متفرق مضامین

سایہ خلافت میں لوٹنے والے بعض اصحابِ احمدؑ۔

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

ابتدائی طور پر اہلِ پیغام میں شامل ہونے کے بعد سایہ خلافت میں لوٹنے والے بعض اصحابِ احمدؑ۔

‘‘کوئی جماعت بغیر امام کے اور بغیر مرکز کے نہیں ہوسکتی اور خدا کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے…… جماعت میں منسلک ہونے کے واسطے میں آپ کے ہاتھ پر تجدید بیعت کرتا ہوں’’

رسالہ الوصیت دسمبر 1905ء میں طبع ہوا، اس کے چند دن بعد مؤرخہ 15؍ جنوری 1906 کو ایک خادم باہر سے قادیان آئے اور حضور علیہ السلام کی وفات کے الہامات کی وجہ سے رو پڑے، حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

‘‘یہ وقت تمام انبیاء کے متبعین کو دیکھنا پڑتا ہے اور اس میں ایک نشان خدا تعالیٰ دکھاتا ہے، نبی کی وفات کے بعد اس سلسلہ کو قائم رکھ کر اللہ تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہ سلسلہ در اصل خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ بعض نادان لوگ نبی کے زمانہ میں کہاکرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشیار اور چالاک آدمی ہے اور دکاندار ہے کسی اتفاق سے اس کی دکان چل پڑی ہے لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ سب کاروبار تباہ ہو جاوے گا تب اللہ تعالیٰ نبی کی وفات کے وقت ایک زبردست ہاتھ دکھاتا ہے اور اس کے سلسلہ کو نئے سرے سے پھر قائم کرتا ہے۔آنحضرت ﷺ کی وفات کے وقت بھی ایسا ہی ہوا تھا …. تب خدا تعالیٰ نے ابو بکر کو اٹھایا اور تمام کاروبار اسی طرح جاری رہا، اگر انسان کا کاروبار ہوتا تو اس وقت ادھورا رہ جاتا….اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 2،ایڈیشن1988ء)

چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات پر قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا قیام عمل میں آیا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب بھیروی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا کر جماعت کے اتحاد اور ترقی کے سامان کیے۔تمام احمدیوں نے اس الٰہی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ خود حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے 21؍ جون 1908ء کو لاہور میں اپنی ایک پُر جوش تقریر میں فرمایا:

‘‘ان لوگوں کا خیال بلکہ یقین تھا کہ آپؑ کی وفات کے ساتھ ہی یہ کارخانہ درہم برہم ہو جائے گا اور یہ درخت جڑ سے اکھڑ جائے گا…. مگر خدا کی شان کہ جب وہ وقت آیا تو ان کی تمام امیدوں اور آرزوؤں پر پانی پھر گیا اور ان کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی….

میں خود اپنے دل کو اور اپنے احباب کے دلوں کو دیکھتا ہوں تو ایسا پاتا ہوں کہ جس طرح کسی عظیم الشان فتح کے بعد ایک انشراح اور اطمینان ہوتا ہے، کوئی قبض نہیں، کوئی گھبراہٹ نہیں، نہ کسی قسم کی کمزوری ہے اور نہ ہی تزلزل۔ کیا یہ اس قدرت ثانیہ کا ابتدا نہیں جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا۔’’

(الحکم 18؍جولائی 1908ء صفحہ 4کالم 3)

1912ء میں بنگلور(انڈیا) میں مسلمانوں کا ایک جلسہ ہوا اور پورے ہندوستان سے علماء کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ منتظمین جلسہ نے قادیان بھی ایسی ایک درخواست بھیجی چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ، جناب خواجہ کمال الدین صاحب اور جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو اس جلسہ میں شرکت کے لیے بھجوایا۔ دوران جلسہ نواب وقار الملک بہادر کا پیغام سنایا گیا کہ

‘‘آپ سب لوگ خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس وقت اکٹھے ہو جاؤ اور آپس میں کینہ اور عداوت نہ رکھو بلکہ مخالفان اسلام کے مقابل اپنے ہتھیاروں کو جمع کر لو۔’’

اس کے جواب میں جناب خواجہ صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ

‘‘مخالفان اسلام کے مقابل متفقہ کوشش کرنا اور اپنے ہتھیاروں کو اکٹھے استعمال کرنا اس بات کا کسی طرح بھی مقتضی نہیں کہ آپ صاحبان اپنے اپنے فرقوں کے خصائص اور امتیازی نشانوں کو چھوڑ دیں، آپ ضرور ان خصائص اور امتیازوں کو قائم رکھیں کیونکہ ان خصائص کے قیام سے ہی جماعت کی ہستی ہے۔’’

(بدر 5؍ستمبر 1912ء صفحہ 12کالم 1)

لا رَیب خلافت شدید غم اور صدمے میں امن و اطمینان کا ہی نام ہے اور اسی سے جماعت کی ہستی ہے اسی لیے قرآن کریم نے اس کو وَ لَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا (النور: 56) کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعد قائم ہونے والی خلافت کو دائمی اور قیامت تک نہ منقطع ہونے والی قرار دیا ہے لیکن افسوس کہ حضرت مولوی محمد علی صاحب ایم اے جس قدرت ثانیہ یا خلافت کے متعلق یہ فرما رہے تھے کہ ‘‘میں خود اپنے دل کو… ایسا پاتا ہوں کہ جس طرح کسی عظیم الشان فتح کے بعد ایک انشراح اور اطمینان ہوتا ہے’’ اسی قدرت کے مظہر ثانی کے موقع پر اس سے روگردانی کر کے اس کے مقابل پر کھڑے ہوگئے اور خواجہ کمال الدین صاحب جن خصائص کو جماعت کی ہستی یقین کرتے تھے بعد میں اسی کو ‘‘اسلام کی اشاعت کے لیے سمّ قاتل ’’ سمجھنے لگے۔

الحمد للہ جماعت کی اکثریت خلافت کے دائمی ہونے پر ایمان لاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حلقہ بیعت میں آگئی لیکن ایک چھوٹا سا طبقہ خلافت کا انکار کرنے والوں کے ساتھ ہوگیا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خلافت کے مبائعین اور غیر مبائعین دونوں سے الگ رہے۔ قصہ مختصر خلافت سے منحرف ہونے والے لوگ قادیان کو چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور ‘‘انجمن احمدیہ اشاعت اسلام’’ کے نام سے اپنی الگ انجمن بنا لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر جماعت کے مستقبل کے متعلق جو زعم مخالفین احمدیت کا تھا یعنی یہ سلسلہ اب ختم ہوجائے گا، وہی زعم اب ان منکرین خلافت کا تھا۔ خلافت کا دامن تو چھوڑا ہی لیکن آہستہ آہستہ ان منکرین خلافت نے عام مسلمانوں کی ہمدردی اور ان کےساتھ مل جانے کی کوشش میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی اور تعلیم میں مصلحت آمیز ترامیم کر لیں۔ اس بات کو نہ صرف اپنوں نے فورًا پہچان لیا بلکہ غیروں نے بھی بھانپ لیا چنانچہ H. A. Walter اپنی کتابThe Ahmadiyya Movementمیں مبائعین خلافت اور غیر مبائعین کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“It now appears certain that the Lahore party will be absorbed into the “All-India Moslem League” section of Indian Islam …… whereas the Qadian party will continue as a permanent, and possibly a gradually widening, segment of the great circle of Islam.”

(The Ahmadiyya Movement by H. A. Walter Page 140, Association Press, 5 Russel Street, Calcutta 1918)

ترجمہ: اب تو یقینی طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ لاہوری پارٹی آہستہ آہستہ مسلمانان ہند کی مسلم لیگ پارٹی کے اندر جذب ہوجائے گی ….. جبکہ قادیان والی پارٹی ممکنہ طور پر تدریجی وسعت حاصل کرتےہوئے دائرہ اسلام کے ایک مستقل حصہ کے طور پر جاری رہے گی۔

جماعت کی اکثریت تو پہلے ہی اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی تھی لیکن اب خلافت کی بجائے انجمن کو جانشین سمجھنے والوں کو بھی اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ وہ غلطی پر تھے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمان ‘‘اور اُن کو اُن کے پھلوں سے شناخت کرو گے۔’’(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 317) کے مطابق آپؑ کے حقیقی جانشین کی شناخت ہوگئی تھی۔ چنانچہ انہوں نے تَاللّٰہِ لَقَدۡ اٰثَرَکَ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَ اِنۡ کُنَّا لَخٰطِئِیۡنَ (الہام 13؍اپریل 1906ء)کا اقرار کرتے ہوئے خلافت کی بیعت کے خط لکھ دیے۔ ذیل میں ایسے ہی احباب میں سے بعض کے خطوط بطور نمونہ درج کیے جاتے ہیں:

حضرت احمد جان درزی صاحب رضی اللہ عنہ آف پشاور

‘‘سیدی حضرت خلیفۃ المسیحؑ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔

عاجز نے قریباً94ء (1894ء۔ ناقل) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی تھی اور پھر آنحضرتؑ کی وفات پر حضرت نور الدین اعظم خلیفۃ المسیح اول سے بھی بیعت کی تھی مگر جب حضرت خلیفۃ المسیح اول کی وفات ہوئی تو اختلاف واقع ہونے پر خاکسار عملی رنگ میں دونوں فریق سے الگ رہا مگر مسجد احمدیہ پشاور کے تعمیر ہونے پر جب مسجد میں باقاعدہ نماز پڑھنے آنے جانے لگا تو فریقین کے خیالات کے معلوم کرنے اور موازنہ کرنے کا موقعہ ملا اور یہ معلوم کر کے کہ جناب مولوی محمد علی اور ان کے دوست حضرت مسیح موعود کی نبوت اور رسالت سے ہی منکر ہوگئے اور ان کا ماننا نہ ماننا یکساں جانتے ہیں اور غیر احمدیوں اور احمدیوں میں جو خصوصیات حضرت صاحب نے مقرر کیے تھے،سراسر دور کر دیے ہیں تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت خلیفۃ المسیح ثانی یعنی آپ حضرت محمد رسول اللہ کو شارع رسول اور قرآن شریف کو شریعت اور حضرت مسیح موعود کو متبع اور مطیع نبی اور رسول ماننے میں اور احمدیوں کو غیر احمدیوں سے امتیاز اور خصوصیت دربارہ نماز جنازہ وغیرہ قائم رکھنے میں حق پر ہیں۔

پس میں نے اپنا سابقہ عقیدہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے کا اور حضرت خلیفہ اول کے زمانے کا آپ کے موجودہ عقیدہ کے مطابق پایا اور اس بات کو ضروری جان کے کہ کوئی جماعت بغیر امام کے اور بغیر مرکز کے نہیں ہوسکتی اور خدا کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے، جماعت سے الگ ہونا پسند نہ کیا اور جماعت میں منسلک ہونے کے واسطے میں آپ کے ہاتھ پر تجدید بیعت کرتا ہوں۔ حضور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ گذشتہ کوتاہیاں معاف فرمائے اور آئندہ مجھے اور میری اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے اور رزق حلال کے کمانے میں ہمت اور برکت دے۔ والسلام

خاکسار احمد جان درزی۔ مسجد احمدیہ پشاور’’

(الفضل 15؍مئی 1922ء صفحہ 2کالم 3)

حضرت مرزا شربت علی احمدی صاحب رضی اللہ عنہ آف پشاور

‘‘سیدی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی !

میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے بیعت قریبًا 1903ء یا 1904ء میں کی تھی اور حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی 27؍مئی 1908ء کو اور حضور کی خلافت کے وقت میں احباب لاہور کے حصہ میں آیا تھا مگر اب عرصہ کے بعد موقعہ ملا ہے کہ میں بعد از غور اور تحقیق خلافت ثانیہ کے زمانہ میں تجدید بیعت خلافت کروں۔ پس حضور سے استدعاء ہے کہ میری بیعت تجدید منظور فرما کر دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ بقیہ زندگی میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے، تبلیغ علوم دینیہ اور اشاعت امور حقہ اور استقامت کی توفیق بخشے اور عاقبت محمود ہو۔ والسلام

خاکسار مرزا شربت علی احمدی از پشاور۔ 12؍اکتوبر 1928ء’’(الفضل 9؍نومبر 1928ء صفحہ 9)

حضرت میاں غلام رسول درزی رضی اللہ عنہ آف گوجرانوالہ

(بیعت: 1898ء۔ وفات: 17؍ جولائی 1944ء)

‘‘بحضور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ اپنی کسی شامت اعمال کے باعث میں ایک غلطی میں مبتلا ہوکر اخبار پیغام لاہور میں اپنی فسخ بیعت کا اعلان کر چکا ہوں لیکن میں اپنے اس کیے پر سخت نادم اور پشیمان ہوں اور اب میں اس گناہ کا اقرار کرتا ہوں….اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، حضور والا بھی میرے لیے دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت عطا فرماوے اور مجھے بدستور بزمرہ مریدین تصور فرمایا جاوے یا نئے سرے میری بیعت منظور فرمائی جاوے۔ ایک روپیہ کے ٹکٹ ارسال حضور والا بطور صدقہ کے ہیں حضور جہاں پسند فرماویں، خرچ کر دیں۔

خاکسار غلام رسول درزی احمدی چوک کلاں (گوجرانوالہ)’’

(الفضل 7؍جولائی 1917ء صفحہ 1)

حضرت ڈاکٹر فیض قادر صاحب کپورتھلہ

‘‘بحضور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی …. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ

مجھ پر بذریعہ خواب ایسے امور ظاہر ہوئے کہ جس سے میں حضور کو خلیفہ برحق یقین رکھتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں اور استدعا کرتا ہوں کہ مجھ کو اپنا خادم تصور فرما کر میرا نام سلسلہ مبائعین میں داخل فرمایا جاوے اور میرے لیے استقامت اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا فرمائیں اور جلسہ مبارکہ پر میں ان شاء اللہ تعالیٰ حاضر خدمت ہوں گا۔

حضور کا ناچیز غلام عاجز (ڈاکٹر) فیض قادر از کپورتھلہ’’

(الفضل 15؍دسمبر 1917ء صفحہ 1تا2)

حضرت غلام قادر شرؔق صاحب آف بنگلور

(تحریری بیعت 1907ء میں کی لیکن حضرت اقدسؑ کی زیارت نہ کرسکے۔ وفات یکم دسمبر 1969ء بعمر83سال۔ مدفون بہشتی مقبرہ قادیان)

‘‘بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہٖ الکریم

حضرت مرشدنا و مولانا سیدنا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ خدمت عالی میں گذارش ہے کہ یہ عاجز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے بعد حضرت خلیفہ اول جناب مولٰنا نور الدین صاحب کے ہاتھ پر بذریعہ خط بیعت سے مشرف ہوا تھا، بعد وفات خلیفہ اول اخبار پیغام صلح کے باعث اتنے دن غفلت اور دھوکے میں رہا جس کے باعث اب تک حضور کی بیعت سے مشرف نہ ہو سکا لیکن اب میں غلطی محسوس کر کے خدا تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور حضور کی خدمت بابرکت میں عاجزانہ بیعت کی درخواست کرتا ہوں۔ اُمید ہے کہ میری غلطی کو حضور بھی معاف فرما کر زمرہ مبائعین میں داخل فرماویں گےاور قبولیت بیعت سے مشرف فرما کر اس عاجز گنہگار کے لیے بارگاہ ربّ العلیٰ میں دعا فرما ویں گے۔ فقط

خاکسار غلام قادر احمدی بنگلور’’

(الفضل 25؍دسمبر 1917ء صفحہ 1کالم 3)

حضرت رضا محمد خان صاحب اپیل نویس صدر گجرات

‘‘بخدمت جناب حضرت اقدس خلیفہ وقت امام صادق حضرت میاں محمود احمد صاحب دام عنایتکم!

یہ عاجز 1902ء سے حضرت اقدس جناب امام زمان مسیح الموعود نبی اللہ علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر چکا ہے اور عرصہ دو سال ہوابخدمت حضور والا بتقریب جلسہ سالانہ بمقام قادیان حاضر ہوا تھا اور کچھ تھوڑی دیر تک ملاقات نصیب ہوئی تھی مگر بیعت کی باری نہ آئی اور میں واپس ہو آیااور جماعت لاہوری کے بھی وعظ کلام بابت اختلاف مسئلہ نبوت سنتا اور تحقیق حق کے لیے کوشاں رہا ….. اور آخر الامر عاجز اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ حضرت مسیح موعود حضرت اقدس جناب مرزا غلام احمد صاحب سلام علیہ منجملہ ان پاک روحوں کے ہیں جو کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک تابع شریعت موسوی نبی ہوئے ایسا ہی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے فیض بابرکت سے حضرت مرزا صاحب بھی تابع شریعت نبی ہوئے ہیں …..

گو میں 1902ء سے حضرت اقدس کی بیعت میں ہوں اور پابند صوم و صلوٰۃ ہوں مگر بعد انتقال آنحضرت حضور والا کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوا دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا مصمم ارادہ کرتا ہوں۔ اس استقامت کے لیے حضور والا سے امید ہے کہ میرے حق میں دعا خیر فرمائیں…..

خاکسار رضا محمد خان اپیل نویس صدر گجرات’’

( الفضل 16؍ دسمبر 1920ء صفحہ 1تا2)

حضرت حافظ عبدالکریم صاحب آف جھاوریاں ضلع شاہ پور

‘‘بحضور خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز !

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔ خاکسار جھاوریاں ضلع شاہ پور کا باشندہ ہے۔ میں نے پہلے حضرت اقدس مرزا صاحب مسیح موعود و مہدی معہود کی حیات میں بیعت کی تھی….. بیعت کرنے کے بعد دس سال تک میں نے گاؤں کے ساتھ مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں اس عرصہ میں احمدی رہا لیکن اپنی بد قسمتی سے جبکہ لاہوری پارٹی علیحدہ ہوئی اس وقت میرے خیالات منتشر ہوگئے اور میں نے اخبار الفضل بند کرا دیا اور غیر احمدیوں کے ساتھ مل گیا….. اب 11؍جولائی 1921ء کو کیمبل پور ایک کام کے لیے آیا اور وہاں نشست و برخاست احمدیوں کے ساتھ ہوئی….. الحمد للہ کہ جو بے اطمینانی دل میں تھی وہ رفع ہوگئی، اب میں سچے دل سے سابقہ قصور سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ کے لیے بموجب دس شرائط بیعت اقرار کرتا ہوں کہ ان پر عمل کروں گا۔ نہایت عاجزی سے استدعا ہے کہ میرے مرتد ہوجانے کا قصور معاف فرما ویں اور خاکسار کو اپنے غلاموں میں سے ایک ادنیٰ غلام شمار فرماویں…..

بیعت کنندہ خاکسار حافظ عبدالکریم از جھاوریاں ضلع شاہ پور’’(الفضل 11؍اگست 1921ء صفحہ 2کالم 3)

حضرت خیر الدین احمدی صاحب آف رائے کوٹ لدھیانہ

‘‘بعالی خدمت حضور خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ

بعد از سلام واجب الاحترام گذارش ہے کہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے جماعتِ احمدیہ میں داخل ہے، حضرت خلیفۃ المسیح اول کی بھی بیعت کی تھی، اس کے بعد جب سے آنحضور خلیفہ ہوئے ہیں اسی وقت سے اعتقاد رکھتا ہے مگر قادیان آکر بیعت کا اتفاق نہیں ہوسکا لہذا بذریعہ عریضہ ہذا تحریری بیعت کی استدعا کرتا ہے۔ ان شاء اللہ قادیان میں حاضر ہوں گا۔

خیر الدین احمدی۔ رائے کوٹ لودھیانہ’’

(الفضل 20؍فروری 1922ء صفحہ 2کالم 3)

یہ چند خطوط بطور نمونہ یہاں درج کیے گئے ہیں ورنہ خلافت سے وابستہ ہونے والے ایسے اصحاب کی ایک بڑی تعداد ہے۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سرگرم رکن تھے۔چنانچہ حضرت حکیم محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ مرہم عیسیٰ جوغیر مبائعین کے لیڈروں میں سے تھے بلکہ ان کے مبلغ و مناظر تھے، انہوں نے گیارہ سال بعد 1925ء میں بیعت خلافت کر لی۔ اسی طرح حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحبؓ، حضرت شیخ عبدالرزاق صاحبؓ بیرسٹر امیر جماعتِ احمدیہ لائل پور، حضرت سید امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹیؓ اور حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ وغیرہ بھی دامن خلافت سے وابستہ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ حضرت مولوی محمد علی صاحب کے زبردست مؤید اور ان کی انجمن کے ممتاز رکن حضرت مولوی غلام حسین صاحب پشاوری رضی اللہ عنہ(بیعت: 1890ء۔وفات: یکم فروری 1943ء)نے بھی اپنی فطرت نورانی کے باعث چھبیس سال بعد بالآخر خلافت کی بیعت کر لی اور فرمایا:

‘‘…سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی عملی اور فعلی شہادت ہوا کرتی ہے اس لیے میں نے اسی شہادت کو قبول کر کے بیعت اختیار کی۔’’

واقعی اللہ تعالیٰ کی بھرپور تائید و نصرت اور اُس کی فعلی شہادت نے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کیا اور آئندہ بھی جو خلافت کے مقابل پر آئے گا وہی انجام دیکھے گا جو اُن کے پہلوں نے دیکھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے اور ایک وادی کو پُر کرتی ہے اور زور سے چلنا چاہتی ہے تو یہ قانون قدرت ہے کہ اس پر ایک قسم کی جھاگ آ جاتی ہے، وہ جھاگ بظاہر ایک غلبہ اور فوقیت رکھتی ہے کہ پانی اس کے نیچے اور وہ اوپر ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات اس قدر بڑھتی ہے کہ پانی کے اوپر کی سطح کو ڈھانک لیتی ہے لیکن بہت جلد نابود کی جاتی ہے اور پانی جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیز ہے، باقی رہ جاتی ہے۔’’

(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 126۔ مکتوب نمبر 87)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button