متفرق مضامین

وبائی حالات میں عید الفطر منانے کی بحث اور رسول اللہ ﷺ کا اسوہ مبارک

(انیس احمد ندیم۔ مبلغ انچارج جاپان)

سورة البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ماہِ صیام کی فرضیت اور برکات کا ذکرکرتے ہوئے عید الفطر کے مفہوم کو بڑی لطافت اور خوبصورتی سےبیان فرمایا ہے۔ رمضان کی فرضیت، برکات اور مسائل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلیٰ مَا ھَدَاکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن(البقرۃ: 186)

اور(اللہ تعالیٰ) چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی ہے تاکہ تم شکر کرو۔

گویا عید الفطر کا تہوار روزوں کی تکمیل کا دن ہے۔یعنی یہ مبارک دن خدا تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کے اظہار کا موقع ہے اور عید الفطر کا تہوار اللہ تعالیٰ کے احسانوں پر شکر گزاری کی تقریب ہے۔

ہمارے سید و پیشوا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کا تہوار منانے کے لیے اسی روحانی زیبائش کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ عید کا حقیقی حسن اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور حمد وتقدیس کے بیان میں ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

زَیِّنُوْا اعْیَادَکُمْ بِالتَّکْبِیْرِ ( معجم الاوسط للطبرانی)

یعنی اپنی عیدوں کو اللہ اکبر کے ذکر سے سجاؤ۔

ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ

زَیِّنُوْ العِیْدَیْنِ بِالتَّھْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالْتَّحْمِیْدِ وَالتَّقْدِیْسِ( حلیہ الاولیاء الابن نعیم)

عیدین کو لَا اِلٰہَ الَّااللّٰہ ، اللّٰہُ اکْبَرُ، الحمد للّٰہ اور سبحان اللّٰہ کے ورد سے زینت بخشو۔

احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے موقع پر نماز کی جگہ پر پہنچنے تک اور عید الاضحی کے موقع پر ایام تشریق کے دوران تکبیرات کا ورد فرماتے تھے۔ ایک حدیث کے مطابق آپ یہ الفاظ دہرایاکرتے :

اللّٰہُ اَکْبَرُ۔ اللّٰہُ اَکْبَرُ۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ۔ وَلِلّٰہِ الْحَمْد

( مصنف ابن ابی شیبہ جلد1صفحہ490)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

’’ مومنوں کی حقیقی عید اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کی عظمت کے بیان کرنے میں ہی ہے۔پس اگر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں،اس کے نام کو پھیلا دیں، اس کی بڑائی کو ثابت کردیں اور اپنی تمام کوششیں اور مساعی اس غرض کے لئے وقف کر دیں کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو تو یقینا ًہماری عید حقیقی عید کہلا سکتی ہے‘‘

( خطبہ عید الفطر فرمودہ 29 ؍مارچ1960ء مطبوعہ خطبات عید الفطرجلد 1 صفحہ502)

آنحضور ﷺ کی پہلی عید

آغازِ اسلام پر14-15؍برس گزرنے کے بعد جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لا چکے اور ہجرت کا دوسرا سال تھا تو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض فرمائے اوراس کے بعد مدینہ میں پہلی عید الفطر منائی گئی۔ اس بارہ میں مؤرخین متفق ہیں کہ

أن أول عيد صلی فیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عید الفطر من السنة الثانیہ

(تلخیص الحبیر از حافظ ابن حجر عسقلانی۔کتاب صلاة العیدین۔ صفحہ159)

غیر معمولی حالات میں رسول اللہﷺ کی عیدیں

جیسا کہ تواریخ سے ثابت ہے کہ آنحضورﷺ نے پہلی عید الفطر سن 2 ہجری کو منائی۔ اور اس کے بعد آپؐ کی حیات مبارکہ میں9عیدیں آئیں۔ سن 2ہجری میں ماہِ صیام کی فرضیت سے لے کر وفات تک کا عرصہ آپؐ کی حیات مبارکہ کا مصروف ترین دور تھا۔ اس دوران مخالفین کی طرف سے مسلمانوں پر پے در پے حملے کیے گئے اور آپ کا بہت سا قیمتی وقت دفاعی جنگوں میں صرف ہوا۔ مدینہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے بعد آپ کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ تبلیغِ اسلام اور اشاعت قرآن کی مہم بھی زور وشور سے جاری تھی۔ قرآن کریم نےآپؐ کی غیر معمولی مصروفیات کا نقشہ

سَبْحًا طَوِیْلًا

کے الفاظ میں بیان فرمایاہے۔

اس مضمون میں دیے گئےجدول سے ظاہرہے کہ بدر، احد اور فتح مکہ جیسے غیر معمولی واقعات رمضان یا شوال کے مہینوں میں پیش آئے۔یہاں سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان ایام میں آپؐ اور آپ کے مخلص وباوفا ساتھیوں کو کیسے کیسے ہنگامی حالات سے گزرنا پڑا۔ غزوۂ بدر کے معرکے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ پہلی عید الفطر کا مبارک دن آگیا۔ اگلے ہی سال عید الفطر کے فوری بعد مشرکین مکہ کے دوسرے حملہ کا سامنا کرنا پڑا اور غزوۂ اُحد پیش آیا۔ ان غزوات سے کئی ہفتے پہلے اور کئی ہفتے بعد گویا ایک ہنگامی صورت حال تھی جس سے آپ کو گزرنا پڑا۔

مگر رمضان کی برکات کے ساتھ عید کی آمد گویا آپ کے لیے راحت وسکون کا لمحہ تھا۔ کیونکہ خداتعالیٰ کی بڑائی اور شان کے اظہار کا موقع آپ کو نصیب ہورہا تھا اور یہی آپؐ کا مقصدِحیات اورسکون قلب تھا۔ ان ایام میں بھی آپ نے عیدیں منائیں۔ ان مشکلات اور مصائب کے دنوں میں بھی آپؐ کے قلب مبارک سے

اللّٰہُ اکبرُ اللّٰہُ اکبرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ

کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا اور بڑائی کے اظہار کے لیے آپ تادمِ وفات کوشاں رہے۔ سیرت کی مستند کتابوں کی روشنی میں ماہِ صیام کی فرضیت کے بعد رمضان اور شوال کے مہینوں کی بعض غیر معمولی مصروفیات کی ایک معمولی سی جھلک پیش ہے:

گویا سن 2 ؍ہجری سے لے کر 10؍ہجری تک آپ کی حیات مبارکہ میں9؍عیدیں آئیں۔ غیر معمولی مصروفیات اور ہنگامی حالات کے باوجود جوں ہی آپؐ کو امن وقرار کی کوئی گھڑی نصیب ہوئی آپؐ کا قلب مبارک خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا اور شکرکے اظہار کی طرف متوجہ ہوگیا۔

اس نقشہ سے ظاہر ہے کہ ان 8؍9سالوں میں آپﷺ کو بدراور احد کے دور میں سے گزرنا پڑا۔ مدینہ پرغزوۂ خندق جیسا خوف و خطر کا دور بھی آیا جن ایام کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ اِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَ بَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ (الاحزاب:11)

کہ عالم یہ تھا جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (اچھلتے ہوئے) ہنسلیوں تک جا پہنچے۔ پھر اسی عرصہ میں مدینہ شدیدقحط سالی سے دوچار ہوا اور انہیں سالوں میں غزوۂ تبوک، حنین اور فتح مکہ جیسے واقعات پیش آئے۔ مگرآپؐ اپنے رب کی رضا پر راضی رہتے ہوئے عُسر ویسر میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا اور تکبیر و تقدیس میں کوشاں رہے۔

کیا نماز عید گھر میں ادا کی جاسکتی ہے؟

آج کل کے حالات میں مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن یا ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے نماز عید کا مسئلہ زیر غور ہے۔ جب اکثر مقامات پر اجتماعات کی ممانعت ہے اور سماجی فاصلے اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے تو اس موقع پر یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیاگھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ نماز عید پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں ؟یا عید پڑھنے کے لیے اہل شہر کا کسی عید گاہ یا جامع مسجد میں جمع ہونا ہی ضروری ہے ؟اس سلسلہ میں درج ذیل تعلیم ہمارے لیے راہ عمل ہے :

٭…۔نماز جمعہ ایک ایسا فریضہ ہے جس میں شمولیت کےلیے سورة الجمعہ میں

فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ (الجمعۃ :10)

کے الفاظ میں تاکیدی حکم دے دیا گیا۔ جبکہ عیدین کی فرضیت اور تاکید کے بارہ میں ایسا کوئی حکم قرآن کریم میں موجود نہیں۔ لہذا موجودہ وبائی حالات میں اگر نما ز جمعہ کے لیے متبادل صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں تو عید کے لیے کوئی باسہولت راستہ اختیار کرنا کیسے ممنوع ہوسکتا ہے؟

٭…ایک بارش کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن عباس نے اذان کے دوران’’ صَلُّوْ ا فِیْ بُیُوْتِکُمْ‘‘یعنی گھرو ں میں ہی نماز پڑھ لو کا اعلان کرنے کا ارشاد فرمایا اور یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ایسا کرنا رسول اللہﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔پس اگر عید کو جمعہ کی فرضیت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو گھر میں عید پڑھنے کے لیے اس ارشاد سے رہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

٭…اگر کسی گاؤں،شہر یا ملک میں کوئی ایک گھرانہ ہی مسلمان ہو تو ایسی صورتوں میں عید کی نماز گھر پر ہی اداہوسکتی ہے۔ صحابہ رسولﷺ کے اسوہ سے ثابت ہے کہ کسی مجبوری کی صورت میں اپنے اہل خانہ کو گھر میں ہی جمع کرکے ویسے ہی نماز عید پڑھی جاسکتی ہے جس طرح جامع مسجد میں پڑھی جاتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اس سلسلہ میں ہماری رہ نمائی کرتا ہے :

وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمُ ابْنَ أَبِي عُتْبَةَ بِالزَّاوِيَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِيهِ وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ الْمِصْرِ وَتَكْبِيرِهِمْ

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپؐ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔

(الجامع الصحیح للبخاری۔ کتاب العیدین۔ بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ)

٭…ایسے مواقع پر عید کا وہی طریق اختیار کیا جاسکتا ہے جو مسجد میں امام کی اقتدا میں عید پڑھتے ہوئے اختیار کیا جاتا ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں كَصَلَاةِ اَهْلِ الْمِصْرِ وَتَكْبِيْرِهِمْیعنی شہر والوں کی طرح عید پڑھنا اور تکبیرات کہنا اور درج ذیل روایت میں مِثلَ صلاة الإمامِ في العيدِیعنی جیسے امام عید پڑھاتا ہے کے الفاظ سے یہ مضمون مترشح ہے کہ جس طرح امام عید پڑھاتا ہے ویسے ہی عید پڑھی جائے گی۔ گویا عید کی نماز کے وقت زائد تکبیرات کہنا اور امام کی طرح خطبہ عید دینے کا جواز موجود ہے۔

عَنْ عُبَيْدِ اللّٰهِ بْنِ أبِي بَكر بْنِ أَنَسِ بْنِ مالِك خَادِمِ رسولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عليه وسلّم قال: كان أنَسٌ إذا فاتَته صلاة العيدِ مَعَ الإمامِ جَمَعَ أهلَه فصلَى بهِم مِثلَ صلاة الإمامِ في العيدِ

عبید اللہ بن ابو بکر بن انس بن مالک جو خادم رسولﷺتھے بیان کرتے ہیں کہ حضرت انس (کسی موقع پر) امام کے ساتھ نماز عید ادا نہ کر سکے۔یا آپ کی عید کی نماز رہ گئی تو آپ نے اپنے اہل خانہ کو اکٹھے کیا اور ان کے ساتھ مل کر اسی طرح نماز عید ادا فرمائی جیسے (عموماً ) امام نماز عید پڑھاتا ہے۔

( السنن الکبریٰ للبیھقی۔ کتاب صلاة العیدین۔ باب صلاة العیدین سنة اھل الاسلام)

گھروں میں عید پڑھتے ہوئے کیا طریق اختیار کیا جائے؟

جن ممالک میں وبائی حالات کی وجہ سے اجتماعات کی ممانعت ہے۔ یا سماجی فاصلے اختیار کرنے کی ہدایات دی جاری ہیں۔ وہاں ملکی قوانین پر چلنا اور لوگوں کی صحت اور حفاظت کی خاطر تعاون کرنا ضروری ہے۔لیکن عید الفطر تو دراصل روزوں کی تکمیل کا دن، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے اور شکر کے اظہار کا موقع ہے۔لہذا ہر قسم کے حالات اور عسر ویسر کی کیفیات میں ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے حضورحمد وثنا سے لبریز ہونے چاہئیں کہ ہمیں رمضان کی نعمت نصیب ہوئی۔ ہمیں اس بات پر شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے حصول کا ایک مبارک موقع ہمیں عطا ہوا۔ حمد و شکر کے ان جذبات کے ساتھ گھروں میں عید پڑھتے ہوئے بھی رسول اللہﷺکے مبارک اسوہ پر چلتے ہوئے درج ذیل مناسک کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی۔ پس کیوں نہ ہم اس عید کو ایسی یادگار عید بنادیں کہ ہمارے گھر تکبیر کی صداؤں سے گونج اُٹھیں اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھلائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا سے بھر دیں۔ موجودہ مشکل حالات میں بھی سنت مبارکہ کے درج ذیل پہلو اختیار کرتے ہوئے ہم اس عید کو حقیقی معنوں میں ایک یاد گارعید بنا سکتے ہیں۔

٭…آنحضورﷺ نے عیدین کی رات کو عبادت کرنے والوں کو خوشخبری عطا فرمائی ہے کہ جس دن دل مردہ ہوجائیں گے تو ایسے لوگوں کے دل پھر بھی زندہ رہیں گے۔

( سنن ابن ماجہ)

٭…آنحضور ﷺ عید کے دن غسل فرماتے تھے۔

( زاد المعاد)

٭…عید کے موقع پر اچھی قسم کا یمنی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔

(نیل الاوطار)

٭… عید الفطر کے دن آپ کچھ کھجوریں تناول فرماکر عید کی نماز پڑھتے۔

( صحیح بخاری)

٭…عورتیں بھی عید کی نماز میں شامل ہوتی تھیں۔

( صحیح بخاری)

٭…آپ ﷺ نے عید کی نماز سے قبل فطرانہ ( صدقہ الفطر) کی ادائیگی واجب قرار دی ہے۔

( بخاری وابن ماجہ)

٭…عید کی نماز سے قبل اقامت یا اذان نہ کہی جاتی تھی۔

(صحیح مسلم)

٭… عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز نہ پڑھتے تھے۔

(تحفة الاحوذی)

٭…عید الفطر کے موقع پر پہلی رکعت میں سات اور دوسری رکعت میں پانچ زائد تکبیریں کہتے۔

(مسند احمد)

٭…آپﷺ خطبہ عیدکی نماز کے بعد ارشاد فرماتے۔

(نیل الاوطار)

موجودہ حالات کے بارہ میں امامِ وقت کی نصائح

موجودہ وبائی حالات میں حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے بعض ایسے اصول عطا فرمائے ہیں کہ اگر ہم ان ارشادات کو اپنا رہ نما بنا لیں تو ہماری یہ عید ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضلو ں اور رحمتوں کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔

٭…گھروں کو مسجد بنادیں: جیسا کہ بیان ہوچکا ہے عسر ویسر میں اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد حیات تھی۔ موجودہ حالات میں اسلامی فرائض کی ادائیگی کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں’’آجکل کےحالات کی وجہ سے ہم مسجد نہیں جاسکتے لیکن اس فرض کو اپنے گھروں میں نبھانا ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ 27؍مارچ 2020ء)

٭…حکومتی ہدایات کی پابندی بھی ضروری ہے: اسلامی فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اصولی رہ نمائی فرماتے ہوئے ایک نصیحت آپ نے یہ فرمائی کہ ’’یہ بیماری جس میں بیماری پھیلنے کا بھی خطرہ ہے اور جس کے لیے حکومت نے بھی بعض قواعد اور قانون بنائے ہیں۔ملکی قوانین کے تحت ان پر چلنا بھی ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ27؍مارچ 2020ء)

٭…خدمت انسانیت کے دن:عید الفطرخداتعالیٰ کی بڑائی اور عظمت کے اظہار کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا موقع ہے۔ صدقة الفطر کی تعلیم میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ موجودہ ایام میں عید الفطر کے موقع پر حضور انور اید اللہ بنصرہ العزیز کا یہ ارشاد پیش نظر رکھنے کی ضروررت ہے’’حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے دن ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ اپریل 2020ء)

٭…شعائر اللہ کا احترام تربیت اولاد کے لیے ضروری ہے:موجودہ حالات میں بچوں کو اسلامی تعلیم سے وابستہ رکھنے کے بارہ میں حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی ہے کہ’’گھروں میں نماز باجماعت کی عادت ڈالیں۔۔ بچوں کو یہ علم ہوگا کہ نماز پڑھنا ضروری ہے اور باجماعت پڑھنا ضروری ہے۔‘‘

(خصوصی پیغام فرمودہ27؍مارچ 2020ء)

٭…دعاؤں کے دن:موجودہ ایام کو حضور انور نے دعاؤں کے دن قرار دیتے ہوئے 10؍اپریل کے خطبہ جمعہ میں فرمایاکہ’’ اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل2020ء)

پس عید کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے عزیز واقارب، دوستوں اور پیاروں کے لیے مجسم دعا بن جائیں۔

آج کل نمازعید کی ادائیگی کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جا تا ہے کہ آیا نماز عید گھروں میں ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ اس کےمتعلق ایڈیشنل وکالت تبشیر یوکے کی طرف سےدنیا بھر کی جماعتوں کوبھیجے جانے والے ایک سرکلر میں حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا ایک تازہ ارشاد ہماری رہ نمائی کرتاہے:

’’بعض ممالک میں کرونا وائرس کی وجہ سے مخصوص حالات کے پیشِ نظر حکومت کی طرف سے مساجد اور نماز سنٹرز وغیرہ میں اجتماعات پر پابندی ہے۔ چنانچہ بعض جماعتیں عید کی نماز کی ادائیگی کے حوالہ سے استفسار کر رہی ہیں۔

اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی ہے کہ گھروں میں عید کی نماز پڑھیں۔‘‘

(T-10171-262R/19-05-2020)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام امتِ مسلمہ کو ان مشکل حالات میں حقیقی عید نصیب فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button