یادِ رفتگاں

میری پیاری امی مریم بی بی صاحبہ

(صدیقہ بیگم صاحبہ۔ مرحوم)

(درج ذیل تحریر میری والدہ محترمہ کی ہے جو ان کے کاغذات میں سے ملی ہے ۔ خاکسار اپنی والدہ مرحومہ اور نانی جان مرحومہ کی بابت دعا کی تحریر کے لیے درج ذیل کر رہا ہے۔لئیق احمد مشتاق۔ مربی سلسلہ سورینام)

آہ میری پیاری امی جان

دنیا میں سبھی کچھ مل جاتا ہے پر مائیں نہیں ملتیں

چھن جائیں تو یہ بے لوث دعائیں نہیں ملتیں

مورخہ 28؍نومبر 1992ء بروز بدھ بوقت ساڑھے چھ بجے شام بعمر75سال بہت عظیم بہت ہی پیار کرنے والی، مجسم محبت، قول و فعل میں یکساں،کامل استاد،ہمدرد پڑوسن، مخلص دوست، سراپا شفقت و رحمت اور دعا گو میری امی جان اچانک حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پا گئیں۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون

گھر بنے ان کا الٰہی اعلیٰ علیین میں

سایہ فگن روح پر ہوں ہر دم تیری رحمتیں

پیاری امی جان کی اچانک وفات ناقابل برداشت تھی، یوں محسوس ہوا جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہے، قیامت برپا ہو گئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ہم نے اپنے آپ کو جھنجو ڑا، اور بہت جلد خود پر قابو پا لیا اور بے ساختہ منہ سے نکلا؎

ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو

راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضاہو

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأُوْلٰی کہ حقیقی صبر وہ ہے جو صدمہ کی ابتدا میں کیا جائے۔مرحومہ موصیہ تھیں،اس لیے مقامی طور پر نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں گرد و نواح کے احمدیوں کے علاوہ غیر ازجماعت نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ جس کے بعد مرحومہ مغفورہ کو تدفین کے لیے ربوہ لے جایا گیا جہاں محترم حافظ مظفر احمد صاحب نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ان کے خاندان کے علاوہ سینکڑوں افراد جنازہ میں شامل ہوئے، اس کے بعد بہشتی مقبرہ میں قطعہ نمبر 18بلاک نمبر 3میں تدفین عمل میں آئی۔ قبر تیار ہونے پر بھی محترم حافظ مظفر احمد صاحب نے مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کروائی۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

میری پیاری امی مریم بی بی صاحبہ حاجی شیخ محمد حسین صاحب مرحوم سا بق صدر جماعت کی دختر نیک اختر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ محمد سلطان صاحب مرحوم کی بہواورشیخ اشفاق احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ دنیاپور کی اہلیہ تھیں۔ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اخبارات و رسائل کا بڑے شوق سے مطالعہ کرتیں۔ حضورکے شجرہ نصب، صحابہ کرام کے اسمائے گرامی سے خوب واقف تھیں۔ آپ اکثر صحابہ کرام اور مبلغین کے ایمان افروز واقعات سناتیں۔ مرحومہ مغفورہ لجنہ اما ء اللہ کی سرگرم رکن تھیں۔اپنی جماعت کی صدر رہیں۔خلفاء کی ہر آواز پر لبیک کہنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔ تقریباً ہر تحریک میں حصہ لیتیں۔ وقف عارضی میں بڑی گرم جوشی سے حصہ لیا۔داعیان الی اللہ کی تحریک میں بھی حصہ لیا۔ چندہ جات کی بر وقت ادا ئیگی کو اپنا اولین فرض سمجھ کر پوراکرتیں۔ وصیت کا چندہ بھی اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے ادا کیا۔ جلسہ سالانہ پر اکثر تشریف لے جاتیں۔ سفر میں تسبیح و تحمید اور درود شریف کا ورد رکھتیں۔ جلسہ میں پہنچ کر نظم و ضبط کا خیال رکھتی تھیں۔ نماز تہجد میں شرکت کرتیںاور جلسہ گاہ میں ہمیشہ صف اوّل یا ٹکٹ ہونے کی صورت میں سٹیج پر بیٹھتیں، اور تمام تقاریر کو غور سے سنتیں اور اس پر عمل کرتیں۔ قصر خلافت تشریف لے جاتیں اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل کرتیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لندن چلے جانے کے بعد اکثر غمگین رہتیں، اور آبدیدہ ہو کر اپنے پیارے امام کی صحت و سلامتی اور فتح و کامیابی کے لیے بہت دعا ئیںکرتیں۔حضورؒ کے خطبات کیسٹس پر سنتیں اور اگر ویڈیو کا انتظام ہوتا تو بڑے شوق سے دیکھتیں۔ جب کبھی اسیران راہ مولا کا ذکر ہوتا تو بہت روتیں، اور ان کے باعزت بری ہونے اور ان کے بیوی بچوں کے لیے دعائیں کرتیں۔غرض امی جان احمدیت کی سچی عاشق تھیں۔بچپن سے ہی صوم و صلوٰۃ کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتیں۔قرآن شریف کا مکمل ترجمہ جانتی تھیں۔ بہت سی سورتیں انہیں زبانی یاد تھیں۔ میری پیاری امی جان ہمیشہ صبح کے وقت سورۃ یٰسٓاور دیگر سورتیں زبانی پڑھتی، اور اپنے بچوں پر پھونکتیں۔ نماز ظہر کے بعد تلاوت اور رات کو سونے سے پہلے ہمیشہ سورہ ملک کی تلاوت کرتیں، اس امیدکے ساتھ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی قبر کو روشن کرے۔اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

عام گفتگو میں بھی ان کے لب آیات قرآنیہ اور دعائے مبارکہ سے مزین رہتے تھے۔اپنی اولاد اور عزیزوں کے علاوہ غیر احمدی بچیوں کو بھی قرآن مجید پڑھا یا اور ترجمہ سکھایا۔ امی جان نے 75برس عمر پائی، اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ صحت مند تندرست و توانا رہیں۔البتہ کچھ ماہ انہیں بلڈ پریشر کی تکلیف رہی۔ایک دفعہ بلڈ پریشر کی وجہ سے اُبکائیاں آرہی تھیں۔ جمعہ کا دن تھاامی جان طبیعت کی ناسازی کے باوجود مسجد جانے کے لیے تیار ہو رہی تھیں کہ ابا جان نے فرمایا گھر پر ہی نماز پڑھ لیں۔ مگر امی جان نے جواب دیا کہ میں تو مسجد میں باجماعت نماز ادا کر کے ستائیس گنا ثواب حاصل کروں گی۔ پھر کہا شاید یہ میری زندگی کا آخری جمعہ ہو، اس لیے مجھے مسجد جانے سے منع نہ کریں۔ اس طرح امی جان نے مسجد میں جا کر جمعہ ادا کیا، اور حضور کے خطبہ کی ریکارڈنگ بھی سنی۔اسی طرح بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں ان کی آنکھ کا آپریشن تھا۔ اس دن بھی حسب معمول نماز تہجد اور فجر ادا کی۔ اور قرآن مجید کی تلاوت کی۔اتنے میں آپریشن کا وقت ہو گیا، ڈاکٹر نے آپریشن تھیٹر میں بے ہوش کر کے آپریشن کیا۔ سارا دن بے ہوشی کے عالم میں گزر گیا، رات تقریباً دو بجے ہوش آیا تو فورا ً اپنے بیڈ سے نیچے اترنے لگیں، بھائی جان سرہانے موجود تھے،انہوں نے ہاتھ پکڑا اور پوچھا،اماں جی کیا بات ہے،تو بولیں بچہ نماز کا وقت ہو گیا ہے میں نے نماز پڑھنی ہے۔ بھائی جان مسکرائے اور بولے جی امی جان نماز کا وقت ہے۔پھر بھائی جان اور بھابی جان نے مل کر انہیں وضو کروایااور انہوں نے نماز ادا کی۔گویا فی الواقع نماز امی جان کی روح کی غذاتھی۔آپ کثرت سے عبادت کرنے والی تھیں، مگر کبھی بھی اس پر نہ اتراتیں۔ بلکہ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک حقیر اور ناچیز بندی تصور کرتیں۔ ہمیشہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار میں مصروف رہتیں۔درمولا سے التجا ہے کہ ان سے مغفرت اور بخشش کا سلوک فرمائے،اور اپنے پیاروں کے قدموں میںجگہ دے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button