سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت سر چودھری محمد ظفر اللہ خان رضی اللہ عنہ۔ خلافتِ احمدیہ کے فدائی، جاںنثارعاشق، کلمۃ اللہ

(چوہدری حمید اللہ ظفر۔ جرمنی)

یہ 3؍ستمبر 1904ء کا دن تھا۔ آپ کی نشست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں کے قریب تھی اور سارا وقت حضرت چودھری ظفر اللہ خانؓ حضور علیہ السلام کے مبارک چہرے پر ٹکٹکی لگائے دیکھتے رہے

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان رضی اللہ عنہ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے صحابہ میں شامل ہونے کا شرفِ عظیم نصیب ہوا۔ آپ کی والدہ صاحبِ رویاء و کشوف تھیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سچی خوابوں اور بشارتوں سے نوازتا تھا۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت بھی اپنی خوابوں کی بنا پر اپنے خاوند سے پہلے کی۔ والد صاحب مائل تو ہوچکے تھے مگر ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد وہ بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔ چودھری ظفر اللہ خانؓ اپنی والدہ کی بیعت کے وقت بھی ان کے ہمراہ تھے اور محترم والد صاحبؓ کی بیعت کے وقت بھی موجود تھے۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی زیارت اس وقت نصیب ہوئی جب آپ کے والد صاحبؓ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں میلا رام کے منڈوے میں گئے جہاں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے آپؑ کا لیکچر پڑھ کر سنایا۔ یہ 3؍ستمبر 1904ء کا دن تھا۔ آپ کی نشست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں کے قریب تھی اور سارا وقت حضرت چودھری ظفر اللہ خانؓ حضور علیہ السلام کے مبارک چہرے پر ٹکٹکی لگائے دیکھتے رہے۔ سیالکوٹ میں حضور علیہ السلام کے قیام کے دوران متعدد بار آپ کو حضور کی زیارت نصیب ہوتی رہی اور انہی دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی زیارت بھی پہلی دفعہ نصیب ہوئی۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ کا ایک خط چودھری صاحب کے والد محترم کو موصول ہوا جس کا مضمون فقط یہ تھا کہ اب آپ اپنے بیٹے کی بیعت کروا دیں۔ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کے والد محترم ایک چوٹی کے وکیل تھے اور ستمبر میں عدالتوں میں چھٹیاں ہوتی تھیں اس لیے ہر سال ستمبر میں وہ قادیان جاتے تھے اور چودھری صاحب کو بھی ساتھ لے جاتے۔ 1907ء میں جب قادیان گئے تو چودھری صاحب نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ میں مولوی صاحبؓ کے ارشاد کی تعمیل میں بیعت کرلیتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظہر اور عصر کی نماز کے بعد کچھ دیر مسجد مبارک میں تشریف فرمارہتے تھے اور اس وقت بیعت بھی ہوجاتی تھی۔

چنانچہ 16؍ستمبر 1907ء کو بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں حضور علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ میری بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور علیہ السلام نے اجازت بخشی اور حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت پائی۔ وایں سعادت بزورِ بازو نیست

آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدینؓ کے بےشمار احسانات میں سے جن پر وہ مَورد ہوتے رہے ایک بہت بڑا احسان یہ تھا کہ آپ نے حضورؓ کی تحریک پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

ستمبر1904ءسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات تک آپ کو کئی مرتبہ ستمبر میں اور پھر جلسہ سالانہ کے ایام میں اپنے والد محترم کے ساتھ حضور علیہ السلام کی مجالس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔

حضور علیہ السلام جب سیر کے لیے جاتے تو اِن خدام میں بھی حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کو شامل ہونے کی سعادت ملتی۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت کا ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں خاکسار اور حضرت سید حامد شاہ صاحبؓ، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحبؓ اور میرے والد محترم کھانا کھا رہے تھے۔ میں اس دروازہ کے قریب تھا جہاں سے حضور علیہ السلام مسجد مبارک میں تشریف لایا کرتے تھے۔ دروازہ کھٹکا تو میں نے کھولا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دستِ مبارک میں ایک طشتری لیے کھڑے تھے جس میں گوشت کی بریاں ران رکھی تھی۔ حضور علیہ السلام نے السلام علیکم کہہ کر وہ مجھے دے دی اور واپس تشریف لے گئے۔ فرمایا کرتے تھے جب بھی اس واقعہ کی یاد آتی ہے تو اس بریاں گوشت کی لذت ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے یہ کل کا واقعہ ہو۔

26؍مئی 1908ء کو حضور علیہ السلام کی وفات پر آپؓ لاہور میں تھے اور حضور علیہ السلام کی میت کے ساتھ اس قافلے میں شامل ہو کر قادیان پہنچے۔ بعد از مشورہ طے پایا کہ حضرت مولوی نورالدینؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ ہوں۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ منظور فرمایا۔ مختصر تقریر فرمائی پھر بیعت لی۔ آپؓ اس میں شامل ہوئے اور تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی۔ 27؍مئی 1908ء کی رات قادیان ٹھہر کر 28؍مئی کو لاہور واپسی ہوئی۔

خلافتِ احمدیہ کا عاشق

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کی زندگی کی ابتدا جہاں امام الزمان مہدی موعود اور مسیح موعود علیہ السلام سے محبت، اطاعت، عشق اور وفا سے گندھی ہوئی تھی وہاں خلافتِ احمدیہ کے ساتھ بھی ایسا بے نظیر اور قابل رشک تعلق اور اطاعت کا باکمال نمونہ ساری زندگی پر حاوی رہا۔ دینی معاملات ہوں یا دنیاوی اُمور کی انجام دہی اگر کہیں مشکل آئی، کہیں مشورہ لینا ناگزیر ہوا تو بلا جھجک دربارِ خلافت کا رُخ کیا اور پھر اس مشورہ پر کماحقہ عمل پیرا ہوئے۔ آپؓ نے اپنی 93 سالہ زندگی کا جو نچوڑ خود نکالا وہ اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔ ایک مرتبہ ایک معروف احمدی بزرگ جناب نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے جو ایک کامیاب زندگی گزاری اس کا کیا راز ہے؟ محترم چودھری صاحبؓ نے برجستہ جو جواب دیا۔ قارئین کرام کی خدمت میں وہ گفتگو لذت اورازدیادِ ایمان کی خاطر من وعن عرض ہے۔

I will conclude with a story narrated by Mostapha Thabit sahib who asked Chaudhry Muhammad Zafrulla Khan(ra).

‘‘Chaudhry Sahib, throughout all your life you have been very successful and Allah has blessed you so much. Would you tell me why?’’

Without any hesitation to think about and answer, he said:

‘‘Because through all my life, I was obedient to Khilafat.’’

اللہ تعالیٰ نے آپ کو 93 سالہ کامیاب و کامران زندگی عطا فرمائی اور انجام بخیر فرمایا۔ آپ اس اعزاز سے سرفراز فرمائے گئے کہ آپ کو آخری آرام گاہ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ ربوہ میں دو خلفائے کرام یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نیز حضرت اماں جانؓ اور دیگر بزرگ افراد خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں نصیب ہوئی۔

آپ کو چار خلفائے احمدیت کا زمانہ نصیب ہوا اور ہر خلیفۃ المسیح کے ساتھ اطاعت، محبت، وفا اور جاں نثاری کا بے نظیر نمونہ قابلِ رشک ہے۔ آج کے اس مضمون میں چاروں خلفاء کے ساتھ گذرے عہد وفا کی داستان کے کچھ واقعات اس دعا کی التجا کے ساتھ پیش ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی خلافتِ احمدیہ کے ساتھ چمٹے رہنے، اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے اور عشق کی حدتک خلیفۃ المسیح کے ساتھ محبت کرنے کی توفیق و سعادت نصیب فرمائے۔ آمین۔

خلافت اولیٰ

آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیعت کی سعادت اس وقت پائی جب آپ کی عمر 15سال تھی۔ عمر کے اس حصے میں انسانی سوچ اور شعور میں پختگی کی بجائے لااُبالی پن غالب ہوتاہے لیکن حضرت چودھری صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے جو فراست عطا فرمائی وہ بھی خلافت کی ہی برکت اور عطا تھی۔

آپؓ اپنے والد گرامی کے ہمراہ اکثر قادیان جاتے تو ان کی خلافت سے محبت، فدائیت اور اطاعت انہیں مجبور کرتی کہ آپ اپنے قیام کا اکثر حصہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں گزاریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح ؓ بھی آپ سے ازحد شفقت و محبت اور احسان کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔

طالب علمی کے زمانے میں امتحانات ہوتے تو حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتے اور جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرماتا تو بڑی خوشی سے جا کر حضور کی خدمت میں اطلاع کرتے اور آپؓ سے مزید دعائیں حاصل کرتے۔

عموماً طالب علم اپنے امتحانات کے لیے خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں دعا کی درخواستیں تو کرتے رہتے ہیں لیکن کم طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو کامیابی حاصل ہونے پر اطلاع بھی کریں۔ آپ کو بی اے کے امتحان میں کامیابی کی اطلاع شیخ مبارک اسماعیل صاحب نے لاہور سے بذریعہ خط ارسال کی کہ آپ درجہ اول میں پاس ہوگئے ہیں۔ خط پڑھتے ہی بلاتوقف حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر خط پیش کر دیا۔ حضورؓ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور دعا دی۔ اسی روز سہ پہر کو مجلس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ‘‘آج ہم بہت خوش ہیں کہ یہ امتحان میں پاس ہوگئے ہیں اور تعجب ہے کہ انہیں پہلے ہی معلوم تھا کہ پاس ہوجائیں گے۔ ’’

ایک روز حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اپنے صحن میں رونق افروز تھے کہ باہر سے ایندھن کے لیے لکڑیاں آئیں۔ کچھ شاگردوں نے یہ لکڑیاں اٹھا کر باورچی خانے میں پہنچانی شروع کر دیں۔ حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو کر لکڑیاں اٹھا کر باورچی خانہ میں لے جارہا تھا۔ جب حضور اقدسؓ نے دیکھا تو فرمایا ‘‘میاں یہ تمہارا کام نہیں تم چھوڑ دو۔ ’’

آپ کی خلافت سے محبت، عشق، اطاعت اور قربت کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ آپ حضورؓ کو اپنی گزارشات بیان کر دیتے۔ حضورؓ ایک اعلیٰ درجہ کے طبیب تھے لیکن ایک روز فرمایا ہمیں پیاس کی تکلیف رہتی ہے۔ حضورؓ کی مجلس میں اطباء، ڈاکٹروں کی کمی نہ تھی۔ چودھری صاحبؓ نے وفورِ اخلاص سے سادگی سے عرض کی حضورؓ چائے میں الائچی اور دارچینی استعمال فرماویں توممکن ہے افاقہ ہو۔ اس پر حضور نے مسکرا کر فرمایا‘‘میاں میں اگر دودھ یا دودھ ملی ہوئی کسی شَے کا استعمال کروں تو مجھے تکلیف ہوجاتی ہے۔ ’’ اور ساتھ ہی خادم کو ارشاد فرمایا‘‘اندر کہہ دو ہمارے لئے چائے بنا کر بھیج دیں جس میں الائچی اور دارچینی ہو۔ ’’

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر رہتے تھے، بیٹھے رہتے تھے۔ جب کھیل کو د کا وقت ہوتا تو سب لڑکے کھیل کود کے لیے چلے جاتے لیکن آپ حضورؓ کی خدمت میں بیٹھنا پسند فرماتے۔ ایک دن مغرب کے وقت حضورؓ نے فرمایا‘‘میاں تم تمام دن یہاں بیٹھے رہتے ہو شام کے وقت سب لڑکے کھیل اور ورزش کے لیے باہر میدان میں چلے جاتے ہیں تمہارا دل کھیلنے کو نہیں چاہتا’’۔ یہ سن کر حضرت چودھری صاحبؓ نے عرض کیا ‘‘حضور مجھے کھیل کود کا شوق نہیں’’۔

خلافت کی محبت آپ کے دل میں ایسی رَچ بس گئی تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیحؓ سے ہر معاملہ میں رہ نمائی کی درخواست کرتے۔ قادیان آتے اور واپس جانے کے لئے بھی حضورؓ سے اجازت طلب کرتے اور اجازت ملنے پر واپس سیالکوٹ چلے جاتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو 1911ء میں گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پیش آیا جس سے آپؓ کی دائیں کنپٹی پر زخم ہوگیا جو بعد میں نَاسُور کی شکل اختیار کر گیا۔ اس سے آپ کی طبیعت بہت کمزور ہوگئی۔ ان ایام میں آپ کا زیادہ تر وقت رہائشی مکان کے مردانہ دالان میں گزرتا تھا۔ وہیں درس و تدریس اور تمام امور کی انجام دہی کا سلسلہ جاری رہتا۔ حضورؓ ظہر و عصر کی نمازیں وہیں ادا فرماتے۔ عموماً شیخ محمد تیمور کو ارشاد فرماتے کہ نمازیں پڑھائیں اگر وہ نہ ہوتے تو کسی اَور شاگرد کو ارشاد فرماتے کہ نماز پڑھائیں۔

ایک روز ظہر کی اذان ہوئی تو حاضرین کو ارشاد فرمایا ‘‘جائیں نماز پڑھیں’’۔ چودھری صاحبؓ کہتے ہیں کہ میں بھی ارشاد کی تعمیل میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا‘‘میاں تم یہیں نماز پڑھ لیا کرو’’۔ چنانچہ میں ظہر وعصر کی نمازیں وہیں ادا کرتا اور آپؓ کے پلنگ کے دائیں طرف کھڑا ہو کر ادا کرتا اور آپ مجھے ازراہِ شفقت اپنے قریب کھڑا کر لیا کرتے تھے۔

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی محبت، شفقت اور احسان کا اس واقعہ سے اندازہ لگائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے حضرت چودھری صاحبؓ کو نصیب فرمائی کہ ایک روز نماز عصر کے وقت شیخ محمد تیمورؓ حاضر نہ تھے۔ آپؓ نے نظر اٹھا کرحاضرین کا جائزہ لیا اور پھر چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کو ارشاد فرمایا‘‘میاں تم نے قرآن پڑھا ہے تم نماز پڑھاؤ’’۔

حضورؓ کی بیماری کے ایام میں جب ڈاکٹر مرہم پٹی کر کے چلے جاتے تو کوئی نہ کوئی شاگرد پلنگ پر بیٹھ کر آپ کو آہستہ آہستہ دباتا۔ ایک روز ڈاکٹروں کے جانے کے بعد چودھری صاحبؓ اکیلےہی حضورؓ کی خدمت میں حاضر تھے۔ اس سے قبل کبھی بدن دبانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا تھا۔ آخر جرأت کرکے حصول ثواب کی خاطر حضورؓ کا بدن دبانا شروع کیا۔ چند منٹوں بعد خیال آیا شاید حضورؓ کی آنکھ لگ گئی ہے اور میرا بدن دبانا حضورؓ کے آرام میں مخل نہ ہو اس لیے دبانا چھوڑ دیا۔ ابھی پلنگ سے ہٹنے کی حرکت نہ کی تھی کہ چودھری صاحب کہتے ہیں حضورؓ نے کروٹ پر لیٹے لیٹے ہی اپنا بازو اٹھا کر خاکسار کے چہرے کو اپنے مبارک چہرے کے قریب کرلیا اور دو تین منٹ تک اسی حالت میں رکھا اور پھر اپنا بازو ہٹالیا اور فرمایا‘‘میاں ہم نے تمہارے لئے بہت دعائیں کی ہیں’’۔

آپ کے والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ انگلستان جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اس لئے آپ نے حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کو خط لکھا کہ تم خود حضورؓ کی خدمت میں دعا اور رہ نمائی کے لیے خط لکھو اور اگر حضورؓ اجازت عطا فرمائیں تو مزید تعلیم کے لیے تمہیں انگلستان بھیج دیں۔ آپ نے یہ خط لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے اس کے متعلق فرمایا‘‘آپ بھی اور آپ کے والد صاحب بھی استخارہ کریں پھر اگر اطمینان ہو تو اجازت ہے۔ ’’جب اللہ کے فضل سے اطمینان ہوگیاتو سفر کی تیاری شروع کر دی اور پھر روانگی کےوقت پہلے قادیان حضورؓ کی خدمت اقدس میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔ اس موقع پر حضورؓ نے ہدایات دیں جو پیش ہیں۔

1۔ اس دعا کا ورد رکھنا اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ جَلِیْساً صَالِحًا۔

2۔ جب کسی سفر کے آخر میں منزل مقصود کے قریب پہنچو اور شہر یا بستی کی آبادی نظر آنا شروع ہو تو یہ دعا کیا کرو۔

اللّٰهُمَّ ربَّ السَّمٰوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَرَبَّ الْأَرْضِيْنَ السَّبْعِ وَمَا أَقْلَلْنَ وَرَبَّ الرِّيَاحِ وَمَا ذَرَيْنَ وَرَبَّ الشَّيَاطِيْنَ وَمَا أَضْلَلْنَ اِنِّیْ اَسْأَلُكَ خَيْرَ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أَهْلِهَا وَ خَیْرَ مَا فِیْھَا وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَ شَرَّ اَھْلِھَا وَ شَرَّ مَا فِیْھَا۔ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حباھَا وَاَعِذْنَا مِنْ وَبَاھَا اللّٰھُمَّ حَبِّبْنَا اِلٰی اَھْلِھَا وَ حَبِّبْ صَالِحی اَھْلِھَا اِلَیْنَا۔

یعنی اے اللہ! جو رب ہے ساتوں آسمانوں کا اور اس کا بھی جو کچھ ان کے سائے میں ہے۔ اور رب ہے ساتوں زمینوں کا اور ہر اس چیز کا جو ان پر قائم ہےاور رب ہے ہواؤں کا اور ہر اس چیز کا جسے وہ لیے پھرتی ہیں۔ اور رب ہے سب سرکشوں کا اور ان کا جنہیں وہ گمراہ کرتے ہیں۔ میں طالب ہوں تجھ سے اس آبادی کی ہر بھلائی کا اور اس میں رہنے والوں کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اس کی طرف سے ہر بھلائی کا۔ اور تیری حفاظت کا طالب ہوں اس بستی کے ہر شر سے اور اس میں رہنے والوں کے ہر شہر سے اور جو کچھ بھی اس کے اندر ہے اس کے ہر شر سے۔ یا اللہ! تو اس کی ہر خوشگوار چیز ہمیں عطا فرما۔ اور اس کی ہر ضرر رساں چیز سے ہماری حفاظت فرما۔ اے اللہ! تو اس میں رہنے والوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال دے اور اس میں رہنے والوں میں سے نیک بندوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال دے۔

3۔ کہا جاتا ہے کہ انگلستان چونکہ ایک سرد ملک ہے اس لیے وہاں سردی کے دفاع کے لیے شراب کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم طبیب ہیں اور ہم جانتے ہیں یہ بات بالکل غلط ہے۔ اگر تمہیں سردی کی مدافعت کی ضرورت محسوس ہو تو کوکو استعمال کرنا۔ اس میں خوراکیت بھی ہے اور سردی کے اثر کو بھی زائل کرتی ہے۔

4۔ ہمیں خط لکھتے رہنا۔ ہم تمہارے لیے دعا کریں گے۔

5۔ انگلستان میں ہندوستانی طلباء سے زیادہ میل جول نہ بڑھانا۔ وہاں کے شریف طبقہ سے میل جول رکھنا۔

محترم چودھری صاحبؓ کہتے ہیں۔ خاکسار نے حتّی الامکان آپ کی فرمودہ ہدایات کی پابندی کی اور بفضل اللہ ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔

انگلستان کے قیام کے دوران بھی خلافت سے محبت، فدائیت، جاںنثاری، اطاعت کے جذبہ سے سرشار رہے۔ حضورؓ کی خدمت میں بذریعہ خط حاضری کا شرف حاصل کرتے اور آپؓ کی دعائیں حاصل کرتے رہتے۔ اس ماحول میں آپ کے دل میں حضورؓ کے بارے میں کیا جذبات تھے کہ ہمیشہ آپ کے دل میں خلافت کی محبت کو بیدار رکھتے تھے یہ واقعہ اس پر بین شہادت ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے ایک دوست مسٹر آسکر نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی معاشرت کا تمہاری معاشرت سے موازنہ کرنا چاہتا ہوں اس لیے تم بھی اپنے ذہن میں ایک کسی ایسی زندہ شخصیت کا نام رکھ لو جو تمہارے خیال میں مثالی شخصیت ہو اور میں بھی اپنے ذہن میں رکھ لیتا ہوں۔

میں سوال کروں گا کہ فلاں حالات میں تمہاری تجویز کردہ شخصیت کا کیا طرزِعمل ہوگا۔ تم بتانا تمہارے جواب سے میں اندازہ کروں گا کہ اس شخصیت کا معیار کتنا بلند ہے۔

انہوں نے سوال کیا اگر ان صاحب کو کوئی شخص ملنے آئے تو وہ انہیں ملنا نہ چاہیں تو اطلاع ہونے پر وہ کیا جواب کہلا بھیجیں گے؟

میں نے کہا اول تو اطلاع کی ضرورت نہ ہوگی۔ ان کا دربار عام ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی سے نہ ملنا چاہیں تو صاف کہہ دیں گے ہم آپ سے نہیں ملنا چاہتے۔

اس پر مسٹر آسکر نے کہا پھر وہ جیتے۔

میں نے کہا وہ کیسے۔ کہنے لگے اس لیے کہ جو شخصیت میرے ذہن میں ہے وہ صاحب اطلاع ہونے پر کہلوا دیں گے کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔ اور یہ لفظاً صحیح نہیں ہوگا۔

مسٹر آسکر نے مجھ سے پوچھا تمہارے ذہن میں کون صاحب تھے؟

میں نے کہاحضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ۔

میں نے مسٹر آسکر صاحب سے پوچھا تمہارے ذہن میں کون صاحب تھے؟

کہنے لگے میرے والد صاحب۔

لندن سے واپسی سے پہلے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وصال ہوگیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق خلافت ثانیہ کا دور شروع ہوا۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی جو مشفقانہ و محبانہ عنایات حاصل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اس کا ذکر محترم چودھری صاحبؓ کے اپنے الفاظ میں ہی بیان کرنا مناسب ہوگا۔ آپ نے اپنی خود نوشت تحدیث نعمت کے صفحہ 109 میں اس کا نقشہ پیش کیا ہے:

‘‘حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی مشفقانہ عنایات

لندن کے قیام کے دوران میرے لئے یہ احساس بہت تسکین اور اطمینان کا موجب رہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور میرے والدین میری حفاظت اور ترقی کے لئے بہت دعائیں کرتے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ میرے ہر عریضے کا جواب اپنے مبارک قلم سے لکھتے اور اس میں بڑی شفقت کا اظہار فرماتے۔ خاکسار بھی اپنی ہر دلچسپی کا اظہار حضور کی خدمت میں بلا تکلف گذارش کردیتا۔ ایک دفعہ میرے عزیز دوست مسٹر آسکر برنلر نے ذکر کیا کہ میرے اعصاب پر کچھ بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے میں پوری توجہ سے مطالعہ نہیں کرسکتا اور نیند بھی اچھی طرح نہیں آتی۔ میں نے حضورؓ کی خدمت میں گذارش کردیا۔ حضور نے کمال شفقت سے ان کے لئے کچھ ہدایات تحریر فرمائیں جو میں نے انہیں بتادیں۔ جن میں سے ایک جو مجھے یاد رہ گئی ہےوہ یہ تھی کہ پڑھتے وقت روشنی کی طرف منہ کر کے نہ بیٹھیں بلکہ ایسے طور پر بیٹھیں کہ روشنی بائیں کندھے کے اوپر سے کتاب یا کاغذ پر پڑے۔ شاید یہ بھی تحریر فرمایا کہ رات کو نہ تو پیٹ بھر کر کھائیں نہ ہی خالی پیٹ سوئیں۔ لیکن پختہ یاد نہیں کہ یہ ہدایت ان کےلئےلکھی یا کسی اَور تعلق میں خاکسار نے حضورؓ سے سنی یا تحریر فرمائی۔ اس کے بعد خاکسار سے کوتاہی ہوگئی کہ آسکر کے متعلق حضورؓ کی خدمت میں اطلاع نہ بھیجی تو حضورؓ نے خود کمال شفقت سے اپنے والا نامے میں دریافت فرمایا کہ آپ کے وہ جرمن دوست کیا ہوئے؟ میں جب بھی انگلستان سے باہر سفر پر جاتا تو حضورؓ سے اجازت حاصل کرکے جاتا۔ حضورؓ کا خاکسار کے نام آخری شفقت نامہ وصال سے صرف چند دن پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ میں ایک نادان نوجوان تھا 1907ء میں تو ابھی میری عمر بھی چودہ سال ہی تھی۔ آپ نے اس وقت کمال شفقت اور ذرہ نوازی سے میرے والد صاحب کو توجہ دلائی کہ مجھے اب بیعت کرنی چاہیے اور اس دن سے حضورؓ کے وصال تک یہ عاجز آپ کے پیہم شفقت اور عنایات کا مورد رہا۔ فجزاہ اللّٰہ احسنَ الجزاء وَجَعَلَ اللّٰہُ الجَنۃَ العُلْیَا مَثْوَاہُ۔ اور میری کوئی خصوصیت نہیں تھی۔ آپؓ کے فیض کا چشمہ ہر ایک کے لئے یکساں بہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے آپ کو شاہانہ مرتبہ عطا فرمایا تھا اور نہایت پُرشوکت اور بارعب شخصیت عطا فرمائی تھی لیکن آپ کا دربار ہر کس وناکس کے لئے کھلا رہتا تھا۔

ہر کہ خواہد گوبیاد ہر کہ خواہد گوبرد

گیرد دارد حاجب و درباں دریں درگاہ نیست’’

(تحدیث نعمت، صفحہ109تا110)

چودھری انور کاہلوں صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کی ایک خوبی کا ذکر کیا۔ اس پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ خصوصی طور پر اپنی دعاؤں سے نوازا کرتے تھے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ خلافت کی اطاعت کا بےمثال نمونہ تھے۔ یورپ میں حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں کسی جگہ جانے کی ضرورت پیش آنے پرسفر پر روانہ ہونے سے قبل بذریعہ خط حضورؓ سے اجازت حاصل کرتے اور پھر سفر پر روانہ ہوتے۔ اور ساری زندگی یہ طریق رہا۔ چنانچہ فروری 1914ء کو حسبِ دستور حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی خدمت میں ایسٹر کی چھٹیوں میں فرانس، بیلجیم، ہالینڈ اور جرمنی جانے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملنے پر سفر کی تیاری کرلی۔ شیخ نور احمد صاحب نے ایک خواب دیکھا جو چودھری فتح محمد سیالؓ کو بتایا۔ شیخ صاحب نے اپنے خواب کی تعبیر بیان کی کہ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کا وقت قریب ہے اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود آپ کے بعد خلیفہ ہوں گے۔ دو چار دن بعد ہی حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے وصال کی خبر بذریعہ تار موصول ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

خلافتِ ثانیہ

سفر سے واپس لندن آئے تو کافی ڈاک جمع تھی۔ اسی دن ہندوستان کو ڈاک روانہ ہونی تھی والدہ صاحبہ نے لکھوایا کہ میں نے اپنی بیعت اور تمہارے بہن بھائیوں کی بیعت کا خط لکھوا دیا ہے تم بھی اس خط کے ملنے پر فوراً بیعت کا خط لکھ دو۔ چنانچہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کا خط اور والد، والدہ صاحبہ کے خط کا جواب فوراً لکھ کر ڈاک میں بھجوا دیے۔ اس کے بعد اطمینان ہوگیا کہ جو فیصلہ کیا درست ہے اور خلافت کے ساتھ وابستگی لازم ہے۔ وطن واپسی کے لئے لندن سے روانہ ہوئے۔ بمبئی پہنچے اور پھر وہاں سے لاہور اور لاہور سے سیدھے قادیان پہنچ کر بہشتی مقبرہ میں دعا کی۔ مسجد مبارک میں شکرانے کے نفل ادا کر کے دربارِ خلافت میں حاضر ہو ئے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔

اس زمانے میں جو طالب علم انگلستان سے اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے واپس آتے ان کا شاندار استقبال کیا جاتا اور پھر دھوم دھام سے وہ اپنے گاؤں پہنچتے تھے لیکن خلافت کے اس فدائی اور جاںنثار کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے ماں باپ، عزیزوں رشتہ داروں کو آنے کی مکمل اطلاع ہی نہ دی صرف اتنا لکھا کہ میں جلد پہنچ جاؤں گا اور پھر سیدھے دربار خلافت میں جا حاضر ہوئے اور سب سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دستی بیعت کر کے ایک دن قادیان میں گزار کر اپنے گاؤں روانہ ہوئے۔ اور سیدھے اپنے گھر چلے گئے۔

1917ء میں جب وزیر ہند ہندوستان آئے تو مختلف انجمنوں، پارٹیوں اور مجالس کے نمائندوں نے اپنے وزیر ہند اور وائسرائے سے ملاقاتیں کیں اور تجاویز اور مشورے دیے۔ جماعتِ احمدیہ کی طرف سے بھی وفد پیش ہوا اور اپنا ایڈریس پیش کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی اس غرض کے لیے دہلی تشریف لے گئے۔ حضورؓ نے چودھری محمدظفر اللہ خانؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ ترجمانی کے فرائض ادا کریں۔ چنانچہ وزیر ہند اور وائسرائے سے ملاقات میں آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح کی ترجمانی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ نے چونکہ قانونی علوم میں مہارت حاصل کرنے پر وکالت کا شعبہ اختیار کیا تھا اس لیے آپ نے سیالکوٹ اور پھر لاہور میں وکالت کی۔ اسی طرح جماعتی مقدمات میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔

شہزادہ ویلز جب ہندوستان اور لاہور آئےتو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اسلام کی حقانیت اور زندہ مذہب ہونے کے بارے میں ایک قابل قدر کتاب تحفہ کی شکل میں تیار کی۔ حضورؓ نے یہ کتاب اردو میں تیار کی اور ارشاد فرمایا کہ ظفر اللہ خان اس کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ آپ نے حضورؓ کے ارشاد پر یہ ذمہ داری حضورؓ کی مقررہ میعاد کے اندر پوری کر دی۔ پھر اس کی نظر ثانی کے موقع پر آپ حضورؓ کے ساتھ دن رات کام میں مصروف رہے۔ پھر اس کتاب کی خاص جلد چاندی کے بکس میں شہزادہ ویلز کو پیش کی گئی۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کو حضورؓ نے 1918ء میں، جب آپ لاہور منتقل ہوچکے تھے، جماعتِ احمدیہ لاہور کا امیر مقرر فرمایا۔ اس سے قبل جماعت میں امارت کا عہدہ نہیں ہوتا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دو امارتیں مقرر فرمائیں۔ فیروز پور میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو اور لاہور میں حضرت چودھری صاحبؓ کو امیر مقرر فرمایا۔ اس بارےمیںحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لاہور کے افراد سے مشورہ طلب فرمایا کہ کس کو امیر مقرر کیا جائے۔ محترم چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ اس موقع پر موجود نہ تھے۔ آپ کے والد صاحبؓ اور آپ کے ماموں چودھری عبداللہ خانؓ امیر جماعتِ احمدیہ داتہ زیدکا اس مجلس میں موجود تھے۔ آپ کے والد صاحبؓ نے کسی قدر شکوہ سے کہا کہ آج تم حضور کی مجلس میں موجود نہ تھے۔ آپ کے ماموںؓ نے جلدی سے کہہ دیا کہ حضورؓ نے تمہیں لاہور کا امیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مبارک ہو اور والد صاحبؓ نے بتایا لیکن تمہارے حق میں صرف ایک رائے تھی۔ الحمدللہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو حضرت چودھری ظفر اللہ خان ؓ پر کس قدر اعتماد تھا کہ صرف ایک رائے حق میں تھی اور حضورؓنے آپ کو امیر مقرر فرمادیا بلکہ ایک دفعہ 1927ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ امیر جماعت لاہورکے متعلق فرمایا:

‘‘…اِس کا امیر بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے تین وجہ سے محبت ہے۔ ان کے والد کی وجہ سے جو نہایت مخلص احمدی تھے۔ میں نے دیکھا ہے انہوں نے دین کی محبت میں اپنی نفسانیت اور ‘‘میں’’ کو بالکل ذبح کردیا تھا اور ان کا اپنا قطعاً کچھ نہ رہا تھا سوائے اس کے کہ خدا راضی ہوجائے۔ ایسے مخلص انسان کی اولاد سے مجھے خاص محبت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان میں ذاتی طور پر اخلاص ہے اور آثار و قرائن سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں علم، عقل اور ہوشیاری دی ہے اور وہ زیادہ ترقی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’’

(خطابات شوریٰ جلد1صفحہ226)

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی ایک خواب کا بھی ذکر فرمایا جس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نزدیک آپ کو اللہ تعالیٰ کی بہت تائید و نصرت حاصل تھی۔

فرمایا سالہا سال کی بات ہے میں نے ایک خواب دیکھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے بڑا قالین ہے اور اس قالین پر عزیزم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب، عزیزم چودھری عبداللہ خان صاحب اور عزیزم چودھری اسد اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں۔ سر ان کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں۔ عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا (میری بیماری کے موقع پر تو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کو میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا) بلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا۔ وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے۔ چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا۔

حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ارشاد کہ میں ان سے محبت رکھتا ہوں اور ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی کہ ‘‘وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ ’’اور پھر اپنی خواب کے بارہ میں بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ‘‘عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے۔ ’’ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو افغانستان میں ظالمانہ فیصلہ کر کے سنگسار کردیاگیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے 4؍ستمبر 1924ء کو احباب جماعت کو اپنے ایک پیغام میں افغانستان جا کر تبلیغ کے کام کو جاری رکھنے کی تلقین فرمائی اور احباب نے اپنے نام حضورؓ کی خدمت میں پیش کیے۔ اس موقع پر خدمت دین کا یہ شیدائی محمد ظفر اللہ خانؓ کس قدر تڑپا اور بارگاہِ رب العزت میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حضور لکھا:

‘‘حضور انور میں کمزور ہوں، آرام طلب ہوں۔ لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا کہ میں نمائش کے لئے نہیں، فوری شہادت کے لیے نہیں، دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کو موقع میّسر کرنے کے لئے اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کرتا ہوں۔ اگر مجھ نابکار گنہ گار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صَرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلبگار نہیں۔ ’’لیکن یہ درخواست اس طرح منظور نہ ہوئی۔

1924ء میں لندن میں ویمبلی کانفرنس ہوئی جس میں شمولیت کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لندن تشریف لائے۔ آپؓ نے اس کانفرنس کے لیے ایک مضمون تحریر فرمایا جس کا عنوان‘‘احمدیت یعنی حقیقی اسلام’’ تھا حضورؓ نے چودھری صاحبؓ کو اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ نے نہ صرف اس کی سعادت پائی بلکہ حضورؓ جس تقریب میں بھی شمولیت فرماتے وہاں حضورؓ کی ترجمانی کرنے کی سعادت ہمیشہ خلافت کے اس فدائی حضرت محمد ظفر اللہ خانؓ کو نصیب ہوتی رہی۔

حضورؓ نے اپنے اس مضمون کو اس کانفرنس میں پڑھنے کے لیے مختلف احباب کو بلایا تاکہ وہ مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر سنائیں تاکہ فیصلہ کیا جائے کہ کون اس مضمون کو پڑھنے کی سعادت حاصل کرے۔ بالآخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فیصلہ فرمایا کہ کانفرنس میں یہ مضمون چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ پڑھ کر سنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مضمون ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور بالاتفاق کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضامین میں سب سے اعلیٰ شمار کیا گیا۔

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓہر قدم پر حضورؓ کی رہ نمائی حاصل کرتے اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی حضورؓ سے مشورہ لیتے اور پھر اس کے مطابق عمل کرتے۔ ایک دفعہ آپ چونکہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے وائسرائے نے بتایا جب ممبر کو 2 سال ہوجائیں تو اُسے ‘‘سر’’ کا خطاب دیا جاتا ہے اور آپ کو دو سال ہونے والے ہیں اس لیے آپ سرمحمد ظفراللہ خان ہوجائیں گے۔ یہ سن کر کہنے لگے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے پوچھ لینے دیں اور پھر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کردیا حضورؓ نے فرمایا جب ان کا یہ دستور اور طریق کار ہے تو پھر سر کا خطاب لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ اس طرح پھر آپ نے سر کے خطاب کو قبول کرلیا اور محمد ظفر اللہ خان ‘‘سر محمد ظفر اللہ خان ’’ہوگئے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو مجلس مشاورت میں مجلس شوریٰ کا سیکرٹری 17؍مرتبہ مقرر فرمایا۔

خلافت جوبلی 1939ءکے موقع پر جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تین لاکھ روپیہ کی رقم بطور نذرانہ پیش کرنے کی سعادت آپ کو نصیب ہوئی۔ اس رقم میں سے دس ہزار روپے کا نذرانہ آپ نےخود ادا کیا تھا۔

یورپ میں سامان اٹھانے کے لیے قلی نہیں ہوتے۔ جب حضرت فضل عمرؓ یورپ کے سفر پر گئے تو تمام وقت حضور کے ساتھ ساتھ رہے۔ حضورؓ کا کام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ حضورؓ کا سامان خود اُٹھاتے تھے۔ حضرت چودھری صاحبؓ اپنے حبیب حضرت مصلح موعودؓ کے عشق و محبت میں اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر سب کام کرتے تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی صاحبزادی امۃ الجمیل صاحبہ کہتی ہیں ایک دفعہ حضورؓ سندھ تشریف لے گئےتھے اور چودھری صاحب بھی ساتھ تھے۔ حضورؓ آم کی کاشیں چکھ کر چودھری صاحبؓ کی پلیٹ میں رکھتے جاتے تھے۔ پھر آپ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ اور چودھری صاحبؓ کو ایک پلیٹ میں کھاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اس کا میری طبیعت پر گہرا اثر ہوا کہ حضورؓ کو چودھری صاحبؓ سے کس قدر محبت ہے۔ مجھے کئی بار حضورؓ اور چودھری صاحب کو کھانا کھلانے کا موقع ملا۔ اکثر حضورؓ فرمایا کرتے کہ آج چودھری صاحبؓ کھانے پر آئیں گے۔ مجھے ہدایت فرماتے کہ کھانا میں پیش کروں۔

جب حضورؓ لندن میں تھے تو فرمایا میں اب بھاری کپڑے پہن نہیں سکتا اور چودھری صاحب کو ارشاد فرمایا کہ آپ امۃ الجمیل کو ساتھ لے جائیں اور میرے لیے ہلکا سا سویٹر اور اوور کوٹ خرید لائیں۔ چودھری صاحب ؓنے حضور سے عرض کی ‘‘حضور ایک بات کہنے کی اجازت چاہتا ہوں’’۔ فرمایا جی چودھری صاحب کہیے۔ چودھری صاحبؓ نے اپنا سویٹر اتارا اور عرض کی کہ حضورؓ یہ سویٹر بہت ہلکا ہے آپ پسند فرمائیں تو اسے استعمال کریں۔ حضور مصلح موعودؓ نے فوراً وہ سویٹر پہن لیا۔ چودھری صاحب کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ پھر عرض کی کہ حضور جب آپ یہ سویٹر کسی کو دینا چاہیں تو مجھے دے دیجیے گا۔ غالباً حضور نے پھر اس سویٹر کو استعمال کے بعد چودھری صاحب کو ہی دے دیا۔

حضرت مصلح موعودؓ کے 52سالہ بابرکت دورِ خلافت میں ایسے لگتا ہے کہ حضرت چودھری صاحبؓ نے آپ کی بابرکت گود میں بیٹھ کر مثل طفل شیر خوار مادرِ مہربان یعنی خلافت کی محبت، توجہ، رہ نمائی، الفت، دعائیں، نظرکرم حاصل کرنے کی سعادت پائی۔ اس موقعے پر حضورؓ کی ایک دعا کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے بارہ میں فرمایا:

‘‘خدا تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا اور ان کی محبت کو قبول کرے گا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی رشک کریں گے۔ کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا۔ اس نے ایک عاجز بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا۔ اب یقیناً جو اس کی خدمت کرے گا خدا تعالیٰ اس کی خدمت کو قبول کرے گا اور دین و دنیا میں اس کو ترقی دے گا۔ وہ صادق الوعد ہے اور رحمان و رحیم بھی ’’۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 502تا503)

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات کے وقت جزائر فجی کے دورے پر تھے۔ ربوہ سے بذریعہ تار حضورؓ کی تشویشناک صورت حال کی اطلاع ملی۔ آپ ایک ایئر لائن کے دفتر گئے تو پتہ چلا کہ ربوہ پہنچنے کے لیے 3دن درکار ہوں گے۔ یہ معلوم کر کے احمدیہ مشن ہاؤس گئے تو وہاں حضورؓ کے وصال کی اطلاع آچکی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جنازے پر پہنچنا ناممکن تھا۔ وہ رات آپ کے لیے بڑی کربناک تھی۔ رات کے پچھلے پہر خواب دیکھا جس کی واضح تعبیر یہ تھی کہ خلیفہ کا انتخاب ہوگیا ہے اور نئے منتخب ہونے والے خلیفہ کی عمر 56 سال ہے۔ صبح ہونے پر احباب سے ذکر کیا تو معلوم ہو اکہ انتخاب کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی عمر پورے 56سال تھی۔(تحدیث نعمت ص 717)پھر وہاں سے روانگی ہوئی اور جب جہاز میں بیٹھ گئے توآپ بیان کرتے ہیں کہ دل مچلا گویا جذبات نے اعلان کردیا کہ اب تو ہمیں ضبط کی زنجیر میں جکڑے رکھنا مصلحت کا مطالبہ تھا لیکن اب اگر ہمیں رخصت نہ دی گئی تو ہمیں طوفان کی شکل میں خروج کرنا ہوگا۔ اب ضروری ہوگیا کہ دل اور آنکھوں کو خاموش اظہار کی اجازت دی جائے۔ یہ چار گھنٹے کا سفر پچھلے گذرے برسوں کی تصویر بن کر آہستہ آہستہ نظروں سے گذرتاگیا، واقعات در واقعات چلتے گئے۔

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات اور خلافت ثالثہ کے انتخاب کے وقت ربوہ نہ پہنچ سکے۔ اس کے بعد آپ حسب معمول دسمبر کے ماہ میں جلسہ سالانہ پر تشریف لائے۔ جلسہ کے اختتام کے بعد مسجد مبارک ربوہ میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں بالخصوص حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کی یادوں پر مشتمل تقریر کرنا تھی۔ راقم الحروف کو اچھی طرح یاد ہے کہ میں اس جلسہ میں شامل تھا۔ تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نظم‘‘نونہالانِ جماعت سے خطاب’’ پڑھی گئی۔ محترم چودھری صاحبؓ جذبات سمیٹے بیٹھے تھے۔ جب خطاب شروع ہوا تو آنکھیں پُرنم آواز دل گداز۔ مغموم لہجے میں تقریر کی۔ یادوں کے ذکر کے ساتھ سوگواری کا عالم بھی نمایاں تھا۔ پیشگوئی مصلح موعود کے الفاظ پڑھے۔ پھر بتایا کہ میری پہلی زیارت آپ سے اس وقت ہوئی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لائے اور میں اپنی والدہ کے ہمراہ گیا تھا۔ یہ آخر ستمبر 1904ء تھا۔ اس وقت کی آپ کی شکل و شباہت وہ مقام جہاں آپ کھڑے تھے دل پر اس طرح نقش ہے کہ گویا کل کی بات ہو۔ میں اس وقت گیارہ سال کا بچہ تھا اور مجھ میں اتنی جرأت اورحوصلہ نہ تھا کہ آپ سے ملاقات کرتا۔ جب انگلستان تعلیم کی غرض سے جانے لگا اور حضرت خلیفہ اولؓ کی ملاقات کے لیے قادیان گیا تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحریک پر دعا کے لیے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے دعاؤں سے نوازا اور فرمایا کبھی کبھی خط لکھتے رہا کرنا۔ میں طالب علمی میں آپ کو انگلستان سے خط لکھتا تھا اور آپ جواب سے بھی نوازا کرتے تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کی وفات کے بعد انگلستان سے واپسی پر سیدھا قادیان آیا اور دستی بیعت سے مشرف ہوکر اپنے والدین کے پاس سیالکوٹ چلا گیا۔ چودھری صاحب نے بتایا کہ میں نے 5؍نومبر 1914ء کو بعد نماز عصر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی دستی بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ چودھری صاحبؓ نے بتایا کہ پھر وہاں سے ذاتی تعلق شروع ہوا اور 51سالہ رفاقت کے دوران حضورؓ کی طرف سے شفقت، محبت، الفت، ذرہ نوازی اور توجہ کا مَورد رہا۔ اختصار سے بھی بیان کیا جائے تو ایک پوری کتاب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس وقت سے حضورؓ نے میری ہر پہلو کی تربیت اپنے ہاتھ لے لی۔ اور اس نصف صدی کے عرصہ میں انفرادی طور پر اور جماعتی طور پر آپؓ کی مجھ پر توجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت اور فضل تھا۔

چنانچہ کچھ عرصہ بعد ہی مجھےحضورؓ کا ارشاد ملا کہ دہلی میں ایک جلسہ کیا جائے کیونکہ دہلی کے لوگ سمجھتے ہیں جماعتِ احمدیہ بے علم اور جاہلوں کی جماعت ہے اس لیے اردو، عربی اور انگریزی میں تقاریر ہوں اور پھر بعد میں سوال و جواب بھی اسی زبان میں ہوں جس زبان میں تقریر ہو۔ مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کا ارشاد ہوا جب کہ ابھی تک مجھے کوئی تقریر کرنے کا موقع بھی نہ ملا تھا اور نہ مجھے اتنی دینی معلومات تھیں۔ میری تقریر کا عنوان‘‘ضرورت مذہب’’ تھا۔ حضورؓ نے فرمایا ہم نوٹ لکھوا دیں گے پھر اپنی بساط کے مطابق اُسے پھیلا لینا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اچھے رنگ میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ طریق دستور کے مطابق قائم ہوگیا اور حضورؓ چودھری صاحب ؓکو نوٹ املا کروا دیتے اور آپ مضمون کو پھیلا لیا کرتے۔

اس تقریر میں بعض مقدمات کا بھی تفصیلی ذکر تھا۔ مضمون چونکہ لمبا ہورہاہے ایک مقدمہ کا ذکر کرنا مناسب ہوگا۔

چودھری صاحبؓ نے بتایا کہ میں انڈین کیسز کا نائب مدیر تھا۔ نہ ہائی کورٹ بار کا ممبر بنا، نہ وکالت شروع کی نہ کسی جج سے واقفیت تھی کہ حضورؓ کا ارشاد ملا کہ پٹنہ ہائی کورٹ میں جماعت مونگھیرکا مقدمہ ہے اس پر جا کر بحث کرو۔ میں جانتا تھا کہ میں کچھ نہیں ہوں تعمیل ارشاد میں حاضر ہوا کہ حضورؓ دعا کرتے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سمجھا دے گا۔ ڈاک بنگلہ میں میری رہائش تھی وہاں ایک احمدی سید ولایت شاہ صاحب نے جو ایک زمیندار کے اہلکار تھے تفصیل کے ساتھ مقدمہ تیار کر رکھا تھا میں اس کے نوٹ لیتا رہا اور ایک ہی دن میں تیاری مکمل کر لی۔

میں عدالت میں پیش ہوا بحث کی۔ الحمدللہ مقدمہ کا فیصلہ جماعت کے حق میں ہوا۔ چیف جسٹس نے میری تعریف کی۔ جب لاہور واپس آیا تو چونکہ مجھے کوئی جانتا نہ تھا تو لوگ کہتے تھے کہ کون یہ ظفر اللہ خان ہے جو گیا اور مقدمہ جیت کر آگیا۔

مقدمہ جات اور ترجمانی کے واقعات کے علاوہ آپ نے ان رؤیا و کشوف کا ذکر کیا جو حضرت مصلح موعودؓ کو آپ کے متعلق ہوئے۔

ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حضورؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ میرے مکان کا دروازہ بہت بلند ہے۔ اتنا بلند ہے کہ میں نے کسی کا کبھی نہیں دیکھا اور اس کے اندر اتنی روشنی ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ پھر آپ نے ایک اَور رؤیا دیکھی کہ نیویارک کے ریڈیو سے خبر آئی ہے کہ ظفر اللہ خان کو قتل کر دیا گیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ اعلیٰ کامیابی عطا کرے گا۔ لیکن ظاہر طور پر احتیاط بھی کرنی ہے اور صدقہ بھی دے دیں۔

1954ء میں حضورؓ نے خواب میں دیکھا کہ میرا خط حضور کے نام آیا ہے کہ میرا جہاز جو مشرق سے مغرب کی طرف جارہا تھا گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ اور حضورؓ خواب میں ہی سمجھتے ہیں کہ یہ خط لکھا رہا ہے اس لئے بچ گیا ہے۔ ڈرائیور کا نام محمد آتا ہے۔ غلام محمد ہے۔ صدقہ دے دو اور پھر ریل کا حادثہ ہوا لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر جان بخشی کر دی۔

حضورؓ کو احساس ہوا کہ میں نے وکالت کی پریکٹس کی طرف توجہ کر لی ہے لیکن پبلک زندگی میں آنے سے گھبراتا ہوں۔ حضورؓ نے 1921ء میں مولانا ذوالفقار علی گوہر والد مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم جو اس وقت ناظر امور عامہ تھے کو بھیجا کہ حضورؓ کو اس بات کا احساس ہے اس لیے بطور تعزیر تمہارے لیے(چودھری صاحب کے لیے) سزا تجویز کی ہے تم 4اضلاع میں اسمبلی کا الیکشن لڑوگے۔ اس میں تو آپ کامیاب نہ ہوسکے لیکن بعد میں پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے۔

خلافت ثالثہ

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ 1965ء سے 1982ء تک خلافت کے مقام پر فائز رہے اور اس عرصہ میں بھی حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خانؓ کی اطاعت، محبت خلافت کے لیے فدائیت، جاںنثاری کا جذبہ موجزن رہا۔ جلسہ سالانہ 1965ء پر آپ تشریف لائے تو ‘‘فضل عمر فاؤنڈیشن’’ (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اس فاؤنڈیشن کا اعلان کرنے کا بھی آپ کو ارشاد فرمایا) کا قیام عمل میں آیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ازراہِ شفقت آپ کو اس کا صدر مقرر فرمایا اور تاحیات آپ اس کے صدر رہے۔

عبدالمالک صاحب آف لاہور نمائندہ الفضل ربوہ نے بتایا کہ ایک دفعہ حضوررحمہ اللہ لاہور تشریف لائے ہوئے تھے کہ ایک ملاقات میں مَیں نے دیکھا کہ چودھری صاحبؓ حضورؒ کے سامنے اس طرح ادب و احترام کے ساتھ کھڑے ہیں جیسے کوئی چیز بے حس و حرکت ہے۔ ایک مرتبہ لندن میں چودھری صاحبؓ بالائی منزل میں تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ آپ سے کوئی مشورہ کرنا چاہتے تھے۔ امام بشیر احمد خان رفیق مرحوم نے چودھری صاحب کو بتایا کہ حضور رحمہ اللہ کسی مشورہ کے لیے اوپر آپ کے پاس آرہے ہیں۔ آپ نے یک دم اپنے اُسی لباس میں جلدی سے گاؤن پہنا اور جوتی پہن کر اس سے قبل کہ حضور رحمہ اللہ آپ کے پاس آئیں خود آپ حضور ؒکی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ یہ فوٹو بھی موجود ہے جس میں آپ بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ حضور رحمہ اللہ کے پاس کھڑے ہیں۔

محترم چودھری ظفر اللہ خانؓ ہمیشہ ہر خلیفۃ المسیح سے اپنے ذاتی اور نجی معاملات میں بھی مشورہ لیتے اور ہر ہدایت کی کماحقہ تعمیل کیا کرتے تھے۔

1981ء کی بات ہے کہ تیونس کے سفیر ملنے آئے اور پیغام دیا کہ ہمارے ملک کے براکوبا کی خواہش ہے کہ آپ ہمارےملک تشریف لائیں۔ آپ نے انہیں فرمایا کہ ٹھیک ہے میں بتاؤں گا۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں ربوہ حاضر ہوئے۔ اور اجازت کی درخواست کی کہ مجھے وہ اپنے ملک بلا رہے ہیں حضورؒ اجازت دیں میں چلا جاؤں حضور رحمہ اللہ نے ازراہِ شفقت اجازت مرحمت فرمائی۔

اس ملاقات میں چودھری بشیر احمد صاحب اور ان کے بڑے صاحبزادے اور کاہلوں صاحب بھی موجود تھے۔ چودھری بشیر احمد صاحب مرحوم نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور ان کی عمر 90سال ہے۔ انہیں اکیلے نہیں جانا چاہیے کوئی ساتھ ہونا چاہیے۔ چودھری صاحبؓ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور بشیر کہتا ہے میرے بیٹے کو ساتھ لے جاؤ۔ چنانچہ اجازت ملنے پر انور کاہلوں صاحب آپ کے ساتھ تیونس گئے۔

اگلے سال مراکو کے بادشاہ نے بھی آپ کو اپنے ملک مدعو کیا۔ حضوررحمہ اللہ سے اجازت ملنے پر تشریف لے گئے۔ لیکن اس مرتبہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مرحوم آپ کے ساتھ تھے۔ ایک کوٹ ایک دھاری دار پتلون ساتھ لے کر گئے اور ایک ہفتہ وہاں قیام کیا۔ حضرت چودھری ظفر اللہ خانؓ کی سادگی کی داستان اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے الگ ایک لمبے مضمون کی ضرورت ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ساتھ اکثر شریک طعام ہونے کی سعادت ملتی رہی۔ حضور رحمہ اللہ بھی آپ کی ذیابیطس کی بیماری کی وجہ سے آپ کا خیال رکھتے تھے کہ آپ کو ایسا کھانا میسر آئے جو آپ کی بیماری کے لیے مناسب ہو۔ 1970ء میں حضور نے سفر یورپ میں بھی چودھری صاحب کو ساتھ رکھا۔ برٹش پارلیمنٹ کے رکن ٹام کاکس نے جب پارلیمنٹ ہاؤس میں حضور رحمہ اللہ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا تو حضور رحمہ اللہ کی بہت قربت نصیب رہی۔

1978ء میں کسر صلیب کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی۔ اس پروگرام میں حضور رحمہ اللہ کی قربت میسر رہی۔ تقریر کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اس کی پوری تفصیل تو ایک وڈیو ڈاکومنٹری میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خلافت ثالثہ کے دوران جلسہ ہائے سالانہ پر آپ کی آمد اور حضور ؒسے ملاقاتوں میں قربتوں کے بے شمار واقعات ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ 8؍اور 9؍جون 1982ء کی درمیانی شب اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی وفات اسلام آباد پاکستان میں ہوئی۔ انتخاب خلافت سے قبل محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓپاکستان تشریف لے آئے اور انتخاب خلافت کے اجلاس میں شامل ہونے اور حضور رحمہ اللہ کا آخری دیدار کرنے کا موقع ملا۔

خلافت رابعہ

خلافت رابعہ کا سب سے پہلا اعزاز آپ کو اس طرح نصیب ہوا کہ انتخاب خلافت کے بعد پہلی بیعت کے موقعے پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہاتھ پر سب سے پہلے آپ کا ہاتھ تھا۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار خلفائے احمدیت کی صحبت، محبت، الفت، توجہ اور قربت کے مواقع نصیب فرمائے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ کشف حضرت چودھری صاحبؓ کے بارےمیں بتایا۔ حضور رحمہ اللہ نے اپنےخطبہ جمعہ فرمودہ6؍ستمبر 1985ء میںفرمایا:

‘‘ان کے ساتھ مجھے خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تعلق عطا ہوا تھا۔

جب خلافت کے بعد خدا تعالیٰ نے مجھے پہلا کشف دکھایا ہے تو تعجب کی بات نہیں کہ پہلے کشف میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہی دکھائے گئے اور وہ بھی ایک عجیب کشف تھا۔ میں حیران رہ گیا کیونکہ اس قسم کی باتوں کی طرف انسان کا ذہن عموماً جاہی نہیں سکتا۔ ایک دن یا دو دن خلافت کو گزرے تھے تو کسی نے پوچھا کہ آپ کو خلیفہ بننے کے بعد کوئی الہام کوئی کشف وغیرہ ہوا ہے۔ میں نے کہا مجھے ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا۔ بس میں گزر رہا ہوں جس طرح بھی خدا تعالیٰ سلوک فرما رہا ہے، ٹھیک ہے۔ تو اس کے چند دن کے بعد ہی میں نے صبح کی نماز کے بعد کشفاً بڑے واضح طور پر ایک نظارہ دیکھا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہیں اور میں وہ باتیں سُن رہا ہوں اور فاصلہ بھی ہے۔ مجھے یہ علم ہے کہ لیٹے لندن میں ہوئے ہیں لیکن جس طرح فلموں میں دکھایا جاتا ہے قریب کہ ٹیلیفون کہیں دور سے ہورہے ہیں اور سُن رہا ہے گویا کہ اس قسم کے مزے کیمرہ ٹرِک سے ہوجاتے ہیں۔ تو کشفاً یہ دیکھ رہا تھا کہ چودھری صاحبؓ اپنے بستر پہ لیٹے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے کچھ باتیں کر رہے ہیں اور میں سُن بھی رہا ہوں اور اس کے ساتھ ایک ذہنی تبصرہ بھی ہورہا ہے لیکن گویا میری آواز وہاں نہیں پہنچ رہی۔ اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب سے یہ پوچھا کہ آپ کا کتنا کام باقی رہ گیا ہے تو چودھری صاحب نے عرض کیا کہ کام تو چار سال کا ہے لیکن اگر آپ ایک سال بھی عطا فرمادیں تو کافی ہے۔ یہ سُن کر مجھے بہت سخت دھکا سا لگا اور میں چودھری صاحب کو یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ چار سال مانگیں خدا تعالیٰ سے یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ ایک سال بھی عطا ہوجائے تو کافی ہے۔ مانگ رہے ہیں خدا سے اور کام چار سال کا بیان کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ایک سال ہی کافی ہے مجھے اس سے بےچینی پیداہوئی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس نظارے میں مَیں اپنی بات پہنچا نہیں سکتا تھا صرف سن رہا تھا کہ یہ گفتگو ہورہی ہے۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ستمبر 1985ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 4صفحہ 765تا766)

حضور رحمہ اللہ مسند خلافت پر متمکن ہونے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی سپین کی مسجد بشارت کے افتتاح کے لیے تشریف لے گئے۔ اس افتتاحی تقریب میں آپ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ساتھ شریک تھے۔

جماعتِ احمدیہ لاہور نے مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے بعد حضور رحمہ اللہ کی پاکستان واپسی پر لاہور کے ہلٹن ہوٹل میں حضور رحمہ اللہ کے اعزاز میں استقبالیہ پیش کیا تو اس تقریب میں بھی چودھری صاحبؓ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ حضور رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

خلافتِ احمدیہ کے اس فدائی، جاںنثار کو ہمیشہ خلیفۃ المسیح کے قدموں میں جگہ نصیب ہوئی۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ کے زمانہ میں کیمرہ کی سہولت سے فوٹو میسر آسکتیں تو یقیناً وہ بھی آج کاغذی صفحوں میںہمارے لیے محفوظ ہوسکتیں لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے زمانے کی تصاویر اس بات کی گواہ ہیں کہ خلافتِ احمدیہ کے اس ادنیٰ خادم کو اللہ تعالیٰ نے خلفاء کی قربت اور ان کی قدم بوسی کی عظیم دولت سے مالا مال کیا۔ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَآء۔

ایک دفعہ مکرم شمشاد احمد قمر (پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی) نے بیان کیا کہ حضرت چودھری صاحبؓ نے انہیں فرمایا:

‘‘میں تو کچھ چیز نہ تھا جو کچھ بھی مجھے مرتبہ ملا محض خدا کے فضل اور حضور کی شفقت اور میری والدہ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ ’’

خاکسار راقم الحروف سے یہ واقعہ محترم چودھری حمید نصراللہ خان صاحب امیر جماعتِ احمدیہ لاہور نے بیان کیا کہ جب آپ لندن سے شفٹ ہو کر لاہور مستقل آگئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے آپ کی ملاقات کا دن اور وقت طے ہوا۔ گاڑی پر لاہور سے روانہ ہوئے تو خانقاہ ڈوگراں کے قریب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیااور گاڑی کو قریبی ورکشاپ لے گئے تاکہ اس کی مرمت کر کے جلدی ربوہ پہنچ جائیں۔ حضرت چودھری صاحب کو حضور سے ملاقات کی اتنی تڑپ تھی اور فکر تھا کہ کہیں میں لیٹ نہ ہو جاؤں کہ آپ بتائے بغیر لاری اڈہ کی طرف چل پڑے کہ میں بس پر سوار ہو کر اپنے امام کی خدمت میں بروقت پہنچ جاؤں۔ جب دیکھا کہ چودھری صاحب کہاں گئے ہیں تو نظر آیا کہ وہ تو لاری اڈہ کی طرف بے تابی سے جا رہے ہیں۔ جا کر وہاں سے انہیں واپس لائے اور گزارش کی کہ آپ تسلی رکھیں گاڑی کا ٹائر تبدیل کر کے ہم جلد ہی اور بس سے پہلے ربوہ پہنچ جائیں گے اور انشاء اللہ آپ بروقت حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کے لیے پہنچ جائیں گے۔ تب اطمینان ہوا اور واپس آگئے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کی وفات (یکم ستمبر1985ء) کے بعد 6؍ستمبر 1985ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:

‘‘مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب جن کا وصال یکم ستمبر کو ہوا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات میں سے ایک کلمہ تھے اور ایک عظیم الشان مقام خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تقویٰ کا نصیب ہوا۔ ’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ستمبر1985ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد4صفحہ749)

اسی خطبہ جمعہ میں حضور ؒنے فرمایاکہ

‘‘…آپ پر یہ احساس غالب رہا کہ میں نے ایک اللہ کے مامور کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دیا ہے اور جہاں تک میرا بس ہے، جہاں تک میرے اندر خدا کی طرف سے توفیق عطا ہوئی ہے میں اس کے تقاضے پورے کرتا رہوں گا اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نہایت ہی اہلیت کے ساتھ ان تقاضوں کو پورا کیا اور آپ کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی …فرماتے ہیں:

‘‘…میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ …’’

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍ستمبر1985ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد4صفحہ751تا751)

آپ پر اپنی بیماری کے ایام میں بعض اوقات غنودگی طاری ہوتی تھی اور ہوش آنے پر بعض باتیں کہتے تھے۔ ایک دفعہ یہ کہتے سنا Heaven۔ پھر یہ کہتے سنا مبارک ہو مبارک ہو۔

زندگی کے آخری لمحات میںجب انسان اپنی اولاد اور عزیزوںکو یاد کرتا ہے خلافت کا یہ فدائی عاشق اور خادم بے ہوشی کی حالت ختم ہونے پر پوچھتا ہے ‘‘حضور کہاں ہیں؟’’ بتایا گیا لندن میں۔ پھر پوچھا ہم کہاں ہیں بتایا گیا لاہور میں۔ گویا آخری دنوں میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملنے کی خواہش بے تاب کرتی تھی۔

ایک دن آپ نےفرمایا ‘‘جب میرا وقتِ آخر آئے میرا خدا مجھ سے راضی ہو اور اس کی رحمت کے دروازے کھلے ہوں۔ ’’

اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلندسے بلند تر کرتا چلا جائے۔ اور آپ جیسے بے شمار فدائی، مخلص اوربا وفا خدام خلافتِ احمدیہ کو عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

دین خدا کی آبرو تھی مقصدِ حیات

پہنچا جہاں بھی پیار کا دریا بہا گیا

تھی اس کی ذات مشعلِ انوار آگہی

جینے کا زندگی کو قرینہ سکھا گیا

(ثاقب زیروی)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button