متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کی احمدی ماؤں سے توقعات

(سیدہ منورہ سلطانہ۔ جرمنی)

ہر خلیفہ نے اپنے اپنے دورمیں اس وقت کےحالات کے مطابق جماعت کے ہر طبقہ خواہ مرد ہوں یا خواتین، بچے ہوںیا نوجوان ہر ایک کی روحانی تربیت کی طرف ہر ممکن توجہ فرمائی

خلافت علیٰ منہاج نبوت اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم اورایک نہایت ہی بابرکت نظام ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ یہ نعمت آج صرف جماعتِ احمدیہ کو میسر ہے۔ جس کی بر کت سے تمام احمدی ایک ہا تھ پر متحد اور ہر قسم کی بیرونی آفات اور ابتلاؤں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ باقی دنیا اس دولت سے محروم ہونے کی وجہ سےبے چینی اور انتشار کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ امت مسلمہ جن کے پاس قرآن کریم جیسا پاکیزہ، مکمل اورعظیم الشان ضابطۂ حیات موجود ہے وہ بھی بے سکونی اور بے اطمینانی کا شکارہے کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو۔ خلفائے احمدیت جن کو جماعت کے روشن مستقبل کی بھی اتنی ہی فکر ہے جتنی اس کے درخشندہ اور تابناک حال کی، جو نہ صرف ہمارے بہتر دینی، تربیتی اور انتظامی مستقبل کے خواہاں ہیں بلکہ ان کے حصول کی راہوں کی طرف رہ نمائی بھی فرماتے رہتےہیں ۔ ہر خلیفہ نے اپنے اپنے دورمیں اس وقت کےحالات کے مطابق جماعت کے ہر طبقہ خواہ مرد ہوں یا خواتین، بچے ہوں یا نوجوان ہر ایک کی روحانی تربیت کی طرف ہر ممکن توجہ فرمائی۔ جماعت کے ابتدائی دَور میں کیونکہ خواتین کی اکثریت ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ اور دینی ودنیاوی علوم سے بےبہرہ ہونےکی وجہ سے بہت سی بدعات اور توہمات کا شکار تھی۔ اس وقت کے حالات کے مطابق خلفا ئےکرام کی توجہ ماؤں اور بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت اور اخلاقی درستگی کی طرف بھی رہی۔ چنانچہ نہ صرف بچیوں کی دینی تعلیم کا انتظام کیا بلکہ دنیاوی تعلیم میں بھی آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی فرمائی۔ اگرکوئی بچی محض تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی کا شکار ہو رہی ہو تو اس کی تعلیمی استعداد کو دیکھتے ہوئےجماعت اس کی مدد کرتی ہے۔ اور یہ تعلیمی فنڈتمام دنیا میں قائم ہے۔

قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد مبارک میں بے پناہ مصروفیت کے باوجود پردہ کی رعایت کے ساتھ خواتین کو دینی علم سکھایا، کیونکہ قرآن کریم تمام اخلاقی، روحانی اور تربیتی تعلیمات کا منبع ہے اس لیے خواتین اور بچیوں کے لیے بھی درس و تدریس کا خاص انتظام کیاگیااور نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ دلاتےہوئے باریک بینی سے نہ صرف تربیت کا خیال رکھابلکہ ایسی راہوں کی طرف گامزن کردیا کہ آج خلا فت کی مضبوط رسی کو تھامے ہو ئے، اعلیٰ دینی ودنیاوی تعلیم سے آراستہ خواتین اور بچیاں خلافت کے سائے تلے پروان چڑھ رہی ہیں ۔ الحمدللہ۔ آج بھی ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبحیثیت روحانی باپ احمدی بچیوں اور خواتین کی تربیت کی ہر ممکن کوشش فرماتےہوئے ان پر پیار کی ایسی نظر ڈالتے ہیں جو ایک بہت پیار کرنے والاباپ ہی ڈال سکتاہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم خلافت کی بر کا ت سے دا ئمی فیض پا نےوالےبنیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ ر کھنے کے لیے ہمیشہ خلا فت کے ساتھ وابستہ ر ہیں ۔ اپنے بچوں کو بھی خلافت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے کی نصیحت کرتے ر ہیں اور اخلا ص، و فا اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ خلیفۂ وقت کے مدد گا ر بنے ر ہیں ۔اللہ ہم سب کو اس کی تو فیق دے۔ آمین

زیر نظر مضمون میں بچیوں یعنی مستقبل کی ماؤں کو گئی خلفائے احمدیت کی بے شمار زریں نصائح میں سے چند ایک بیان کی جائیں گی جن پر عمل کرکےہم نسلاً بعد نسلٍ ایسی پاکیزہ زندگی گزارسکتے ہیں جو خوشیوں اور سکون سے بھری ہوئی ہو۔ اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جاری رہنے والا ہو۔ آمین

کسی انسان کی تربیت میں باقی عوامل کے ساتھ سب سے اہم کردارماں کا ہوتا ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ پیارے خلفائےکرام نے اس طرف بھی ہماری بھرپور رہ نمائی فرمائی ہے۔ اس حوالے سے چند ارشادات پیش کیے جاتے ہیں ۔

احمدی ماؤں کے فرائض

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

’’…وَلَا تَقْتُلُوْاَوْلَادَکُمْ

اولاد کو قتل مت کروقتل میں نے بہت طرح سے دیکھاہے…بعض ایسے ہیں کہ لڑکی پیدا ہوتو اسے مار دیتے ہیں ۔ بعض ان کا علاج نہیں کرتے۔ بعض ان کی تربیت خوب نہیں کرتے۔ بعض اپنی اولاد کے لئے پاک صحبت کا انتظام نہیں کرتے۔ یہ نہیں سوچتے کہ ان کے لئے کونسا علم نافع ہوگا اور ان کی اولاد کا میلان طبع کس طرف ہے؟ہزاروں لاکھوں کتابیں بنی ہوئی ہیں ۔ ہر ملک کے لوگ اپنے خیال کے مطابق پڑھانے چلے جاتے ہیں ۔ نہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا خیال کرتے، نہ لغو، ناقص اور اہم ومفید میں کوئی فرق کرتےہیں ۔ میری سمجھ میں یہ سب قتل اولاد کی قسم میں سے ہے۔‘‘

(خطبات نور صفحہ 567)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

’’پس جب یورپ کی عورتیں انتہائی تعلیم پا کر بھی زیادہ تر گھر ہی کام کرتی ہیں تو معلوم ہوا کہ عورتوں کی تعلیم کا جز و اعظم تربیتِ اولاد اور گھر کا کام ہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچّوں کے کپڑے سینا اور پہنانا ہی عورتوں کا کام ہے بلکہ بچوں کو تعلیم دینا بھی ان کا فرض ہے۔ اور اس کے لئے ان کا خود تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچّہ کی مذہبی تعلیم، امورِ خانہ داری کا انتظام یعنی حساب کتاب رکھنا، صحت کا خیال رکھنا، خوراک کے متعلق ضروری معلومات ہونا، اوقات کی پابندی کا خیال رکھنا، یہ جاننا کہ سونے جاگنے، اندھیرے روشنی وغیرہ کا صحت پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ عورت نے بچہ کے متعلق ان باتوں کواس وقت کرنا ہے جس وقت کے اثرات ساری عمر کی کوششوں سے دور نہیں کئے جا سکتے۔‘‘

(خواتین کی تعلیم و تربیت، انوارالعلوم جلد 9صفحہ 275)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اس ضمن میں فرماتے ہیں :

’’ماں اور بچے کی زبان میں زبان کا بُعد نہیں ہونا چاہئے ورنہ ماں صحیح طور پر بچے کی تربیت نہیں کرسکے گی … بچوں کو اردو سکھائیں تاکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا براہ راست مطالعہ کرسکیں اگر ایسا نہ ہو سکے تو آپ انگریزی سیکھیں تا آپ اور ایک احمدی خاتون کا کردار موثر طور پر ادا کرسکیں ۔ …جب ایک ڈینش یا جرمن یا افریقن احمدی ہوتا ہے تو اسے عربی سیکھنے کی لگن اور فکر ہوتی ہے کیونکہ عربی وہ ام الالسنہ ہے اور وہ زبان ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا یا پھراسے اردو سیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔ پس مستورات کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی پورے طور پر وارث بنیں اس کے بغیر دنیا میں عظیم تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی۔‘‘

(لجنہ جلد 7صفحہ 117تا118)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ماؤں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’اپنی بچیوں کی حفاظت کی خاطر شروع ہی سے اُن کے اوپر دینی ذمہ داریاں ڈالنا شروع کردیں اُن کےسپرد کوئی ایسے اعلیٰ درجہ کے کام کر دیں جن کے نتیجہ میں ان میں ایک احساس پیدا ہو کہ ہم بہت عظیم خواتین ہیں ہم خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئیں ہیں ، ہم نے بڑے بڑے کام دنیا میں سر انجام دینے ہیں ۔ یہ احساس ہے جو بہت سی بدیوں سے انسان کو بچاتا ہے۔ اور بچپن ہی میں اس احساس کا پیدا کرنا ضروری ہے۔‘‘

(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ141، طبع دوم 2001ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مائوں کو نصیحت کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں :

’’…ان کے اندر ایک لگن پیدا کر دیں ایک جذبہ پیدا کر دیں ، ایک احساسِ برتری پیدا کریں کہ تم زیادہ اعلیٰ کاموں کی خاطر پیدا کی گئی ہو، تم اعلیٰ مقاصد کے لئے بنائی گئی ہو۔ تم نے دنیا کے حالات بدلنے ہیں ۔ دنیا کے پیچھے نہیں لگنا بلکہ دنیا کو اپنے پیچھے چلانا ہے۔ اس قسم کا احساس اگر بچپن میں پیدا کر دیا جائے تو بعد میں ایسے بچّے خواہ کسی سکول میں جائیں خواہ ماں باپ کی نظر سے دور ہٹ جائیں ۔ تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اُن کے ضمیر کا وہ محافظ اور نگران اُن کو ہمیشہ صحیح رستہ پر قائم رکھتا ہے اور ایسے بچے ہمیشہ اپنے سکولوں میں ، اپنے ماحول میں تبلیغ کرتے رہتے ہیں اور پھر گھر آکر اپنے ماں باپ کو سُناتے ہیں کہ آج یہ بات ہوئی اور ہم نے یہ جواب دیا اور پھر جب ملاقاتوں کے وقت یہ مجھے اپنی باتیں سناتے ہیں تو بعض دفعہ میں حیران رہ جاتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کو روشنی عطا کرتا ہے۔‘‘

(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ 142طبع دوم 2001ء)

آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’…جب تک آپ کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا نہ ہوں باہر کی دنیا میں پاک تبدیلی نہیں پیدا کی جاسکتی ! نہیں پیدا کی جاسکتی!! نہیں پیدا کی جاسکتی!!!یہ ایک ایسا قطعی اصول ہے جس کو دنیا میں کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔ آپ اپنے اندر روشنیاں پیدا کریں ۔ اپنی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کر دیں اور ایسے جلووں سے بھر دیں کہ وہ آپ کے باہر دکھائی دینے لگیں اور اَز خود آپ کے دل کا نور باہر جلوہ گر ہو۔ چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو اسی رنگ میں بیان فرماتاہے۔ وَنُوْرُ ھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ ان کا نور جو صرف ان کی ذات تک محدود نہیں رہا کرتا یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ۔ وہ اُن کے آگے آگے بھاگتا ہے اور دنیا کو بھی روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ ماؤں کو اس لئے ضرورت ہے کہ ماؤں کے قبضے میں بچے ہوتے ہیں ۔ آپ اگر بچپن میں خدا کی محبت ان کے دلوں میں پیدا کر سکیں تو سب سے بڑا احسان اپنی اولاد پر آپ کر سکتی ہیں اور خدا کی محبت پیدا کرنے کے لئے آپ کو خدا کی باتیں کرنی ہوں گی۔ خدا کی باتیں کرتے وقت اگر آپ کے دل پر اثر نہ ہوا۔ اگر آپ کی آنکھوں سے آنسو نہ بہے، اگر آپ کا دل موم نہ ہوا تو یہ خیال کرنا کہ بچے اس سے متاثر ہو جائیں گے، یہ جھوٹی کہانی ہے اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں ۔ ایسی ماؤں کے بچے خدا سے محبت کیا کرتے ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتی ہیں تو اُن کے دل پگھل کر آنسوبن کر بہنے لگتے ہیں ۔ ان کے چہروں کے آثار بدل جاتے ہیں ۔ بچے یہ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ اس ماں کو کیا ہوگیا ہے، کس بات کی اداسی ہے، کس جذبے نے اس پر قبضہ کر لیا ہے یہ وہ تاثر ہے جو بچے کے اندر ایک پاک اور عظیم تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے، یہ انقلاب کی روح ہے اور انقلاب کی جان ہے، ایسی مائیں بننے کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا سے مدد مانگتے ہوئے اس کے حُسن کی تلاش کرنی ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ حُسن آپ پر جلوہ افروز ہو اور آپ کے دلوں میں ایسی محبت بھر دے کہ آپ کا وجود پگھل جائے اور پگھلنے کے بعد ایک نئے وجود میں ڈھالاجائے…اگر آج آپ مائیں بن چکی ہیں تو آج بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ استعداد بخشی ہے کہ اپنے گرد وپیش، اپنے ماحول میں خدا کی محبت کے رنگ بھرنے کی کوشش کریں ۔ اگر آپ مائیں نہیں بنیں تو آج وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں کہ جب آپ مائیں بنیں تو اس سے پہلے ہی خدا سے محبت کرنے والی وجودبن چکی ہوں ۔ وہ چھوٹی بچیاں اور وہ چھوٹے بچے جو آپ کی گود میں پلتے ہیں ، آپ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں ، آپ کے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں یا آپ کے ہاتھوں سے دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اسی زمانہ میں ابتدائی دور میں ان کو خدا کے پیار کی لوریاں دیں ، خدا کی محبت کی ان سے باتیں کریں ۔ پھر بعد کی تمام منازل آسان ہوجائیں گی۔‘‘

(حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ صفحہ35تا34، طبع دوم 2001ء )

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ماؤں کو گھریلو کام کاج کے دوران دعا ؤں کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اگر آپ کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ ہم نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ اپنے رب کے حضور نہایت انکساری کے ساتھ جھکتے ہوئے خرچ کرنا ہے تو آپ ایسا کر سکتے ہیں اور آپ کے کسی کام میں حرج بھی واقع نہ ہو گا۔ آپ کھانا پکا رہی ہوتی ہیں ۔ آپ دیگچی میں چمچہ ہلا رہی ہوتی ہیں تا مسالہ بھون لیں تو آپ اپنے ہاتھ کی حرکت کے ساتھ سُبۡحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمۡدِہٖ سُبۡحَانَ اللّٰہِ الۡعَظِیۡمِپڑھ سکتی ہیں ۔ آپ اپنے ہاتھ کی حرکت کے ساتھ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ و اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھ سکتی ہیں ۔ اسی طرح جو کھانا تیار ہو گا وہ کھانے والوں کے معدہ میں صرف مادی غذا ہی مہیا نہیں کرے گا بلکہ آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں اُنہیں روحانی غذا سے بھی حصہ ملے گا۔ گویا وہ مادی غذاکے ساتھ روحانی غذا بھی کھا رہے ہوں گے اور دعائیں بھی ان کے بدن کا جز بن رہی ہوں گی۔ غرض آپ اپنے بچوں کو کپڑے پہنا رہی ہوتی ہیں ۔ آپ اپنے بچّوں ، والدین، خاوندوں یا دوسرے عزیزوں کے کپڑے دھو رہی ہوتی ہیں ۔ گھر میں صفائی کر رہی ہوتی ہیں یا دوسرے گھریلو دھندوں میں مصروف ہوتی ہیں تو ان کاموں کو انجام تک ضرور پہنچائیں لیکن ان کے ساتھ دعائیں بھی کرتے جائیں ۔ اس کے علاوہ دوسرے مخصوص اوقات میں بھی دعاؤں پر زور دیں ۔‘‘

(المصابیح، صفحہ 14تا 15)

حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتےہوئے فرمایا:

’’پس یہ احمدی ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں ، انہیں پیار سے سمجھاتی رہیں اور بچپن سے ہی ان میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم احمدی بچی یا بچہ ہو جس کا کام اس زمانے میں ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور احمدی بچیاں بھی جو اپنی ہوش کی عمر کو پہنچ گئی ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت سے منسوب ہوتی ہیں جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو دوبارہ دنیا میں رائج کرنا ہے۔ اگر آپ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر چل رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ ورنہ حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت میں شامل رہنے کا کیا فائدہ۔ آج کی بچیاں کل کی مائیں ہیں ۔ اگر ان بچیوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگیا تو احمدیت کی آئندہ نسلیں بھی محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 29؍مئی 2015ء صفحہ 16)

اپنی بچیوں کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’وہ نوجوان بچیاں جو بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہیں اور جن کی عقل اور سوچ پختہ ہو گئی ہے انہوں نے انشاء اللہ تعالیٰ مائیں بھی بننا ہے ان کو بھی ابھی سے سوچنا چاہئے کہ ان کا مقام کیا ہے اور ان پر کس قسم کی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں ۔ جہاں انہیں نیک نصیب ہونے اور اچھے خاوند ملنے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں وہاں انہیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے جو مستقبل میں ان پر پڑنے والی ہیں ۔ پس چاہے یہ شادی شدہ عورتیں ہیں ، بچوں کی مائیں ہیں یا لڑکیاں ہیں ، اگر سب نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا تو ایسے ماحول میں رہتے ہوئے جہاں آزادی کے نام پر بے حیائیاں کی جاتی ہیں ، جہاں مذہب کو نہ سمجھنے کی وجہ سے خدا سے بھی دُوری پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں خدا کے وجود پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے یا اکثر خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکار کیا جا رہا ہے۔ تو پھر نہ آپ کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔ نہ آئندہ نسلوں کے دین سے جڑے رہنے کی کوئی ضمانت ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 10؍اکتوبر2014ء صفحہ 2)

مذہب کو سمجھنا ضروری ہے

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ خواتین کودینی علم سیکھنے اور مذہب سے واقفیت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں ، مذہب سے اُن کا تعلق ہو، مذہب سے انہیں محبت ہو، مذہب سے انہیں پیار ہو، جب اُن میں یہ بات پیدا ہو جائے گی تو وہ خود بخود اُس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھائیں گی اور اُن میں اشاعتِ اسلام کا ذریعہ بنیں گی۔ ہاں انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح مرد مردوں کو دین سکھا سکتے ہیں اسی طرح عورتیں عورتوں کو سکھا سکتی ہیں ۔ اس کے ثبوت میں کہ عورتیں دین کی خدمت کر سکتی ہیں میں نے مثالیں پیش کی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ عورتیں بھی دین کی خدمت کرتی رہی ہیں ۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ کچھ عورتوں نے ایسا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اور بھی کر سکتی ہیں ۔ پہلے زمانہ کی عورتوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بڑی پارسا اور پرہیز گار تھیں ہم اُن جیسے کام کہاں کر سکتی ہیں کم حوصلگی اور کم ہمتی ہے۔ بہت عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ کیا ہم عائشہ ؓبن سکتی ہیں کہ کچھ کوشش کریں ۔ انہیں خیال کرنا چاہئے کہ عائشہؓ کس طرح عائشہؓ بنیں ۔ انہوں نے کوشش کی۔ ہمت دکھائی تو عائشہؓ بن گئیں ۔ اب بھی اُن جیسا بننے کے لئے ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے۔‘‘

( اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد اول صفحہ 19)

امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’…نمونہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کو دین کا علم ہو، نمازوں کی طرف توجہ ہو اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی ہوں ، حجاب اور سکارف اور باقاعدہ باپردہ ہوں ۔ اگر حجاب لیا ہے اور منہ ننگا ہے تو پھر میک اَپ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر میک اَپ کیا ہوا ہے تو پھر منہ ڈھانکنا پڑے گا۔ تو یہ ساری باتیں ہمیشہ یاد رکھیں ۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء صفحہ 11)

عبادت کی طرف توجہ

بچپن سے ہی بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اور عبادت کا شوق پیدا کرنے کی تمام خلفاء نے کوشش بھی کی اوراس بارے میں بارہا خطبات میں رہ نمائی بھی فرمائی۔ اس ضمن میں نصیحت کرتےہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’…اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کی کوشش کریں ۔ ان کو باربار یہ بتائیں کہ عبادت کے بغیر تمہاری زندگی بالکل بے معنی اور بے حقیقت بلکہ باطل ہے۔ ایک ایسی چیزہے جو خدا تعالیٰ کے ہاں کسی شمارمیں نہیں آئے گی۔ اس لئے جانوروں کی طرح یہیں مرکرمٹی ہو جاؤ گے۔ مگر فرق صرف یہ ہے کہ جانور تومرکر نجات پا جاتے ہیں تم مرنے کے بعد جزا سزا کے میدان میں حاضر کئے جاؤگے۔ پس یہ شعور ہے جسے ہمیں اگلی نسلوں میں پیدا کرناہے… جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں ، ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں ، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہونگی۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍جنوری 1997ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 16صفحہ 39تا41)

اس بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’اب دس سال کی عمر ایک ایسی عمر ہے۔ جو اسلام کی تعلیم کے مطابق mature(ایک سمجھ بوجھ رکھنے کی) عمر ہے جس میں نماز ادا کرنا فرض کیا گیا ہے۔ اب نماز ایک ایسی عبادت ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور پانچ وقت ادا کرنی ہے اور اس عبادت کو اللہ اور اس کے رسول نے دس سال کی عمر میں فرض کردیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عمر میں تمہارے ہر عمل میں ایک تبدیلی ہوجانی ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 2011ء)

نماز میں لذت کیسے حاصل کرسکتے ہیں ایک بچی کے سوال کرنے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’نماز کے معنی تمہیں آنے چاہیں سوچ سوچ کر پڑھو جو عربی کے الفاظ ہیں انہیں غور سے پڑھو۔ پھر سجدے میں جب جاتے ہو تو اپنی زبا ن میں دعا کرو۔ رکو ع میں جا تے ہو اپنی زبان میں د عا کرو۔ اور جو ہر ایک کی کو ئی نہ کو ئی خا ص چیز ہو تی ہے جس کے لیے اس کو دل میں درد ہو تی ہے۔ اس کو سو چو اوردل میں لا ؤ۔ سٹو ڈ نٹ ہیں تو ان کو یہی ہو تا ہے کہ ہم پا س ہو جا ئیں تو ایک دم فکر پیدا ہو تی ہے۔ پھر اللہ تعا لیٰ کے آ گے جھکتے ہیں ۔ ہما رے امتحا ن ہیں پا س ہو جا ئیں ۔ اس میں وہ لذت آ نی شروع ہوتی ہے۔ پھر آ دمی روتا ہے چلّا تا ہے تو وہی مزہ آتا ہے اس کے بعدآہستہ آہستہ عا دت پڑ تی چلی جا تی ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر نے کی سو چ بڑ ھتی ہے۔ پھر اللہ تعا لیٰ کی محبت حا صل کر نے کے لیے انسا ن کو شش کر تا ہے روتا ہے چلّاتا ہے۔ حضرت مسیح مو عود علیہ السلا م نے فر ما یا ہے کہ تم نماز میں اور کچھ نہیں اور ایسی حا لت پیدا ہو تی نہیں تو رو نی شکل بنا لیا کرو۔ چا ہے زبر دستی بنا ؤ کیو نکہ رو نی شکل بنا کے بعض دفعہ رونا آ جا تا ہے۔ پھر اس میں انسا ن آ ہستہ آ ہستہ بڑ ھتا جا تا ہے۔ دعا کرو۔ جو دعا درد سے ہو سو چ سمجھ کے ہو تو پھر لذت آتی ہے۔ دعا ہو نی چا ہئے تو دل سے ہو نی چا ہئے۔ اور جب دل سے نکلتی ہے تو لذت بھی آ نے لگ جا تی ہے۔‘‘

( الفضل انٹر نیشنل 11؍جو لا ئی 2014ءصفحہ 14)

عمومی تربیت

بچیوں کی عمومی تربیت کے حوالے سے خلفا ء کو جوتوقعات ہیں اس کے بارہ میں سیدنا امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’جو بچیاں آٹھ، نو یا دس سال کی بھی ہیں انہیں مناسب قسم کے فیشن اپنانے چاہئیں ۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے چھوٹی احمدی بچیاں بھی بہت ذہین ہیں ۔ اس لئے انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اپنی ذہانت کو اچھے اور مثبت طور پر استعمال میں لانا چاہئے۔ ایک چھوٹی بچی کے لئے یہ اہم ہو گا کہ اُس کو جو اچھی باتیں اُس کے والدین بتائیں وہ انہیں غور سے سنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘

(خطاب برموقع نیشنل اجتماع واقفاتِ نَو یوکے 27؍فروری 2016ء
مطبوعہ رسالہ مریم واقفاتِ نَو، اپریل تا جون 2016ء)

’’…ہر چیز میں، عبادتوں میں آپ کا معیار اچھا ہونا چاہئے۔ دوسرے احکامات میں معیار اچھا ہونا چاہئے…حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ جو سات سو حکم کی پابندی نہیں کرتا، یہاں تک لکھا ہے کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں ۔ تو یہ تلاش کرنا آپ لوگوں کا کام ہے۔ تاکہ جس جس ماحول میں رہ رہی ہیں مختلف جگہوں پر، اس جگہ پر باقی احمدی لڑکیوں کے لئے بھی، باقی احمدی عورتوں کے لئے بھی آپ کے نمونے قائم ہوں ۔ یہ سوچیں اور اگر یہ ہو جائے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ پھر انقلاب لانے والی بنیں گی۔‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 2011ء)

لڑکیوں اور لڑکوں کے میل جول کے نتیجہ میں کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ ان سے کیسے بچ سکتے ہیں ؟ اس بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’ایک عمر کے بعد بچیاں اپنے کلاس فیلو اور اسکول فیلو لڑکوں سے بھی ایک حجاب پیدا کریں ۔ جب بھی ضرورت ہو ایک حجاب کے اندر رہتے ہوئے بات ہونی چاہئے۔ لڑکیاں خود بھی اس بات کا خیال رکھیں اور ماں باپ بھی خاص طور پر مائیں اس بات کی نگرانی کریں کہ ایک عمر کے بعد لڑکی اگر دوسرے گھر میں جاتی ہے تو محرم رشتوں کے ساتھ جائے اور خاص طور پر جس گھر میں کسی سہیلی کے بھائی موجود ہوں کسی وقت، تو خاص طور پر ان اوقات میں ان گھروں میں نہیں جانا چاہئے۔ پھر بعض جگہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی احساس نہیں دلایا جاتا تو جو کلاس فیلو لڑکے ہوتے ہیں گھروں میں بڑی عمر تک آتے چلے جاتے ہیں ۔ اللہ کا فضل ہے کہ احمدی معاشرے میں ایسی برائیاں بہت اِکّا دُکّاشاذ ہی کہیں ہوتی ہیں ۔ اکثر بچ رہے ہیں لیکن اگر اس کو کھلی چھٹی دیتے چلے گئے تویہ برائیاں بڑھنے کے امکانات ہیں ۔ رشتے برباد ہونے کے امکانات ہیں ۔ لڑکیوں نے اگر اس معاشرے میں تفریح کرنی ہے تو ہر جگہ پر اس کا سامان کرنا لجنہ کا کام ہے۔ پھر مسجد کے ساتھ یا نماز سینٹرز کے ساتھ کوئی انتظام کریں جہاں احمدی بچیاں جمع ہوں اور اپنے پروگرام کریں ۔ اگر بچپن سے ہی بچیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنی شروع کردیں گی کہ تمہارا ایک تقدّس ہے اور اس معاشرے میں جنسی بے راہ روی بہت زیادہ ہے تم اب شعور کی عمر کو پہنچ گئی ہو تو اس لئے خود اپنی طبیعت میں حجاب پیدا کرو جو تمہارے اور تمہارے خاندان کے اور جماعت کے لئے نیک نامی کا باعث بنے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلا ماشاء اللہ تمام بچیاں اس بات کو سمجھتےہوئے نیکی کی راہ پر قدم مارنے والی ہوں گی۔‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء)

خلیفۂ وقت کی بابرکت زبان سے نکلنے والی نصائح یقیناً اثر رکھتی ہیں ۔ امریکہ کی بچیوں میں پیدا ہونے والی پاکیزہ تبدیلی کے حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دَورے کے مثبت نتائج بھی یہاں نکلے ہیں ۔ امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اور نکل رہے ہیں ۔ بعض بچیوں نے امریکہ میں مجھے لکھا جو وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں اور یہاں کی بچیوں نے بھی لکھا اور خطوط اب بھی آرہے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں عورت کے تقدّس کا، لڑکی کے تقدّس کا، اُس کی حیا کا احساس ہوا ہے۔ اب ہمیں اپنی اہمیت پتہ لگی ہے۔ پردہ کی اہمیت پتہ لگی ہے۔ ایک احمدی لڑکی کے مقام کا پتہ لگا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں نے یہ بھی لکھا کہ نماز کی اہمیت کا پتہ چلا ہے۔ بعض لڑکیوں نے لکھا کہ ہم سمجھتی تھیں کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے برقع اور حجاب کی ہمت ہم میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد جب ہم آپ کے سامنے حجاب اور برقعہ اور کوٹ پہن کر آئی ہیں تو اب یہ عہد کرتی ہیں کہ کبھی اپنے برقعے نہیں اتاریں گی۔ پس یہ سوچ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سوچ کو عملی رنگ میں ہمیشہ قائم رکھے اور وہ اپنے تقدّس کی حفاظت کرنے والی ہوں جیسا کہ انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے تقدّس کی حفاظت کریں گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍ جولائی 2012ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍اگست 2012ء)

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’پس احمدی خوش قسمت ہیں ۔ ان کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کو احمدی گھروں میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور کچھ کو احمدی ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور ان باتوں سے بچا کے رکھا جو باغیانہ روش پیدا کرتی ہیں ۔ بعض احمدی بچیوں میں بھی ردّعمل ہوتا ہے، ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ غیر آکر ہمارے سے متأثر ہوتے ہیں اس لئے کسی بھی قسم کے کمپلیکس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے یہ ہر ایک کے لئے ایسی تعلیم ہے جس کا فطرت تقاضا کرتی ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر 2014ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ستمبر 2014ء)

دنیاوی تعلیم

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’… بچوں کی تربیت کے لئے ان کی دنیاوی تعلیم ہے جس میں آج کل بہت کوشش کی جاتی ہےاور ہونی بھی چاہیے۔ تاکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے ہوں کہ ‘‘میرے ماننے والے علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے۔ اس میں دینی ودنیاوی دونوں علوم شامل ہیں ۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل29؍اگست2003ء)

جرمنی میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک طالبہ نے سوال کیا کہ بعض اوقات انگلینڈ وغیرہ سیر کے لیے جانے کا پروگرام بنتاہے۔ اگر ہم اپنی بچیوں کو نہ بھیجیں توکہا جاتا ہے کہ پھر اسکول بدل لیں ۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ حضور انور نے فرمایا کہ

’’اگر اضطراری حالت ہے تو اُنہیں کہیں کہ بچیوں کے ساتھ parentsکوبھی جانے دیں ۔ وہ نہ مانیں تواسکول بدل لیں ۔ … اصل میں بچیوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اُنہیں خود کہیں کہ ہم ماں باپ کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارا اپنا ماحول ایساہے کہ ہم اس طرح جانا اچھا نہیں سمجھتیں ۔ جب بچی جوان ہوجاتی ہے تو پھر اس کا خیال رکھنا ماحول کاکام ہے۔ اسلام کا توحج کے بارہ میں بھی یہ حکم ہے کہ عورت اکیلی نہ جائے بلکہ اپنے محرم کو ساتھ لے کرجائے۔ …عموماً پرائیویٹ اسکول زیادہ زور نہیں دیتے لیکن وہ مہنگے ہوتے ہیں ۔ بہرحال بچیوں کو realiseکرائیں کہ فلاں فلاں باتیں برائیاں ہیں اور ان سے آپ نے بچناہے۔‘‘

(کلاس طالبات جرمنی 10؍جون 2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی2006ء)

اسی طرح لڑکیوں کے دوسرے شہروں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ

’’اگر ماں باپ اجازت دیں تو پھر سوچا جاسکتا ہے کہ جہاں جانا ہے وہاں کس کے پاس رہنا ہے۔ لڑکیوں کا علیحدہ ہوسٹل ہونا چاہئے۔ اگر علیحدہ ہے تو ٹھیک ہے۔ پھر وہاں پڑھتے ہوئے اپنے تقدّس کا، پاکیزگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‘‘

(کلاس واقفات ِنو جرمنی 8؍اکتوبر 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)

ایک دوسری مجلس میں کسی دوسرے ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

’’اگر آپ higher ایجوکیشن کے لئے باہر جانا چاہتی ہیں اور اپنے ملک میں اس کا انتظام نہیں ہے تو والدین کی اجازت لے کر جائیں ۔ لیکن اپنے تقدّس اور حرمت کا بھی خیال رکھناچاہئے۔ اپنی پاکیزگی کا بھی خیا ل رکھنا چاہئے اور پھر وہاں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں ۔ اسی طرح وہاں آپ نے دوستیاں بنانے سے پرہیز کرناہے اور اپنی پڑھائی سے تعلق رکھناہے۔‘‘

(کلاس طالبات جرمنی 10؍جون 2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی2006ء)

حضور انور نے مزید فرمایا کہ ربوہ کی لڑکیاں جب باہر پڑھنے جاتی تھیں تو ہرلڑکی نظارت تعلیم کے ذریعہ مجھ سے اجازت لیتی تھی۔ co-educationکی صورت میں بھی مجھ سے اجازت حاصل کرتی ہیں ۔ پھر لکھ کر دیتی ہیں کہ پردے میں رہ کر پڑھائی کریں گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں سے فرمایا کہ

’’اگر والدین کو تسلّی نہیں ہے تو پھر بہتر ہے کہ اپنے علاقہ میں رہو اور یہیں پڑھائی کرو۔‘‘

(کلاس واقفات ِنو جرمنی 8اکتوبر 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 6؍جنوری 2012ء)

میڈیا کا استعمال

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بچی کے Facebook کے بارہ میں سوال کرنے پر ارشاد فرمایا:

’’مَیں نے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو نہ چھوڑوگے تو گنہگار بن جاؤ گے۔ بلکہ مَیں نے بتایا کہ اس کے نقصان زیادہ ہیں اور فائدہ بہت کم ہے۔ آجکل جن کے پاس Facebook ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں ایسی جگہ پر چلے جاتے ہیں جہاں برائیاں پھیلنی شروع ہوجاتی ہیں ۔ لڑکے تعلق بناتے ہیں ۔ بعض جگہ لڑکیاں trap ہوجاتی ہیں اور Facebook پر اپنی بے پردہ تصاویر ڈال دیتی ہیں ۔ گھر میں ، عام ماحول میں ، آپ نے اپنی سہیلی کو تصویر بھیجی، اُس نے آگے اپنی فیس بُک پر ڈال دی اور پھر پھیلتے پھیلتے ہمبرگ سے نکل کر نیویارک(امریکہ) اور آسٹریلیا پہنچی ہوتی ہے اور پھر وہاں سے رابطے شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر گروپس بنتے ہیں مَردوں کے، عورتوں کے اور تصویروں کو بگاڑ کر آگے بلیک میل کرتے ہیں ۔ اس طرح برائیاں زیادہ پھیلتی ہیں ۔ اس لئے یہی بہتر ہے کہ برائیوں میں جایا ہی نہ جائے۔ میرا کام نصیحت کرنا ہے۔ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نصیحت کرتے چلے جاؤ۔ جو نہیں مانتے ان کا گناہ اُن کے سر ہے۔ اگر Facebook پر تبلیغ کرنی ہے تو پھر اس پر جائیں اور تبلیغ کریں ۔ Alislam ویب سائٹ پر یہ موجود ہے وہاں تبلیغ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ لڑکیاں جلد بے وقوف بن جاتی ہیں ۔ جو کوئی تمہاری تعریف کردے تو تم کہوگی کہ تم سے اچھا کوئی نہیں ۔ اگر ماں باپ نصیحت کریں تو تم کہوگی کہ ہم تو جرمنی میں پڑھی ہوئی ہیں اور آپ لوگ کسی گاؤں سے اٹھ کر آگئے ہو۔

اَلْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤمِنِ

یعنی ہر اچھی بات جہاں سے بھی اور جس جگہ سے بھی ملے، لے لیں ۔ ان لوگوں کی سب ایجادیں اچھی نہیں ہیں ۔ جو بات نہیں مانتیں وہ پھر روتے روتے مجھے خط لکھتی ہیں کہ غلطی ہوگئی ہے کہ ہمیں فلاں جگہ trapکرلیا گیا ہے۔ جس شخص نے یہ facebook بنائی ہے اُس نے خود کہا کہ مَیں نے اس لئے بنائی ہے کہ ہر شخص کو ننگا کرکے دنیا کے سامنے پیش کروں ۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍جنوری2012ء صفحہ 12)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:

’’اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں ۔ ٹی وی پر بے حیائی کےبہت سارے پروگرام ہیں … جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں ۔ ایسے مستقل لاک(lock) ہونے چاہئیں ۔ اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں توبیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں ۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے۔‘‘

(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17؍ستمبر 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍ نومبر 2012ء)

مزید فرمایا:

’’پھر آج کل یہاں بچوں میں ایک بڑی بیماری ہے ماں باپ سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں موبائل لے کردو۔ دس سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو موبائل ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہئے۔ آپ کونسا بزنس کررہے ہیں ؟ آپ کوئی ایسا کام کررہے ہیں جس کی منٹ منٹ کے بعد فون کرکے آپ کو معلومات لینے کی ضرورت ہے؟ پوچھو تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کو فون کرنا ہے۔ اگر ماں باپ کو آپ کے فون کی فکر نہیں ہے تو آپ کو بھی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ فون سے پھر غلط باتیں پیدا ہوجاتی ہیں ۔ فون سے لوگ رابطے کرتے ہیں جو پھر بچوں کو ورغلاتے ہیں گندی عادتیں ڈال دیتے ہیں اس لئے فون بھی بہت نقصان دہ چیز ہے اس میں بچوں کو ہوش نہیں ہوتی کہ وہ انہی کی وجہ سے غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں ۔ اس لئےاس سے بھی بچ کر رہیں ۔ ٹی وی کا پروگرام جیسا کہ میں نے ابھی بات کی ہے اس میں بھی کارٹون یا بعض پروگرام جو معلوماتی ہوتے ہیں وہ دیکھنے چاہئیں ۔ لیکن بیہودہ اور لغو پروگرام جتنے ہیں اس سے بچنا چاہئے۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 9؍مارچ 2012ء)

پردہ

حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’وہ لو گ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں منہ چھپا نے کا حکم نہیں ان سے ہم پو چھتے ہیں کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ زینت چھپاؤ اور سب سے زیادہ زینت کی چیز چہرہ ہی ہے اگر چہرہ چھپا نے کا حکم نہیں تو پھر زینت کیا چیز ہے جس کو چھپا نے کا حکم دیا گیا ہے۔ بےشک ہم اس حد تک قائل ہیں کہ چہرے کو اس طر ح چھپا یا جائے کہ اس کا صحت پر کو ئی برا اثر نہ پڑے مثلاًبا ریک کپڑا ڈال لیا جا ئے یا عرب عورتو ں کی طرز کا نقاب بنا لیا جا ئے جس میں آنکھیں اور ناک کا نتھنا آزاد رہتا ہے۔ مگر چہرہ کو پردہ سے با ہر نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ301)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’کن لوگوں کی آپ اولادیں ہیں ۔ کس عظیم اسلام کی پاسبان ہیں ان کی قدروں کی پاسبان آپ بنائی گئی ہیں آپ نے پیٹھ پھیر لی تو کون ان قدروں کی حفاظت کرے گا۔ ابتدائے اسلام میں ایسی ایسی خواتین تھیں جو پورا پردہ کرتی تھیں باوجود اس کے کہ جب سو سائٹی پاک ہو گئی ہے تو اجازت تھی کہ چہرے کا سامنے کا حصہ کھلا رکھا جائے، جب گند تھا سوسائٹی میں تو پردے میں بہت زیادہ سختی تھی۔ جیسا کہ آج کل پسماندہ ممالک میں گند ہے۔ یعنی نظریں ایسی گندی ہو چکی ہیں ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ نقاب پھاڑ کے بھی پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ یہاں وہی ابتدائے اسلام والا حصہ کام کرے گا جہاں سوسائٹیوں میں ایسی حالت نہیں ہے وہاں پردے کا دوسرا حکم اطلاق پائے گا۔ تو اس وقت بھی امہات المومنین میں ایسی عورتیں تھیں جو پردہ کرتے ہوئے جنگوں میں حصہ لیتی رہیں ۔ انہوں نے بڑی بڑی خدمات ادا کی ہیں ۔‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلد دوم صفحہ 15)

بچیوں کے پردہ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ارشاد فرمایا:

’’…مجھ سے کسی نے پوچھا کہ لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں ۔ توجہ نہیں دیتیں ۔ جینزپہنتی ہیں اور چھوٹی قمیص ساتھ پہنتی ہیں توکیا کیا جائے؟مَیں نے ان کو یہی کہاتھاکہ آپ لوگ بچپن سے، پانچ چھ سال کی عمر سے عادت ڈالنی شروع کریں گی۔ سات سال کی عمر میں اس کوپتہ ہو کہ مَیں نے چھوٹی قمیص نہیں پہننی۔ فراک بھی لمبی پہننی ہے۔ جینزکے ساتھ بلاؤز نہیں پہننا۔ سکارف لینے کی عادت کبھی کبھی ڈالنی ہے۔ توجب دس سال کی ہوگی تو اس میں جھجک نہیں رہے گی۔ اگر آپ اس طرح عادت نہیں ڈالیں گی تووہ کہے کہ مَیں توابھی دس سال کی ہوں ، گیارہ سا ل کی ہوں ، بارہ سال کی ہوں ۔ اسی طرح sleeveless فراکیں جو ہیں وہ پہن لیتی ہیں ۔ اور وہ بھی جب حیا نہیں آئے گی تو سب ختم ہوجائے گا۔ پھر پردہ کی عادت کبھی نہیں پڑے گی۔ اس لئے شر وع سے ہی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ناصرات کی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ تبھی آپ اس ماحول سے اپنی اولاد کو بچاکر رکھ سکتی ہیں ۔ ناصرات کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 23؍دسمبر 2011ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں :

’’اسی طرح جو جوان بچیاں ہیں اُن سے بھی مَیں کہوں گا کہ اگر بعض بچیوں کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ ہم کیوں بعض معاملات میں آزاد نہیں ہیں ؟ تو وہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ آزاد ہیں لیکن اپنی آزادی کو اُن حدود کے اندر رکھیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے مقرر کی ہیں ۔ اگر آزادی یہاں کے معاشرے کی بے حجابی کا نام ہے تو یقیناً ایک احمدی بچی آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسی آزادی کے پیچھے جانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اُن کے اندر رہتے ہوئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے ظاہر ہے آپ کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب الحیاء من الایمان حدیث نمبر24)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا پاتا ہے بشرطیکہ تم مومن ہو، تمہارے میں ایمان ہو۔ پس ہر احمدی بچی کو اگر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے عملوں کی نیک جزا چاہتی ہے تو اپنی حیا کی بھی حفاظت کرنی ہوگی۔ ایک احمدی بچی کا لباس بھی حیا دار ہونا چاہئے نہ کہ ایسا کہ لوگوں کی آپ کی طرف توجہ ہو۔ ایسے فیشن نہ ہوں جو غیروں کو، غیر مَردوں کو آپ کی طرف متوجہ کریں ۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ بعض عورتوں نے ایسے برقعے بھی پہنے ہوتے ہیں ، بعضوں نے شروع کر دئیے ہیں جس پر بڑی خوبصورت کڑھائی ہوئی ہوتی ہے اور پھر پیٹھ پر، backمیں کچھ الفاظ بھی لکھے ہوتے ہیں ۔ اب بتائیں یہ کونسی قسم کا پردہ ہے۔ پردے کا مقصد دوسروں کی توجہ اپنے سے ہٹانا ہے۔ یہ احساس دلانا ہے کہ ہم حیا دار ہیں لیکن اگر برقعوں پر گوٹے کناری لگے ہوئے ہوں اور توجہ دلانے والے الفاظ لکھے ہوئے ہوں تو یہ پردہ نہیں ہے، نہ ایسے برقعوں کا کوئی فائدہ ہے۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 2؍مئی2014ء)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’بعض عرب عورتیں مجھے یہ کہتی ہیں کہ ہم مسجد میں گئے یوکے میں بھی، اور جگہوں میں بھی، وہاں احمدی عورتوں کے پردے ٹھیک نہیں تھے۔ عرب جو ہیں وہ خاص طور پر اپنے بالوں کے پردے کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں ۔ انہوں نے سر ڈھانکا ہوتا ہے۔ اس لئے اُن کو بڑا عجیب لگتا ہے کہ احمدی عورتیں پردہ نہیں کر رہی ہوتیں ۔ ہلکا سا ایک دوپٹہ، چُنّی سر پر ڈالی ہوتی ہے۔ اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپ کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔‘‘

(خطاب برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 17؍ستمبر 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 16؍نومبر 2012ء)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’اب یہاں یہ بہانے بنائے جاتے ہیں کہ یورپ میں پردہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ ایک طرح کاcomplexہے اور عورتوں کے ساتھ مَردوں کو بھی ہے۔ تم اپنی تعلیم چھوڑ کر خد اتعالیٰ کو خوش کرنے کی بجائے معاشرے کو خوش کرنے کے بہانے تلاش کر رہے ہو۔ بلکہ اس معاشرے میں بھی سینکڑوں ، ہزاروں عورتیں ہیں جو پردہ کرتی ہیں ، ان کو زیادہ عزت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے بہ نسبت پردہ نہ کرنے والیوں کے۔ اور معاشرتی برائیاں بھی ان میں اور ان کی اولادوں میں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں جو پردہ نہیں کرتیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17؍اپریل 2015ء)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’پس ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ کا پردہ قرآنی حکم کے مطابق ہونا چاہئے کہ جب وہ باہر نکلے تو کسی قسم کی زینت اور حسن عورت کا لڑکی کا دوسروں کو نظر نہ آتا ہو۔ سر ڈھکا ہو، بالوں کا پردہ ہے، چہرے کا پردہ ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ناک بند کرکے ہی چلنا ہے۔ اگر میک اپ نہیں کیا ہوا، ٹھوڑی، ماتھا، اور بالوں کا جو پردہ ہے وہ ٹھیک ہے لیکن اگر میک اَپ کیا ہو اہے توبہرحال چہرہ چھپانا ہوگا۔ پھر اگلے معیار بڑھتے ہیں جوبعض لڑکیاں پاکستان سے آتی ہیں وہاں نقاب اور برقع پہن کر آتی ہیں یہاں آکر سکارف لینے لگ جاتی ہیں ۔ تو وہ غلط ہے۔ ایک اچھا معیار جو پردے کا اختیار کیا ہے تو اس کو قائم رکھنا چاہئے۔ اچھائی سے برائی کی طرف، نیچے نہیں آنا چاہئے، معیار اوپر جانا چاہئے… اگر آپ میں سے کوئی جینز skiny جینز پہن لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا لباس یعنی جینز پہننے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن کوئی بھی ایسا لباس جس سے جسم کے حصّے یا اعضاء ظاہر ہوتے ہوں ، تنگ لباس ہو وہ منع ہے۔ ہندوستان میں رواج ہے تنگ پاجامہ پہننے کا، لیکن جب باہر نکلتے ہیں تو برقع ہوتا ہے، لمبا کوٹ ہوتا ہے یا چادر ایسی ہونی چاہئے جس نے کم ازکم گھٹنوں تک لپیٹا ہو۔ جینز اگر پہن لی، اگرلمبی قمیص ہے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اگر جینز پہن کے چھوٹا بلاؤز ہے صرف سر پر حجاب لے کر باہر نکل آئی ہیں تو وہ بے فائدہ چیز ہے۔ کیونکہ سر کا پردہ تو آپ نے کرلیاجسم کا نہیں کیا اور حیا جو ہے وہ قائم رکھنااصل مقصد ہے۔ حیا کے معیار بڑھنے چاہئیں ۔ اصل چیز یہ ہے۔ عورت کا تقدّس اسی میں ہے۔‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 2011ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حیادار اور باوقار لباس زیب تن کرنے کو اعلیٰ تہذیب اور اقدار سے ملاتے ہوئے یورپ کے اعلیٰ خاندانوں کی مثال بھی پیش فرمائی۔ حضورانور نے فرمایا:

’’پھر گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کر لیں گی تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثرانداز نہ ہوں ۔ کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو اِن پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو گھُن کی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح لکڑی کو گھُن کھا جاتا ہے… آپ لوگوں کو اس معاشرے سے اتنا متاثر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے اپنےملکوں میں بھی آج سے چند دہائیاں پہلے، چند سال پہلے بلکہ آج بھی جو رائل(royal) فیملیاں ہیں ، جو اُونچے بڑے خاندان ہیں ان کے لباس شریفانہ ہیں ۔ بازو لمبے ہیں تو پوری سلیوز(sleeves)ہیں ۔ فراک ہیں تو لمبی ہیں یا میکسیاں ہیں یا گاؤن استعمال کئے جاتے ہیں ۔ پہلے کئے جاتے تھےاوراب بھی بعض کرتی ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا رائل فیملیز میں آج بھی استعمال کی جاتی ہیں ۔ اچھے خاندان، شریف لوگ، خواہ وہ کسی بھی ملک کے ہوں شراب میں دھت ہونے اور اودھم مچانے اور ننگے لباس کو دنیا میں ہر جگہ بُرا سمجھتے ہیں ۔ کسی مذہب کے زیرِ اثر تو وہ نہیں ہوتے۔ یہ یا تو ان کی خاندانی روایات ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے لباس شریفانہ رکھے ہوتے ہیں یا فطرت ان کو کہتی ہےکہ ننگے لباس پہننا غلط ہے، تمہارا اپنا ایک خاص مقام ہےاس کی خاطر تم نے اچھے لباس پہننے ہیں جو سلجھے ہوئے نظر آئیں ۔‘‘

(خطاب برموقع نیشنل اجتماع لجنہ اماءاللہ جرمنی 11؍جون 2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جون 2015ء)

تبلیغ

اسلام کا پیغام تمام دنیامیں پھیلانے کے لیے ہر انسان کو اپنے دائرے میں کسی نہ کسی رنگ میں کوشش کرنی چاہئے۔ اس بارہ میں رہ نمائی فرماتے ہوئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’… یہاں کی پلی بڑھی بچیاں ہیں یا پڑھی لکھی عورتیں ہیں ، ان کو تو زبان کی آسانی ہے۔ لجنہ کے تبلیغ کے شعبہ کو چاہئے کہ ایسی عورتوں اور بچیوں کی ٹیمیں بنائیں اور ان کو تبلیغ کے لئے استعمال کریں ۔ لیکن ایک بات واضح طور پر ذہن میں رکھنی چاہئے کہ لڑکیوں کے تبلیغی را بطے صرف لڑکیوں سے ہونے چاہئیں عورتوں سے ہونے چاہئیں ۔ بعض لوگوں کے رابطے انٹرنیٹ کے ذریعے سے تبلیغ کے ہوتے ہیں اور انٹرنیٹ کے تبلیغی رابطے بھی صرف لڑکیوں اور عورتوں سے رکھیں ۔‘‘

(’’اوڑھنی والیوں کے لئے پھول‘‘؍جلد سوم؍ حصہ دوم؍صفحہ 29)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی طالبات کو تبلیغ کے میدان میں اسلامی حکم پردہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کام کرنے کا ارشاد یوں فرمایا:

’’یونیورسٹی کی احمدی طالبات سے کہیں کہ اگر انہیں ان کی زبانیں نہیں آتیں تو ان زبانوں میں لٹریچر حاصل کر لیں ۔ …انٹرنیٹ پر اگر تبلیغی رابطے کرنے ہوں تو عورتوں کا تبلیغی رابطہ صرف عورتوں سے ہونا چاہئے۔ …اگر کہیں مَردوں سے رابطہ ہو جائے تو انہیں پھر مَردوں کے پتے دے دیں ۔ اپنے فورم میں صرف عورتوں کو لے کر آئیں ۔ اور اگرکسی جگہ عورتیں پوری طرح جواب نہ دے سکتی ہوں اور کوئی مکس گیدرنگ(mix gathering) ہو تو اپنے ساتھ لائی ہوئی مہمان خاتون کو لے کرایک سائیڈ میں بیٹھیں اور پردے کا خیال رکھیں لیکن جب کھانے پینے کاوقت آئے تو اس وقت مکس گیدرنگ میں نہیں بیٹھنابلکہ علیحدہ انکلوژر(enclosure) میں چلی جائیں اور جو عورتیں اکٹھی مجالس میں ملیں ان کے پتے حاصل کر کے ان کو صرف عورتوں کی مجالس میں بلائیں ۔ اس صورت میں ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی اٹھیں گے کہ آپ مکس مجالس میں کیوں نہیں آتیں ؟ اس پر آپ اسلامی پردہ کے متعلق وہاں ان کی غلط فہمیاں بھی دور کر سکتی ہیں …یونیورسٹی کی طالبات کے جن سے روابط ہوں ان کی علیحدہ gatheringہو سکتی ہیں ۔‘‘

(میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ جرمنی 9؍جون 2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جولائی 2006ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

’’ہر زبان کو اپنے اپنے ملک میں جاننا اور اس میں مہارت حاصل کرنا وہاں کے ہر احمدی کافرض ہے… لازم ہے کہ دین کی خاطر اور ان قوموں کے دل جیتنے کی خاطر انکی زبانیں سیکھنے کی کوشش کرو…اگر آپ زبانیں سیکھیں گی ملکی زبانیں سیکھیں گی آپس میں اپنی زبان میں گٹ مٹ بند کریں گی اور مجالس میں مجالس کا حق ادا کریں گی تو لازم ہے کہ نئی آنے والی خواتین سمجھیں گی کہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں اور اپنی تربیت کے لئے وہ اپنے آپ کو ازخود پیش کریں گی۔‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلددوم صفحہ 572)

حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں :

’’روزانہ بلا ناغہ رات کو سونے سے پہلے اپنے احتساب کے عمل کو ایک فرض قرار دے دو اور تنہائی میں اپنی مساعی کی قدر و قیمت کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کرو جو تم نے دن بھر میں اللہ تعالیٰ کا پیغام اوروں تک پہنچانے کے سلسلے میں کیں ۔‘‘

(اوڑھنی والیوں کے لئے پھول جلددوم از پیش لفظ)

شادی کے متعلق خوبصورت نصائح

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے موقع پر امّ المومنین حضرت امّاں جان ؓ کی نصائح کے حوالہ سےاپنے خطاب میں فرمایا:

’’اس وقت میں امّ المومنین حضرت اماں جان رضی اللہ عنہاکی بعض نصائح بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آپؓ نے اپنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی رخصتی کے وقت اُنہیں کی تھیں ۔ اُن میں سے بعض باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ آپؓ نے فرمایا کہ اپنے خاوند سے چھپ کر یا وہ کام جسے خاوند سے چھپانے کی ضرورت سمجھو، ہر گز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخرکار ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کھو دیتی ہے۔ اس کی عزت اور احترام نہیں رہتا۔ فرمایا اگر کوئی کام خاوند کی مرضی کے خلاف سرزد ہوجائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا۔ صاف کہہ دینا کیونکہ اسی میں عزت ہے اور چھپانے میں آخربےعزتی اور بے وقری کا سامنا ہوتا ہے۔ عورت کا وقار گرجاتا ہے۔

پھر فرمایا کہ کبھی خاوند کے غصے کے وقت نہ بولنا۔ اگر بچہ یا کسی نوکر پر خفا ہو اور تمہیں معلوم ہو کہ خاوند حق پر نہیں ہے، خاوند غصے کی حالت میں ہے، کسی بچے کو ڈانٹ رہا ہے یا کسی اور کو کچھ کہہ رہا ہے اور تمہیں صاف نظر آرہا ہو کہ وہ غلط کر رہا ہے تب بھی اُس کے سامنے اُس وقت نہ بولو۔

فرمایا کہ غصے میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت نہیں رہتی۔ اکثر جھگڑے اسی لئے بے صبری کی وجہ سے ہورہے ہوتے ہیں کہ فوراً ردّ عمل دکھاتی ہیں اور جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ فرمایا کہ اگر غصے میں اس ٹوکنے کی وجہ سے تمہیں بھی کچھ کہہ دے تو تمہاری بڑی بے عزتی ہوجائے گی۔ بعد میں جب خاوند کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو بے شک آرام سے اُس کی غلطی کی نشان دہی کر دینی چاہئے۔ اصلاح بھی فرض ہے۔

…حضرت اماں جانؓ پھر اپنی بیٹی کو یہ نصیحت فرماتی ہیں کہ خاوند کے عزیزوں کو اور عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا۔ جیسا کہ حدیث میں بھی ذکر آگیا ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑکے حوالے سے بھی میں نے بات کی ہے کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کو اپنا سمجھو۔ فرمایا کہ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے تم سب کا بھلادل میں بھی چاہنا۔ تمہارے سے کوئی برائی کرتا ہے کرے لیکن تم اپنے دل میں کبھی کسی کی برائی کا خیال نہ لانااور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ لینا۔ دیکھنا پھر خدا ہمیشہ تمہارا بھلا کرے گا۔

پھر آپؓ اکثر بچوں اور بچیوں کو یہ نصیحت بھی فرمایا کرتی تھیں کہ اپنے نئے گھر میں جارہی ہو وہاں کوئی ایسی بات نہ کرنا جس سے تمہارے سسرال والوں کے دلوں میں نفرت اور میل پیدا ہو اور تمہاری اور تمہارے والدین کے لئے بدنامی کا باعث ہو۔ پس سسرال کے معاملات میں کبھی دخل نہیں دینا چاہئے۔ جو اُن کے معاملے ہورہے ہیں ، ہونے دو۔ نہ ہی ساس کی اور نندوں کی باتیں خاوند سے شکوے کے رنگ میں کرنی چاہئیں ۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی تھیں جیسا کہ میں نے کہا انہوں نے حضرت خلیفہ اولؓ کی بھی ایک نصیحت بیان فرمائی ہے۔ جو حضرت خلیفہ اولؓ اُن کو بھی کرتے تھے اور دوسری بچیوں کوبھی کیا کرتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ نصیحت اور اس پر جو عمل ہے پہلے سے زیادہ اہم ہےاور بارہ تیرہ سال کی جو بچیاں ہیں ، جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہی ہوتی ہیں ، اُن کو ضرور یہ دعا کرنی چاہئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے آپؓ کو کئی مرتبہ فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی شرم نہیں ، تم چھوٹی ضرور ہو مگر خدا سے دعا کرتی رہا کرو کہ اللہ مبارک اور نیک جوڑا دے۔‘‘

( مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2009ء)

ملازمت سے متعلق ارشادات

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’…یہ ٹھیک ہے کہ یہاں ان مغربی ملکوں میں بعض مجبوریوں کی وجہ سے بعض خواتین کو ملازمت بھی کرنی پڑتی ہے، نوکریاں کرنی پڑتی ہیں لیکن احمدی عورت کو ہمیشہ ایسی ملازمت کرنی چاہئے جہاں اس کا وقار اور تقدس قائم رہے۔ کوئی ایسی ملازمت ایک احمدی عورت یا احمدی لڑکی کو نہیں کرنی چاہئے جس سے اسلام کے بنیادی حکموں پر زد آتی ہو، جس سے آپ پر انگلیاں اٹھیں ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں نیک لوگوں کو، تقویٰ پر قائم لوگوں کو رزق مہیا فرماتا ہوں ، ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں ۔‘‘

(مستورات سے خطاب بر موقع جلسہ سالانہ کینیڈا 2005ء
مطبوعہ الازھار لذوات الخمار جلد سوم حصہ اول، صفحہ 265، )

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’میں پہلے بھی ایک مرتبہ ایک واقعہ کا ذکر کر چکا ہوں ۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں ۔ ایک احمدی بچی کو اس کے باس(boss)نے نوٹس دیا کہ اگر تم حجاب لے کر دفتر آئی تو تمہیں کام سے فارغ کر دیا جائے گا اور ایک مہینہ کا نوٹس ہے۔ اس بچی نے دعا کی کہ اے اللہ! میں تو تیرے حکم کے مطابق یہ کام کر رہی ہوں اور تیرے دین پر عمل کرتے ہوئے یہ پردہ کر رہی ہوں ۔ کوئی صورت نکال۔ اور اگر ملازمت میرے لئے اچھی نہیں تو ٹھیک ہے پھر کوئی اور بہتر انتظام کر دے۔ تو بہرحال ایک مہینہ تک وہ افسر اس بچی کو تنگ کرتا رہا کہ بس اتنے دن رہ گئے ہیں اس کے بعد تمہیں فارغ کر دیا جائے گا اور یہ بچی دعا کرتی رہی۔ آخر ایک ماہ کے بعد یہ بچی تو اپنے کام پر قائم رہی لیکن اس افسر کو اس کے بالا افسر نے اس کی کسی غلطی کی وجہ سے فارغ کر دیا یا دوسری جگہ بھجوا دیا اور اس طرح اس کی جان چھوٹی۔ اگر نیت نیک ہو تو اللہ تعالیٰ اسباب پیدا فرما دیتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو خداتعالیٰ ایسے طریق سے مدد فرماتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد کے الفاظ دل سے نکلتے ہیں ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ اپریل2010ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 14؍مئی 2010ء)

سیدنا امیرالمومنین چھوٹے بچوں والی ماؤں کو فرماتے ہیں :

’’پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی رہ نمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں ۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں ۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں ، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں ۔ تو بہرحال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔‘‘

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)

ذاتی محاسبہ

وہ کون سا پہلو ہے جس کی طرف ہمارے خلفا ءتوجہ نہیں دلاتےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’رات کو سونے سے قبل بجائے TV ڈرامہ دیکھنے کے یا TV ڈرامہ کوئی اچھا ہے تو بے شک دیکھ لو لیکن اس میں کسی قسم کا ننگ نہیں ہونا چاہئے۔ یا انٹرنیٹ پر لمبا وقت گزارنے کی بجائے وقت پر سونے کی عادت ڈالیں تاکہ نماز پر اٹھ سکیں اور پھر سونے سے قبل یہ جائزہ بھی لیں کہ ہم نے آج کیا کیا کام کئے ہیں ۔ جب نمازیں فرض ہیں تو کیا ہم نے ادا کی ہیں ۔ قرآن شریف پڑھنے کا حکم ہے تو کیا ہم نے پڑھا ہے۔ اور یہ بھی کہ قرآن شریف کے کسی حکم پر ہم نے غور کیا ہے اور اس میں بیان شدہ تعلیم اور معانی نکالے ہیں … ایک ڈاکٹر بن جائے گی، ایک ٹیچر بن جائے گی یا اَور کچھ نہیں تو تھوڑی سی پڑھائی کرکے اتنا ہی کافی ہے کہ شادی ہوجائے اور اپنے گھر چلی جائے۔ بلکہ آپ لوگوں نے ہر جگہ اپنے نمونے قائم کرنے ہیں ۔ پس ان نمونوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک رات سونے سے پہلے آپ خود اپنا جائزہ نہ لیں ۔‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’کوئی دوسرا آپ کا جائزہ لے گا تو جھوٹ بولا جاسکتا ہے۔ لیکن جب آپ خود اپنا جائزہ لیں گی تو جھوٹ نہیں بول سکتیں ۔ جب اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں گی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ مَیں تم کو دیکھ رہا ہوں تو پھر آپ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے سچائی کے ساتھ اپنا جائزہ لیں گی۔ کیونکہ نہ اپنے آپ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 2؍ دسمبر2011ء)

آخر میں خاکسار مضمون کو سیدنا امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خوبصور ت ارشاد پر ختم کرتی ہے:

’’پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہم دنیا کو یہ بتائیں اور اسی طرح اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ ڈال دیں کہ عورت کے حقوق کی اسلام حفاظت کرتا ہے اور اسے ایک مقام دیتا ہے تو ہم ایک وقت میں دنیا کو باور کرانے والے ہو جائیں گے، ثابت کرنے والے ہو جائیں گے کہ اسلام ہی عورت کے حقیقی حقوق قائم کرتا ہے۔ اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ ڈالنے والے ہوں گے۔ اگر لڑکے ہیں تو انہیں بتانا ہے کہ شریعت نے تم پر عورت کے حقوق کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ ہر ماں اپنے لڑکے کی، اپنے بچے کی اس طرح تربیت کرے تو بہت سارے مسائل گھروں کے بھی حل ہو جائیں گے کہ عورت کے حقوق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے، شریعت میں تم پر ڈالی ہے اور اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنا گناہ ہے تو آئندہ آنے والے احمدی مسلمان مرد مسلمان عورت کے بلکہ ہر عورت کے حقوق کے علمبردار بن جائیں گے… پس اگر مائیں اپنے گھروں سے یہ تربیت شروع کریں گی تو وہیں لڑکے ان حقوق کے لئے لڑنے والے ہوں گے بجائے اس کے کہ دنیاوی تنظیموں کے پاس جائیں اور ہماری لڑکیاں اپنے حقوق کے لئے دنیاوی تنظیموں کے پاس جانے کی بجائے اسلام کے دئیے ہوئے حقوق کی پاسدار بن جائیں گی اگر لڑکیوں کی تربیت کی جائے کہ اسلام تمہیں کیا حقوق دیتا ہے اور پھر یہ بات آئندہ نسلوں میں بھی اگر ڈالتے چلے جائیں تو عورتوں کے حقوق کا ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو جائے گا۔

پس آج احمدی عورتیں اور احمدی لڑکیاں اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس ذمہ داری کو اٹھالیں تو آئندہ آنے والی نسلیں چاہے وہ کسی قوم سے تعلق رکھتی ہوں ان کے حقوق کی علمبردار آپ ہو جائیں گی۔ دنیا آپ کی طرف دیکھ کر حقوق قائم کرنے کے لئے رہ نمائی لے گی۔ آپ وہ ہوں گی جو ہر قوم کی عورت کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانے والی ہوں گی اور انہیں آزاد کروا کر ان کے حقوق ادا کرنے والی ہوں گی۔ اور مَیں مردوں سے بھی کہتا ہوں کہ اس عظیم مہم میں عورتوں کے مددگار بنیں ۔ آج مذہب کے خلاف قوتیں انسانی حقوق کے نام پر دنیا کو مذہب سے دور لے جا رہی ہیں اور یہ ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے حقوق کے قیام کے نام پر ہی دنیا کو مذہب کے قریب لانا ہے۔ دنیا یہ کہتی ہے کہ مذہب حق نہیں دیتا۔ ہم نے بتانا ہے کہ مذہب حق دیتا ہے اور انہی حقوق کی وجہ سے ہم تمہیں مذہب کے قریب لاتے ہیں اور ہم نے لانا ہے جس کے لئے ہماری عورتوں کو بڑا کردار ادا کرنا ہو گا اور ہمیں ان کے مددگار بننا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہر عورت بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے والی ہو اور صحیح اسلامی تعلیم پر خود بھی عمل کرنے والی ہو اور اپنی نسلوں کو بھی عمل کروانے والی ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا مقدم ہو تا کہ دنیا اسلام کی تعلیم کا اور عورت کے حقیقی حقوق کا اصل چہرہ دیکھ سکے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی عورت کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ آمین

(الفضل انٹر نیشنل 16؍دسمبر2016ء صفحہ 4)

ہمارا اولین فرض ہے کہ خلافت کے ساتھ کامل اخلاص اورمحبت اور وفا اورعقیدت کا تعلق رکھیں ، اور اس کی اطاعت اور محبت کو اس قدر بڑھائیں کہ اس کے سامنے دوسرے تمام رشتے اور تعلق کمتر نظر آئیں ۔ خلیفہ سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں ۔ ہماری ساری ترقیات کا دارومدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button