الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں

حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے شب و روز

مکرم قریشی محمود احمد صاحب ریٹائرڈ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے کچھ حالات الفضل 16ستمبر1955ء میں شائع کرائے تھے ان کی والدہ حضورؓ کی حقیقی بھتیجی تھیں ۔ یہ خوبصورت مضمون روزنامہ‘‘الفضل’’ ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرّر شائع ہوا ہے۔

محترم قریشی صاحب رقمطراز ہیں کہ میری پیدائش 1896ء کی ہے۔ میں 1910ء میں مخدوم محمد ایوب صاحب بھیروی کے ہمراہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ملاقات کے لیے قادیان گیا تھا۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ بوقت عصر ہم دونوں مسجد مبارک میں پہنچے۔ اس وقت آپؓ عصر کی نماز کے بعد حدیث شریف کا درس ختم کر کے مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دینے کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ آپ ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ چلو تمہیں قرآن سنائیں اور ہمیں اپنے ساتھ مسجد اقصیٰ میں لے گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک درخت کے ساتھ کھڑے ہو کر آپؓ نے تلاوت فرمائی اور پھر اس کی تفسیر کی۔ آپ نے اس درس قرآن کا سلسلہ اپنی عمر کے آخر تک نہایت استقلال سے جاری رکھا۔ ایک مرتبہ آپ کو بوجہ اسہال کچھ ضعف ہو گیااورآپ ایک چٹائی پر لیٹ گئے۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب نے دریافت کیا: آج درس تو نہ ہو گا؟ آپؓ نے کہنی کے زور سے اٹھ کر فرمایا: ’’درس تو ہماری غذا ہے۔‘‘

جب آپؓ گھوڑے سے گر کر صاحب فراش ہوئے تو گھر پر ہی درس دینا شروع کردیااور جب طاقت کچھ بحال ہو گئی تو پھر ایک سونٹا ہاتھ میں لے کر مسجد اقصیٰ میں پہنچنا شروع کر دیا۔ اگر راستے میں تھک جاتے تو ڈپٹی کی حویلی کے تھڑے پر ذرا بیٹھ جاتے اور راستہ چلتے ہوئے بھی لوگوں کو نصائح فرماتے۔ غریب پروری آپ کی طبیعت ثانیہ تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ احمد نور کا بلی کی دکان پر امام دین عرف ماٹا ایک ٹوکری میں ابلے ہوئے چنے بیچ رہا تھا۔ یہ کام بھی اس نے آپؓ ہی کے ارشاد پر شروع کیا تھا۔ آپؓ نے اس کی معمولی آمدنی اور عیالداری دیکھ کر فرمایا کہ اگر تمہارا گزارا نہ ہوتا ہوتو ہم تمہارا کھانا لنگر سے لگوا دیتے ہیں ۔ اس نے جواب میں کہا کہ ’’نہیں جی واہ واہ گزارا ہو رہا ہے۔‘‘ اس کا جواب سن کر آپؓ پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔

آپؓ کو دوسرے لوگوں کو دینی علم پڑھانے کا بے حد شوق تھا۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن پڑھانے کا ٹھرک ہے اور مجھے اس ٹھر ک پر خوشی ہے۔

آپؓ کا معمول یہ تھاکہ علی الصبح اٹھتے اور اوّل وقت میں نماز فجر مسجد میں لمبی قرا ء ت کے ساتھ پڑھاتے۔ نماز سے فارغ ہو کر آپؓ درس فرماتے۔ پھر گھر جاتے اور تھوڑی دیر کے بعد چھوٹی بچیوں کو قرآن کریم پڑھاتے۔ پھربڑی لڑکیوں کو قرآن کا سبق دیتے۔ یہ کام دس بجے تک جاری رہتا۔ پھر ناشتہ فرماتے اور مطب میں تشریف لے جاتے جو آپؓ کے آنے سے قبل اکثر بھر جاتا تھا۔ آپؓ مطب میں مریضوں کو دیکھتے اور مناسب علاج تجویز فرماتے۔ اس کے بعد جو باہر سے ڈاک آتی تھی اسے ملاحظہ فرماتے اور چٹھیوں کو تین چار جگہ الگ الگ رکھتے جاتے۔ دعا کی جملہ درخواستیں پیر افتخار احمد صاحب کے پاس بھجوادیتے جو ان چٹھیوں کا خلاصہ ایک مطبوعہ فارم پر درج کردیتے جس میں نام پتہ اور غرضِ دعا مرقوم ہوتی۔ وہ فارم آپ سنبھال کر رکھ لیتے اور عید کے دن نماز عید کے بعد آپؓ بیت الدعا میں تشریف لے جاتے اور درخواست کنندگان کے لیے دعا فرماتے۔ ڈاک میں جو چٹھیاں مریضوں کی طرف سے موصول ہوتیں انہیں آپؓ مولوی غلام محمد صاحب کے سپرد کر دیتے۔ جو ان کے مناسب جواب لکھ کر ارسال کر دیتے۔ جن چٹھیوں کا تعلق دینی مسائل سے ہوتاان میں سے اکثر آپؓ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے حوالہ کر دیتے اور کچھ ضروری چٹھیاں اپنے پاس رکھ لیتے اور ان کے جواب خود اپنے ہاتھ سے تحریر فرماتے۔ آپ عموماً پوسٹ کارڈ پر ہی جواب دیتے۔ آپ کی تحریر عموماً

خَیْرُالْکَلَامِ مَاقَلَّ وَدَلَّ

کی مصداق ہوتی۔ دو ایک سطروں میں جواب ختم۔ جن چٹھیوں کاتعلق انجمن کے معاملات سے ہوتا وہ مولوی محمد علی صاحب سیکرٹری امور انجمن احمدیہ کو بھجوا دیتے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ اور مولوی محمد علی صاحب ان چٹھیوں کے جوابات آپ کی ہدایات کے ماتحت تحریر فرماتے۔

اس کام سے فراغت پانے کے بعد پھر تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع رہتا۔ ایک مرتبہ حکیم نور محمد صاحب نے عرض کیا کہ میں آپ سے قرآن کریم پڑھنا چاہتا ہوں ۔ آپؓ نے فرمایا:‘‘ہم تو سارا دن قرآن شریف ہی پڑھاتے رہتے ہیں ۔’’ انہوں نے کہا کہ میرا مطلب یہ ہے کہ میں قرآن شریف آپ سے سبقاً سبقاً پڑھوں ۔ آپؓ نے فرمایا کہ اَور تو کوئی وقت ہمارے پاس نہیں ہے البتہ جب ہم دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں تم اس وقت پڑھ لیا کرو۔ یہ سبق بھی ایک مستقل درس کی صورت اختیار کر گیا۔

پھر ماسٹر فقیر اللہ خاں صاحب .M.A نے آپؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ مجھے قرآن شریف پڑھائیں ۔

حضورؓ نے انہیں دوپہر کے وقت قرآن کریم پڑھانا شروع کر دیا۔ اس وقت بھی کافی لوگ جمع ہو جاتے اور عموماً آپؓ کا مطب بھر جاتا۔

پھر شیخ تیمور صاحب .M.Aبھی آپؓ کے طالب علم بن گئے۔ جب انہوں نے تعلیم حاصل کر لی تو آپؓ نے ہنس کر فرمایاکہ ہم نے شیخ صاحب کو عربی کا .M.Aبنا دیا ہے۔

جو لوگ قادیان صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آتے ان کا بیشتر وقت حضورؓ کی صحبت میں ہی گزرتا۔ اور جو لوگ قادیان کے مقیم تھے وہ بھی اپنے فرائض منصبی اور ضروری کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اپنا اکثر وقت حضور کی خدمت میں حاضر رہتے۔ آپ عموماً یہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں لکھتے رہتے ہیں کہ ہم انہیں علیحدگی میں وقت دیں ۔ مگر علیحدہ ملاقات کے لیے ہمارے پاس کوئی وقت ہی نہیں ۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ یہاں کام کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم تھک جاتے ہیں مگر میں توسارا دن کام کرتے ہوئے بھی نہیں تھکتا۔

جب کسی نے قادیان سے جانا ہوتا تو وہ حضورؓ کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ جاتا۔ آپ عموماً لوگوں کو رخصت کرتے وقت ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے اور مسنون دعائیں پڑھتے۔ اگر کسی کو کرایہ دینا ہوتااور کرایہ پاس نہ ہوتا تو اسے فرماتے ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان فوراً ہی کردیتا۔

آپؓ عشاء کی نماز کے بعد کلام کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ بلکہ اگر کوئی بلانے کی کوشش کرتاتو فرماتے کہ عشاء کے بعد کلام کرنا منع ہے۔ آپؓ عام طور پر دس بجے صبح سے شام کی نماز تک باہر ہی رہتے۔ دوپہر کا کھانا بھی باہر ہی منگواکر کھاتے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ ضرور شامل کرلیتے۔

مطب میں روز مرہ کی ڈاک پڑھنے کے بعد سب سے پہلے غریب اور نادار مریضوں کو ملاحظہ فرماتے اور انہیں اشارہ کرکے اپنے پاس بلاتے۔ کبھی کوئی چوہڑہ یا چمار مریض ہاتھ جوڑ کر کہتا کہ میں چوہڑہ ہوں تو آپ فرماتے کہ دیکھو ان لوگوں کو کیسا بنا دیا گیاہے۔ میں کہتا ہوں آگے آجائواور یہ آگے نہیں آتے۔ غریب اور گنوار عورتوں کو آگے بلا کر آپ لفظ پُت، بیٹا سے مخاطب کرتےتاکہ وہ نڈر ہو جائیں اور اپنی حقیقتِ مرض کو آسانی سے بیان کر دیں ۔ غربا کے بعدآپ دوسرے مریضوں کی طرف رُخ کرتے اور باری باری ہر ایک مریض کا مناسب علاج فرماتے۔ اگر کوئی مریض کچھ نذرانہ پیش کرتا توآپؓ اس کی حالت دیکھتے۔ اگر تو وہ خوشحال نظر آتاتواس کا نذرانہ قبول فرما لیتے اوراگر وہ غریب معلوم ہوتا تو آپؓ اس کا نذرانہ یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ اسے اٹھا لو، اس کا دودھ وغیرہ پی لینا۔ آپؓ نادار مریضوں کو نہ صرف ادویات مفت دیتےبلکہ بسا اوقات ان کے کھانے پینے کے اخراجات بھی خود برداشت کرتے اور اگر وہ فوت ہو جاتےتو ان کے تجہیزو تکفین کا بندو بست بھی خود ہی فرماتے۔

………٭………٭………٭………

خلافتِ احمدیہ کی ایک عظیم برکت
کنواری اقوام۔ احمدیت کی آغوش میں

حضرت مسیح موعودؑ کے طفیل جو عالمی انقلاب مقدر ہے اس کا ایک پہلو ان اقوام سے تعلق رکھتا ہے جنہیں مذہبی اصطلاح میں کنواری اقوام قرار دیا گیا ہے۔ دراصل بہت سی پیشگوئیاں استعاروں کی زبان میں کی جاتی ہیں اور ان کا صحیح مفہوم اس وقت تک مخفی رہتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے مجاز کا پردہ نہ ہٹایاجائے یا خداتعالیٰ کی فعلی شہادت اصل معنے آشکار نہ کردے۔ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا مضمون اسی حوالے سے شائع ہوا ہے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے انجیل متی باب 24میں اپنی بعثت ثانی کی پیشگوئی کی ہے اس کے بعد باب 25کا آغاز یوں ہوتا ہے:‘‘اس وقت آسمان کی بادشاہی ان دس کنواریوں کی مانند ہوگی جو اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں ۔ ان میں پانچ بیوقوف اور پانچ عقلمند تھیں۔ جو بیوقوف تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کپیوں میں تیل بھی لے لیا اور جب دلہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دلہا آگیا۔ اس کے استقبال کو نکلو اس وقت وہ سب کنواریاں اٹھ کر اپنی اپنی مشعل درست کرنے لگیں اور بیوقوفوں نے عقلمندوں سے کہا کہ اپنے تیل میں سے کچھ ہم کو بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں ۔ عقلمندوں نے جواب دیا کہ شاید ہمارے تمہارے دونوں کے لیے کافی نہ ہو۔ بہتر یہ ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جا کر اپنے واسطے مول لے لو۔ جب وہ مول لینے جارہی تھیں تو دلہا آپہنچا اور جو تیار تھیں وہ اس کے ساتھ شادی کے جشن میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہوگیا۔ پھر وہ باقی کنواریاں بھی آئیں اور آکر کہنے لگیں ۔ اے خداوند!اے خداوند ہمارے لیے دروازہ کھول دے اس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تم کو نہیں جانتا‘‘۔ (متی باب 25 آیت 1 تا12)

یہ تمثیل درحقیقت حضرت مسیح ناصریؑ کی اپنی بعثت ثانی کے متعلق ایک پیشگوئی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں : اس تمثیل میں حضرت مسیح ناصری نے اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب دوبارہ دنیا میں آؤں گا تو کچھ قومیں جو ہوشیار ہوں گی وہ مجھے مان لیں گی لیکن کچھ اپنی غفلت کی وجہ سے مجھے ماننے سے محروم رہ جائیں گی۔ (الفضل 19 فروری 1960ء)

یہ قومیں کون سی ہیں اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات جاننی ضروری ہے کہ مذہبی اصطلاح میں کنوارپن قابل تعریف نہیں بلکہ ایک بڑا بھاری نقص ہے۔ دنیا کی تمام قوموں کے لیے یہ مقدّر ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانی کے ذریعہ حضرت محمد مصطفی ٰﷺ کی غلامی اور اطاعت میں داخل ہوں اور اپنا وجود اسی آسمانی دلہا کے سپرد کردیں تاکہ وہ روحانی طور پر بارآور ہوں اور ان کی روحانی اولاد پید اہو۔ پس کنواری سے مراد وہ تمام اقوام ہیں جنہوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا۔ یہ قومیں دو حصوں میں منقسم ہیں ایک تو وہ اقوام ہیں جن تک اسلام کے دَورِ اوّل میں پیغام نہیں پہنچا۔ اور دوسری وہ جن تک اسلام کا پیغام پہنچا تو ہے مگر انہوں نے عموماً قبول نہیں کیا۔ ان میں سب سے وسیع حصہ عیسائی اقوام کا ہے جو خود بھی بے تابی کے ساتھ حضرت مسیحؑ کی بعثت ثانی کی منتظر ہیں ۔ لیکن دراصل اُنہیں حضرت مسیحؑ پر ایمان نہیں ۔ کیونکہ وہ انہیں خدا کے نبی کی بجائے خدا کا بیٹا قرار دیتی ہیں ۔ پس مسیح موعوؑد کی خلافت کے ذریعہ ہی اسلام میں داخل ہو کر انہیں مسیحؑ اوّل پر بھی حقیقی ایمان عطا ہوگا اور وہ آسمانی بادشاہت میں داخل ہوں گی۔ حضرت مصلح موعود ؓنے یہی مضمون بیان فرمایا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے دورہ ٔمشرق بعید 1983ء کے دوران فجی اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا گہری نظر سے جائزہ لینے کے بعد انہیں کنواری اقوام قرار دیا۔ فجی قوم کے متعلق فرمایا :‘‘جب فجی قوم سے ہمارا تعارف ہوا تو معلوم یہ ہوا کہ فجی قوم بھی اُن قوموں میں سے ایک قوم ہے جس کو خداتعالیٰ نے بطور کنواری اور بیمار دکھایا۔ صورت یہ ہے کہ جب میں نے جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ فجینزمیں مسیحیت تو پھیلی ہے لیکن اسلام نہیں پھیلا اور اسلام کے نقطہ نگاہ سے فجی قوم بالکل کنواری بیٹھی ہوئی ہے’’۔ پھر آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ قوم اس لحاظ سے کنواری ہے کہ اب تک اس کو اسلام کا پیغام نہیں پہنچا اس قوم کا دلہا اسلام ہے۔‘‘

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعوؑد نے دین اسلام کے عالمگیر غلبہ اور تمام اقوام عالم کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے۔ (الوصیت صفحہ6)

پھر اللہ تعالیٰ نے حسن و احسان میں مسیحا کے نظیر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو یہ خبر دی کہ اس پیشگوئی کا آپ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور آپ کے ذریعہ کنواری اقوام کا اسلام میں داخلہ مقدّر ہے۔ چنانچہ جنوری 1944ء کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر ایک رؤیا کے ذریعے یہ انکشاف فرمایا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں ۔ اس رؤیا میں آپ نے فرمایا:

اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ۔

کہ میں بھی مسیح موعود ہی ہوں یعنی اس کا مشابہ نظیر اور خلیفہ۔

اسی رؤیا میں آگے چل کر حضورؓ فرماتے ہیں :

میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں ۔ دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں مجھے السلام علیکم کہتی ہیں اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لیے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں ۔

اس رؤیا کی تعبیر حضورؓ یوں فرماتے ہیں : رؤیا میں مَیں نے جو یہ کہا کہ میں وہ ہوں جس کے لیے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا ان علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور قلم سے ظاہر فرمائے ہیں ۔ ان قوموں کو جن کے لیے حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانا مقدر ہے اورجو حضرت مسیح ناصری کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ہیں ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے وہ میرے ہی ذریعہ ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی۔

اس رؤیا سے قریباً دس سال قبل خداتعالیٰ نے اپنی خاص تقدیروں کے تحت آپ کے ہاتھوں تحریک جدید کی بنیاد رکھوائی۔ جس کے ذریعہ تمام اقوام عالم میں دعوت حق کا ایک ابدی نظام جاری کر دیا گیا ہے اور یہ کارواں اب ہر دم بلندیوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔ حضوؓر خود فرماتے ہیں : خداتعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھ دی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصری کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگی۔ مثیل مسیح ان کنواریوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں جو اس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اٹھیں گی کہ ہو شعنا، ہو شعنا اس وقت انہیں محمدﷺ پر ایمان لانا نصیب ہوگا اور اسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیحؑ اول پر سچا ایمان نصیب ہوگا اب تو وہ قومیں انہیں خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر درحقیقت گالیاں دے رہی ہیں لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیج سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیح سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خداتعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے۔ ویسے ہی زمین پر آجائے گی۔

لاریب کہ یہ پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعہ سے خوب پوری ہوئی۔ بہت سی اقوام آپ کے قائم کر دہ نظام تبلیغ کے ذریعہ اسلام کی آغوش میں آئیں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور ابھی بہت سی ایسی اقوام اسلام قبول کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں ۔ انہی میں سے دو اقوام فجی اور آسٹریلیا کے قدیمی باشندے بھی ہیں ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ نے ان قوموں کے دین اسلام میں داخلہ کی پُرجلال پیشگوئی اپنے پہلے دورہ کے بعد فرمائی۔ فجی قوم کے متعلق فرمایا: یہ قوم اللہ کے فضل سے قبول اسلام کے لیے بالکل تیار بیٹھی ہے … ایک قدم اور ایک چھلانگ اور ایک جھپٹا مارنے کی دیر ہے سار افجی اللہ تعالیٰ کے فضل سے محمد رسول اللہﷺ کے قدموں میں پڑا ہوگا۔

آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے متعلق فرمایا: وہ دن دور نہیں جب آسٹریلیا کے براعظم میں اسلام کا سورج پوری شان سے چمکے گا۔ اب تو آسٹریلیا میں جگہ جگہ مساجد بنیں گی۔ لازماً آسٹریلیا کو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے امن کے سائے میں آنا پڑے گا۔ (الفضل 29 نومبر 1983ء)

یہ ساری بشارات اس آسمانی بادشاہت کے قیام کے لیے ہیں جس کے تخت پر حضرت محمد مصطفیٰﷺ جلوہ افروز ہوں گے اور جس کے قیام کی اقوام عالم ہمیشہ منتظر رہیں ۔ انجیل میں اس کا نقشہ یوحنا اپنے ایک کشف میں یوں کھینچتا ہے: میں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اترتے دیکھا اور وہ اس دلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کے لیے سنگھار کیا ہو۔ پھر میں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھو خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ ان کے ساتھ سکونت کرے گا اور وہ اس کے لوگ ہوں گے اور خدا آپ ان کے ساتھ رہے گا اور ان کا خدا ہوگا۔ (مکاشفہ یوحنا باب 21آیت 1 تا3)

آسٹریلیا کے قدیم باشندے ایبورجینز کم از کم چا لیس ہزار سا ل پہلے سے آ سٹریلیا میں آباد ہیں ان کے مذہب کی بنیا د خوابوں پر ہے جن کے با رے میں رسو ل کریمﷺ نے فر ما یا ہے کہ سچی مبشر رؤیا نبوت کا چھیالیسوا ں حصہ ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے ملنے والی ہدایت کا آغاز خوابو ں کے ذریعہ ہوتا ہے جو ترقی کرتے کرتے شریعت اور ما موریت کے الہام تک پہنچتا ہے۔ ایبورجینز مختلف قبا ئل میں بٹے ہوئے تھے۔ چھ سو سے زائد زبا نیں بو لی جاتی تھیں ۔ نہ ان کا آ پس میں کو ئی را بطہ تھا نہ کوئی مشترک زبا ن تھی۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سبھی یہ مانتے تھے کہ کا ئنات کی ایک طاقت ہے جو رؤیا کے ذریعہ ہم سے را بطہ رکھتی ہے۔ ان کی خوابوں کا ایک نظا م ہے خوابوں کی تاویل کرنے والے ان میں بزرگ موجود ہیں ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ خوابوں میں جو پیغا م ملتے ہیں وہ مستقبل میں اسی طر ح پورے ہوتے ہیں یہ گویا اس با ت کا ثبوت ہے کہ خدا نے کسی بھی قوم اور نسل کو بغیر ہدایت کے نہیں چھو ڑا۔ ان کو یقین تھا کہ اس کائنات میں ایک برتر ہستی ہے جو ہر چیز سے پہلے موجود تھی جس نے دنیا کوپیدا کیا اور پھر آسمانوں پر چلی گئی (جس طر ح قرآن کہتا ہے کہ خدا نے مخلوقات کو پیدا کیا اور عرش پر قرار فر ما ہو گیا یعنی مخلوق سے منزہ جو تنزیہی صفات ہیں ان کے پردہ میں مستور ہو کر اور تشبیہی صفات کو ظا ہر کرکے تد بیر امور کائنات فر ما نے لگا )۔

کنواری اقوام کے متعلق پیشگوئی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ کے عہد میں اس طرح پوری ہوئی کہ عالمی بیعت کی مہم کے ذریعہ نئی نئی کنواری اقوام نے احمدیت کی آغوش میں پناہ حاصل کی۔ ان میں فجی قوم اور آسٹریلیا کے قدیم باشندے قابل ذکر ہیں ۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1983ء میں مشرق بعید کے دورہ پر تشریف لائے تو فجی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رؤیامیں ایک بزرگ خاتون دکھائیں جو حضور کی والدہ محترمہ کی رضاعی بہن تھیں انہوں نے کبھی شادی نہ کی تھی اور برص کی مریضہ تھیں ۔ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بڑی محبت سے گلے لگا لیا۔ حضور نے اس رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعودؓ کے متعلق یہ پیشگوئی تھی جس کا بائبل میں ذکر ہے کہ کنواریاں اس کا انتظار کریں گی اور مسیح کے متعلق اس کی صفات میں ایک یہ بھی ہے کہ وہ برص زدہ کو اچھا کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا میں دو خوشخبریاں عطا فرمائی ہیں ۔ ایک یہ کہ مسیح موعوؑد کو جن کنواریوں کو برکت بخشنے کی خوشخبری دی گئی ہے اس سفر میں انشاء اللہ ایسی کنواری قوموں سے ہمارا واسطہ پڑے گا اور پھر برص دکھائی گئی جو مسیح سے تعلق رکھتی ہے کہ مسیح جس بیماری کو شفاء بخشے گا اس میں سے ایک برص ہے۔ تو خدا تعالیٰ نے ان دونوں کو اکٹھا کردیا ایک خاتون میں جو کنواری بھی ہیں اور جن کو برص بھی ہے اور ذاتی طور پر ان کے اندر نیکی پائی جاتی ہے۔ تو یہ بھی خوشخبری تھی کہ یہ بیماری ایک سطحی بیماری ہے گہری نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعوؑد کے کاموں میں جو یہ اہم کام ہے کہ نئی قوموں کو اسلام سے روشناس کرائے گا اس کا وقت آپہنچا ہے۔ چنانچہ اس رؤیا کے بعد جب فجی قوم سے ہمارا تعارف ہوا تو معلوم یہ ہوا کہ فجی قوم بھی ان قوموں میں سے ایک قوم ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بطور کنواری اور بیمار دکھایا۔‘‘

(روزنامہ الفضل 4 جنوری 1984ء)

1989ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لے گئے تو آ سٹریلیا کے قدیم با شندوں کے لیڈر برنم بر نم بھی ایک گروپ کے ساتھ حضور کو ملنے آ ئے۔ وہ ایبورجینز کی مسروقہ نسل (Stolen Generation)کے نمائندہ تھے یعنی وہ ان ہزاروں بچو ں میں سے ایک تھے جن کو حکومت نے ان کے والدین سے زبردستی چھین کر مختلف اداروں اور چرچوں کی کفالت میں دے دیا تھا۔ ان کا ما ضی ان سے چھین لیا گیا تھا۔ انہیں عیسا ئی مذہب اور کلچر سکھا یا گیا تھا۔ ان کے والدین اور قبیلو ں سے ان کا تعلق منقطع کر دیا گیا اور ان پر طر ح طر ح کے ظلم کیے گئے۔ برنم برنم 1936ء میں پیدا ہو ئے تھے ابھی پا نچ ما ہ کے تھے کہ گو رو ں نے زبردستی ان کی والدہ کی گود سے انہیں چھین لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں وہا ں انسان نہیں بلکہ حیوان سمجھا جا تا تھا۔ رات کے وقت ان کے سامنے بے حیا ئی کے کا م کیے جا تے تھے۔ ان بچو ں سے ان کی طا قت سے بڑھ کر سخت کا م لیے جاتے، بھو کا رکھا جاتا، علاج کی سہو لت سے بھی محروم رکھا جاتا۔ چنا نچہ بہت تھے جو وقت سے پہلے مر جا تے۔ (سڈنی ما رننگ ہیر لڈ 24مئی 1997ء)

برنم برنم 1997ء میں وفات پا گئے تھے۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2006ء میں پہلی مرتبہ آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لے گئے۔ 14؍اپریل 2006ء کا خطبہ جمعہ پہلی مرتبہ کسی خلیفۃ المسیح کا آسٹریلیا سے براہ راست نشر ہونے والا پہلا خطبہ جمعہ تھا۔ 22؍اپریل 2006ء کو ایک لوکل Aboriginal Community کے نمائندے نے حضورانور کو اپنے روایتی انداز میں ایک خاص آلے Didgeridoo کے ذریعے خوش آمدید کہا۔ پھر اپنے ایک مخصوص ہتھیار Boomerang سے شکار کرنے کا مظاہرہ کیا۔ یہ ہتھیار کمان کی شکل کا ہوتا ہے اور اسے ایک خاص طریق اور زاویہ سے فضا میں پھینک کر پرندوں وغیرہ کا شکار کیا جاتا ہے۔ اس ہتھیار کی ایک خوبی یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ جس جگہ سے پھینکا جائے وار خالی جانے کی صورت میں یہ ایک دائرہ کی شکل میں گھومتا ہوا واپس اسی جگہ آتا ہے جہاں سے اسے پھینکا گیا تھا۔ تاہم اس کے لیے ایک خاص رُخ، خاص زاویہ اور ہوا کا رُخ بھی مدّنظر رکھنا پڑتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس ہتھیار کو چند مرتبہ فضا میں پھینکا۔

ان ایبورجینز میں پاک تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے مکرم خالد سیف اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ا حمدی ہونے والے ایک ایبورجینی سے کچھ عرصہ بعد اس کے دوستوں نے پو چھا کہ تمہیں احمدی ہو کر کیا ملا؟ وہ کہنے لگا میں اب صاف ستھرا رہتا ہوں کیو نکہ نماز پڑھنی ہوتی ہے۔ باقاعدہ شادی کرکے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہو ں ۔ نہ میں شراب پیتا ہوں نہ کوئی اَور نشہ کرتا ہوں ۔ جؤا بھی نہیں کھیلتا۔ کام کرکے کھاتا ہو ں ۔ میرے پاس پیسے بچتے ہیں اس لیے میں نے اپنا مکان بھی قسطوں پر خرید لیا ہے۔ جبکہ تم سب اپنے پیسے ادھر ادھر ضائع کردیتے ہو اور کرایہ کے مکانوں میں رہتے ہو۔ اب بتاؤ کہ میں اچھا ہوں کہ تم؟

حضور انور کے دورۂ آسٹریلیا 2013ء میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان قدیم اقوام کی طرف سے نہایت محبت اور بشاشت کا سلوک ہوا۔ 23؍اکتوبر 2013ء کو تقریب عشائیہ میں سب سے پہلے Aunty Robyn Williams نے اپنا ایڈریس پیش کیا جو آسٹریلیا کی قدیم قوم Aboriginal کے قبائل Ugambe اور Mulanjali کی ایک بزرگ خاتون ہیں ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حضور کو خوش آمدید کہا، مسجد کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا اور ایک مقامی آرٹسٹ کا تحفہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسے کوئی عام آدمی چھو نہیں سکتا لہٰذا ممبر آف پارلیمنٹ سے درخواست ہے کہ وہ خود اسے حضور انور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کریں ۔ چنانچہ ممبر پارلیمنٹ نے اسے حضور انور کی خدمت میں پیش کیا۔ کئی ایڈریسز کے بعد حضور انور خطاب کے لیے تشریف لائے تو خطاب کے آغاز سے قبل فرمایا کہ تمام مہمان مقررین کے ایڈریسز کے بعد تالیاں بجائی گئی ہیں لیکن Aunty Robynکے ایڈریس کے بعد تالیاں نہیں بجائی گئی تھیں ۔ تو اب سب سے پہلے آنٹی Robyn کے لیے تالیاں بجائیں ۔ چنانچہ سارے ہال نے تالیاں بجائیں ۔ موصوفہ نے تقریب کے بعد اس بات کا اظہار کیا کہ آج مجھے جو عزت دی گئی ہے میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ ہمارا ایبورجینز کا فلیگ بھی لگایا گیا ہے۔ ایسی عزت تو ہمیں کبھی کسی نے نہیں دی۔

پس آج جماعت احمدیہ ان کنواری اقوام تک پہنچ رہی ہے اور ان کے دلوں کو فتح کر رہی ہے۔ نرمی، محبت، پیار، عزت اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ان کی روحانی فتح کے دن قریب ہیں ۔ یہ ساری کنواری اقوام خلافتِ احمدیہ کے ذریعے احمدیت کی آغوش میں آئیں گی کیونکہ ان کا دلہا صرف اور صرف خدا کا دین ہے۔ کنواری اقوام کے متعلق یہ پیشگوئی مسیحؑ اول کی صداقت کا ثبوت بھی ہے اور مسیح موعودؑکی صداقت کا بھی۔ اس کے پورا ہونے کی خبر دیتے ہوئے حضرت مصلح موعوؓد فرماتے ہیں : وہ جس نے آنا تھا نوشتوں کے مطابق آدھی رات کو آیا اور ایسا ہی ہونا چاہئے تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مامور ہمیشہ تاریکی کے زمانہ میں ہی آیا کرتے ہیں … اس زمانہ کا مسیح اور آسمانی بادشاہت کا دلہا ایسے ہی وقت میں آیا جبکہ کنواریاں سوچکی تھیں اور ان کی مشعلوں کا تیل ختم ہوچکا تھا سوائے چند کے جنہوں نے ہوشیاری سے تیل محفوظ رکھ چھوڑا تھا اور جو دلہا کے جلوس میں شامل ہوگئیں باقی سب نہ صرف جلوس میں شامل نہیں ہوئیں بلکہ افسوس کہ وہ تمثیل کی کنواریوں کی مانند تیل کی تلاش میں بھی نہیں گئیں اور سوتی ہی رہیں مگر اللہ تعالیٰ کا رحم بہت وسیع ہے گو کہا گیا تھا کہ جو سوتی رہیں ان کے لیے شادی کے گھر کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا لیکن خداتعالیٰ کے رحم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر اک جو اپنی غفلت سے تائب ہو کر دلہا کی طرف قدم اٹھائے اسے قبول کیا جائے تا شیطان کی حکومت کو ختم کیا جائے اور دنیا کا سردار ہمیشہ کے لیے بُعد میں داخل دیا جائے۔

(تحفہ لارڈ ارون صفحہ20,19)

آپؓ ساری دنیا کو یہ بشارت دیتے ہیں کہ ابھی داخلہ کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ آؤ اور نبی اکرمؐ پر ایمان لا کر آسمانی بادشاہت میں داخل ہو جاؤ۔ تمام اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اے مشرق و مغرب کی سرزمین کے بسنے والو! سب خوش ہو جاؤ اور افسردگی کو دلوں سے نکال دو کہ آخر وہ دلہا جس کی تم کو انتظار تھی آگیا۔ آج تمہارے لیے غم اور فکر جائز نہیں ۔ آج تمہارے لیے حسرت و اندوہ کا موقع نہیں بلکہ خرمی و شادمانی کا زمانہ ہے مایوسی کا وقت نہیں بلکہ امیدوں اور آرزوؤں کی گھڑیاں ہیں پس تقدیس کے سنگھار سے اپنے آپ کو زینت دو اور پاکیزگی کے زیوروں سے اپنے آپ کو سجاؤ کہ تمہاری دیرینہ آرزوئیں بر آئیں اور تمہاری صدیوں کی خواہشیں پوری ہوئیں تمہارا ربّ خود چل کر تمہارے گھروں میں آگیا اور تمہارا مالک آپ تمہاری رضامندی کا طالب ہوا۔ آؤ آؤ! کہ ہم سب اپنے بچوں والے تنازعات کو بھول کر اس کے فرستادہ کے ہاتھ پر جمع ہوجاویں اور اس کی حمد کے ترانے گائیں اور ثناء کے قصیدے پڑھیں اور اس کے دامن کو ایسی مضبوطی سے پکڑ لیں کہ پھر وہ یار یگانہ کبھی ہم سے جدا نہ ہو۔ (احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 271)

………٭………٭………٭………

مقام خلافت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍مئی 2013ءمیں خلافتِ احمدیہ کے مقام کے حوالے سے منتخب اشعار شامل ہیں ۔ ان میں سے بعض قبل ازیں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کا حصہ بنائے جاچکے ہیں ۔ دیگر ذیل میں ہدیۂ قارئین ہیں :

مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب کے کلام سے انتخاب:

امام وقت جب بھی منتخب ہوگا مشیت سے

بدل جائیں گے سب خوف و خطر امن و سکینت سے

الٰہی رکھ ہمیں پیوستہ ہر لمحہ اطاعت سے

نہ اِک لحظہ بھی گزرے عمر کا باہر جماعت سے

مکرم روشن دین تنویر صاحب کی ایک نظم سے انتخاب:

سمجھتے ہیں وابستگانِ خلافت

ملائک ہیں خود پاسبانِ خلافت

جو مومن بجا لائیں اعمالِ صالح

ہے ان کے لیے ارمغانِ خلافت

مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم سے انتخاب:

فضائے غم میں سکینت کے ابر لاتا ہے

دلوں کی کھیتیوں میں تمکنت اُگاتا ہے

وہ اپنے نُور سے اِک شکل سی بناتا ہے

دلوں پہ مہرِ اطاعت وہی لگاتا ہے

وہ اپنا فیصلہ دنیا کو پھر سناتا ہے

قسم خدا کی خلیفہ خدا بناتا ہے

مکرم عبدالسلام صاحب کی ایک نظم سے انتخاب:

یہی نوعِ بشر کے واسطے تقدیر یزدانی

نبوت قدرت اوّل، خلافت قدرت ثانی

اگر سینے میں دل قائم لہو بھی جوش و قوّت بھی

خلافت ہے اگر زندہ عمل بھی ذوق و جدّت بھی

مکرمہ احمدی بیگم صاحبہ کی ایک نظم کے منتخب اشعار:

خدا کی قدرت ثانی کا ہے یہ پانچواں مظہر

جماعت ہو گئی مسرور پا کر پانچواں مظہر

خلافت کی اطاعت فرض ہے اسی میں ہی برکت ہے

’’خلافت سے عقیدت ہو تو یہ بھی اِک عبادت ہے‘‘

مکرمہ صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ کی نظم سے انتخاب:

خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی

یہ نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی

مگر شرط اس کی اطاعت گزاری

رہے گا خلافت کا فیضان جاری

مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک نظم سے منتخب اشعار:

شجر سے جو رہے وابستہ وہ پھلدار ہو جائے

جو کٹ کر گر گیا بے دست و پا بیکار ہو جائے

خلافت سے عقیدت کی جو رسم و راہ رکھتا ہے

نہیں ممکن وہ خالی ہاتھ یا نادار ہو جائے

مکرم انور ندیم علوی صاحب کی ایک نظم سے انتخاب:

بھری دنیا میں تنہا یہ ہمیں اعزاز حاصل ہے

ہدایت یافتہ رہبر، معیّن اپنی منزل ہے

خدا کے فضل کا سایہ ہمیشہ ہی رہے قائم

دعا کرتا ہوں انوارِ خلافت ہم پہ ہوں دائم

………٭………٭………٭………

خلافت کی اطاعت اور بے مثال رعب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2014ء میں مکرم ڈاکٹر طارق احمدمرزاصاحب آسٹریلیا بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1988ء کی بات ہے۔ خاکسار ان دنوں گلاسگو میں مقیم تھا۔ جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کا پروگرام بنا تو ایک ہندو دوست مکرم نندا صاحب نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ جماعت کے کافی قریب اور اس کے پیغام سے متاثر تھے۔

اسلام آباد (ٹلفورڈ)پہنچے، شام کو مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب سے ملاقات ہوگئی جو پہلے انگریز واقفِ زندگی تھے۔ آپ گلاسگو کے ایک کٹر عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ فوجی ملازمت کے تحت ہندوستان آئے۔ قادیان کا شہرہ سن کر بغرض تحقیق پہنچے تو حق قبول کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس صوفی منش عالم باعمل مخلص انگریز احمدی کو کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مربی سلسلہ کے طور پر جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملی۔ بہرحال گلاسگو کے حوالے سے خاکسار نے نندا صاحب کا تعارف آپ سے کروایااور پھر نندا صاحب سے کہا کہ مکرم آرچرڈ صاحب بھی گلاسگو کے ہیں ۔ یہ سن کر آرچرڈ صاحب نے زور سے نفی میں سر ہلا کر فوراً تردید کی اور کہا کہ وہ گلاسگو سے نہیں ہیں ۔ نندا صاحب نے مجھے گھورا اور میرا چہرہ تذبذب خجالت اور حیرانی کے ملے جلے جذبات کا مرقع بن گیا۔ آرچرڈ صاحب مسکرائے اور پھر کہا کہ میرا تعلق اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے ہے جہاں خلیفہ وقت نے مجھے مستقلاً رہنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اب میرا حوالہ گلاسگو نہیں بلکہ اسلام آباد ہے۔ یہ سن کر میرے چہرے کا رنگ تو بحال ہوگیا مگر اب نندا صاحب کا چہرہ دیکھنے والا تھا جو ایک‘‘گورے’’ احمدی کو اپنے امام کی اطاعت میں اتنا ڈوبا دیکھ کر ورطۂ حیرت میں مبتلا اور انتہائی متاثر نظر آ رہا تھا کہ اس کو اس کے امام نے جس جگہ بٹھا دیا وہی اس کے لیے اس کا وطن قرار پایا۔

خاکسار کو’’اول المہاجرین‘‘ حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدینؓ خلیفۃ المسیح الاول کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب ایک بار (جبکہ بھیرہ میں آپؓ نے ایک بڑے شفا خانے کی تعمیر شروع کی ہوئی تھی) آپ قادیان میں حضرت امام الزماں مہدی دوراں حضرت مسیح موعود ؑسے ملنے آئے اور آپؑ نے خواہش ظاہر کی کہ اب آپؓ قادیان ہی میں رہائش اختیار کرلیں اور اپنی لائبریری اور اہل خانہ کو بھی قادیان منتقل کر لیں تو حضرت مولوی صاحبؓ نے جو یکہ بھیرہ واپسی کے لیے کرایہ پہ لیا تھا اسے فارغ کر دیا اور اپنے امام کے آستانہ کے ایسے ہورہے کہ آپؓ کے بقول پھر’’میری واہمہ اور خواب میں بھی مجھے وطن کا خیال نہ آیا۔ پھر تو ہم قادیان کے ہو گئے‘‘۔ حضرت مسیح موعودؑ نے آ پ کے اس مثالی جذبہ اور عملی نمونہ کے بارہ میں فرمایا ’’وہ میری محبت میں …وطن مالوف اوردوستوں سے مفارقت اختیار کرتا ہے اور میرا کلام سننے کے لیے اس پر وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لیے اپنے اصلی وطن کی یاد بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے‘‘۔

(مرقات الیقین فی حیاتِ نورالدین)

آپؑ نے اس خواہش کا بھی اظہار فرمایا کہ کاش جماعت کا ہر فرد ’’نورالدین‘‘ بن جائے، فرمایا ؎

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے

ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے

یہ خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح الزماں کی اس دعا کو قبول کرتے ہوئے جماعت کو کئی ایسے مخلص فدائی عطا کیے اور کرتا رہے گا۔ چنانچہ خود حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے ایک موقع پہ مکرم مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کی ایک تقریر سن کر فرمایا (جو آپ کی عظمت اور منکسرالمزاجی پہ دلیل ہے)کہ ’’ہمارے مرزا نے تو کئی نورالدین پیدا کر دئیے ہیں!‘‘ (حیاتِ قدسی)

ذکر ہو رہا تھا ہمارے مہمان نندا صاحب کا۔ جلسہ پہ روانگی سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کر پتہ لگا لیتے ہیں کہ اگلا کتنے پانی میں ہے اور جب وہ ہمارے خلیفہ صاحب سے ملیں گے تو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے’’اندرونی من‘‘ کی حقیقت جان جائیں گے۔ جب گروپ ملاقات کا وقت آیا اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ نندا صاحب کا تعارف کروایا گیا کہ ایک ہندو دوست ہمارے ساتھ جلسہ میں شرکت کرنے گلاسگو سے تشریف لائے ہیں تو حضورؒ نے فرمایا اچھا تو پھر آگے آکر ہاتھ ملا لیں اور اگر ذاتی ملاقات کرنی ہے تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے وقت بھی لے لیں ۔ نندا صاحب نے آگے جا کر حضورؒ سے شرفِ مصافحہ حاصل کیا اور حضورؒ کے کسی استفسار پر جواب بھی دیا۔

ملاقات کے بعد خاکسار نے لپک کر نندا صاحب سے پوچھا کیا آپ نے حضرت صاحب کی آنکھوں کے اندر جھانک کر دیکھا ؟ آپ کو تو انہوں نے اپنے قریب بلا لیا تھا۔ محجوب ہو کر بولے کہ آنکھوں کے اندر کیا جھانکنا تھا، ان کی شخصیت کا تو اتنا رعب تھا کہ آنکھ ملانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ کہنے لگے کہ جب لمبی ملاقات ہو گی تو پھر کوشش کر کے دیکھوں گا۔ خاکسار کے علم میں نہیں کہ بعد میں نندا صاحب کی ایسی کوئی ’’کوشش‘‘ کامیاب بھی ہوئی یا نہیں !

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button