متفرق مضامین

خلفائے احمدیت کے خطباتِ جمعہ آبِ حیات

(ڈاکٹر سلطان احمد مبشر۔ ربوہ)

خلیفہ وقت اپنے خطبات جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچاتا ہے۔ ان کی نصیحت کسی بھی دوسرے واعظ سے ہزار ہا گنا زیادہ مؤثر ہوتی ہے

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں مومنوں پر ایک عظیم الشان احسان کا تذکر ہ ان الفاظ میں فرماتا ہے۔

لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ …(آل عمران :165)

ىقىناً اللہ نے مومنوں پر احسان کىا جب اس نے ان کے اندر انہى مىں سے اىک رسول مبعوث کىا وہ ان پر اس کى آىات کى تلاوت کرتا ہے اور انہىں پاک کرتا ہے اور انہىں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں:

’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو…‘‘

(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)

نبی اور خلیفہ کے کام

حضرت مصلح موعود ؓنے نبی اور خلیفہ کے کام بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ نبی۔ تبلیغ الحق اور دعوت الخیر کرتا ہے۔ وہ شریعت سکھاتا اور شریعت کا عامل بناتا ہے۔ احکام شریعت کی حکمت سے لوگوں کو واقف کرتا ہے۔ وہ تزکیہ نفوس کرتا ہے۔

الغرض نبی کا کام تبلیغ کرنا،کافروں کو مومن بنا نا،مومنوں کو شریعت پر قائم کرنا پھر باریک راہوں کا بتانا،پھر تزکیہ نفس کرنا۔

یہی کام اور فرائض نبی کے قائم مقام ہونے کے حیثیت سے خلیفہ کے بھی ہوتے ہیں۔

(ماخوز از منصب خلافت صفحہ 7تا8)

خلفاء کی عظمتِ شان

خلفائے راشدین کے مرتبہ، عظمت اورشان کے تعلق میں حضرت امام حسین ؓسے یہ روایت کی گئی ہے۔

قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلٰی خُلَفَائی قَالُوْا وَمَنْ خُلَفَاء کَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ قَالَ۔ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ سُنَّتِیْ وَ یعلمُوْنَھَا النَّاسُ۔ (کنز العمال جلد 5صفحہ 230)

رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ کی رحمت ہو میرے خلفاء پر۔ صحابہ نے عرض کیا۔ رسول اللہ !آپ کے خلفاء کون ہیں۔ فرمایا وہ جو میری سنت سے محبت رکھیں گےاور اسی کی تعلیم لوگوں کو دیں گے۔

خدا تعالیٰ ارض وسماء کا نور ہے۔ وہی ہے جس نے اس کائنات کی ظلمت کو ضیاء بخشنے کےلیے سب سے پہلے نور محمدی کو خلعت وجود بخشا۔ نور خلافت اسی نور محمدی کا عکس ہے جو خدا کے دست قدرت اور آنحضرتﷺ کے فیض و برکت سے منصہ شہود میں آیا۔

پس واضح ہوا کہ خلفائے وقت رسول خدا کی نیابت میں خدا تعالیٰ کے احکامات لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ گو زبان ان کی ہوتی ہے مگر بلاوا عرش کے خدا کا ہوتا ہے۔

ہر مذہب کے لیے خدا تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی اجتماعی دن رکھا جس میں اس مذہب کے ماننے والوں کی تربیت ہوتی تھی۔ اسلام میں خدا تعالیٰ نے خود مومنوں کی تربیت کے لیے جمعہ کا دن رکھا ہے۔ اس لیے یہ بہت اہمیت کا حامل دن ہےجس میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکتیں اور رحمتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے سورۂ جمعہ نازل فرما کر اس کی شان کو اجاگر فرمایا ہے۔

قرآن کریم اللہ تعالیٰ اور رسول کے احکامات کی بابت نصیحت کرتا ہےکہ

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (الانْفال :25)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ اور رسول کى آواز پر لبىک کہا کرو جب وہ تمہىں بلائے تاکہ وہ تمہىں زندہ کرے۔

خطبہ جمعہ جو خلیفۂ وقت ارشاد فرماتے ہیں،وہ دراصل دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق قال اللہ اور قال الرسول کی تفسیر و تشریح ہی ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے خلفائے وقت کے خطبات جمعہ آب حیات کا حکم رکھتے ہیں۔

یہ مختصر مضمون ان چمکدار اور حیات بخش مضامین کا احاطہ نہیں کر سکتا جو خلیفۂ وقت کی زبان مبارک سے خطبات کے ذریعہ ادا ہوتے ہیں۔ معرفت،علوم دینی و سماوی،انوار قرآنی اور عرفان و ایقان کا ایک بحر ذخار موجیں مارتا ہے جس سے ہر قدح خوار اپنے اپنے ظرف کے مطابق پیاس بجھا کر فیوض رحمانی سے حصہ پاتا ہے۔ خطبات کے اس روحانی سمندر سے پھوٹنے والے چشموں کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

عالمی وحدت کا قیام، اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ کا بیان، قرآنی حقائق و معارف کا انکشاف، شریعت کو سکھانا اور اس کا عامل بنانا، احکام شریعت کی حکمت کو کھولنا، استحکام خلافت، روحانی انقلاب، اخلاقی انقلاب، تبلیغ حق، سیرت النبیؐ کی ضیاءپاشیاں، سیرت صحابہ کا دلنشین تذکرہ، شہدا ءاور مخلصین کا ذکر خیر، دعوت الی الخیر، اسلامی معاشرہ کا قیام، تعلیم وتربیت، اخلاق فاضلہ کی ترویج، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ، تنظیم کا قیام و استحکام، جماعتی و ذاتی معاملات پر نصائح، خوف کو امن میں بدلنا، تربیت اولاد کے طریق، عالمگیر مسائل اور ان کے حل پر روشنی، ملکی مسائل اور خطرات پر نصائح، ابتلاؤں اور وباؤں سے بچاؤ کے طریق، تزکیہ نفس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب، دشمنان حق کے حملوں کا مؤثر جواب، فتنوں کی سرکوبی، امن عالم کے لیے سر فروشانہ جدوجہد وغیرہ

اب ان میں سے کچھ مضامین کا خلفائے احمدیت کے زندگی بخش ارشادات کی روشنی میں تذکرہ کیا جاتا ہے۔

قرآنی حقائق ومعارف کا انکشاف

خلفاء کے خطبات جمعہ قرآنی حقائق و معارف کا لا متناہی سمندر اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان معارف کا انکشاف مومنوں کے علم و عرفان کو بڑھانے کاموجب ہوتا ہے۔ مثلاً سیدناحضرت خلیفة المسیح الاول ؓسورة العصر کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’عصر کہتے ہیں زمانہ کوجو ہر آن گھٹتا رہتا ہے …خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی عمر گھٹ رہی ہے۔ جیسے کہ زمانہ کوچ کر رہا ہے۔

’’عصر‘‘ سے مراد نماز عصر بھی ہے۔ اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جیسے شریعت اسلام میں نماز عصر کے بعد کوئی فرض ادا کرنے کا وقت نہیں اسی طرح ہر زمانہ عصر کے بعد کا وقت ہے جو پھر نہیں ملے گا۔ اس کی قدر کرو۔

’’عصر‘‘ کے معنے نچوڑنے کے بھی ہیں۔ گویا تمام خلاصہ اس صورت میں بطور نچوڑ کے رکھ دیا ہے۔ غرض عصر کو گواہ کر کے انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ایک برف کا تاجر ہے۔ جو بات لڑکپن میں ہے وہ جوانی میں نہیں۔ جو جوانی میں ہے وہ بڑھاپے میں نہیں۔ پس وقت کو غنیمت سمجھو۔‘‘

(خطبات نور صفحہ 454تا455)

دنیا کو امتِ واحدہ بنانے کا سر چشمہ

خلیفہ وقت کا خطبہ جمعہ دنیا بھر میں بسنے والے مخاطبین کو امت واحدہ بنانے کا سامان کرتا اور احباب کو روحانی وجود بننے میں مدد کرتا ہے۔ اس حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

’’آپ اپنی نسلوں کو خطبات باقاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جارہے ہیں۔ یہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اورساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اورفائدہ اٹھاتی اورایک قوم بن رہی ہیں اورامت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہورہے ہیں اس لئے خواہ وہ فجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے احمدی ہوں، ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں،روس کے ہوں یا امریکہ کے،سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہوگی۔ وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے خواہ ظاہری طورپر ان کی قوموں کافرق ہی کیوںنہ ہو۔ ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے مگردل کاایک ہی رنگ ہوگا۔ ان کے حلیےاپنے ناک نقشے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہوگا۔ وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اورقرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍مئی1991ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 471)

عالمی ضروریات پر نظر

خلفاء کو اللہ تعالیٰ خود علوم اور ان کی تفسیر سمجھاتا ہے اور خلفاء کی نظر اپنے وقت کی تمام عالمی ضروریات پر ہوتی ہے۔ وہ خدائی نور کی فراست سے دنیا کی رہ نمائی اپنے خطبات کے ذریعہ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’خدا تعالیٰ کا خلافت سے ایک تعلق ہے اور علوم کی روح سے اللہ تعالیٰ خلفاء کو آگاہ کرتا ہے اور جماعت کی زمانے کے لحاظ سے ضروریات سے خلفاء کو متنبہ کرتا ہے۔ خلفاء کی نظر ساری عالمی ضروریات پر ہوتی ہے اور جن علوم کی تفسیر کی ضرورت پڑے جیسی روشنی خدا تعالیٰ خود اپنے خلفاء کو عطا فرماتا ہے ویسی ایک علم میں خواہ کسی مقام کا رکھنے والا عالم ہو اس کو اپنے کسبی طور پہ نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہ وھبت ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے … اللہ کواپنے دین کی ضرورتوں کا بہترین علم ہے اور جن کے سپرد وہ کام کرتا ہے ان پر وہ ضرورتیں روشن فرماتا ہے۔‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍ فروری 1988ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 109تا110)

خوبی کو زندہ کرنے کے دلنشین اسلوب

اللہ تعالیٰ اپنے خلفاء کو خود سمجھاتا ہے کہ کس خوبی کو کس طرح پھر سے زندہ کرنا ہے۔ خلفاء اپنے خطبات میں وہی انداز اختیار فرماتے ہیں جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’وقت کے لحاظ سے سچائی ہرقسم کے نئے ابتلائوں میں سے گزرتی ہے۔ زمانے کے اثرات ہوتے ہیں اُسی خوبی پر جو پہلے کئی ابتلاؤں سے گزر کے،بچ کے یہاںتک پہنچی ہوتی ہے یا قریب المرگ ہو جاتی ہے اُس وقت۔ اُس وقت خدا جن لوگوں کے سپرد کام کرتا ہے پھر اُن کو سمجھاتا ہے کہ اس خوبی کو زندہ کرنے کے لیے زیادہ ذہن نشین کرنے کے لیے نئے زمانے کی ضرورتوں کے پیش نظر،یہ یہ رنگ اختیار کیے جائیں،اس طرح یہ بات پیش کی جائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍فروری 1988ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 114)

مؤثر ترین نصیحت

خلیفہ وقت اپنے خطبات جمعہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچاتا ہے۔ ان کی نصیحت کسی بھی دوسرے واعظ سے ہزار ہا گنا زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح فرمایا ہے:

’’خلیفہ وقت کو جو باتیں خدا تعالیٰ دینی کاموں سے متعلق سمجھاتا ہے ان کو کہنے کے انداز بھی عطا کرتا ہے اوران باتوں میں جیسی گہری سچائی ہوتی ہے ویسی دوسرے کی باتوں میں جگہ جگہ کہیں کہیں توہوسکتی ہے مگر بالعموم ساری باتوں میں ویسی سچائی نہیں آسکتی اورویسا اثرنہیں پیدا ہوسکتا۔ …

پس ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں ان کے متعلق جوخلیفہ ٔوقت کی نصیحت ہے، وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثرہوگی۔ اس تعلق کی بناء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خداتعالیٰ نے جو ذمہ داری ا س کے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطاکرتاہے۔ ‘]

( خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍نومبر 1991ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 893تا 894)

ہر ملک اور طبقے کے لیے یکساں مفید

خلیفۂ وقت دنیا کی مختلف قوموں اور ممالک کو مدنظر رکھ کر خطبہ دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ملک اور ہر قوم اس چشمہ سے پانی پیتی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کی تشریح میں بیان فرماتے ہیں:

’’صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے۔ اور خلیفہ وقت دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اُٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ اور جماعتِ احمدیہ میں یہ تصویر ہمیں نظر آتی ہے۔ جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں سُنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور مختلف مزاج اور ضروریات کے مطابق بات ہوتی ہے۔ میں جب خطبہ دیتا ہوں، جب نوٹس لیتا ہوں تو اُس وقت صرف آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، وہی مدّ نظر نہیں ہوتے… بہرحال اقامت صلوٰۃ کی ایک تشریح یہ بھی ہے جو خلافت کے ذریعہ سے آج دنیائے احمدیت میں جاری ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍مئی2011ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جون2011ءصفحہ6تا7)

ہر احمدی کے لیے حیات افزا

خطبہ جمعہ دنیا کے ہر احمدی کےلیے رہ نمائی کا موجب ہو کر اس کی زندگی میں ایک انقلاب لاتا ہے۔ یہی وہ صداقت ہے جس کا تذکرہ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان الفاظ میں فرمایا:

’’ہر خطبہ کا مخاطب ہر احمدی ہوتا ہے۔ چاہیے وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتا ہو…نئے ہونے والے احمدیوں میں عربوں میں سے بھی لکھتے ہیں یا جو نومبائعین ہیں ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ بعض خطبات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے حالات کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں …روس کے مختلف ممالک سے احمدیوں کے،جو وہاں کے مقامی احمدی ہیں،خطوط بڑی کثرت سے آنے لگ گئے ہیں کہ خطبات نے ہم پر مثبت اثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ اور بعض اوقات تربیتی خطبات پریوں لگتا ہے کہ جیسے خاص طور پر ہمارے حالات دیکھ کر ہمارے لئے دئیے جار ہے ہیں بلکہ شادی بیاہ کی رسوم پر جب میں نے خطبہ دیا تھا تو اس وقت بھی خط آئے کہ ان رسوم نے ہمیں جکڑ اہوا ہے اور خطبہ نے ہمارے لئے بہت سا تربیتی سامان مہیا فرمایا ہے۔ تو جو احمدی اس جستجو میں ہوتے ہیں کہ ہم نےخلیفہ وقت کی آواز کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی ہے۔ وہ نہ صرف شوق سے خطبات سنتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو ہی ان کا مخاطب سمجھتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ23؍اپریل 2010ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل14؍مئی2010ءصفحہ5)

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا درج ذیل اقتباس یہ واضح کرنے کےلیے کافی ہے کہ خطبات جمعہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھر پور توجہ دینا ہے۔ ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کو شش کرنا ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے۔ ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہرحال دنیا سے مقدم رہنا چاہیے۔ اور اسی میں تمہاری بقاء ہے اور اس میں تمہاری نسلوں کی بقاء ہے۔ یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے۔ توحید کے قیام کے لیے بھرپور کوشش۔ یہ بھی خلافت کاکام ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جون2014ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جون2014ءصفحہ7)

نیز فرمایا:

’’کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے احمدیوں کا،چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی،ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍جون2014ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل27؍جون2014ءصفحہ7)

ناموسِ رسالت کےلیے بھرپور تحریک

خطبات جمعہ میں خلفاء نے حضرت نبی کریمﷺ کی عزت و ناموس کے بارے میں بھرپور آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو اسوۂ حسنہ اپنانے کی تلقین کی۔ چند سال قبل جب آنحضرتﷺ کے بارے میں ایک بے ہودہ اور لغو فلم بنائی گئی تو اس حادثہ فاجعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس نے فرمایا:

’’آجکل مسلم دنیا میں، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم و غصّہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقیناً حق بجانب ہیں…وہ محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا… اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو نہیں پہچانتے، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال لے گا؟ اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍ستمبر2012ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍اکتوبر2012ءصفحہ5تا6)

’’…انٹرنیٹ پر اور بعض اخباروں کی ویب سائٹ پر مختلف تبصرہ کرنے والوں نے … پریس میٹنگ کے حوالے سے جماعتِ احمدیہ مسلمہ کے مؤقف کو دنیا پر خوب ظاہر کیا کیونکہ اکثر نے اس بات پر بڑے تعریفی کلمات لکھے تھے۔ …بعض نے یہ بھی لکھا کہ ان لوگوں نے ہی صحیح اسلامی ردّعمل دکھایا ہے جن کو تم غیر مسلم کہتے ہو۔ بہرحال اس کی خوب تشہیر ہوئی ہے۔ اس طرح دنیا کے سامنے ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی ردّعمل بھی آ گیا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم جو جماعتِ احمدیہ پیش کرتی ہے، اُس کا بھی دنیا کو پتہ چل گیا۔ دنیا کو اور عالم اسلام کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا صحیح ردّعمل کیا ہوتا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔

… یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی تائید تھی کہ اس طرح کوریج ہوئی‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ستمبر2012ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍اکتوبر2012ءصفحہ6)

غریب اقوام پر نظر عنایت

دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مدد کی ضرورت پڑتی ہے،سب سے منظم آواز ان محتاجوں اور مسکینوں کے لئے جو اٹھتی ہے۔ وہ خلیفہ وقت کی ہوتی ہے جو خطبہ جمعہ کے ذریعہ تمام احمدیوں تک پہنچتی ہے۔ اس طرح کے ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’افریقہ میں جو غربت ہے اورجو فاقہ کشی ہے اس پر بعض دفعہ حوادث کے ذریعے تکالیف میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ پچھلی تحریک پر جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عام حالات میں جو توقع تھی اس سے بہت بڑھ کر قربانی کا مظاہرہ فرمایا …لائبیریا سے چونکہ بہت سے مہاجرین غانا، نائیجیریا اورسیرالیون پہنچے تھے اوروہاں کیمپوں میں ان کی حالت بہت بری ہے اس لئے وہاں میں نے ہدایت کی تھی کہ خدام الاحمدیہ وغیرہ دوسری تنظیمیں امیر کے ماتحت منظم پروگرام بنا کر ان کی خدمت کریں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍اپریل 1991ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 10صفحہ 370)

غیر اقوام کے لیے بھی مفید

خطبات جمعہ نہ صرف احمدیوں بلکہ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے لیے بھی نہایت مفید ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنے ایک خطبہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’جو خطبات بھی آتے ہیں،وہ صرف جماعت کے لئے وقت کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کے لیے وہ فائدہ ہوجاتے ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍اکتوبر2004ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اکتوبر2004ءصفحہ6)

غیر از جماعت افراد کے خطبہ جمعہ سننے اور اس سے استفادہ کرنے کی ایک مثال ڈاکٹر مظفر احمد صاحب آف یوکےنے ایک مرتبہ بیان کی کہ ان کا ایک انگریز واقف تھاجو باقاعدہ ہر ہفتے خطبہ سنتا اور شام کو جب دوبارہ ریکارڈنگ آتی تو گھر والوں کو کہتا کہ میں Friday sermon سن رہا ہوں۔ وہ عیسائی تھا اور باتوں کا اثر لیتا تھا۔

تزکیہ نفس کے لیے انفاق فی سبیل اللہ کا ذریعہ

خطبات جمعہ کے ذریعہ خلیفہ وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرنے کی تحریک فرماتے ہیں۔ اس ذریعہ سے احباب اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

آسڑیلیا میں ایک خاتون نے جب وقف جدید کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ کا خطبہ سنا تو وہ بہت متاثر ہوئیں۔ اور دو ہزار ڈالر ان کے پاس تھے،وہ فوری طور پر انہوں نے ادا کردیئے۔

(خطبات مسرور جلد 14صفحہ 25)

ماریشس کے ایک احمدی وقف جدید کے بارے میں حضور کا خطبہ سننے پر سوچ میں پڑ گئے کہ میں نے تو کبھی یہ چندہ نہیں دیا۔ خطبہ کے دوران ہی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اگر مجھے یہ کام مل گیا تو پچیس ہزار ماریشین روپے وقف جدید میں ادا کروں گا۔ چند دن بعد ہی انہیں پانچ لاکھ روپے کا ایک کنٹریکٹ مل گیا۔ انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کے بدلہ میں بیس گنا زائد عطا فرمایا ہے اور اس کے ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا چندہ اداکردیا۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جنوری 2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل29؍جنوری2016ءصفحہ7)

خلیفہ وقت سے ذاتی قرب پانے کا وسیلہ

خطبات خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کا ایک اہم وسیلہ ہیں۔ چنانچہ جلسہ سالانہ جرمنی 2016ء پر بوسنیا سے آنے والے ایک مہمان ابراہیموو صاحب کہتے ہیں کہ احمدیت میں حقیقی سچائی ہے جو قرآن کریم کی تعلیم پر عمل پیرا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ مجھ پر سب سے زیادہ اثر ان خطبات اور تقریر کا ہوا۔ میرا دل ہر لحاظ سے مطمئن ہوا اور میں بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوگیا۔ اب میں خلیفة المسیح کا ہی بن کر رہنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے ان کا قرب حاصل ہو۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ9؍ستمبر2016ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍ستمبر2016ءصفحہ6)

تعلیم وتربیت میں ممد اور دماغوں کو روشن ترکرنے کا منبع

خطبات جمعہ جماعت کی تعلیم وتربیت میں ممد ہوتے اور احمدیوں کے دماغوں کو ہر جہت سے روشن کرتے ہیں۔ اس حقیقت کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی زبان مبارک سے بیان کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’بچپن کے زمانہ میں سب سے زیادہ تعلیم وتربیت میں ممد اگر کوئی چیز تھی تو وہ جمعۃ المبارک تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات آپ کے قریب بیٹھ کے سننے کا موقع ملتا تھااور تمام دنیا کے مسائل کا اس میں مختلف رنگ میں ذکر آتا چلاجاتا تھا۔ دین کا بھی دنیا کا بھی،ان کے باہمی تعلقات کا بھی اور سیاست جہاں مذہب سے ملتی ہے جہاں مذہب سے الگ ہوتی ہے ان مسائل کا بھی ذکر۔ چنانچہ قادیان میں یہی جمعہ تھا جس کے نتیجہ میں ہر کس وناکس،ہر بڑے چھوٹے،ہر تعلیم یافتہ غیرتعلیم یافتہ کی ایک ایسی تربیت ہورہی تھی جو بنیادی طور پر سب میں قدر مشترک تھی۔ یعنی پڑھا لکھا یا ان پڑھ، امیر یا غریب اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں رکھتا تھا کہ بنیادی طور پر احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کی تربیت کے علاوہ دنیا کا شعور بھی اس کو حاصل ہو جایا کرتا تھا۔ چنانچہ بہت سے احمدی طلباء جب مختلف مقابلے کے امتحانات میں اپنی تعداد کی نسبت زیادہ کامیابی حاصل کرتے تھے تو بہت سے افسر ہمیشہ تعجب سے اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ احمدی طلباء میں وہ کیا بات ہے کہ ان کا دماغ زیادہ روشن نظر آتا ہے، ان کو عام دنیا کا زیادہ علم ہے، ان کے اندر مختلف علوم کے درمیان ربط قائم کرنے کی زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ اس مسئلے کو ایک دفعہ مولوی ظفر علی خان صاحب نے بھی چھیڑا۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ تم مرزا محمود کا کیا مقابلہ کرتے ہو۔ مرزا محمود نے احمدیوں کی جس طرح تربیت کی ہے جس طرح ان کو تعلیم دیتا ہے۔ ان کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یہ سمجھتا ہو کہ مجھے بڑی سیاست آتی ہے لیکن اگر اس نے سیا ست بھی سیکھنی ہو تو قادیان سے بٹالہ تک کسی قادیان والے کے یکہ پر بیٹھ کر سفر کرے تب اس کو سمجھ آئے گی کہ سیاست ہوتی کیا ہے۔ قادیان کا یکہ بان بھی سیاست دانوں کو سیاست کے گُر سمجھاسکتاہے۔ یہ اس نے حضرت مصلح موعود کو خراج تحسین دیا حالانکہ شدید دشمن تھا اور واقعہ یہ ہے کہ یہ خراج تحسین دراصل جمعہ کی Institutionکوتھا۔ جمعہ کے ذریعے یہ ساری تربیت ہوتی تھی ہر جمعہ پر شوق سے بڑی دور دور سے لوگ اکٹھے ہوکر آیا کرتے تھے۔ مسجد بھر جاتی تھی Overflow گلیوں میں بیٹھ جایا کرتاتھا۔ ہمارے گھر بھی صبح سے شام تک خواتین کا اجتماع رہتا تھا۔ بچے،عورتیں مسجد کے ایک حصے میں عورتوں کی جگہ تھی۔ اس کے ساتھ ہمارا گھر ملا کرتا تھا۔ ساتھ کاکوٹھا بھر جاتا تھا وہ صحن بھر جاتا تھا۔ اس سے پرلے صحن تک پہنچ جایا کرتا تھا اور وہ سارا دن کثرت کے ساتھ ہمارے گھروں میں دوسرے لوگوں کے ہجوم کادن ہوا کرتا تھا۔ اس سے بچپن میں تکلیف بھی پہنچتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں عقل دی کہ یہ تو بڑی نعمت تھی جو حاصل رہی۔ اس سے زیادہ مبارک اور تکلیف کیا ہوسکتی ہے کہ خدا کے ذکر کی خاطر لوگ ہمارے گھروں میں اکٹھے ہوں۔ اس کی وجہ سے جماعت کی عام تربیت ایسی ہوئی ہے اور احمدی طلباء کی ایسی تربیت ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ دنیا کے ہر میدان میں ترقی کے زیادہ اہل ہوگئے اور دشمن یہ حسد کرنے لگا کہ احمدیوں میں کوئی چالاکی ہے، کوئی ہوشیاری ہے یااپنی طاقت، اپنی نسبت سے زیادہ نوکریاں حاصل کرجاتے ہیں اپنی نسبت سے زیادہ برکتیں حاصل کرجاتے ہیں دنیا کے مفادات حاصل کرجاتے ہیں حالانکہ ان کو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ جمعہ کی برکتیں ہیں اور ایسی جمعہ کی برکتیں ہیں جہاں خداتعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ امامت کا نظام جاری ہوچکا ہے۔ جہاں خلافت کا منصب قائم ہے۔ ایسے جمعہ میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی برکتیں پڑتی ہیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جنوری 1988ء
مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ 10تا12)

اس چشمہ کی طرف دوڑو

اے خلیفہ وقت سے محبت کرنے والو! تمہیں دنیاوی و جسمانی، زمینی و سماوی برکتوں اور فضلوں سے بہرہ مند کرنے کے لیے ہر جمعہ کو اقلیم خلافت کے تاجدار بنفس ِنفیس جلوہ گر ہوکر تمہاری سیرابی کے سامان مہیا فرماتے ہیں۔ اس چشمہ کی طرف دوڑو،اپنی تشنگی بھی بجھاؤ اور دوسروں کو بھی سر سبز ہونے کے گر سکھاؤ۔

حضرت خلیفة المسیح الثالث جب صدر خدام الاحمدیہ تھے، خلیفہ ٔ وقت کے خطبات کے بارےمیں فرمایا:

’’تاریکی کی گھڑیوں میں ان خطبات نے میری ڈھارس باندھی تھی۔ اگر آپ کے دل میں کبھی مایوسی کے خیالات پیدا ہوں۔ تاریک بادل آپ کو آگھیریں یا کبھی آپ کے دل میں اگر یہ خیال پیدا ہو کہ اتنا عظیم الشان کام ہم کیسے سر انجام دے سکتے ہیں۔ اتنا بڑا بوجھ ہمارے کمزور کندھے کس طرح سہاریں گے تو آپ ان خطبات کی طرف رجوع کریں…آپ نئی ہمت اور پختہ عزم لے کر اپنے کام کے لیےکھڑے ہوں گے اور یہ یقین ہر وقت آپ کے ساتھ رہے گا کہ دور کا راستہ پُر خار ضرور ہے مگر راہبر اپنے فن کا ماہر ہے اور بے شک چاروں طرف سے شیطان تیروں کی بوچھاڑ کررہا ہے مگر

اَلِْامَامُ جُنّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہ‘‘

(مشعل راہ جلد اول صفحہ ب۔ ج)

خدا خود میر سامان خلافت ہے

جو دنیا ساری میدان خلافت ہے

ضیاء افگن ہے تا اکنافِ عالم

کہ جو بدرِدرخشاں خلافت ہے

گل سرسبز باغ احمدیت

بہار بے خزاں آنِ خلافت ہے

(اکمل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button