سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ آپؑ کے اشعار کا بیان

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشعار کا بیان

’’درکلامِ تو چیزے ست کہ شعرا را دران دخلے نیست۔‘‘

ترجمہ: تیرے کلام میں ایک چیز ہے جس میں شاعروں کو دخل نہیں۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 106)

حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک نے بیان کیا کہ

’’ایک دفعہ سیر کو جاتے ہوئے بسراواں کے راستہ میں شعر وشاعری کا تذکرہ شروع ہوا تو میں نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کی کہ قرآن مجید میں جو وارد ہے کہ

وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُہُمُ الۡغَاوٗنَ۔ اَلَمۡ تَرَ اَنَّہُمۡ فِیۡ کُلِّ وَادٍ یَّہِیۡمُوۡنَ۔ وَ اَنَّہُمۡ یَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا یَفۡعَلُوۡنَ۔(الشعراء :225)

اس سے شعرگوئی کی برائی ثابت ہوتی ہے۔حضور نے فرمایا کہ آپ ذرا اس کے آگے بھی تو پڑھیں۔تو مولوی غلام محمد صاحب نے اگلی آیت فوراً پڑھ دی کہ

اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا(الشعراء:228)

اس پر میرا مطلب حل ہوگیا۔‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 993)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’آپ کے ہر قسم کے کلام اور تحریروں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔کہ آپ حقائق اور معارف کے بیان کرنے میں قادر الکلام تھے۔اور عربی، فارسی اور اردو زبان پر پوری حکومت رکھتے تھے۔زمانہ بعثت سے پہلے آپ فارسی میں عموماًنظم لکھا کرتے۔اور اس میں آپ نے عجیب وغریب دیوان لکھا ہے۔جو آپ کی پاک زندگی کا ایک مشاہد عدل ہے۔کیونکہ اس میں بجز حقائق قرآن مجید اور آنحضرتﷺ کی نعت اور حمد الٰہی اور مختلف مذاہب کی تردید کے اور کچھ نہیں پایا جاتا۔ان دنوں آپؑ ‘فرخ’ تخلص فرماتے تھے۔جو بعد میں فی الواقع فرخ ہی ثابت ہوا۔میری تحقیقات یہ بتاتی ہے کہ یہ دیوان نصف صدی سے زائد عرصہ پیشتر کا لکھا ہوا ہے۔اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہےکہ عین عالم شباب میں آپ کن خیالات میں مست اور محو تھے۔‘‘

(حیاتِ احمد جلد اول از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 115-116)

حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ؓنے بیان کیا کہ

’’مجھے یاد ہے کہ ماہ رمضان مبارک تھا اور گرمی کا موسم تھا۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سردخانہ میں تھے جو قدیمی مکان کے شرقی دروازہ سے ڈیوڑھی کو عبور کرتے ہوئے بجانب شمال تھا… ایک نظم جو مولوی غلام رسول صاحب مرحوم قلعہ صوبا سنگھ ضلع سیالکوٹ کی بعض فقہی کتابوں مثلاً پکی روٹی وغیرہ کے آخر میں درج ہوتی تھی جس کے شعروں کی تعداد بارہ تھی وہ حضرت اقدسؑ کے فرمانے پر سنائی تھی۔اس وقت وہ بارہ شعر تو مجھے یاد نہیں۔صرف چار یاد ہیں :

دلا غافل نہ ہو اک دم یہ دنیا چھوڑ جانا ہے

بغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے

نہ بیلی ہو گا نہ بھائی نہ بیٹا باپ اور مائی

تو کیا پھرتا ہے سودائی عمل نے کام آنا ہے

تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر

ہووے گا ایک دن مردار یہ کِرموں نے کھانا ہے

غلام اک دن نہ کر غفلت حیاتی پر نہ ہو غرہ

خدا کی یاد کر ہر دم جو آخر کام آنا ہے

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1489)

سعیدہ بیگم صاحبہ بنت مولوی محمد علی صاحب مرحوم بدوملہوی مہاجر واہلیہ وزیر محمد صاحب مرحوم پنشنر مہاجر نے بیان کیا کہ

’’ایک روز میری والدہ مرحومہ نے ،جب حضور علیہ السلام صحن ہی میں پلنگ پر تشریف فرما تھے، آپ کی خدمت میں کہا کہ میری یہ لڑکی درثمین میں سے یہ شعر پڑھا کرتی ہے اس پر سراج منیر سے حضرت اقدس نے خاکسارہ کو فرمایا کہ ’’پڑھو، سناؤ‘‘ خاکسارہ نے فداہ نفسی وہ تمام شعر سنادئیے جن کا پہلا شعر یہ ہے:

زندگی بخش جام احمدؐ ہے

کیا ہی پیارا یہ نام احمدؐ ہے

حضورؑ نے سر پر پیار کیا اور دونوں دست مبارک سے باداموں کی مٹھی بھر کر خاکسارہ کی جھولی میں ڈال دی۔‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1504)

محترمہ اہلیہ صاحبہ حضرت مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیا کہ

’’حضور علیہ السلام جب کام کرتے کرتے تھک جاتے تو اٹھ کر ٹہل ٹہل کر کام کیا کرتے تھے اور جب ٹہلتے ہوئے بھی تھک جاتے تو پھر لیٹ جاتے تھے اور حافظ حامد علی صاحب کو بلا کر اپنے جسم مبارک کودبواتے تھے اور بعض دفعہ حافظ معین الدین صاحب کو بلواتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب نے نظمیں خود بنائی ہوئی تھیں حضورؑ ان کو فرماتے کہ ’’اپنی نظمیں سناؤ‘‘ حافظ صاحب دباتے ہوئے نظمیں بھی سنایا کرتے تھے۔جب حافظ صاحب اس خیال سے کہ حضور ؑسو گئے ہوں گے خاموش ہو جاتے تو حضورؑ فرماتے کہ ’’حافظ صاحب آپ خاموش کیوں ہو گئے؟ آپ شعر سناویں۔‘‘ تو حافظ صاحب پھر سنانے لگ جاتے تھے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم روایت نمبر 1531)

’’غالباً 1894ء کے قریب دو عرب شامی جو علوم عربیہ کے ماہر اور فاضل تھے۔قادیان آئے اور ایک عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر داخل بیعت ہوئے۔ہر دو کا نام محمد سعید تھا اور طرابلس علاقہ شام کے رہنے والے تھے۔ان میں سے ایک صاحب شاعر بھی تھے۔مالیر کوٹلہ میں ایک ہندوستانی لڑکی کے ساتھ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ان کی شادی کرا دی تھی۔انہوں نے کئی ایک مضامین عربی زبان میں حضرت صاحبؑ کی تائید میں شائع کئے۔بسبب خود شاعر ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اشعار کے اعلیٰ پیمانہ پر ہونے کے وہ بہت مداح تھے۔وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر (متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی)

عجبتُ لِشیخٍ فی البطالۃِ مفسدٍ

اَضَلَّ کَثِیْرًا بِالشُّرُوْرِ وَ بَعَّدَا

جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے خواہش ہوتی ہے کاش کہ میرے سارے شعر حضرت صاحبؑ کے ہوتے مگر یہ ایک شعر میرا ہوتا۔یہ عرب صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اپنے وطن چلے گئے تھے اور اس طرح سلسلہ حقہ احمدیہ کی تبلیغ کرتے رہے اور وہاں سے واپس آ کر اپنی بیوی کو مالیر کوٹلہ میں چھوڑ کر کشمیر کے راستہ سے روس کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔پھر پتا نہیں لگا کہ ان کا کیا حال ہے۔بعض سیاحوں سے جو خبریں ملتی ہیں کہ روس کے بعض علاقوں میں احمدیت کے سلسلہ کی اشاعت ہو رہی ہے۔ممکن ہے کہ یہ امر انہی کی کوشش سے ہو…‘‘

(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 33)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں کہ

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہو تی ہے۔غالباً نوجوانی کا کلام ہے۔حضرت صاحبؑ کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں۔بعض بعض شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں :

عشق کا روگ ہے کیاپوچھتے ہو اس کی دوا

ایسے بیمار کا مرنا ہی دوا ہوتا ہے

کچھ مزا پایا مرے دل ! ابھی کچھ پاؤ گے

تم بھی کہتے تھے کہ اُلفت میں مزا ہوتا ہے

ہائے کیوں ہجر کے الم میں پڑے

مفت بیٹھے بٹھائے غم میں پڑے

اسکے جانے سے صبر دل سے گیا

ہوش بھی ورطہٴ عدم میں پڑے

سبب کوئی خداوندا بنا دے

کسی صور ت سے وہ صورت دکھا دے

کرم فرما کے آ او میرے جانی

بہت روئے ہیں اب ہم کو ہنسا دے

کبھی نکلے گا آخر تنگ ہوکر

دلا اک بار شوروغل مچا دے

نہ سر کی ہوش ہے تم کو نہ پا کی

سمجھ ایسی ہوئی قدرت خدا کی

مرے بت! اب سے پردہ میں رہو تم

کہ کافر ہو گئی خلقت خدا کی

نہیں منظور تھی گر تم کو اُلفت

تو یہ مجھ کو بھی جتلایا تو ہوتا

مری دلسوزیوں سے بے خبر ہو

مرا کچھ بھید بھی پایا تو ہوتا

دل اپنا اسکو دوں یا ہوش یا جاں

کوئی اک حکم فرمایا تو ہوتا

کوئی راضی ہو یا ناراض ہو وے

رضامندی خدا کی مدعا کر

اس کاپی میں کئی شعر ناقص ہیں یعنی بعض جگہ مصرع اول موجود ہے مگر دوسرا نہیں ہے اور بعض جگہ دوسرا ہے مگر پہلا ندارد۔بعض اشعار نظر ثانی کے لیے بھی چھوڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 228)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button