متفرق مضامین

آئیڈیل سے حقیقت کا سفر

(امۃ الباری ناصر)

خلافتِ احمدیہ کے زیر سایہ اسلامی اقدار کے سایہ میں رہتے ہوئے احمدی خواتین کی دَورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگی یعنی صحیح معنوں میں آئیڈیل سے حقیقت کا سفر

ہماری آئیڈیل نہ کوئی ٹی وی فلم سٹار ہے نہ کوئی اینکر وُومن ہے نہ کوئی لکھاری ،شاعرہ یا دنیاوی شہرت رکھنے والی خواتین ۔ہماری آئیڈیل وہ خواتین ہیں جنہوں نے مولا کریم سے محبت کی

’’یاد رکھو کہ ہزار درہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اﷲتعالیٰ روکتا ہے آخرکار انسان کواُن سےرُکناہی پڑتاہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 105، ایڈیشن 1988ء)

اپنے خالق سے وفادار احمدی خواتین اپنے گھروں کو عبادت اور ذکر الٰہی سے سجاتی ہیں ان کے ماحول نیکیوں کی خوشبو سے مہکتے ہیں ۔ مذہبی تعلیمات اور حدود و قیود کے حصن میں رہنے والی محصنات فلاح و نجات کی جستجو میں اپنے لیے محبت الٰہی کے حصول کے راستے منتخب کرتی ہیں ان کے پیش نظر اپنی تخلیق کا مقصد رہتا ہے۔ وہ معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں قدرت نے انہیں جس سلطنت کی ملکہ بنایا ہے اس کی بھرپور حفاظت اور دیکھ بھال کرتی ہیں ۔ فرض شناس عورت ہر حیثیت میں طمانیت اور راحت کا سامان بنتی ہے اس کا گھر جنت جیسا پر سکون ہو تا ہے۔ ایسے گھر اس بے سکون دنیا میں جنت مثال جزیرے ہوتے ہیں ۔ ایک مثالی عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہوتی ہے تخلیق کے عمل میں جان کی بازی لگا کر قدرت اس کی گود میں جو بچہ ڈالتی ہے اس معصوم کی اچھی تربیت اس کا فرض اولین ہوجاتا ہے کوشش ہوتی ہے کہ کپڑا میلا ہونے پر دھونے کی بجائے ایسی تدابیر کرے کہ کپڑا میلا ہی نہ ہو اس کے لیے بچہ کی پیدائش سے پہلے سے ہی وہ اس کے لیے دعائیں کرتی ہے۔ ماں کی گود ہی وہ قیمتی تربیت گاہ ہے جو شخصیت کے نقوش بناتی ہے۔ نیک ماں کی نیک تربیت سے بفضلِ الٰہی نیک بچے پروان چڑھتے ہیں ۔ احمدی خاتون کی یہ نمایاں حیثیت تعلیم وتربیت کے سوا صدی سے زیادہ عرصے کا نتیجہ ہے۔ مسلسل تقویٰ کی راہوں کی طرف رہ نمائی کی نعمت میسر ہے۔ خالقِ کائنات نے قرآن پاک میں جن و انس کی پیدائش کا مقصد اور لائحہ ٔعمل بتایا۔ آنحضور ﷺ نے اپنے عمل اور قول سے اس کی تشریح فرمائی۔ وقت کی دست برد سے اسلام کی تعلیمات میں شامل ہونے والے رطب ویابس کو اس زمانے کے حکم و عدل نے صاف کرکے اسلام کا سچا چہرہ دکھایا۔ ان سارے ذرائع سے سیکھے ہوئے علوم خلفائے کرام نے اپنےوقت اور ضرورت کے مطابق ہمیں پہنچائے۔ اوڑھنی والیوں کو اتنے پھول دیے کہ وہ پھولوں سے لَد گئیں ۔ پھر ان کی مستقل آبیاری اور حفاظت کا سامان کیا۔ خلفائے کرام آسمانی نورو بصیرت سے خواتین کو ترقی کی راہوں پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ کمزور پہلوؤں کی تشخیص اور علاج تجویز کرتے ہیں ۔ اس گلشن کو ہر دم پُر بہار اور ترو تازہ رکھنے کے لیے ہوشیار باغبان کی طرح ہدایت و رہ نمائی کا پانی دیتے ہیں ۔ بدلتے موسموں کی دست برد سے، وسوسے ڈالنے والوں کے شر سے، شیطان کے ورغلانے سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری بند باندھتے ہیں ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی اولاد کے لیے جو دعا میں یہ خطرے کی نشان دہی بھی ہے فرماتے ہیں کہ ان کے گھر تک کہ دجالی قوتوں کا رعب نہ آئے۔ یہ خدا کے رنگ میں رنگین ہوں ان کے طور طریق نہ اپنائیں ۔

عیاں کر ان کی پیشانی پہ اقبال

نہ آوے اِن کے گھر تک رُعبِ دجّال

( درثمین )

احمدی مستورات کو مستقل اسلامی اقدار کا حصار اور خلافتِ احمدیہ کی حفاظت میسر ہے اس خوش نصیبی کے شکرانے میں نیک راہوں پر مضبوطی اور خود اعتمادی سے قدم بڑھاتے رہنا ہمارا فرض ہے۔ ہر قدم خدا کی طرف اُٹھے۔

سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ
(الحدید:22)

اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور اس جنت کی طرف بھی جس کی وسعت آسمان اور زمین کی وسعت کی طرح ہے جو ان لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے۔

منزل و جادہ اور انعام کے تعین کے ساتھ اللہ تبارک تعالیٰ نے مکمل ضابطہ ٔحیات بھی عطا فرمایا۔ ہر خیر کا ہر راستہ قرآن مجید میں لکھ دیا گیا ہے اس پر عمل ہوگا تو یقین رکھنا کہ سیدھے راستے پر ہو

اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ

کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں ۔ یہ تعلیم کبھی پرانی فرسودہ اورناقابل عمل نہیں ہوسکتی۔ اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کوچے میں قدم رکھنا ہے تو اس پر عمل کرنا ہوگا مشکلات آئیں گی زمانے کی ہوا کے مخالف سمت چلنا مشکل ہوتا ہے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ ہم زمانے کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اپنے حقیقی معبود کو جب ایک فیصلہ کرلیں کہ اپنے خالق و مالک کو خوش کرنا ہے تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی اور اگر جگ ہنسائی ہو بھی تو یہ حوصلہ رہتا ہے کہ دنیا خوش ہو نہ ہو ہم نے اپنے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے۔

بعض ابن الوقت جدّت پسند زمانے کی ظاہری چکا چوند سے متاثر ہوکر اپنی کم علمی، اور کم فہمی اور مغربی معاشرے کے زیر اثر ترقی پسند کہلانے کے شوق میں اسلام کے احکام کو فرسودہ، آؤٹ آف ڈیٹ اورنا قابل عمل سمجھتے ہیں ۔ جو ان کے خیال میں دَورحاضر سے مطابقت نہیں رکھتے، ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہیں ۔ خاص طور پر خواتین کا لباس اور پردہ انہیں بہت برا لگتا ہے۔ بقول ان نام نہاد جدت پسندوں کے اس صنفِ حسین کے سوشلائز کرنے میں کوئی روک نہیں ہونی چاہیے۔ زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ گیا ہم ابھی تک ماضی میں جیتے ہیں ۔ عورتوں کو باندھ باندھ کر رکھنے سے معاشرے میں گھٹن پیدا ہوتی ہے بد اخلاقی گھٹن سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ بے پردگی سے۔ خواتین اقتصادیات کا حصہ ہیں دنیا کی نصف آبادی عضو معطل ہو کر بیٹھ گئی تو ترقی کیسے ہوگی۔ اسلام صرف عورت کے پردے میں تو نہیں ہے حجاب اور حیا تو آنکھوں میں ہوتی ہے ہر عورت جو بغیر رائج برقع پہنے باہر نکلتی ہے بے حیا نہیں ہوتی۔ حجاب کے ساتھ اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ وغیرہ ممکن نہیں ۔ ٹی وی، انٹر نیٹ سوشل میڈیا، جدید ذرائع ابلاغ معلومات تک رسائی دیتے ہیں اور تفریح بھی۔ مغربی ممالک کی ترقی دیکھیں اور اپنی ماضی پرستی دیکھیں ۔ بچوں کو بہت چھوٹے پن سے جنسیات کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ وہ اپنا برا بھلا خود سمجھیں ۔ چھوٹے چھوٹے رسم و رواج اپنانے سے قیامت نہیں آجاتی وہ ہیلووین ہو یا ہولی تھوڑی دیر کی تفریح ہے۔ بچوں کو کنویں کے مینڈک بنا کر کیسے رکھیں آخر انہیں اسی ماحول میں رہنا ہے۔ الگ تھلگ ہوکے کیسے رہ سکتے ہیں دنیا میں ہر ایک کو پیغام ہدیٰ دینے کے لیے ان سے گھل مل کر رہنا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔

یہ بودے اعتراض اور بے بنیاد منطق محض سہل انگاری اور ذاتی تعیش کے لیے گھڑی جاتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دین اور مذہب ان کی آزادی کو سلب کرتا ہے اور ان پر پابندیاں لگاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ(الحج: 79)

یعنی دین کی تعلیم میں تم پر کوئی بھی تنگی کا پہلو نہیں ڈالا گیا بلکہ شریعت کی غرض تو انسان کے بوجھوں کو کم کرنا اور صرف یہی نہیں بلکہ اسے ہر قسم کے مصائب اور خطرات سے بچانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ دین یعنی دین اسلام جو تمہارے لئے نازل کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو تمہیں مشکل میں ڈالے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر بڑے سے بڑے حکم تک ہر حکم رحمت اور برکت کا باعث ہے۔ پس انسان کی سوچ غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہو کر ہم اس کے حکموں پر نہیں چلیں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔ اگر انسان عقل نہیں کرے گا تو شیطان جس نے روزِ اول سے یہ عہد کیا ہوا ہے کہ میں انسانوں کو گمراہ کر کے نقصان پہنچاؤں گا وہ انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرائے گا۔ پس اگر اس کے حملے سے بچنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو ماننا ضروری ہے۔ بعض باتیں بظاہر چھوٹی لگتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کو معمولی سمجھنے کی وجہ سے ان کے نتائج انتہائی بھیانک صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ پس ایک مومن کو کبھی بھی کسی بھی حکم کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ13؍ جنوری 2017ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍فروری2017ءصفحہ5تا6)

اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا

حضرت مصلح موعود ؓنے دورہ یورپ کے بعد ایک خط لکھا جس میں آنے والے خطرات کو بھانپ کر بر وقت تنبیہ فرمائی

’’اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعودؑ کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا۔ نہ چھوڑنا، نہ چھوڑنا، آہ نہ چھوڑنا۔ میں کس طرح تم کو یقین دلاؤں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے، خواہ چھوٹا ہو، خواہ بڑا۔ جو چیز سنت سے ثابت ہے وہ ہرگز نہیں بدلی جاسکتی۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا ۔‘‘

(دورہ یورپ، انوارالعلوم جلد 8صفحہ 433)

اسلام کے احکامات پر احمدی خواتین کا عملدرآمد۔ بچیوں اور خواتین کا لباس

دنیا میں جتنے بھی کلب، انجمنیں اور تنظیمیں بنتی ہیں اپنا منشور اور آئین رکھتی ہیں جو شامل ہونے والوں کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ خالقِ کائنات نے بھی توحیدو رسالت کا اقرار کرنے والوں کے لیے ایک دستور العمل اورقواعدو ضوابط بنائے ہیں ۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو اس کا کاربند رہنا ہوتا ہے۔ یہ جو طور طریق ہیں ان میں خالق نے تمام تر بھلائی رکھی ہے اس پر عمل میں بھلائی ہے اور اس سے انحراف میں برائی ہے۔

قرآن پاک میں لباس کے بارے میں بیان ہے :

یٰبَنِیٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا۔ وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ۔ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ۔
(الاعراف:27)

اے بنی آدم! یقیناً ہم نے تم پر لباس اتارا ہے جو تمہاری کمزوریوں کو ڈھانپتا ہے اور زینت کے طور پر ہے اور رہا تقویٰ کا لباس تو وہ سب سے بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے کچھ ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ۔

اسلام کسی لباس کو اسلامی یا غیر اسلامی قرار نہیں دیتا۔ اسلام کا منشا ء ایسا لباس ہے جو ظاہر کرے کہ پہننے والا خدا کا خوف رکھتا ہے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ

اَلْحَیَآءُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ

کہ حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔

(مسلم کتاب الایمان باب شعب الایمان وافضلھا… حدیث نمبر 59)

لباس حیادار ہو تن ڈ ھانپتا ہو لباس کے مختلف فیشن اور انداز ہوسکتے ہیں ۔ ان کی وضع قطع میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں ۔ کپڑے کی قسم اور قیمت پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ حیا، حجاب، شرم، لحاظ کی تعلیم بچپن میں لباس سے شروع ہوتی ہے۔ جن بچوں کو بچپن سے مناسب لباس کی اہمیت نہ بتائی جائے وہ بڑے ہوکر نہیں سیکھتے۔ خاص طور پر بچیوں کو اگر شروع سے اس طرف توجہ نہ دیں تو بڑے ہوکر حجاب کی عادت ڈالنے میں دقت ہوسکتی ہے۔ یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ بچے ماں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں اگر ماں حیا سے رہتی ہو تو بچیاں چھٹپن سے ہی سر ڈھانکنا، دوپٹہ اوڑھنا سیکھ جاتی ہیں ۔ ماں کا نمونہ اور گود ایک سکول ہے جو آئندہ شخصیت کے نقوش بناتا ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے اپنی کتاب منہاج الطالبین میں پیدائش سے بچوں کی تربیت کے گُر سکھائے ہیں ۔ جن کی روح یہ ہے کہ بچپن میں حیا کا شعور بیدار کیا جائے جو ذہن میں نقش ہوجائے ایسے بچے بڑے ہوتے ہیں تو حجاب پہننے کے لیے کسی کو اصرار نہیں کرنا پڑتا۔

مناسب لباس سے بے لباسی کی طرف راغب کرنے والا شیطان ہوتا ہے۔ ازل سے اس نے اسی کام کا عہد کر رکھا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو خبردار کیا ہےکہ

’’اے بنی آدم! شیطان ہرگز تمہیں فتنہ میں نہ ڈالے جیسے اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا تھا۔ اس نے ان سے اُن کے لباس چھین لئے تھے تاکہ اُن کی برائیاں ان کو دکھائے یقیناً وہ اور اس کے غول تمہیں دیکھ رہے ہیں ۔ جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ یقیناً ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا دوست بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔‘‘

(الاعراف:28)

ہمیں حیا کا معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے حیا ایما ن کا حصہ ہے۔ آج کل کی دنیاوی ایجادات ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ نے کھلی کھلی بے حیائی دکھانے پر کمر باندھ لی ہے کہیں ثقافت کے نام پر کہیں آرٹ کے نام پر ہوا و ہوس کی تسکین کے لیے غلیظ سے غلیظ فلمیں جو عریانی، بے لباسی اور بے حیائی دکھاتی ہیں ہر ایک کی پہنچ میں ہیں ۔ زمانہ کی ترقی اور جدت پسندی کے نام پر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو کوئی شریف آدمی دیکھ بھی نہیں سکتا اللہ تعالیٰ ان کے اثرات سے احمدی گھرانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین

ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: بےحیائی ہر مرتکب کو بدنما بنا دیتی ہے اور شرم و حیا ہر حیادار کو حسن و سیرت بخشتا ہے اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے۔

(ترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحش والتفحش۔ حدیث نمبر 1974)

سیدناحضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ اماء اللہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں احمدی بچیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعثت کامقصد اپنی جماعت کو اسلامی تعلیمات پر قائم کرنا اور ایک مثالی معاشرے کا قیام ہے۔ ہماری بچیاں باقی بچیوں سے منفردنظرآنی چاہئیں ۔ ان کی گفتگو سلجھی ہوئی اور پاکیزہ ہونی چاہئے۔ ان کی چال ڈھال، لباس اور حرکات اور سکنات سے اسلامی تعلیمات جھلکتی نظرآنی چاہئیں ۔ دس گیارہ سال کی عمر سے ہی انہیں سرڈھانپنے اور پورااور مناسب لباس پہننے کی عادت ڈالیں ۔ جو پردے کی عمر کو پہنچ چکی ہیں ان کے پردے کا خیال رکھیں ۔ گھروں میں باربارکی نیک نصائح اور اپنے سے چھوٹی بچیوں کے لئے آپ کا نیک نمونہ آئندہ نسلوں کو دینی تعلیمات پر قائم کرتاچلاجائے گا۔‘‘

(پیغام برائے مجلس شوریٰ لجنہ اماءاللہ پاکستان2009ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍جنوری 2010ءصفحہ2)

احمدیت اللہ پاک کے کرم سے دنیا میں پھیلتی چلی جائے گی۔ جہاں بھی جائے گی اپنا مزاج اپنا حسن اپنی اقدار و روایات ساتھ لے کر جائے گی کیونکہ یہی امت واحدہ ہے جو خیر امت ہے۔ دنیا کی بظاہر چمکتی ہوئی حسین رنگینیوں کو نظر انداز کرکے ان کے اندر کے گند سے پہلو تہی کرکے اللہ تعالیٰ کے رنگ میں سب کو رنگنا ہے۔ یہ آسان نہیں ہے اس میں مشکلات ہیں باہر کا معاشرہ بظاہرچمک دمک اور کشش رکھتا ہے سکول کالج میں بچے کچھ اور دیکھ رہے ہوتے ہیں گھر میں انہیں کچھ اور سمجھایا جارہا ہوتا ہے۔ بچے مختلف قسم کا لباس پہن کر تماشا بننا پسند نہیں کرتے۔ جس سے اختلاف اور بغاوت پیدا ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ حل تو ایک ہی ہے بچوں کو سکھایا جائے کہ ہم مختلف ہیں ہم وہی کرتے ہیں جس سے اللہ خوش ہو تا ہے۔

حجاب اور پردہ

قرآنی ارشاد کے مطابق آنکھیں نیچی رکھنا، شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، گریبانوں پر اوڑھنیاں ڈالنا، زینت ظاہر نہ کرنا (سوائے ان کے جن کی اجازت قرآن نے دی ہے ) عورتوں کا پردہ ہے۔

قرآن کریم میں ایک فہرست بھی موجود ہے کہ کس سے پردہ کرنا ہے اورکس سے نہیں کرنا ہے۔ یہ احکام بار بار ہماری نظر سے گزر چکے ہیں مگر یہی موضوع ایسا ہے جس پر خلفائے کرام کو بار بار یاد دہانی کرانی پڑتی ہے۔ نام نہاد جدت پسند اسے عورتوں پر جبر کا نام دیتے ہیں ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں ۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روارکھا ہے ذرا اُن کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بےپردگی سے اُن کی عِفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں ۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو اُن کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجورکے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہوگا۔ مردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں ۔ نہ خدا کا خوف رہا ہے نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ پس سب سے اول ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔ اگر یہ درست ہو جاوے اور مردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہوسکیں تو اس وقت اس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔ کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے۔

(ملفوظات جلد4صفحہ104تا105، ایڈیشن1988ء)

ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مجلس اِفتاء کے سپرد یہ معاملہ کیا کہ پردے کے بارے میں سارے قرآنی احکام، احادیث نبویہ، فرمودات حضرت اقدس مسیح موعودؑ ارشادات خلفائے کرام کو سامنے رکھیں اسلامی تاریخ میں رائج پردے کی تمام صورتوں کا جائزہ لیں اورانسانی ضروریات کو سامنے رکھ کے پردے کے احکامات کی وضاحت کریں ۔ چنانچہ چھ مہینے تک جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ

’’اسلام مختلف سوسائٹیوں اور ان کی ترقی کی مختلف حالتوں کے پیشِ نظر اور پھر انسانی ضروریات اور کسی سوسائٹی کے عمومی حالات اور کردار کے پیش نظر مختلف قسم کے پردوں کی توقع رکھتا ہے یہ ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جو پردے کی ہر امکانی صورت کو مدّ نظر رکھتا ہے اور کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جو دنیا کی کسی قوم پر وارد ہوا ہو اور اس کا جواب قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی میں نہ ملتا ہو‘‘ ۔

( خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 27؍ دسمبر 1982ء
مطبوعہ الفضل 28؍ دسمبر 1982ء)

کالج اوریونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیوں کو اپنی انفرادیت اور اپنا تقدّس قائم رکھنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ احساس رہتا ہے کہ ہم احمدی ہیں اور دوسروں سے فرق ہے۔ ایک احمدی لڑکی کی غفلت سے ساری جماعت پر حرف آسکتا ہے۔

کوٹ اور سکارف پہنے ہوئے لڑکی اگر صرف اپنے کام سے کام رکھے۔ لڑکوں سے بے جا بے تکلف نہ ہو تو اس کی عزت بنتی ہے۔ اگر کبھی پڑھائی کے سلسلہ میں کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ سکتی ہیں ۔ کلاس میں ڈسکشن وغیرہ میں حصہ لے سکتی ہیں ۔ مگر اس کے علاوہ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا۔ یہ نہ ہو کہ پہلے پڑھائی کے سلسلہ میں بات کریں پھر ان کے ساتھ مختلف مواقعوں مثلاً پکنک وغیرہ پر جانا شروع کردیں ۔ یہ بالکل منع ہے۔

(ماخوذ ازکلاس واقفاتِ نو، ہمبرگ، جرمنی14؍اگست 2008ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر 2008ءصفحہ9)

کوئی بھی ایسا لباس جس سے جسم کے حصّے یا اعضاء ظاہر ہوتے ہوں ، تنگ لباس ہو وہ منع ہے۔ ہندوستان میں تنگ پاجامہ پہننے کا رواج ہے لیکن جب باہر نکلتے ہیں تو برقع، لمبا کوٹ یا چادر ایسی ہونی چاہئے جس نے کم ازکم گھٹنوں تک لپیٹا ہو۔ اگر جینز پہن لی اورلمبی قمیص ہے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اگر جینز پہن کے صرف چھوٹا بلاؤز ہے اورسر پر حجاب لے کر باہر نکل آئی ہیں تو وہ بے فائدہ چیز ہے۔ کیونکہ سر کا پردہ تو آپ نے کرلیاجسم کا نہیں کیا اور حیا قائم رکھنااصل مقصد ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ حیا کے معیار بڑھنے چاہئیں اسی میں عورت کا تقدّس ہے۔

(ماخوذ ازکلاس واقفاتِ نَو جرمنی19؍جون 2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍اگست 2011ءصفحہ11تا12)

گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی ذمہ داری میں عورت کا بڑا حصہ ہے۔ شوہر کے دوستوں کی میزبانی میں ایک حد کو قائم رکھنا واجب ہے۔ بصورت دیگر غیر مرد وں کا گھر کی عورتوں پر نظر ڈالنا اور غیر عورتوں سے گھر کے مردوں کا بے تکلف ہونا تکلیف دِہ نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھو اور میری طرف آؤ۔ اور اس زمانے میں اس مقصد کی طرف ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے۔ پس ہم پر خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسیح محمدیؐ کی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہوں کو پانے کی طرف توجہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر غور کرنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے والے ہوں ۔ آمین۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

’’ایماندار عورتوں کو کہہ دے کہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو نامحرم مَردوں کے دیکھنے سے بچائیں اور اپنے کانوں کو بھی نامحرموں سے بچائیں یعنی ان کی پُرشہوات آوازیں نہ سنیں اور اپنے سَتر کی جگہ کو پردے میں رکھیں اور اپنی زینت کے اعضاء کو کسی غیر مَحرم پر نہ کھولیں اور اپنی اوڑھنی کو اس طرح سر پر لیں کہ گریبان سے ہو کر سر پر آ جائے۔ یعنی گریبان اور دونوں کان اور سر اور کنپٹیاں سب چادر کے پردہ میں رہیں اور اپنے پیروں کو زمین پر ناچنے والوں کی طرح نہ ماریں ۔ یہ وہ تدبیر ہے کہ جس کی پابندی ٹھوکر سے بچا سکتی ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ341تا342)

’’مَردوں سے غیر ضروری باتیں کرنے اور بے جا بے تکلفی سے بھی مَردوں کو موقع ملتاہے کہ وہ ہاتھ ملائیں ۔ احمد ی عورتوں کو اپنا مقام پہچاننا چاہئے اور اگلے کو ایسا موقع نہیں دینا چاہئے اور ان کو بتا دینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں عورت مرد سے سلام نہیں کرتی‘‘ یعنی ہاتھ نہیں ملاتی۔

(میٹنگ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماءاللہ آئرلینڈ18؍ستمبر2010ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 22؍اکتوبر 2010ء)

حیاعورت کا وقار، اُس کا تقدس اور حسن ہے۔ حیا ہی ایک عورت کا زیور اور سنگھار ہے میک اَپ سے زیادہ حیا سے خوبصورتی آتی ہے۔ حیا قائم رکھتے ہوئے مناسب پردے کے ساتھ اچھے سے اچھے پروفیشن میں کام کر سکتے ہیں احمدی عورتیں اپنے کاموں کے دوران بھی کوٹ اور حجاب پہن کے جاتی ہیں ۔ جس سے اپنا سر، اپنے سر کے بال اور ٹھوڑی ڈھانک لیتی ہیں میک اَپ نہیں کرتیں بلا وجہ مَردوں کے ساتھ میل جول نہیں رکھتیں غیر ضروری باتیں نہیں کرتیں ۔ اور ہر لحاظ سے کامیاب ہیں خلفائے کرام نے ایسی باحیا عورتوں کا محبت سے ذکر فرمایا ہے

٭…محترمہ الحاجہ سسٹر نعیمہ لطیف صاحبہ(اہلیہ مکرم الحاج جلال الدین لطیف صاحب صدر جماعت زائن۔ امریکہ) کی وفات پر اُن کا ذکرخیر کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا:

’’سسٹر نعیمہ لطیف 21؍مئی 1939ء کو ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں ۔ آپ نے ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر کے امریکن آرمی کے شعبہ میڈیکل میں رضا کارانہ طور پر کام شروع کیا۔ … 1974ء میں احمدیت قبول کی اور خود مطالعہ کر کے بڑی تیزی سے ایمان و اخلاص میں ترقی کی…خلافت اور خلیفہ وقت سے عشق کی حد تک پیار تھا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کو اوّلین ترجیح دیتیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے امریکہ کے دورے کے دوران ایک یونیورسٹی میں پردہ کی اہمیت پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا خطاب سن کر اسی وقت حجاب لے لیا اور اس زمانہ میں اپنے علاقہ میں واحد خاتون تھیں جو اسلامی پردہ میں نظر آتی تھیں ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 3؍اکتوبر 2014ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اکتوبر 2014ءصفحہ9)

٭…’’ڈاکٹر بھی پردے میں کام کر سکتی ہیں ۔ ربوہ میں ہماری ڈاکٹرز تھیں ۔ ڈاکٹر فہمیدہ کو ہمیشہ ہم نے پردہ میں دیکھا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں تھیں بڑا پکّا پردہ کرتی تھیں ۔ یہاں سے بھی انہوں نے تعلیم حاصل کی اور ہر سال اپنی قابلیت کو نئی ریسرچ کے مطابق ڈھالنے کے لئے، اس کے مطابق کرنے کے لئے یہاں لندن بھی آتی تھیں لیکن ہمیشہ پردہ میں رہیں بلکہ وہ پردہ کی ضرورت سے زیادہ پابند تھیں ۔ ان پر یہاں کے کسی شخص نے اعتراض کیا، نہ کام پر اعتراض ہوا، نہ ان کی پیشہ ورانہ مہارت میں اس سے کوئی اثر پڑا۔ آپریشن بھی انہوں نے بہت بڑے بڑے کئے۔ تو اگر نیّت ہو تو دین کی تعلیم پر چلنے کے راستے نکل آتے ہیں ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 2017ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 3؍فروری 2017ءصفحہ6)

انٹرنیٹ کے استعمال میں احتیاط

دنیا بھر میں جو بھی ایجادات ہورہی ہیں سب احمدیت کی ترقی کے لیے ہو رہی ہیں خالقِ کائنات نے صدیوں سے علم کو اس طرح آگے بڑھایا ہے کہ جب زمانے کا مسیح تشریف لائے اسے اپنے مشن کے لیے سٹیج تیار ملے سورۃ التکویر میں اس زمانے کے لیے پیشگوئیاں موجود ہیں قدرت نے ان کے پورا کرنے کے سامان کرنے پر دنیا کو لگادیا۔ کرہ ٔ ارض روابط کی سہولت سےایک گاؤں بن گیا ہے ۔

مواصلاتی ایجادات دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے کے لیے ایک ذریعہ ہیں تاکہ علمی اور روحانی مائدہ سے فیضیاب ہوسکیں ۔ یہی ذرائع دنیا کی سعید فطرت روحوں کو کھینچ کر اسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں ۔ اور خدائی وعدے پورے ہورہے ہیں کہ

’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘

(الحکم مؤرخہ 27 مارچ و 6 اپریل 1898ء جلد 2 نمبر 5-6 صفحہ 13)

’’خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ648)

وَاِذَاالصُّحُفُ نُشِرَت
(التکویر:11)

اور جب کتابیں پھیلا دی جائیں گی۔

مخالفینِ احمدیت کتب و رسائل پر پابندی لگاکر احمدیت کی تبلیغ روک دینے کا گمان کرلیتے ہیں ۔ لیکن ایم ٹی اے، alislam.orgاوردیگر ذرائع سے خداتعالیٰ احمدیت کی آواز کو زمین کے کناروں تک پہنچاتا چلا جا رہا ہے۔

آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں بند بیٹھے ہوئے اپنے آقا کی آواز سن رہے ہیں یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔ مگریہ ایجادات سہولتوں کے ساتھ امتحان بھی ہیں ۔

حضرت اقدس ؑنے موم کے سیلنڈر میں آواز بھرنے کے لئے جو اشعار کہے اس میں تنبیہ بھی ہے۔ فرمایا

آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے

ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے

جب تک عمل نہیں ہے دلِ پاک و صاف سے

کم تر نہیں یہ مشغلہ بت کے طواف سے

اگر دل کو پاک صاف نہ رکھا تو یہ مشغلے شرک کی طرف لے جائیں گے۔ اخلاقی اصول پامال ہوں گے دھوکا فریب جھوٹ ریاکاری پروان چڑھیں گے۔

پیارے آقا اس کے تباہ کن استعمال سے بچنے کے طریق بھی بتاتے ہیں تاکہ احمدی معاشرے میں خاص طور پر نوجوان نسل میں اپنے دین سے دوری، اور اس کے نتیجے میں کئی قباحتیں نہ پیدا ہوں ۔ آپ کے سامنے نہ جانے کتنے واقعات ایسے آتے ہوں گے کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکیاں خراب ہوئے۔ پس خداتعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔

شادی بیاہ پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے

شادی کا خوبصورت بندھن خرافات سے بچنے اور پاکیزگی قائم رکھنے کے لیے ہے۔ اس کو بھی جدت پسند آنکھ کے اندھوں نے فرسودہ قرار دے دیا ہے کئی ملکوں میں بے حیائی کے طریقوں کو قانونی حیثیت دے دی ہے اس مضمون کی تیاری کے لیے مطالعہ میں جنسی بے راہ روی اور جرائم کے اعدادو شمار پر نظر ڈالی تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اللہ اپنی پناہ میں رکھے۔

آنحضور ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے

مثل کمثلِ رجل استوقد نارا فَلما أضاءت ما حولھا جعل الفراش وھذه الدواب التي تقع في النار يقعن فيھا رجعل ييحجزھن وَيغلبنه فيتقحمن فيھا فأنا آخذ بحجزم عن النار وأنتم تقحمون فيھا (متفق علیہ)

میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی اور جب ماحول آگ کی روشنی سے روشن ہو گیا تو کیڑے پتنگے اس میں گرنے لگے۔ وہ شخص پوری قوت سے ان پتنگوں کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہے۔ لیکن پتنگے اس کی کوشش پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گھُسے پڑ رہے ہیں ۔ پھر آپؐ نے فرمایا لوگو! اس طرح میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر جہنم کی آگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ اس آگ میں گھُسے جا رہے ہو۔

ہماری آئیڈیل خواتین

تاریخ میں سنہرے حروف میں مختلف شعبوں میں شاندار کارہائے نمایاں کرنے والی خواتین کا نام محفوظ ہے۔ لیکن ہماری آئیڈیل نہ کوئی ٹی وی فلم سٹار ہے نہ کوئی اینکر وومن ہے نہ کوئی لکھاری شاعرہ یا دنیاوی شہرت رکھنے والی خواتین۔ ہماری آئیڈیل وہ خواتین ہیں جنہوں نے مولا کریم سے محبت کی اور مولا کریم نے ان سے محبت کی۔

حضرت ہاجرہ ؓ ننھے بچے کے ساتھ صحرا میں کھڑی ہیں پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجوروں کا ایک تھیلا پاس ہے حضرت ابراہیمؑ انہیں چھوڑ کر واپس جارہے ہیں ان سے ضبط نہیں ہورہا جاتے جاتے مڑ کے بیوی بچے کو دیکھا نظروں میں جدائی کا کرب ہے۔ حضرت ہاجرہ ؓ نے کہا ابراہیم آپ ہمیں کس کے حکم پر یہاں چھوڑ کے جارہے ہیں ۔ کیسے جواب دیتے بولنے کی ہمت کہاں تھی آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر اشارہ کر دیا۔ وہ خدا کی بندی سمجھ گئی کیسا ایمان تھا کیسا توکل تھا کیسی رضائے الٰہی پر راضی رہنے والی خاتون تھیں ۔

’’آسمان والے کا حکم ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں وہ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

حضرت موسیٰ کی والدہ کو اللہ تعالیٰ نے خواب میں بتایا کہ تمہارے ہاں لڑکا پیدا ہوگا مگر فرعون تم لوگوں کا دشمن ہے لڑکے کو مارنا چاہے گا تم ایسے کرنا کہ جب لڑکا پیدا ہوجائے تو اسے ایک ٹوکری میں رکھنا اور دریا میں ڈال دینا۔ یہ کیسا حکم تھا۔ کوئی بھی ماں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچے۔ ایک خواب ہی تو تھا مگرموسیٰؑ کی والدہ کو خدا سے پیار تھا، توکل تھا، ایمان مضبوط تھا۔ بچہ کو ٹوکری میں رکھا اور دریا میں ڈال دیا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ خیال نہ آیا ہو کہ بچے کے ساتھ کیا کیا ہوسکتا ہے دودھ پلانے کا خیال تو ضرور ہی آیا ہوگا مگر اللہ کی محبت کے آگے سب قربان کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی پرورش کے لیے ایک خداپرست خاتون کا انتخاب کیا۔ ٹوکری میں بچہ فرعون کی بیوی آسیہ تک پہنچا۔ یہ خاتون فطری طور پر نیک اور اپنے خالق سے محبت کرنے والی تھیں دعا کرتی تھیں کہ شرک دنیا سے مٹ جائے اور خدا کی بادشاہت قائم ہو کسی طرح ظالم شوہر کو منا لیا اور اس بچے کی پرورش شاہی محل میں کی۔ اس خوش نصیب خاتون کا ذکر قرآن پاک میں محفوظ ہے۔

اوراللہ نے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی مثال دی ہے۔ جب اس نے کہا اے میرے ربّ! میرے لئے اپنے حضور جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون سے اور اس کے عمل سے بچالے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے نجات بخش۔

( التحریم : 12)

قربانی کرنے والی خواتین میں حضرت عیسی ؑکی والدہ حضرت مریم ؑکا ذکر بھی آئے گا خود کو درندوں سے بچا کر اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنا، بیٹے کی غیر معمولی طریق پر پیدائش سے شماتتِ اعداء کا نشانہ بننا، اپنے پیارے بیٹے کو تکالیف سے گزر کر صلیب پر جھولتے دیکھنا اور پھر جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا اللہ تعالیٰ سے عشق کے سوا ممکن نہیں ۔

اور عمران کی بیٹی مریم کی (مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس (بچے) میں اپنی روح میں سے کچھ پھونکا اور اس (کی ماں ) نے اپنے ربّ کے کلمات کی تصدیق کی اور اس کی کتابوں کی بھی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔

(التحریم :13)

حضرت خدیجہ ؓوہ زیرک خاتون تھیں جن کی نگاہ دور رَس نے نورِ نبوت کی چمک دیکھ لی تھی ایسی وفاشعار رفیقِ حیات جس نے سارا مال و متاع آپؐ پر نثار کردیا۔ جو غار حرا کے مسافر کے لیے زاد راہ تیار کرتیں اور وہاں قیام لمبا ہوجاتا تو خود کھانا بنا کر لے جاتیں ۔ حضرت جبرئیل کے پہلے پیغام پر آپؐ کی تصدیق کی حوصلہ دیا اور معاون و محافظ بن کر کھڑی ہو گئیں تیرہ سال مسلسل انتہائی ظلم برداشت کیے پھر شعبِ ابی طالب کی محصوری کا تکلیف دِہ زمانہ صبر سے برداشت کیا۔ کیسی جانباز عورت تھیں ۔ ایک مثالی خاتون۔

حضرت عائشہ ؓ علم وفضل میں مثال بن گئیں ۔ بعض خواتین نے بے تحاشا ماریں کھائیں دکھ برداشت کیے صرف اللہ تعالیٰ کی محبت میں ۔

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے صاحبزادے مرزا مبارک احمد صرف آٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ ایک ماں کی گود خالی ہوئی اس ماں نے رضائے الٰہی میں صبرورضا کا نمونہ دکھایا فقط انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور چپ ہو رہیں اس پر حضرت اقدس ؑکو الہام ہوا :

’’خدا خوش ہو گیا‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’کل والا الہام کہ ’’خدا خوش ہو گیا‘‘ ہم نے اپنی بیوی کو سنایا تواس نے سن کر کہا کہ مجھے اس الہام سے اتنی خوشی ہوئی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک احمد بھی مرجاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔‘‘

(الحکم 24؍ستمبر1907ء)

حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ کی والدہ صاحبہ حضرت حسین بی بی ؓ کے اللہ پر ایمان کی مضبوطی کا واقعہ بھی عجیب روح پرور ہے۔ پانچ بچے فوت ہوئے مگر آپ نے ایک خاتون جے دیوی کی اس بات پر عمل نہ کیا کہ کچھ چیزیں چھت پر رکھ دیں تو بچہ بچ جائے گا وہ جانتی تھیں کہ زندگی موت کا مالک خدا ہے اور خدا نے اس ایمان اور محبت پر خوش ہوکر پھر چودھری صاحب جیسا نابغہ ٔروزگار بیٹا عطا فرمایا۔

یہ مضمون ساری متقی خواتین کے ذکر کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ تاریخ اسلام اور احمدیت میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ایسی آئیڈیل خواتین کی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے رنگ میں رنگین ہونےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button