متفرق مضامین

احادیث میں وفات مسیح کی ایک قطعی دلیل کی حقیقت

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

کیا جماعت احمدیہ کی جانب سےپیش کردہ حضرت ابن عباسؓ کا قول ضعیف ہے؟

جماعت احمدیہ کی طرف سے وفاتِ مسیح کے حق میں قرآن کریم سے ایسے قطعی دلائل پیش کیے جاتے ہیں جن کے بعد کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ تاہم احادیث مبارکہ ﷺ میں بھی ہمیں اس حوالے سے قطعی دلائل ملتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی موت طبعی موت تھی۔ چنانچہ ان پیش کردہ دلائل میں سے ایک اہم دلیل صحیح بخاری کتاب التفسیر، سورۃ المائدۃ باب ’’ما جعل اللّٰہُ من بحیرۃ ولا سائبۃ‘‘میں درج ایک حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’وَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ‘‘

یعنی حضرت ابن عباس سورۃ آل عمران کی آیت 56

’’یَا عِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ …‘‘

کی تفسیر کرتے ہوئے مُتَوَفِّیْکَ (تجھے وفات دوں گا) کا مطلب مُمِیْتُکَ (تجھے موت دوں گا) کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی تشریح قرآن پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ آپ کے لیے آنحضرت ﷺ کی ایک دعا کا ذکر بھی ملتا ہے جس میں آنحضور ﷺ نے آپ کے فہم دین کے لیے بطور خاص دعا فرمائی تھی۔

غیر احمدی علماءبھی تفسیر ابن عبّاسؓ کے حوالہ جات پیش کرتے ہیں لیکن جب جماعت احمدیہ کی طرف سے اس تفسیر کے حوالہ جات پیش کیے جائیں تو اسے رد کردیتے ہیں۔

اس سلسلہ میں اصل حقیقت یہ ہے کہ اس تفسیر کے مختلف راوی ہیں جن میں سے معاویہ بن صالح، علی ابن ابی طلحہ اور سعید بن جبیر کوماہرین فن جرح و تعدیل اورعلامہ جلال الدین السیوطی اور حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے محدثین و مفسرین نے مستند مانتے ہوئے ان کی روایات کو قبول کیا گیا ہے جبکہ الضحاک، السدی، جُوَیبَراور الکلبی کو کذاب قرار دیتے ہوئے ان کا رد کیا گیا ہے۔ لیکن احمدیت کی دشمنی میں مولوی یوسف لدھیانوی نے تحفۂ قادیانیت جلد اول صفحہ 377 پر علی بن ابی طلحہ کو ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ علامہ السیوطیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ سمیت دیگر علماء اسے مستند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے بہتر طریق سے جو تفسیر ابن عباسؓ ہم تک پہنچی ہے وہ علی بن ابی طلحہ کا طریق ہی ہے۔ جبکہ غیر احمدی علماء ’’تنویرالمقیاس فی تفسیر ابن عباس‘‘ سے حوالہ جات پیش کرتے ہیں جو السدی اور الکلبی سے روایت کی گئی ہے اور خود موجودہ دور کے غیر احمدی علماء کے مطابق ناقابلِ اعتبار ہے۔

حضرت ابن عباسؓ کے قول

’’مُتَوَفِّیْکَ مُمِیْتُکَ‘‘

پر سب سے پہلا اعتراض غیراحمدی علماء یہ کرتے ہیں کہ اس قول کی سند موجود نہیں ہے۔ حالانکہ ایک مشہور حنفی عالم علامہ بدرالدین عینی صحیح بخاری کی شرح ’’عمدۃ القاری‘‘ میں اس کی سند اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’رواہ ابن ابی حاتم عن ابیہ حدثنا ابو صالح حدثنا معاویۃ عن علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس‘‘

(الجزء الثامن عشر۔ صفحہ289۔ طبع اول۔ ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان۔ سن اشاعت2001ء)

ان کے علاوہ صحیح بخاری کے ایک اور شارح اور مشہور عالم علامہ ابن حجر العسقلانی نے اپنی کتاب ’’تغلیق التعلیق علی صحیح البخاری‘‘ (المجلد الرابع الجزء السابع صفحہ 206، ناشر المکتب الاسلامی بیروت و دار عمار عمان الاردن، سن اشاعت 1985ءالطبعۃ الاولیٰ)، میں بھی اسی سند کو بیان کیا ہے۔

اس کے بعد دوسرا اعتراض حضرت ابن عباسؓ کے اس قول پر یہ کیا جاتا ہے کہ خود حضرت ابن عباسؓ سے ایسے اقوال مروی ہیں جن کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو موت نہیں آئی، وہ زندہ آسمان پر تشریف فرما ہیں اور قربِ قیامت میں اسی جسم کے ساتھ نزول فرمائیں گے۔ یہ تمام اقوال ایک مزعومہ ’’تفسیر ابن عباسؓ ‘‘ سے نقل کیے جاتے ہیں جہاں سے دوسری تفاسیر میں بھی نقل کیے گئے اور یوں چند غلط اور بے بنیاد اقوال متعدد بار مذکور ہوکر غیر احمدی علماء کے نزدیک صحیح کا درجہ پاگئے ہیں۔ ختم نبوت کے ایک ‘محافظ’ مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب ایک نامعلوم شخص کے خط کا جواب لکھتے ہوئے کہتے ہیں:

’’آنجناب نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے ’’مُتَوَفِّیْکَ ‘‘ کی تفسیر ’’ مُمِیْتُکَ ‘‘ کے ساتھ کی ہے، یہاں بھی آپ نے ادھوری نقل پیش کردی، یہ صحیح ہے کہ حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت یہ بھی مروی ہے، لیکن ان کا مطلب خود ان کے الفاظ میں یہ ہے:

’’قال انّی رافعک ثم متوفیک في آخر الزمان۔ ‘‘

(تفسیر درمنثورجلد 2صفحہ36)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ تجھے سردست اٹھانے والا ہوں پھر آخری زمانہ میں تجھ کو وفات دوں گا۔‘‘

(تحفۂ قادیانیت جلد اوّل۔ صفحہ:380)

تفسیر در منثور سے مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب کی نقل کردہ مندرجہ بالا اس روایت کو ایک راوی جُوَیبَرنے دوسرے راوی ضحاک سے روایت کیا ہے۔ آئیے دیکھیں کہ خود علامہ جلال الدین السیوطیؒ اپنی ہی ایک دوسری کتاب ’’الاتقان‘‘ میں ان دونوں راویوں کے متعلق کیا لکھتے ہیں:

’’اور ابن عباسؓ سے تفسیر کی روایت کے طریقوں میں سب سے بڑھ کر بودا اور خراب طریق کلبی کا ہے جس کو وہ بواسطہ ابی صالح ابن عباس رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتا ہے۔ پھر اگر کلبی کے اس طریقہ سے محمد بن مروان اکسی الصغیر کی روایت بھی شامل کردی جائے تو یہ طریق کذب کا سلسلہ ہوجاتا ہے…اور ابن عباسؓ سے ضحاک بن مزاحم کا طریق روایت منقطع ہے۔ اس لئے کہ ضحاک ابن عباسؓ سے ملا نہیں۔ پھر اگر اس کے ساتھ بشر بن عمارۃ کی روایت بواسطہ ابی روق ابن عباسؓ سے بھی منضم کی جائے تو وہ ضعیف ہوگی جس کی وجہ بِشر کا ضعف ہے۔ اور اس نسخہ سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بہت سی روایتیں بیان کی ہیں۔ اور اگر کوئی تفسیر جُوَیبَر کی روایت ضحاک سے ہو تو وہ نہایت سخت ضعیف ہے اس لئے کہ جُوَیبَر بہت زیادہ کمزور اور متروک راوی ہے اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم دونوں میں سے کسی نے بھی اس طریق سے کوئی چیز روایت نہیں کی ہے۔ ‘‘

(جلد دوم صفحہ 465۔ مترجم مولانا محمد حلیم صاحب انصاری)

آگے چل کر مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب سائل کا تمسخر اڑاتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’لطیفہ یہ کہ آپ نے ’’مُتَوَفِّیْکَ ‘‘ ’’ مُمِیْتُکَ ‘‘ کی سند نقل کرنے کا تکلّف بھی فرمایا ہے۔ ’’عبداللہ بن صالح نے معاویہؓ سے اور معاویہؓ نے حضرت علیؓ سے اور علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباسؓ سے …‘‘ جناب کی معلومات کی تصحیح کے لئے عرض ہے کہ یہ ’’معاویہ‘‘ اور ’’حضرت علی‘‘ مشہور صحابی نہیں، جیسا کہ جناب سمجھ رہے ہیں بلکہ یہ بہت بعد کے راویوں کے نام ہیں اور علی سے مراد یہاں ’’علی بن ابی طلحہ‘‘ ہیں جو ضعیف بھی ہیں اور ان کا سماع بھی حضرت ابن عباسؓ سے ثابت نہیں۔ اس لئے یہ روایت ضعیف بھی ہے اور منقطع بھی۔ اسی بناء پر میں نے کئی جگہ اس حسن ظن کا اظہار کیا ہے کہ جناب نے حدیث و تفسیر اور دیگر کتابوں کا مطالعہ نہیں فرمایا بلکہ کسی دوسرے کا جمع کردہ خام مواد آنجناب کے پیش نظر ہے۔ ‘‘

(تحفۂ قادیانیت جلد اوّل، صفحہ:380تا 381)

چونکہ مولوی صاحب نے سائل کا اصل خط نقل نہیں کیا لہٰذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ سائل نے درحقیقت معاویہ سے مراد حضرت معاویہؓ بن ابی سفیان اور علی سے مراد حضرت علیؓ ابن ابی طالب لیا یا مولوی صاحب نے اپنے علم کے تکبر میں سائل پر چوٹ کرنے کی غرض سے اس کی طرف جھوٹ منسوب کردیا۔ لیکن فرض کرلیتے ہیں کہ سائل سے یہ غلطی ہوگئی اور ایک عام آدمی سے ایسی غلطی ہونا بعید بھی نہیں۔ لیکن مولوی صاحب تو عالم ہونے اور صاحب مطالعہ ہونے کے مدعی ہیں۔ ان سے تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے تفسیر درمنثور تو پڑھی ہو لیکن اسی مصنف کی دوسری کتاب الاتقان نہ پڑھی ہو جس میں وہ جویر اور ضحاک کو الگ الگ ضعیف اور دونوں کو مشترکہ طور پر شدید ترین ضعیف قرار دے چکے ہیں۔ لیکن اس مندرجہ بالا عبارت میں مولوی صاحب علی ابن ابی طلحہ کو ضعیف اور منقطع قرار دے رہے ہیں، جبکہ خود علامہ سیوطی ؒ اس کےمتعلق الاتقان میں لکھتے ہیں:

’’تفسیر قرآن کے بارہ میں ابن عباسؓ سے اس قدر روایتیں آئی ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا اور ان سے تفسیر کے متعلق کئی کئی روائتیں آئی ہیں اور اُن کے اقوال کو مختلف طریقوں سے نقل کیا گیا ہے۔ چنانچہ تمام ایسے طریقوں میں ان سے علی بن ابی طلحہ الہاشمی کا طریق روایت نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے کہا ہے، ’’مصر میں فن تفسیر کا ایک صحیفہ ہے جس کو علی بن ابی طلحہ نے روایت کیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے طلب کا ارادہ کرکے مصر کی طرف سفر کرے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ ‘‘ ابوجعفر نحاس نے اپنی کتاب ناسخ میں اس قول کو مسند بنایا ہے۔ ابن حجر نے کہا ہے اور یہ نسخہ ابی صالح لیث کے کاتب کے پاس تھا اس کو معاویہ بن صالح بواسطہ علی بن ابی طلحہ کے ابن عباسؓ سے روایت کیا تھا اور وہ بخاری کے پاس ابی صالح کے واسطہ سے آیا ہے۔ بخاری نے اپنی صحیح میں ان باتوں کے متعلق جن کی تعلیق وہ ابن عباسؓ سے کرتا ہے زیادہ تر اسی نسخہ پر اعتماد کیا ہے۔ اور اسی نسخہ سے ابن جریر، ابن ابی حاتم، اور ابن ا لمنذر نے بھی بہت سی روایتیں اپنے اور ابی صالح کے مابین چند واسطوں کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے کہ ابن ابی طلحہ نے ابن عباس سے تفسیر کی روایت نہیں سنی ہے البتہ اس نے مجاہد ؒ یا سعید بن جبیرؒ سے تفسیر کو ضرور اخذ کیا ہے۔ ابن حجر کا قول ہے واسطہ معلوم ہوجانے کے اور یہ بھی جان لینے کے بعد کہ راوی معتبر اور قابل اعتماد ہے اس روایت کے مان لینے میں کوئی خرابی نہیں لازم آتی۔ ‘‘ (جلد دوم صفحہ 463)

علامہ سیوطی نے اپنی اسی کتاب ’’الاتقان‘‘ کے باب ’’النوع السادس والثلاثون ‘‘ میں بھی ابن ابی طلحہ کے طریق کو اصح الطریق قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امام بخاریؒ نے بھی اس پر اعتماد کیا ہے۔ علامہ سیوطیؒ کے علاوہ مندرجہ ذیل علماء نے بھی علی بن ابی طلحہ کو معتبر اور سچا قرار دیتے ہوئے، جویبر، ضحاک، کلبی اور سدی کو جھوٹا قرار دیا ہے اور ان کی مشترکہ روایت کو جھوٹ کا سلسلہ کہا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ’’الفوز الکبیر‘‘ میں تفسیر ابن عباسؓ کا ذکر کرتے ہوئے علی ابن ابی طلحہ کو قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غرائب قرآن کی شروح میں بہترین شرح مترجم القرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے جو ابن ابی طلحہ کے طریق روایت سے صحت کے ساتھ ہم کو پہنچی ہے۔ اور غالبًا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح بخاری میں اس طریق پر اعتماد فرمایا ہے ‘‘

(فصل اوّل صفحہ۔ 31۔ مترجم مولوی رشید احمد صاحب انصاری)

الدکتور محمد حسین الذھبی نے اپنی کتاب’’التفسیر والمفسرون‘‘ جلد اول، ناشر مکتبہ وھبہ، القاہرۃ، صفحہ 60تا 61پر سیوطی کی اسی عبارت کو نقل کیا ہے۔

اسماء الرجال کی مشہور کتاب ’’الجرح والتعدیل ‘‘ میں ضحاک بن مزاحم کے متعلق متعدد لوگوں کی آراء لکھی ہیں جن کے مطابق اس کی ملاقات ابن عباسؓ سے کبھی نہیں ہوئی۔

قاضی محمد بن الشوکانی نے اپنی کتاب ’’ الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ‘‘ میں صفحہ 177 پرکلبی اور سدی سے مروی تفسیر ابن عباسؓ کو رد کیا ہے۔

عبدالحئی لکھنوی صاحب نے اپنے رسالہ ’’تنبیہ ارباب الخبرۃ‘‘ میں سیوطی کی اسی عبارت کو نقل کرکے اس کی تصدیق کی ہے۔

مشہور مصری عالم شیخ محمد عبدہٗ نے اپنی تفسیر القرآن میں سیوطی کی کلبی اور سدی کے متعلق عبارت نقل کرکے ان دونوں کے جھوٹا ہونے کی تصدیق کی ہے۔

جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کے استاد منّاع خلیل القطّان اپنی کتاب ’’مباحث فی علوم القرآن‘‘ میں، ناشرمکتبہ وھبہ القاھرہ، علامہ سیوطیؒ کے علی بن ابی طلحہ، ضحاک، کلبی اور سدی کے بارے میں بیانات کی تصدیق کرتے ہیں۔

شیخ الحدیث اور نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب’’ علوم القرآن‘‘ میں علی بن ابی طلحہ اور کلبی، ضحاک اور سدی کے بارے میں سیوطی کے بیانات نقل کرکے ان کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’انہی وجوہ کی بناء پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو ’’امام المفسرین‘‘ کہا جاتا ہے، اور تفسیر القرآن کے معاملے میں سب سے زیادہ روایات انہی سے مروی ہیں، البتہ ان سے جو روایات مروی ہیں ان کا ایک بڑا حصہ ضعیف بھی ہے، لہٰذا ان کی روایات سے استفادہ کے لئے انہیں اصولِ حدیث کی شرائط پر جانچنا ضروری ہے۔‘‘ (صفحہ455)

’’مروجہ تفسیر ابن عباس کی حیثیت۔ ہمارے زمانے میں ایک کتاب ’’تنویر المقیاس فی تفسیر ابن عباسؓ‘‘کے نام سے شائع ہوئی ہے، جسے آج کل عمومًا ’’تفسیر ابن عباسؓ‘‘کہا اور سمجھا جاتا ہے، اور اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے، لیکن حضرت ابن عباسؓ کی طرف اس کی نسبت درست نہیں کیونکہ یہ کتاب محمد بن مروان السّدّی عن محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباسؓ کی سند سے مروی ہے اور پیچھے گزر چکا ہے کہ اس سند کو محدّثین نے ’’سلسلۃ الکذب‘‘ (جھوٹ کا سلسلہ) قرار دیا ہے، لہٰذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘ (صفحہ458)

ایک مشہور اہلحدیث عالم حافظ زبیر علی زئی صاحب اپنی کتاب فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الکلام میں لکھتے ہیں:

’’آج کل بہت سے دیوبندیوں نے کلبی (کذاب) کی روایت کردہ تفسیر ابن عباس کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ ‘‘

( صفحہ53)

اسے کہتے ہیں ’’خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘ جن راویوں کو علامہ سیوطیؒ نے ضعیف بلکہ ضعیف ترین اور جھوٹوں کا سلسلہ قرار دیا ہے اور متعدد دیگر علماء نے بھی علامہ سیوطیؒ کی تصدیق کی ہے، انہی کی روایت کو پیش کرکے معتبر قرار دے کر ختم نبوت کے محافظ بطور دلیل اور حجت پیش کر رہے ہیں۔ اور جنہیں سیوطی، امام بخاریؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر لوگوں نے معتبر اور ثقہ یعنی سچا قرار دیا ہے انہیں منقطع اور ضعیف کہا جارہا ہے اور عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button