متفرق مضامین

مرہم عیسٰی (قسط اوّل)

(’’ایم چودھری‘‘)

Ointment of Jesus

Secret of the Second Sacrament

’’صلیبی واقعہ کی اصل حقیقت شناخت کرنے کے لئے مرھم عیسیٰ ایک علمی ذریعہ اور اعلیٰ درجہ کا معیارِ حق شناسی ہے۔‘‘

(رازِ حقیقت۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ157)

امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ مئی 2020ء میں مرہمِ عیسیٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس چوٹ کی وجہ سے مجھے مرہم عیسیٰ لگانے کا جو تجربہ ہوا وہ بھی بتا دیتا ہوں کہ کچھ عرصہ ہوا میر محمود احمد صاحب ناصر نے سریانی نسخے کے مطابق بنا کے مجھے بھجوائی تھی۔ وہ مَیں نے اب استعمال کی۔ اسی طرح ہومیو پیتھک کریم کیلنڈولا (Calendula)ہے۔ بہرحال اصل فضل تو اللہ تعالیٰ کا ہے وہی شافی ہے۔ دوائیوں کا جو مَیں نے ذکر کیا تو وہ اس لیے کہ شاید دوسروں کو بھی فائدہ ہو جائے بعض دفعہ ضرورت پڑتی ہے۔ ‘‘

تحقیقی رسالہ ماہنامہ موازنۂ مذاہب کی اپریل تا جون 2012ء کی اشاعت میں مرہمِ عیسیٰ کے بارے میں ایک مفصل تحقیقی مضمون شائع کیا گیا۔ ادارہ الفضل انٹرنیشنل ماہنامہ موازنۂ مذاہب کے شکریہ کے ساتھ اس مضمون کو افادۂ عام کےلیے شائع کر رہا ہے۔ (مدیر)

٭…٭…٭

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’مرہم عیسیٰ حق کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان شہادت ہے۔ اگر اس شہادت کو قبول نہ کیا جائے تو پھر دنیا کے تمام تاریخی ثبوت اعتبار سے گر جاویں گے۔ ‘‘

(مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ 61 تصنیف حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی جماعت احمدیہ و مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام)

شیخ الرئیس بو علی سینا لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ بارہ دوائیں بارہ حواریوں کی طرف منسوب ہیں۔

(القانون فی الطب تالیف الشیخ ابو علی الحسین بن علی بن سینا الجزء الثالث۔ مکتبہ المثنی بغداد۔ صفحہ:133)

محمود محمد اسماعیل نے لکھا ہے کہ

’’مرہم الرسل کہ مسمیٰ است بمرہم سلیخہ و مرہم عیسیٰ و اجزائے ایں دواز دہ است کہ حواریین بجہتہ عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ السلام ترکیب کردہ اند۔ ‘‘

(مجموعہ بقائی جلد 2صفحہ:497)

یعنی مرہم الرسل جو کہ مرہم سلیخا اور مرہم عیسیٰ بھی کہلاتی ہےاور اس کے بارہ اجزاء ہیں حواریوں نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ترکیب دیا۔ حکیم ارزانی لکھتے ہیں کہ حواریین بحضرت عیسیٰ علیہ السلام ترکیب کردہ اند۔ کہ حواریوں نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ترکیب کیا۔

(طب اکبر فارسی جلد دوم صفحہ421باب امراض رحم مطبوعہ 1334ھ)

علاج الامراض میں حکیم محمد شریف خان نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔

(حکیم محمد شریف خان۔ علاج الامراض۔ مقالہ 19 صفحہ:425)

سید محمد حسین خان لکھتے ہیں کہ ’’لکھا ہے کہ یہ (نسخہ۔ ناقل) بارہ دوائیں رکھتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ السلام کے بارہ حواریوں کی تالیف ہے۔ ہر ایک حواری نے ہر ایک دوا کو اختیار کر کے ترتیب دیا ہے۔ ‘‘(یہ انہوں نے قرابادین رومی کے حوالہ سے لکھاہے)الشیخ داوٴد الضریر الانطاکی(وفات 1599ء) مرہم الحواریین کے تحت لکھتے ہیں کہ:

’’و یقال الرسل و ترجمہ فی القرابا دین الرومی بمرہم سلیخا۔ ‘‘

(داؤد انطاکی۔ تذکرۃ اولی الالباب زیر لفظ مرہم حواریین)

یعنی اسے (مرہم) الرسل بھی کہا جاتا ہے اور قرابا دین رومی میں اسے مرہم سلیخا ترجمہ کیا گیاہے۔

زیر نظر تحقیق

مرہم عیسیٰ کی دریافت نو کی تاریخ، دو ہزار برس سے زائدعرصہ پر محیط طبی لٹریچر میں سے اس مرہم کے قدیم نسخوں کی تلاش، مرہم کی وجہ تسمیہ اور مختلف نام، اصل نسخہ کی چھان پھٹک، ادویات کے اصل نام، خواص، وطن، کیمیائی تجزیہ، مرہم عیسیٰ کے حوالے سے ان کی خاص افادیت اور صلیبی زخموں سے ان کا تعلق، مرہم کی تیاری اور اس کے صلیبی نوعیت کے زخموں پر تجربات، ٹیورن(Turin) میں موجود چادر پر مسیح علیہ السلام سے منسوب عکس اور چادر پر موجود دیگر شہادتوں کے مرہم سے ممکنہ تعلق جیسے امور سے بحث کرتی ہے۔

تمہید

چٹان میں کھدے مقبرے میں مسیحؑ کے زخمی بدن پر مرہم ملنے سے لے کر آج کے دن تک طب اور مذہب ہر دو دنیاوٴں میں مرہم عیسیٰ کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ مرہم آپؑ کی زندگی کے بعض بہت اہم واقعات و معاملات پر اثر انداز ہوئی اس سے جڑے اسرار کو سمجھنے میں ہمیشہ نظر اندازی کا رویہ اپنایا گیا۔

مرہم عیسیٰ، مُرّ اور ایلوے کی مرہم، مرّملی مے یا پت پلانا، مرہم ناردین، زوفے پر سر کے کا چُسانا، دھونیاں اور بخور، مرہم نکودیمس، نکودیمس کا تیار کردہ تیل، یہ سب کچھ صلیب کے وقت رونما ہونے والے واقعات کی پہلی صدی عیسوی میں مروّج علم طب کی روشنی میں ایک بالکل اور تصویر دکھاتے ہیں۔

جالینوس (Galen)، دیسقوریدوس (Dioscrides)، سیلسس (Celsus)، روفس (Rufus) اوریباسیوس (Oribaseus)، آتیوس (Eetius)، پولوس آف ایجینا (Paul of Aegina) اسکرابونی لارجی (Ascraboni Largi)، نکولائی مرہم ساز اسکندرانی (Nicolai Myrepsi Alexandrini)، یوحنا ابن ماسویہ (الاصغر) اور ثابت بن قرة کی عظیم تصانیف میں اس مرہم کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ریاستی تشدد کے شکار شخص کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کی جا رہی تھی۔ جبکہ چوتھی صدی کے آبائے کلیسیاء اور ان کی اختراع کردہ جدید مرہم ایک مردے کے زندہ ہونے تک اس کے گوشت پوست کے پیکر کو انحطاط سے بچانے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

کلیسیاء کے سات اسرار میں سے اس دوسرے سرّ کی حقیقت کیا ہے۔ اس مضمون میں ہر ممکن جہت سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

مرہم عیسیٰ

مشرقی کلیسیائیں وقفوں وقفوں سے ایک مرہم بناتی ہیں جسے عام طور پر Holy Chrism کہا جاتا ہے۔ اسے مرہم مسیح (Balm of Christ) بھی کہتے ہیں۔ اس بات پر سب کلیسیاوٴں کا اتفاق ہے کہ یہ مرہم ابتداء میں حواریوں نے مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اتارے جانے کے بعد لگائی تھی۔ کلیسیاء کے سات اسرار میں سے یہ دوسرا سرّ ہے۔ اس کا اصل فارمولا چوتھی صدی عیسوی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

اسی طرح ایک مرہم طب کی کتب میں مختلف ناموں سے چلی آتی ہے۔ اس کے نسخے مسیح علیہ السلام سے دو سو برس قبل بھی ملتے ہیں۔ طبی کتب میں اسے مرہم حواریین یعنی حواریوں کی تیار کردہ مرہم اور مرہم عیسیٰ لکھا گیا ہے۔ یہ مرہم ریاستی و دوران ِ تفتیش وتنفیذتشدد کے شکار افراد کے زخموں کے علاج کے لئے استعمال ہوتی تھی۔

دونوں مراہم میں کچھ اجزا ءبھی مشترک ہیں تاہم زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کلیسیاء کو کبھی بھی اس بات سے انکار نہیں رہا کہ صلیب سے اتارے جانے کے بعد مسیح علیہ السلام کے جسم پر ایک مرہم لگائی گئی تھی بلکہ بعض قدیم لاطینی نسخوں میں یوحناباب نمبر19آیت 39میں بیان شدہ مرہم کو emollientلکھا گیا ہے۔ جو صاف ظاہر ہے کہ طبی مرہم ہی ہو سکتی ہے۔ اختلاف صرف اس قدر رہ جاتا ہے کہ مرہم زندہ جسم پر طبی نکتہٴ نگاہ سے لگائی گئی تھی یا مردہ جسم پر روح کے لوٹنے تک گلنے سڑنے سے بچانے کے لئے۔

کلیسیاء کو اس بات سے بھی انکار نہیں کہ اس مرہم میں طبی خواص موجود تھے۔ ظاہر ہے کہ جسم کو گلنے سڑنے سے بچانے کے لئے جو مرہم لگائی گئی وہ زخموں اور ضربوں اور دیگر صلیبی کیفیات کے لئے بھی یکساں مفید ہی تھی۔ گویا اختلاف مرہم کے طبی یا غیر طبی ہونے کا نہیں بلکہ صرف اور صرف مرہم لگانے کے مقصد کے بارے میں ہے۔ طبی کتب میں اس مرہم کی موجودگی اس شخص کو زخمی ثابت کرتی ہے جبکہ چرچ کا اصرار ہے کہ جسے مرہم لگائی گئی وہ عارضی طور پر مردہ تھا اور چونکہ اس کے پیروکار جانتے تھے کہ روح تین روز بعد لوٹ آئے گی لہٰذا وہ تین دن تک مرہم لگا کر مردہ جسم کو روح کی واپسی تک تازہ رکھنا چاہتے تھے۔

مسیح علیہ السلام جو ریاستی تشدد کا شکار ہوئے تھے۔ کیا زخمی تھے او رآپ کا علاج ہو رہا تھا؟جیسا کہ بسا اوقات صلیب سے اتارے جانے والوں کا علاج کر کے ان کو بچا لیا جاتا تھا

(A New Life Of Jesus By David Friedrich Strauss. Vol .I . London 1865. Page 410)

یا پھر تین روز تک آپ مرے ہوئے تھے اور آپ کے جسم کو روح کی متوقع واپسی کے لئے تازہ رکھا جا رہا تھا؟(جیساکہ طبی طور پر ممکن ہی نہیں) ہر دو صورتوں میں سب سے پہلے یہ جائزہ لینا پڑے گا کہ تاریخ کلیسیاء، اناجیل مروّجہ اور دیگر ماخذ ہمیں اس مرہم کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔

نکودیمس مرہم لایا

عام طور پر یوحناباب نمبر19آیت 39 کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے:

”And there came also Nicodemus, he who at the first came to Jesus at night, bringing a mixture of Myrrh and Aloe, about a hundred pounds.” (John 19 verse39)

ترجمہ:اور نکو دیمس بھی آیا۔ وہ جو کہ پہلے رات کو یسوع کے پاس آیا تھا۔ مُر اور ایلوا کا ایک مکسچر لے کر۔ تقریباًایک سو پاؤنڈ۔

یہاں پہلی چیز تو سمجھنے کی یہ ہے کہ مراد’’مُر اور ایلوے کا مرکب ‘‘ نہیں بلکہ ’’مُر کا مکسچر‘‘ اور ایلوا ہے۔ ’’مُر کا مکسچر‘‘کیا ہوتا ہے اناجیل مروّجہ اور دیگر مسیحی مأخذ یہ واضح کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن پہلی صدی عیسوی کی طب اس کا مکمل جواب فراہم کرتی ہے۔ ’’مُرکے مکسچر‘‘ سے مراد وہ تیل ہے جسے طبِ یونانی میں’’روغنِ بلسان‘‘اور لاطینی میں‘‘Olei Balsamum’’یعنی بلسان کا تیل کہتے ہیں۔ تھوڑے سے فرق کے ساتھ یہ وہی چیز ہے جسے ’’المیرون المقدس‘‘کہا جاتا ہے یعنی مقدس مُر۔ طبی نسخے میں لگ بھگ 12 اشیاء ہیں لیکن مختلف کلیسیاوٴں کے نسخہ جات میں 8سے لے کر 54تک اجزاء شامل کئے جاتے ہیں۔ پہلی صدی میں دوا فروشوں کے ہاں دستیاب یہ ایک گراں قیمت لیکن موجود چیز تھی۔ اور اس میں ایلوا شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نکودیمس نے مُر کاطبی تیل لیا۔ ایلوا لیا او رچٹان میں کھدے مقبرے میں پہنچ گیا تاکہ یہ اشیاء مسیحؑ کے مجروح جسم پر لگائے۔

رہا یہ سوال کہ نکودیمس جو مرہم لایا وہ علاج کے لئے تھی یا حنوط یعنی جسم کومحفوظ کرنے کے لئے تو اس کے لئے جب ہم پہلی صدی عیسوی کی طبی دستاویزات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہےکہ عبرانی و سریانی لفظ Muro اور یونانی لفظ Myron دراصل زخموں اور دیگر امراض کے لئے جِلد پر لگائے جانے والے تیل اور خوشبو دار تیل دونوں کے لئے ہی مستعمل تھا۔ یہ امر البتہ یقینی ہے کہ حنوط کے عمل سے پہلی صدی عیسوی کے فلسطینی بنی اسرائیل کا دُور دُور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ جب نارما سی ویلر (Norma C. Weller) نے سٹیفن بکلے (Stephen Backley) کو پہلی بار مرہم عیسیٰ کی تفصیل بھجوائی تو اس کا پہلا جواب تو یہ تھا کہ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جسے یہ مرہم لگائی گئی زندہ تھا لیکن بعد میں سٹیفن نے دعویٰ کیا کہ اس کی تحقیق کے مطابق پہلی صدی کے فلسطینی بنی اسرائیل حنوط کا عمل شاید کرتے تھے۔ برسوں بعد جب میں نے طبی مرہم عیسیٰ کے کچھ اجزاء کے نام لے کر سٹیفن سے پوچھا کہ کیا یہ اجزاء کبھی حنوط کے عمل میں استعمال ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بادی النظر میں تو نہیں لیکن البتہ شاید میں کبھی یہ ثابت کر سکوں کہ پہلی صدی کے فلسطینی بنی اسرائیل حنوط کے لئے ایسے مصالحہ جات استعمال کرتے تھے۔

(نوٹ:غالبا ًسٹیفن بکلے کا خیال پہلی صدی کے فلسطین کے یہودی مقبروں سے بڑی تعداد میں دستیاب ہونے والی بوتلوں کی طرف گیا ہے۔ جنہیں Unguentariaکہتے ہیں۔ ان بوتلوں میں خوشبودار تیل مقبروں میں اس مقصد کے لئے رکھا جاتا تھا کہ مقبرے کی فضا صاف رہے اور بد بو نہ پھیلے۔ )

اگر دعویٰ یہ کیا جا رہا ہو تا کہ مسیحؑ کے جسم پر خوشبو دار تیل ہمیشہ کے لئے دفن کرنے سے قبل خوشبو کے لئے لگایا گیا تھا تو یہ نسبتاً بہت معقول بات ہوتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ چرچ نے کبھی بھی یہ بات نہیں کی۔ ان کا اعتقاد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ مرہم جسم کو انحطاط سے تین روز تک روکنے کے لئے لگائی گئی تھی۔ لیکن اسی دعوے نے انہیں دو طرفہ مشکل کا شکار کر دیا ہے۔ ایک طرف تو طب کی کتابوں میں مرہم عیسیٰ کی واضح موجودگی اور دوسری طرف عمل حنوط میں خوشبو دار تیل کے استعمال کی سند کی غیر موجودگی نے ان کے دعوے کو کمزور کر دیا ہے۔

جو دلیل ان کے دعوے کو بہت ہی زیادہ کمزور کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مُر کا طبی تیل کبھی بھی حنوط کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ یہ ایک واضح طبی نسخہ تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مریم مگدلینی نے جو مرہم آپ کے پیروں پر ملا تھا یعنی جٹا ماسی (نار دین) کا تیل وہ بھی ایک طبی نسخہ تھا جو مرہم ناردین یا ناردین کا تیل کہلاتا تھا اور پہلی صدی عیسوی میں عام مستعمل تھا۔ پہلی صدی کے اطباء نے اس کا واضح ذکر کیا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعض قدیم انجیلی نسخوں میں’’مُرکے مکسچر‘‘ کی جگہ ’’مُر کی مرہم‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ یعنی مُر کی طبی مرہم۔ چنانچہ سریانی زبان کے ایک نسخے میں، جسےاناجیل کےتنقیدی مطالعہ میں (SYR (PALلکھا جاتا ہے اورجو دراصل ایک سریانی Lectionary ہے، مکسچر کی جگہ صاف طبّی مرہم (Salve) کے الفاظ ہیں۔ وہاں لکھا ہے:

”bringing a salve of myrrh and aloes.‘‘

اسی طرح لاطینی کوڈیکس (it(eمیں مکسچر کی جگہ (Malagmani (Malagmum لکھا ہے جس کا مطلب ہے۔ Emollient Palster اور ظاہر ہے کہ یہ ایک خالص طبّی اصطلاح ہے۔

Thomas F. Mc Danial نے لسانی شواہد کو پیش نظر رکھ کر کافی تدقیق کے بعد یوحناباب نمبر19آیت 39 کا ایک زیادہ بہتر ترجمہ پیش کیا ہے:

And Nicodemus, who at first came to Jesus by night, came bringing a flask of ointment (salve, Malagmum), a mixture of Myrrh and aloes, about a liter. Moaning/ Wailing.

(Notes on John 19:39, 20:5 and Matt 3:7 by Tom Macdaniel. http://tmcdaniel.palmerseminary.edu/)

عقل اورآرکیالوجی دونوں اس بات کی تائید میں ہیں کہ اس حالت میں مرہم ڈالنے کے لئےایک لیٹرکی Unguentariumکافی تھی اور چونکہ مسیح مقبرے میں‘‘نظر بند’’تھے لہٰذا قانون جن لوگوں کو مقبرے میں جانے کی محدود اجازت تدفینی رسوم کے پیش نظر دیتا تھا وہ صرف تدفینی Unguentarium ہی اند رلے جا سکتے تھے اور تدفینی Unguentariaایک لیٹر کے لگ بھگ سائز ہی کی فلسطینی یہود کے مقابر سے دستیاب ہوئی ہیں۔

مطلب یہ ہوا کہ مسیح کے لئے طبی مرہم حالات کے پیش نظر ایسی بوتل میں لے جائی گئی جسے دیکھ کر نظر بندی کی تنفیذکرانے والے چوکنے نہیں ہوئے اوریوں یہ Emollient Ointment مقبرے میں پہنچ گئی۔

لیکن یہاں بہت ٹھہر کر ایک اور بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تھامس کے تجویز کردہ ترجمے میں تو دراصل تین چیزوں کا ذکر نظر آ رہا ہے۔

(1)۔ A flask of Ointment( salve, malagmum) یعنی طبّی مرہم

(2)۔ A mixture of Myrrh یعنی مُرکا تیل

(3)۔ aloes یعنی ایلوا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نکودیمس ایک Unguentariumمیں Emollient salve۔ نیز مُر کا تیل، بمطابق طبی نسخہ اور ایلوا (محلول کی صورت میں) لے کرمقبرے میں داخل ہوئے۔

مُر کے تیل اور ایلوا کا تو طب کی کتب میں ذکر ہے لیکن فلاسک میں جو‘‘Emollient’’مرہم لے جائی گئی اس کا بھی کوئی ذکر موجود ہے؟

جب ہم لاطینی و یونانی طبی ذخیروں میں اس امر کی کھوج لگاتے ہیں تو یہ بات ہمیں دنگ کر دیتی ہے کہ مرہم نکودیمس (Unguentarium Nicodemi) اور نکودیمس کے تیل، Nicodemi Oleum کے نسخے وہاں موجود ہیں۔ Nicodemi Oleum کے نسخے میں

1.Seminum Seu

2.Summintatum

3.Hyperici

4.Lithargyri

5.Aloes hepaticoe

6.Tutiae Alexandrriae

7.Croci

8.Vini albi

شامل ہیں جبکہ Unguentum Nicodemi میں

9.Myrrhae

10.Sacracolle

11۔ .Mellis de Spumati

شامل ہیں۔ گویا مرہم حواریین (شلیخا)کےمروّجہ نسخے میں سے سلور آکسائیڈ، ایلوا، توتیا، سفید شراب، مُر، زراوند (Sacraclle)موجود ہیں۔ جبکہ ’’مُر کے تیل‘‘ میں مُر، علک البطم (Mastiches)، جاوٴ شیر مغربی، لبان کندر، اشق، مقل، صمغِ صنوبر، بیروزہ (Terebinthinae)، زراوند (Sarcocollae)، ناردین اور ایلوا شامل ہیں۔

جبکہ Unguentum Alabastaron میں مرہم عیسیٰ کے مروّجہ نسخہ میں سے صمغِ صنوبر، علک البطم، جاوٴ شیر مشرقی (galbanum)، لبان کندر(Thuris) زراوند (Clamitis Thymiamatis) اور ’’مُر کا تیل‘‘ موم اور مصالحہ جات شامل ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ‘‘alabastron’’ میں جو مرہم مقبرے میں لے جائی گئی تھی وہ بنیادی طور پر ’’مُر کا تیل‘‘ تھی جس میں نکودیمس کی تجویز پر توتیائے سبز (زنگار)، مردہ سنگ یعنی سلور آکسائیڈ، سفید شراب یا خل الخمر، زراوند اور ایلوا شامل کئے گئے تھے۔

یعنی مُر کے تیل میں سے:

(1)مُر(2) علک البطم(3) جاوٴ شیر (مغربی) (4) لبان ذکر(5) اشق (مغربی)(6)مقل الیھود(7) ایلوا(8)زیت اور نکودیمس کی تجویز سے اس میں موم ’’زراوند‘‘ صمغِ صنوبر، جاوٴ شیر (مشرقی)، لوبان (Styracis)، سلور آکسائیڈ اور توتیائے سبز یعنی کاپر آکسائیڈ نیز سفید شراب شامل کی گئی۔

اور یہ مرہمِ عیسیٰ کا مکمل نسخہ ہے۔ چاہے نکودیمس نے ہی مُرکے تیل سے کسی مختصر نسخے میں یہ اضافہ کیا یا پھر بعد میں اطباء نے ایک طویل نسخے سے 12 اجزاء کا انتخاب کیا۔ ہر دو صورتوں میں مرمریں بوتل کی مرہم۔ نکودیمس کے تیل، نکودیمس کے مرہم اور مُر کے طبی تیل میں مرہم عیسیٰ کا مکمل نسخہ سما جاتا ہے۔ مرہم الاباسترون کا جو پہلا حصہ نکولائی مرہم ساز نے درج کیا ہے وہ دراصل مرہم نار دین ہے۔ جو ایک دوسرے موقع پر مسیح کے قدموں پر لگائی گئی تھی۔

حنوط یا رفوت

Emollient Ointments کے نسخہ جات کو دراصل لاطینی طبی کتب میں Malagma کے نام سے درج کیا گیا ہے۔ جو نسخہ مر کے تیل میں نکودیمس کے تجویز کردہ اضافے شامل کر کے تیار کیا گیا وہ کس حد تک Malagmum کی اصطلاح پر پورا اترتا تھا۔ یہ جاننے کے لئے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے رومی طبیب Celsus کی کتاب De Medcina کی پانچویں جلد سے مستفید ہو سکتے ہیں جس کا آغاز ہی Malagmata سے ہوتا ہے۔ Malagmata کے نسخوں میں ہمیں تانبے کی مختلف حالتیں، صمغِ صنوبر اور زفت(و علک البطم) وغیرہ، اشق، مقل، موم، جاوٴ شیر (مغربی)، جاوٴ شیر (مشرقی)، مُر، لبان ذکر، زیت، خل (سرکہ)، بیروزہ، سیسے کی مختلف حالتیں اور سلور آکسائیڈ (Spuma Argenti) جبکہ اگر زخم زیادہ ہو، توزراوند وغیرہ مفردات کے طور پر ملتے ہیں اور یہی مرہم عیسیٰ کا مکمل نسخہ بھی ہے۔ Malagmata کے علاوہ Emplastrum، Unguentum، Cerutum اور Oliumکی ذیل میں بھی یہ مفردات ملتی جلتی تراکیب میں گروہوں میں یا الگ الگ بیان ہوئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ پہلی حالت طبی مرہم کی تیل ہے۔ پھر بتدریج موم او ردیگر اجزاء کے حوالے سے اسے نرم سے سخت حالتوں میں علاج کی سہولت کے پیشِ نظر تبدیل کیا جاتا ہے۔ مُر کے تیل ایلوے اور نکودیمس کی مرہم جس کے مجموعے یا اس میں سے انتخاب کا نام مرہم عیسیٰ ہے اور یہ لازمی طور پر ایلوے کے استثناء سے Emollient یعنی Malagmam ہے۔ غالباً اس لئے ایلوے کو یوحناباب نمبر19آیت 39 میں Emollient مرہم سے الگ کر کے بیان کیا گیا ہے۔

یوں مرہم عیسیٰ ایک ’’طبّی مرہم‘‘ ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور چٹان میں کھدے مقبرے میں زخموں، مار، رگڑ، فریکچر اور کانٹوں اور تیز آلات کے زخموں میں کام دینے والی مرہم کے لے جائے جانے کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے اور وہ حنوط نہیں بلکہ’’رفوت‘‘ ہے۔ رفوت عبرانی میں مرہم پٹی کو کہتے ہیں۔

کیا پہلی صدی کے فلسطینی اسرائیلی اور اپنے مردوں کے جسموں پر طبی Emollient مرہم لگانے کے لئے طبیبوں کو زحمت دیا کرتے تھے؟ صاف ظاہر ہے کہ حنوط نہیں بلکہ رفوت کا عمل مقبرے میں کیا جا رہا تھا۔ نکودیمس کے ’’رفوت‘‘کے بعد مسیح نہ صر ف چلتے پھرتے نظر آنے لگے بلکہ شاگردوں نے مرہم کے اثر کے تحت درد نہ کرنے والے زخموں میں انگلیاں ڈال کر بھی دیکھ لیا۔ یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ مرہمِ عیسیٰ کے سب اجزاء (ایلو کے علاوہ) Emollient ہیں۔ مزید یہ کہ ایلو، لبان ذکر اور سلور آکسائیڈ خون کے بہاوٴ کو روکتے ہیں۔ مُر اور کندر ذکر Agglutinative ہیں۔ زیت کہنہ، موم اور Propolis جو بعض صورتوں میں موم میں شامل ہو سکتا ہے۔ صالح گوشت اگاتے ہیں۔ مُر، لبان ذکر، تانبے کی اشکال، جاوٴ شیر مشرقی، صمغِ صنوبر Erodent ہیں۔ جبکہ تانبے کی اشکال مثلاً زنگار وغیرہ Inflammation کو دباتے ہیں۔

مرہم عیسیٰ کےنسخے کی تاریخ

یہاں سوال یہ ہے کہ مُر کے تیل میں نکودیمس کا اضافہ کیا پہلی بار تھا یا کوئی قدیم آزمودہ نسخہ تھا جس کے فوائد وہ اس موقع پر حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔ اگر وہ یہ نسخہ بعینٖہ لے کر اندر جانا چاہتا تو خاصا احتمال تھا کہ اسے روک دیا جاتا یا یہ تفتیش شروع ہو جاتی کہ مسیح کی ’’طبی وفات‘‘ ہوئی ہے یا ابھی زندگی ان میں باقی ہے۔

اس زاویہ ٔنظر سے جب ہم طب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک بار پھر دنگ رہ جاتے ہیں جب ہمارے علم میں آتا ہے کہ Heras of Cappadocia نے پہلی صدی عیسوی کے شروع میں اس نسخے کو مرہم Isisکے نام سے اپنی قرابا دین میں درج کیا تھا۔ اور جالینوس نے Heras کے اپنے الفاظ نقل کئے ہیں جن سے مصری کاہنوں میں اس نسخے کے تقدس کا پتہ لگتا ہے۔ Heras کے علاوہ پہلی صدی عیسوی (43ء) میں Sacribonius Largus اور (97ء) Asclepiades Pharmacon نے اس نسخے کو درج کیا ہے بلکہ یہ نسخہ ایک سے زائد ناموں سے پہلی صدی عیسوی کے اطباء کے ہاں موجود تھا اورIsisکے مرہم کی بجائے Emplastrum ex dictamno کے نام سے اس کا جو روشن ملتا تھا اس میں سلور آکسائیڈ (Spuma Argenti) بھی شامل تھا۔

جب ان دونوں مراہم کو باہم ملا کر طبی نکتہ سے بعض اجزاء کو غیر ضروری سمجھ کر خارج کر دیا جاتا تھا تو مرہمِ عیسیٰ کا نسخہ وجود میں آتا تھا۔

جالینوس نے یہ مرہم اکٹھے درج کئے ہیں اور اپنی کتاب Matheodus Medendi میں ایک بوڑھے Eudemus کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اس مرہم کو سر کے زخموں میں جہاں Cerebral Membrane بھی نظر آتی ہو بطور جراحتی مرہم کے استعمال کرواتا تھا اور اس کے مریضوں کو شفا پانے کی تعدادباقی اطباء کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ وہ لکھتا ہے کہ اگر روم میں مرہم بنانے کا کام سرجنوں کے ہاتھ میں نہ ہوتا (یعنی معزز اطباء اسے بنانا باعث عار نہ سمجھتے) تو وہ بھی ضرور یہ مرہم بناتا۔

Isis کے علاوہ Athena کے نام سے جو مرہم ملتا ہے اس میں Spuma Argenti کے علاوہ مرہم عیسیٰ کا باقی نسخہ موجود ہے۔ آئیتوس آف عمادیہ نے جو پہلا نامور مسیحی طبیب ہے۔ چوتھی صدی میں Venus کی مرہم کے نام سے دو نسخے درج کئے ہیں۔

ان دونوں نسخوں کا مشترک حاصل مرہم عیسیٰ ہے۔

Isis، Athena، Venus (زھرہ) اور Isa (عیسیٰ) جبکہ صابی مذہب میں مندیا اور مسیحی لٹریچر میں Gratia Deiیہ سب عناوین بتار ہے ہیں کہ مصر اور مشرقِ وسطی کے مذاہب اور Cultsمیں اس مرہم کو ایک الہامی نسخے کی حیثیت سے بہت تقدس حاصل تھا۔ بو علی سینا نے مرہم زہرہ (Venus) کو مرہم الرسول کا ہی دوسرا نام قرار دیا ہے۔ اور نسخے کے اجزاء بھی اس بات کی تائید کر رہے ہیں۔ اسی طرح مرہم زہرہ اور مرہمِ Isis کا ایک ہونا۔ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے اس مرہم کا تسلسل قائم کرتا ہے۔ مرہم Isisکے بارے میں جالینوس نے Herasکے حوالے سے لکھا ہے کہ مصر کے مقد س کاتب Hermon اور معبدممفس سے اس کا ناطہ ہے۔

گزشتہ صفحات میں ہم دیکھ آئے ہیں کہ یہی مرہم جو مصریوں، یونانیوں، رومیوں اور صابیوں کے ہاں بہت معروف تھا۔ طبی دستاویزات کے مطابق صلیب سے اتارے جانے کے بعد مسیح علیہ السلام کے جسم پر لگایا گیا۔ چرچ کا مسلمہ عقیدہ ہے کہ مریم مگدلینی کی مرہم میں وہ مرہم ملا کر جو مقبرے میں لگائی گئی تھی ایک مشترک مرہم ترتیب دی گئی اور تین سو برس تک اسی نسخہ پر مرہم بنائی جاتی رہی۔ اس بات کا یہ مطلب ہے کہ مرہم ناردین اور مرہم زھرہ کو ملا کر یہ مرہم تیار کیا جاتا رہا۔ نکولائی مرہم ساز اسکندرانی نے اپنی قرابا دین میں مرہم ناردین اور مرہم زھرہ کی اس مشترکہ مرہم کو مرہم الاباسترون لکھا ہے۔ تین سو برس کے بعد مصر کے بطریقِ اعظم نے اس مرہم میں بائیبل کی تمام جڑی بوٹیاں ڈال دیں۔ نئے سرے سے فارمولا ترتیب دیا اور نئے نسخے اور مرہم کا نمونہ کلیسیاوٴں میں بھجوا کر انہیں پرانے نسخے کو ترک کرنے پر مجبور کیا۔ پھر بھی نئے نسخے میں ابتدائی مرہم کے کئی اجزاء آج کے دن تک موجود ہیں۔

ان میں مُر، موم، لبان، علک البطم، صمغِ صنوبر، زیتون کا تیل، بیروزہ، Wine، ناردین (اور شاید مشک بھی) وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ زراوند یونانی نسخے میں شامل ہے۔

مرہم عیسیٰ کے طبیّ نسخے کی مشرقی ومغربی روایات

بو علی سینا نے مرہم عیسیٰ اور مرہم زھرہ میں کوئی فرق نہیں کیا۔ داؤد انطاکی قرابا دین رومی کے حوالے سے اس مرہم کا بطور مرہم دشلیخا (مرہم تلامیذ ِمسیح۔ مرہم الرسل ) ذکر کرتا ہے۔ داؤ د انطاکی کےنسخہ میں مفردات کے لحاظ سے مشرقی روایت سے فرق ہے۔ مغربی روایت کے حامل نسخہ جات میں قدیم ترین دستیاب نسخے نکولائی اسکندرانی مرہم ساز کی قرابا دین کے ہیں۔ ایک نسخہ کا نام Emplastrum Apostolorumاور دوسرے کا نام Emplastrum Apostolicumہے۔

مردہ سنگ، موم، صمغ صنوبر، گوند اشق، علک البطم، مر، مقل، بیروزہ، زراوند (طویل اور مدحرج) جاؤ شیرمشرقی، جاؤ شیر مغربی، کہنہ زیتون کا تیل اور مومیائی دونوں میں مشترک ہیں۔ جبکہ اول الذکر میں Marroil vet,Ditane,Sarcoleاور ثانی الذکرمیں زنجار(Rasilis Aeruginis)اور لبان شامل ہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

مرہم عیسٰی (قسط دوم) – الفَضل انٹرنیشنل (alfazl.com)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button