوسری طرف مقدمے کی کارروائی نے طول کھینچا اور صلیب دینے کے لیے صرف چند گھنٹے ہی یہود کے ہاتھ میں آئے۔ اگلے روز سبت تھا اور اس سے قبل اتار اجانا لازمی تھا۔ گورنر پیلاطوس، نکودیمس اور یوسف آرمتیا ہ ہر ممکن تدبیر کر رہے تھے کہ آپ کو کم از کم نقصان پہنچے۔ بہرحال یہود اور رومیوں کی طرف سےآپ پر ریاستی تشدد کے جو واقعات ہوئے ان کا خلاصہ یوں ہے:

1۔ جمعہ کی صبح کو یہودیوں کے سربراہ کیفا نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو(جو گرفتار کیے جا چکے تھے) بلایا۔ گفتگو کے شروع میں ہی ایک سپاہی نے آپ کے مبارک چہرے پر طمانچہ مارا۔

2۔ پھر بہت سے لوگوں نے مل کر آپ کو مکّے اور طمانچے مارے اور رسیوں سے باندھ کر پیلاطوس کے پاس لے گئے۔

3۔ آپ کو مختلف مقامات پر لے جایا گیا۔

4۔ سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا جس سے سر اور چہرے کی جلد زخمی ہوئی۔

5۔ صلیب کا ایک حصہ کچھ فاصلے تک اٹھوایا گیا اور آپ کو چڑھائی چڑھنا پڑی۔ آپ کے تمام جسم پر ہڈیوں اور نوکیلے ٹکڑوں والے کوڑے سے ضربیں لگائی گئیں۔

6۔ پھر شدید گرم موسم میں کم از کم ہاتھوں میں اور غالباً پیروں میں کیل ٹھونک کر آپ کو صلیب پر لٹکا دیا گیا۔

7۔ شدید استہزاء، تمسخر اور مار پیٹ کے نتیجے میں سخت جسمانی اور ذہنی اذیت کا آپ کو دن بھر سامنا رہا اور اعصابی دباوٴ شدید تر ہو گیا۔

8۔ شام کو آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی۔

9۔ صلیب سے اتارنے کے بعد آپ کے پہلو میں بھالا چبھویا گیا۔ جس سے خون بہ نکلنے سے نکودیمس کو امید پیدا ہو گئی کہ آپ کا علاج کیا جا سکتا ہے۔

گرفتاری سے لے کرصلیب سے اتارے جانے اور کمرہ نما قبر میں رکھے جانے تک کے دستیاب واقعات کو اگر ایک طبی رپورٹ کی صورت میں مدون کر لیا جائے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نازک جسمانی حالت کا نقشہ کافی حد تک سامنے آجاتا ہے۔

یہاں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ آپ زندہ تھے یا وفات پا چکے تھے کیونکہ ہم یہ ثابت کر آئے ہیں کہ emollient مرہم مُردوں کو لگانے اور مُردوں کے لیے طبیب بلوانے کا کوئی تصور بنی اسرائیل میں موجود نہیں تھا۔ بھالا لگنے سے تیزی سے بہ نکلنے والے خون نے بھی اس امکان کو ناممکن بنا دیا ہے کہ آپ کی وفات ہو چکی تھی اور ٹورن (Turin)کے کپڑے پر بھی اعلیٰ پائے کے محققین نے آپ کی زندگی کے آثار ہی دریافت کیے ہیں۔

واقعۂ صلیب سے کچھ روز قبل اور بعد پیش آنے والے واقعات کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ نکودیمس بروقت طبی امداد پہنچانے کے ایک پراجیکٹ کا انچارج تھا۔ جبکہ رومی حکام سے روابط رکھ کر علاج کا موقع فراہم کرنا یوسف آرمتیا ہ کے ذمے تھا۔ دونوں نے اپنا اپنا مفوضہ کام بطور احسن انجام دیا۔ ٹورن(Turin)کا کپڑا بتاتا ہے کہ نکودیمس نے کتان (السی) کا ایک کپڑا بچھا کر پہلے آپ کی پشت پر emollientمرہم لگائی۔ پھر آپ کو اس کپڑے کے نصف پر لٹا کر جسم کے سامنے کے حصے پر مرہم لگائی اوربقیہ نصف کپڑا سر کی طرف سے لا کر پیروں کی ایڑیوں تک اوڑھا دیا۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ جسم کو بار بار حرکت نہ دینی پڑے اور پرسکون طریق پر زخم جسم کو مرہم لگائی جا سکے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر عام طریق پر پٹی لپیٹی جاتی تو پہرے داروں کو شبہ ہو سکتا تھا۔ ا س طریق پر وہ مطمئن رہے کہ کفن پہنایا گیا ہے۔

طبی زبان میں بیان کریں تو آپ کا سر زخمی تھا۔ ناک کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی، چہرے پر مکوں اور طمانچوں کی وجہ سے سوجن تھی۔ جسم اور زخموں میں شدید درد تھا۔ اعضاء متورم اور سخت ہو چکے تھے، زخم تازہ تھے، تمام جسم پر کوڑوں کے زخم تھے، نیل تھے، گھاؤ تھے، پیروں میں آبلے تھے، سر کی ہڈی فریکچر تھی اور سر کی جلد میں کانٹوں کے زخم تھے۔ یعنی آپ بدترین ریاستی تشدد کا شکار تھے۔ مرہم عیسیٰ کے جو خواص گذشتہ دو ہزار برس سے زائد عرصے سے ریکارڈ کیے گئے ہیں وہ اس مرہم کو مندرجہ بالا کیفیات کے لیے معقول ترین طبی نسخہ قرار دیتے ہیں۔ یہ مرہم، سر کے زخموں، جسم کی سختی، اعصابی زخموں، سر کے فریکچر، دیگر اعضاء کے فریکچر، اورامِ جلد، مکوں اور طمانچوں کے اثرات، درد، زخموں کے نشانات وغیرہ میں دو ہزار برس میں سب سے ممتاز رہی ہے۔

اس مرہم میں اشق، زراوند طویل اور صمغِ بطم محلل اورام ہیں۔ مردہ سنگ فضّی مجفف اور جاذب ہے۔ مقل اور کندر حابسِ دم یعنی stypic ہیں۔ زنجار اور مردہ سنگ فضّی irritant یعنی جالی اور اکال ہیں۔ جبکہ لوبان اور مراور ایلوا دافع تعفن اور قاتل جراثیم یعنی antiseptic ہیں۔

بو علی سینا کے بقول ہر قسم کے نئے اور پرانے زخموں کی اصلاح کے لیے، اورامِ صلبہ و حالبہ کو تحلیل کرنے کے لیے، زخموں کو پیپ اور مردہ گوشت سے پاک کرنے کے لیے اور زخم میں تازہ گوشت پیدا کرنے اور زخم کے نشانات کو مٹانے میں کوئی دوا اس کے مثل نہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ صفات کسی زخمی کو لگانے والی مرہم میں ہی ہو سکتی ہیں۔ کسی مردے پر یہ مرہم لگایا جانا ویسے ہی غیر معقول بات ہے۔

مرہم عیسیٰ کے مفرد اجزاء کا تجزیہ بھی یہی بتاتا ہے کہ آپ یا آپ کے حواریوں نے زخموں اور اورام کو مدنظر رکھتے ہوئے اس قدیم مرہم کا انتخاب نہا یت دانش مندی اور ابتدائی مسیحی عقائد کے مطابق خدائی تائید کے ساتھ کیا تھا۔

مرہم عیسیٰ یہود اور رومن ریاستی تشدد کے خلاف ایک فردِ جرم کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ پولوس آف ایجنیا (Paulus of Aegina.625-690A.D) کی قرابادین میں بڑی تعداد میں یونانی اور رومی طب کے مرہم اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کے عناوین اور اجزاء واقعہ صلیب کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً

Ointment from ocher for those occasioned by judicial torture

میں مردہ سنگ فضی (Triturate with wine) قدرتی موم، زفت خشک و تر، صمغ صنوبر، بیروزہ اور زیت شامل ہیں۔ جو مرہم عیسی کے بھی اجزاء ہیں۔

The plaster of Nero, for blows and all pains of fleshy pants

نامی مرہم میں مردہ سنگ فضی، زیت کہنہ، مر تک (ceruse) جاؤ شیر مشرقی، مر، من اورلوبان شامل ہیں۔

The Barbaric plaster, for bloody sores, and for promating the formation of callus in fractures.

نامی مرہم میں من، مر، جاؤ شیر مغربی اور سرکہ شامل ہیں۔

جبکہ

The plaster of Nicolaus for bloody wounds and an agglutinant of sinuses

نامی کی مرہم میں مقل، ایلوا، مردہ سنگ فضی، موم قدرتی زرد، زفت، صمغ صنوبر، علک البطم، زیت کہنہ، اُشق (جو دھونی کے لیے مستعمل ہے)، نمک نوشادری، مرتک (مطروح) مر، کندر ذکر، جاؤ شیر مغربی سرکہ، زنجار، اور زرامند، سب مرہم عیسیٰ کے اجزاء ہیں۔ (کل اجزاء 41 ہیں)۔

The Plaster Kissinon, or wet plaster, for wounded nerves, punctures, especially chronic.

نامی مرہم میں زیت، کندر، سرکہ، Red Squama اور جاؤ شیر مشرقی کے علاوہ دو دیگر اجزاء شامل ہیں۔

قرابادینوں کے وسیع مطالعہ کے بعد ہم کہ سکتے ہیں کہ یونانی اور رومن مرہم سازی کی تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ:

ریاستی و عدالتی تشدد کے لیے مردہ سنگ، موم، صمغِ صنوبر اور زیت(کہنہ) موجود ہیں۔

جسم کے زیری حصوں پر چوٹ کے لیےمردہ سنگ، زیت کہنہ، امونیا قن (گوند اور نمک) مرتک۔ جاؤ شیر، مر اور لوبان شامل ہیں۔

خونی زخموں اور فریکچرز کے لیےمردہ سنگ، موم قدرتی، صمغ صنوبر، زیت، مرتک، مر، جاؤشیر مغربی اور سرکہ پائے جاتے ہیں۔

خونی زخموں کے لیےمقل، ایلوا، مردہ سنگ، موم زرد، صمغِ صنوبر، علک البطم، زفت وغیرہ۔ امونیا قن (اشق و نمک نوشادری دونوں) مرتک۔ مر، کندر ذکر (لوبان ذکر) جاؤ شیر مغربی، سرکہ، زنجار اور زراوند شامل ہیں۔

اب بھی اگر مرہم عیسیٰ کو جو طب کی کتب اور چرچ کے لٹریچر میں دو ہزار برس سے زائد عرصہ سے مسیح کے بدن پر لگنے والی شے کے طور پر بیان ہوئی ہے، ایک مردہ جسم پر لگنے والا ’’حنوط‘‘ ہی قرار دیا جائے تو کیا یہ بات درست ہوئی ؟

بقراط دیگر مصالحہ جات کے ساتھ میں سیسے اور تانبے، زنجار، چاندی کی ایک شکل (Flowers of Silver) اور زراوند، سب کو نہایت باریک پیس کر زخم پر لگانے کے لیے کہتا ہے۔

Bloody Sores کے لیے وہ مر، لبان، زنجار کو شراب ہموزن میں ملا کر لگانے کا مشورہ دیتا ہے۔

اپنی کتاب کےجزء 12 میں وہ زفت، راتینج اور موم کا بھی زخموں کے علاج کے ضمن میں ذکر کرتا ہے۔

Celsus پہلی صدی عیسوی میں خون کے روکنے کے لیے خام تانبے، لوبان، ایلوے، شراب اور سرکے وغیرہ کا استعمال کرتا ہے

زخموں کو agglutinateکرنے کے لیے مر، لوبان سرکے اور صمغ صنوبر سوزش کم کرنے کے لیے زنجار۔

دمبل کو پکا کر اور مواد کو خارج کرنے کے عمل کو بڑھانے کے لیے مر، جاؤ شیر، لوبان، صمغ صنوبر اور زیت وغیرہ اس کےہاں مستعمل تھے۔

زخم کا منہ بند کرنے کے لیے جاؤشیر، (علک البطم اور )بیروزہ، صمغ صنوبر اور زیت کہنہ۔

زخموں کی صفائی کے لیے، مر (بلسان) زنجار، صمغ صنوبر، لوبان (چھال اور گوند) اشق، مقل، بیروزہ، علک البطم، زفت اور مردہ سنگ۔

زخموں کے اندمال کے لیے وہ لوبان 4گرام، صمغ صنوبر8 گرام، زنجار یا تانبے کی کوئی اور شکل 16 گرام۔ مردہ سنگ80گرام۔ موم 400گرام اور تیل250ml ملا کر مرہم بناتا ہے۔

زخموں کو تیزی سے مندمل کرنے اور گویا سی دینے والے مرکب میں وہ مردہ سنگ اور پرانے تیل کو استعمال کرتا ہے۔

مرہم عیسیٰ کا نسخہ

مرہم عیسیٰ کا طبی نسخہ نہ صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں موجود تھا بلکہ اس کے تمام مفردات بھی دستیاب تھے۔ اور فلسطین میں دستیاب تھے۔ اور ان تمام مفردات کے زخموں کو درست کرنے کے خواص اس زمانے کی علمی سطح کے مطابق معلوم تھے۔

اس نسخے کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ مرہم نباتاتی، معدنی اور حیوانی اجزاء پر مشتمل ہے۔

نباتاتی اجزاء میں لوبان، ذکر (کندر)، مُر، اشق، مقل، جاؤ شیر، صمغ صنوبر، سرکہ، بیروزہ، موم تیل اور زراوند۔ حیوانی اجزاء میں صرف موم قدرتی ہے۔ اور معدنی اجزاء میں مردہ سنگ فضی اور زنجار شامل ہیں۔

یہ مرہم Isis، مرہم ایتھنیا، مرہم زہرہ، مرہم کیراسیوس، مرہم مندا، مرہم الرسل، مرہم عیسیٰ، مرہم شلیخا وغیرہ نیز مرہم divinum اور مرہم Gratia Dei وغیرہ کہلاتی رہی ہے۔

مسیحی اطباء اسے مرہم عیسیٰ، مرہم الہٰی، مرہم یدعیسیٰ اور مرہم عطائے الٰہی، مصری رومن اور یونانی اطباء مرہم زہرہ، مرہم Isis، مرہم ایتھنیا، مرہم معبدممفس ( اور شاید مرہم الیھود) اور صابی اطباء اسے مرہم مندا کا نام دیتے آئے ہیں۔

اس مرہم کے ناموں کا مذہبی تقدس لیکن واقعہ صلیب سے قبل شہرت حاصل نہ کر نا بتاتا ہے کہ اگرچہ یہ ایک گمنام مرہم کے طور پر موجود تھا لیکن اسے اصل شہرت واقعہ صلیب سے ملی اور اس واقعہ کے بعد یہ عام قرابا دینوں میں درج ہونے لگا۔

نسخے کی ساخت

وہ اجزاء جو ہر نسخے میں موجود ہیں وہ گوند اشق، موم قدرتی، جاؤ شیر مشرقی، جاؤ شیر مغربی، مقل، مُر، لوبان ذکر، زراوند (بالعموم طویل) اور مردہ سنگ( فضی) ہیں۔ خل الخمر(شرابی سرکہ) یا سفید شراب اور زیت کہنہ بھی ہر نسخے میں شامل ہیں۔

صمغ صنوبر، زفت، Colophonian Resin، علک البطم (پستے کا گوند) وغیرہ میں سے ایک یا دو جزو یا پھر بیروزہ۔

تانبے کی شکلوں میں سے Floris aeris، سوختہ تانبا، Squama aeris زنجار یعنی Aeruginis، Copper Scalesیا تو تیائے سبز میں سے کوئی ایک۔

بعض اجزاء کسی کسی نسخے میں ہیں جیسے ایلوا (مصبر)، منا (من یا سفید لوبان) Sal ammonice(نمک نوشادی)، مرتک (مطروح)، یعنی Ceruse PropolisاورCeruseوغیرہ۔

اگر اس خاکے کو مدنظر رکھ کر مرہم عیسیٰ کا نسخہ لکھا جائے تو وہ کچھ یوں ہو گا۔

(باقی آئندہ)

مرہم عیسٰی (قسط اوّل) – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)

مرہم عیسیٰ (قسط سوم) – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button