کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے۔ صرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو

حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب نے … ذکر کیا کہ لندن سے ایک شخص نے مجھے خط لکھا کہ لندن آکر دیکھو کہ جنّت عیسائیوں کو حاصل ہے یا مسلمانوں کو۔ میں نے اس کو جواب لکھا کہ سچی عیسائیت مسیح اور اس کے حواریوں میں تھی اورسچا اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ میں تھا۔ پس ان دونوں کامقابلہ کر کے دیکھ لو۔ اس پر حضرت حجۃ اﷲ نے بہ تسلسل کلام سابق پھرارشاد فرمایا:

اِن روحانی امور میں ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ نتیجہ نکال لے۔ یہ لوگ جو لندن جاتے ہیں۔ وہ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ بڑی آزادی ہے۔ شراب خوری کی اس قدر کثرت ہے کہ ساٹھ میل تک شراب کی دوکانیں چلی جاتی ہیں۔ زنا اور غیر زنا میں کوئی فرق ہی نہیں۔ کیا یہ بہشت ہے؟ بہشت سے یہ مراد نہیں ہے۔ دیکھو۔انسان کی بھی بیوی ہے اور وہ تعلقاتِ زوجیت رکھتا ہے اور پرندوں اور حیوانوں میں بھی یہ تعلقات ہوتے ہیں۔مگر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایک نظافت اور ادراک بخشا ہے۔ انسان جن حواس اور قویٰ کے ساتھ آیا ہے اُن کے ساتھ وہ ان تعلقاتِ زوجیت میں زیادہ لُطف اور سرور حاصل کرتا ہے بمقابلہ حیوانات کے جو ایسے حواس اور ادراک نہیں رکھتے ہیں۔اور اسی لیے وہ اپنے جوڑے کی کوئی رعایت نہیں رکھتے جیسے کتّے۔

پس اگر انسان ان حواس کے ساتھ سرور حاصل نہیں کر سکتے بلکہ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں پھر اُن میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہوا۔ یہ جو فرمایا ہے کہ مومن کے لیے ہی جنّت ہے یہ اس لیے فرمایا ہے کہ سچی راحت دنیا کی لذّات سے تب پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ساتھ ہو۔ جو تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور حلال و حرام کی قید کواُٹھا دیتا ہے وہ تو اپنے مقام سے نیچے گر جاتا ہے اور حیوانی درجہ میں آجاتا ہے۔

لندن میں جب ہائیڈ پارک میں حیوانوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں اور کوئی شرم و حیا ایک دوسرے سے نہیں کیا جاتاتو پھر ایک شخص انسانیت کو ضبط رکھ کر دیکھے تو ایسی بہشت اور راحت سے ہزار توبہ کرے گا کہ ایسی دیّوث اور بے غیرت جماعت سے خدا بچائے۔ ایسی جماعت کو جو ایسی زندگی بسر کرتی ہے بہشت میں سمجھنا حماقت ہے۔ اصل یہی ہے کہ بہشت کی کلید تقویٰ ہے۔ جس کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ نہیں اُسے سچی راحت کیونکر مل سکتی ہے۔ بعض آدمی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جن کو خدا پر بھروسہ نہیں اور اُن کے پاس روپیہ تھا وہ چوری چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی زبان بند ہو گئی۔ اور اُن (کفّار) کو جو بہشت میں کہا جاتا ہے۔ اُن کی خودکشیوں کو دیکھو کہ کس قدر کثرت سے ہوتی ہیں۔ تھوڑی تھوڑی باتوں پر خود کشی کر لیتے ہیںجس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسے ضعیف القلب اور پست ہمت ہوتے ہیں کہ غم کی برداشت ان میں نہیں ہے۔ جس کو غم کی برداشت اور مصیبت کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ اس کے پاس راحت کا سامان بھی نہیں ہے۔ خواہ ہم اس کو سمجھا سکیں یا نہ سمجھا سکیں اور کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے۔ حقیقت الامر یہی ہے کہ لذائذ کامزہ صرف تقویٰ ہی سے آتا ہے۔ جو متقی ہوتا ہے اس کے دل میں راحت ہوتی ہے اور ابدی سرور ہوتا ہے۔ دیکھو ایک دوست کے ساتھ تعلق ہو توکس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے۔ لیکن جس کا خدا سے تعلق ہو اُسے کس قدر خوشی ہو گی۔ جس کا تعلق خدا سے نہیں ہے اُسے کیا امید ہو سکتی ہے اور امید ہی تو ایک چیز ہے جس سے بہشتی زندگی شروع ہوتی ہے۔

ان مہذب ممالک میں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ جن سے پایا جاتا ہے کہ کوئی راحت نہیں۔ ذرا راحت کامیدان گم ہوا اور جھٹ خود کشی کر لی۔ لیکن جو تقویٰ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اُسے وہ جا ودانی خوشی حاصل ہے جو ایمان سے آتی ہے۔

دنیا کی تمام چیزیں معرض تغیّر وتبدّل میں ہیں۔ مختلف آفات آتی رہتی ہیں۔ بیماریاں حملے کرتی ہیں۔ کبھی بچے مر جاتے ہیں۔ غرض کوئی نہ کوئی دکھ یا تکلیف رہتی ہے۔ اور دنیا جائے آفات ہے۔ اور یہ امور سُکھ کی نیند انسان کو سونے نہیں دیتے۔ جس قدر تعلقات وسیع ہوتے ہیں اسی قدر آفتوں اور مصیبتوں کامیدان وسیع ہوتا ہے ۔ اور یہ آفتیں اور بلائیں انسان کے منزلی تعلقات میں ایک غم کو پچاس بنا دیتی ہیں۔ کیونکہ اگر اکیلا ہو تو غم کم ہو ۔مگر جب بچے،بیوی،ماں باپ،بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار رکھتا ہے تو پھر ذرا سی تکلیف ہوئی اور یہ آفت میں پڑا۔ اس قدر مجموعہ کے ساتھ تو اُس وقت راحت ہو سکتی ہے جب کسی کو کوئی بیماری اور آفت نہ ہو اور کوئی تکلیف میں نہ ہو۔

صرف مال موجبِ راحت نہیں ہے

یہ بات بھی غلط ہے کہ مال سے راحت ہو۔ نرے مال سے راحت نہیں ہے۔ اگر مال ہے صحت اچھی نہیں۔ مثلاًمعدہ خراب ہے تو وہ کیا بہشتی زندگی ہوگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی راحت کا باعث نہیں۔ سچی بات یہی ہے کہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے وہی ہر پہلو سے بہشتی زندگی رکھتا ہے۔ کیونکہ اﷲ قادر ہے کہ وہ بلائیں اور آفتیں نہ آئیں اور مالی اضطرار بھی نہ ہو۔ یا آئیں تو دل میں ایسی قوت اور ہمت بخش دے کہ وہ اُن کا پورا مقابلہ کر سکے۔

جس قدر پہلو انسان کی عافیت کے لیے ضروری ہے وہ کسی بادشاہ کے بھی ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ وہ سب ایک ہی کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے جسے چاہے دیدے۔

بعض لوگ اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ روپیہ پیسہ سب کچھ موجود ہیں مگر مسلُول مدقُوق ہو جاتے ہیں ۔اور زندگی انہیں تلخ معلوم ہوتی ہے۔ پس ان کروڑوں آفات کا جو انسان کو لگی ہوئی ہیں کون بندوبست کر سکتا ہے۔اور اگر رنج بھی ہو تو صبرِجمیل کون دے سکتا ہے؟ اﷲ ہی ہے جو عطا کرے۔

صبر بھی بڑی چیز ہے۔ جو بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے وقت بھی غم کو پاس نہیں آنے دیتا۔ بعض امیر ایسے ہوتے ہیں کہ عافیت اور راحت کے زمانہ میں بڑے مغرور اور متکبّر ہوتے ہیں اور ذرا رنج آگیا تو بچوں کی طرح چلّا اٹھے۔ اب ہم کس کا نام لے سکتے ہیں کہ اس پر حوادث نہ آئیں اور متعلّقین کو رنج نہ پہنچے؟ کسی کا نام نہیں لے سکتے۔ یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے۔ صرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو۔

(ملفوظات جلد3صفحہ333تا335۔ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button