کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اپنی زندگی میں انقلاب پیدا کرو

اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤگے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گے۔ نہیں، خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے۔ خداجس کا دوست اور مدد گار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں، مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن ا س کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ خدا خودان کامحافظ اور ناصر ہوجاتا ہے یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ وہ

عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (البقرۃ:21)

ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حی و قیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیرا ن رہ جاتی ہے آگ میں پڑ کر حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز امر نہ تھا۔ کیا ایک خطرنا ک طو فا ن میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلامت بچ رہنا کو ئی چھو ٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں مو جود ہیں اور خو د اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے دستِ قدرت کے کر شمے دکھا ئے ہیں دیکھو مجھ پر خون اور اقدامِ قتل کامقد مہ بنا یا گیا۔ ایک بڑا بھا ری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدّعی ہوا اور آریہ اور بعض مسلمان اس کے معاون ہوئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فرمایا تھا۔ اِبْرَاء ( بے قصور ٹھہرانا )۔

پس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کر و ابھی طا عون تمہا رے گاؤں میں نہیں۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے اس لیے توبہ کاوقت ہے اور اگر مصیبت سر پر آپڑی اس وقت تو بہ کیا فائدہ دے گی۔ جموں، سیالکوٹ اور لدھیانہ وغیرہ اضلا ع میں دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک طو فان برپا ہے اور قیامت کا ہنگا مہ ہو رہا ہے اس قدر خوفناک موتیں ہوئی ہیں کہ ایک سنگدل انسا ن بھی اس نظا رہ کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکتا۔ چھو ٹا سابچہ پا س پڑا ہوا تڑپ رہااور بلبلارہا ہے ماں باپ سا منے مرتے ہیں۔ کوئی خبر گیر نہیں ہے بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی کہ ایک بڑا میدان ہے اس میں ایک بڑی نالی کھدی ہوئی ہے جس پر بھیڑیں لٹا کر قصاب ہا تھ میں چُھری لئے ہوئے بیٹھے ہیں اوروہ آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے حکم کا انتظا ر کرتے ہیں۔ میں پاس ٹہل رہا ہوں۔ اتنے میں مَیں نے پڑھا

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ(الفرقان : 78)

یہ سنتے ہی انہوں نے جھٹ چُھری پھیر دی بھیڑیں تڑپتی ہیں اور وہ قصاب انہیں کہتے ہیں کہ تم ہو کیا، گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو وہ نظارہ اس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔

غرض خدا بے نیاز ہے، اُسے صا دق مومن کے سو ا اور کسی کی پرو اہ نہیں ہو تی۔ اور بعدازوقت دعاقبول نہیں ہوتی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کر نا چا ہیے، لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہوں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا۔ اُس وقت عذاب ِالٰہی کو دیکھ کر تو بہ استغفا ر شرو ع کی اس سے کیا فا ئدہ ہو گا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا۔

یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اورکسی دولت مند کے گھر جاکر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہو نے کے اس سے مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں۔ اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے، لیکن ایک گھر والا اپنی چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی کی بجائے شربت اور خشک روٹی کی بجائے پلاؤ دے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی بجائے اپنی خاص پو شاک اس کو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ دراصل تو بادشاہ تھا۔ اب ان لوگوں سے کیا سلوک کرے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا اور اس سے بد سلوکی کی سخت سزا دے گا اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر سلوک کیا وہ دے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔

اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا مجھے کھانا نہ دیا۔ یا میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں پیاسا تھامگر مجھے پانی نہ دیا۔ وہ کہیں گے کہ یا ربّ العالمین کب؟وہ فرمائے گا۔ فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا اس کو دینا ایسا ہی تھا جیسا مجھ کو۔ اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تونے روٹی دی کپڑا دیا۔ وہ کہے گا کہ تُو تو ربُّ العالمین ہے تو کب گیا تھا کہ میں نے دیا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا۔ غرض نیکی وہی ہے جو قبل از وقت ہے۔ اگر بعد میں کچھ کرے تو کچھ فائدہ نہیں۔ خدا نیکی قبول نہیں کرتا جو صرف فطرت کے جوش سے ہو۔ کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں ،مگر وہ رونا اور چلانا چونکہ تقاضا فطرت کا نتیجہ ہے اس لیے اس وقت سُودمند نہیں ہو سکتا اور وہ اس وقت مفید ہے جو اس سے پہلے ہوتا ہے جبکہ امن کی حالت ہو۔ یقیناًسمجھو کہ خدا کوپانے کا یہی گُر ہے جو قبل از وقت چوکنّا اور بیدار ہوتا ہے۔ ایسا بیدار کہ گویا اس پر بجلی گرنے والی ہے۔ اس پر ہرگز نہیں گرتی۔ لیکن جو بجلی کو گرتے دیکھ کر چلّاتا ہے۔ اُس پر گرے گی اور ہلاک کرے گی۔ وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ خدا سے۔

اسی طرح پر جب طاعون گھر میں آگئی اس وقت اگر تو بہ و استغفار شروع کیا تو وہ طاعون کا خوف ہے نہ خدا کا۔ اس کا بُت طاعون ہے خدا معبود نہیں۔ اگر خدا سے ڈرتا ہے تواللہ تعالیٰ اس فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کو نقصان نہ پہنچاؤ۔ …پس قبل از وقت عاجزی کرو گے تو ہماری دعائیں بھی تمہارے لیے نیک نتیجے پیدا کریں گی۔ لیکن اگر تم غافل ہو گئے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ خدا کو ہر وقت یاد رکھو اور موت کو سامنے موجو د سمجھو۔ زمیندار بڑے نادان ہو تے ہیں۔ اگر ایک رات بھی امن سے گذر جاوے تو بے خوف ہو جاتے ہیں۔ دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہو تی ہے۔ اسی طرح پر امن کے دن محنت کے لیے ہیں۔ اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کامزا پاؤ گے۔ اگرچہ زمینداری اور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میں نمازوں میں حاضر ہو نا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اور تہجد کے لیے اور بھی،مگر اب اگر اپنے آپ کواس کا عادی کر لوگے۔ توپھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اپنی دعائوںمیں طاعون سے محفو ظ رہنے کی دعا ملا لو۔ اگردعائیں کرو گے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ263تا266۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button