حضرت مصلح موعود ؓ

ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط پنجم)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(گذشتہ سے پیوستہ)یہاں ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص ان کو ریل میں ملا۔ معمولی گفتگو ہوئی اور اس نے مان لیا اور پھر وہ یہاں آیا۔ صرف تین روپے اس کی تنخواہ ہے اور روٹی کپڑا اسے ملتا ہے۔ مگر اس میں بڑا اخلاص ہے اور اخبار خریدتا ہے۔ تو صرف ایک دن کی ملاقات کی وجہ سے وہ احمدی ہوگیا۔

ہمیں دائرہ اثر وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر مبلغین کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ مبلغ کو دلیر ہونا چاہیے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مبلغ کی دلیری اور جرأت کا بھی دوسروں پر اثر پڑتا ہے اور لوگ اس کی جرأت کو دیکھ کر ہی مان لیتے ہیں۔ کئی ہندو اور مسلمان اسی لیے عیسائی ہوگئے کہ انہوں نے پادریوں کی اشاعت مسیحیت میں دلیری اور جرأت کو دیکھا اور اس سے متاثر ہوگئے تو مبلغ کو دلیر ہونا چاہیے اور کسی سے ڈرنا نہیں چاہیے اور ایسے علاقوں میں جانا چاہیے جہاں تاحال تبلیغ نہ ہوئی ہو۔

دلیری اور جرأت ایسی چیز ہے کہ تمام دنیا میں اکرام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور مبلغ کے لیے سب سے زیادہ دلیر ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن کر جاتا ہے۔ اگر مبلغ ہی دلیر نہ ہوگا تو دوسروں میں جو اسے اپنے لیے نمونہ سمجھتے ہیں دلیری کہاں سے آئے گی۔ ہمارے مبلغوں میں اس بات کی کمی ہے اور وہ بہت سے علاقے اسی دلیری کے نہ ہونے کی وجہ سے فتح نہیں کر سکتے ورنہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ اگر کوئی جرأت کر کے چلا جائے تو صرف دیا سلائی لگانے کی ضرورت ہوگی آگے خودبخود شعلے نکلنے شروع ہوجائیں گے۔ مثلاً افغانستان اور خاص کر سرحدی علاقے ان میں اگر کوئی مبلغ زندگی کی پرواہ نہ کر کے چلا جائے تو بہت جلد سارے کے سارے علاقہ کے لوگ احمدی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی حالت عربوں کی طرح کی ہے وہ جب احمدی ہوں گے تو اکٹھے کے اکٹھے ہی ہوں گے عام طور پر متمدن ممالک میں قوانین کے ذریعہ بہت کام چلایا جاتا ہے مثلاً اگر یہاں کسی کو کوئی دشمن قتل نہیں کرتا تو اس لیے نہیں کہ زید یا بکر کے دوست اور اس کے ہم قوم اس کا مقابلہ کریں گےبلکہ اس لیے قتل نہیں کرتا کہ قانون اسے پھانسی دے گا۔ اس لیے ایسے ممالک میں جو متمدن ہوں قانون کے ڈر کی وجہ سے لوگ ظلم سے رُکتے ہیں۔ لیکن جہاں تمدن نہ ہو وہاں ذاتی تعلقات بہت زوروں پر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہر ایک شخص اپنا بچاؤ اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں کی جنبہ داری کرے تا وہ بھی بوقت ضرورت اس کی جنبہ داری کریں اور اس طرح ان ممالک میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا۔ جو حال یہاں گھرانوں کا ہوتا ہے وہ ان ممالک میں قوموں کا ہوتا ہے اور اگر ان ممالک میں پندرہ بیس آدمی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلے جائیں۔ اور کچھ لوگوں کو بھی احمدی بنا لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اردگرد کی قومیں ان پر ظلم کریں گی اور قومی جنبہ داری کے خیال سے ان کے ہم قوم بھی احمدیت قبول کر لیں گے اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں تیس چالیس لاکھ آدمی سلسلہ میں داخل ہوسکتا ہے۔

افریقہ کے لوگ اسی طرح عیسائی ہوئے۔ پہلے پہل ان میں ایک عورت گئی جو علاج وغیرہ کرتی تھی۔ اس کی وجہ سے وحشی لوگ اسے کچھ نہ کہتے۔ لیکن ایک دن انہیں غصہ آگیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھاگئے۔ اس عورت کا ایک نوکر تھا جسے اس نے عیسائی کیا ہوا تھا اس نے تین سو میل کے فاصلہ پر جا کر جہاں انگریز موجود تھے بتایا کہ وہ عورت ماری گئی ہے وہاں سے ولایت تار دی گئی۔ اور لکھا ہے کہ جب ولایت میں اس عورت کے مرنے کی تار شائع ہوئی تو جس مشن سے وہ عورت تعلق رکھتی تھی اس میں صبح سے لے کر شام تک بہت سی عورتوں نے درخواستیں دیں کہ ہم کو وہاں بھیج دیا جائے چنانچہ بہت سے مبلغ اپنے خرچوں پر وہاں گئے اور سارے یوگنڈا کے لوگ عیسائی ہوگئے۔

وہ عورت سات سال تک اکیلی وہاں کام کرتی رہی اور جب وہ ماری گئی تو اس کی دلیری اور جرأت کی وجہ سے سب میں جرأت پیدا ہوگئی اور انہوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں جانے کی درخواستیں دے دیں۔

پس مبلغ کی جرأت بہت بڑا کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں میں بھی جرأت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے خوشی سے سنایا کہ پیغامیوں کے مبلغوں کو ایک جگہ مار پڑی ہے وہ تو خوش ہوکر سنا رہا تھا مگر میں اس وقت افسوس کر رہا تھا کہ وہاں ہمارے مبلغ کیوں نہ تھے جنہیں مار پڑتی اور دلیری اور جرأت دکھانے کا انہیں موقع ملتا۔ گو افسوس ہے کہ پیغامی مبلغوں نے بُزدلی دکھائی اس موقع کو ضائع کر دیا مگر ان کا مار کھانا خود کوئی ہتک کی بات نہ تھی۔ بلکہ اگر وہ دلیری سے کام لیتے تو یہ ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا۔ ہمارے واعظ حکیم خلیل احمد صاحب کو جب مدراس میں تکلیف پہنچی اور ان پر سخت خطرناک حملہ کیا گیا اوران کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس خبر کو اخبار میں شائع کرایا جس پر ایک دوست نے سخت افسوس کا خط لکھا کہ اخبار والوں کو منع کیا جائے کہ ایسی خبر نہ شائع کیا کریں۔ حالانکہ وہ خبر میں نے خود کہہ کر شائع کرائی تھی۔ اور منجملہ اور حکمتوں کے ایک یہ غرض تھی کہ اس خبر کے شائع ہونے سے جماعت میں غیرت پیدا ہو اور ان میں سے اَور لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لیے پیش کریں۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ میرا یہ منشاء نہیں کہ خود بخود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی جگہ تبلیغ اس لیے مت ترک کرو کہ وہاں کوئی خطرہ ہے۔ اور نہ میرا یہ منشاء ہے کہ لوگ بے شک تکلیف دیں اس تکلیف کا مقابلہ نہ کرو۔ بے شک قانوناً جہاں ضرورت محسوس ہو اس کا مقابلہ کرو۔ مگر تکالیف اور خطرات تمہیں اپنے کام سے نہ روکیں اور تمہارا حلقہ کار محدود نہ کردیں۔

میں نے اخلاق کے مسئلہ کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ ستر فیصدی گناہ جرأت اور دلیری کے نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر جرأت ہو تو اس قدر گناہ نہ ہوں۔ پس دلیری اپنے اندر پیدا کرو تاکہ ایک تو خود ان گناہوں سے بچو جو جرأت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تمہاری کوششوں کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں۔ ہاں اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اپنی طرف سے ہر قسم کے فساد یا جھگڑے کے دور کرنے کی کوشش کرو اور موعظہ حسنہ سے کام لو۔ اس پر بھی اگر کوئی تمہیں دُکھ دیتا ہے، مارتا ہے، گالیاں نکالتا ہے یا بُرا بھلا کہتا ہے تو اس کو برداشت کرو اور ایسے لوگوں کا ایک ذرہ بھر خوف بھی دل میں نہ لاؤ۔

تیسری ہدایت

تیسری بات مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں لوگوں کی ہمدردی اور ان کے متعلق قلق ہو۔ جس جگہ گئے وہاں ایسے افعال کیے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ہمارا ہمدرد ہے۔ اگر لوگوں پر یہ بات ثابت ہوجائے تو پھر مذہبی مخالفت سرد ہوجائے کیونکہ مذہبی جذبات ہی ساری دُنیا میں کام نہیں کر رہے۔ اگر یہی ہوتے تو ساری دنیا مسلمان ہوتی۔ پس مبلغ کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں پر ثابت کر دے کہ وہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے۔ جب لوگ اسے اپنا خیر خواہ سمجھیں گے تو اس کی باتوں کو بھی سنیں گے اور ان پر اثر بھی ہوگا۔

چوتھی ہدایت

چوتھی بات مبلغ کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیاوی علوم سے جاہل نہ ہو۔ اس سے بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ مثلاً ایک شخص پوچھتا ہے کہ جاوا کہاں ہے؟ گو اس کا دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی نہ جانتا ہو تو اس کے مذہب میں کوئی نقص نہیں آجائے گا۔ مگر جب ایک مبلغ سے یہ پوچھا جائے گا اور وہ اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکے گا تو لوگ اسے حقیر سمجھیں گے کہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ جاوا کہاں ہے جہاں تین کروڑ کے قریب مسلمان بستے ہیں۔

تو مبلغ کو جنرل نالج حاصل ہونا چاہیے تاکہ کوئی اسے جاہل نہ سمجھے۔ ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک علم کا عالم ہی ہو لیکن کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ ایک بیمار کو دیکھنے کے لیے گئے۔ وہاں ایک اور طبیب صاحب بھی بیٹھے تھے۔ آپ نے اہل خانہ سے پوچھا کہ تھرمامیٹر لگا کر بیمار کو دیکھا ہے یا نہیں۔ طبیب صاحب نے کہا اگر آپ نے انگریزی دوائیاں استعمال کرنی ہیں تو میں جاتا ہوں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ تھرمامیٹر کوئی دوائی نہیں بلکہ ایک آلہ ہے جس سے بخار کا درجہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس قدر ہے۔ اس نے کہا آلہ ہو یا کچھ اور ہر ایک انگریزی چیز گرم ہوتی ہے اور بیمار کو پہلے ہی بہت زیادہ گرمی ہے۔ تو اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں عام باتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا اور مجلسوں میں سخت حقیر سمجھے جاتے ہیں۔ مبلغ کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ علمِ مجلس سے واقف ہو اور کسی بات کے متعلق ایسی لاعلمی کا اظہار نہ کرے جو بیوقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہو۔ حضرت صاحبؑ فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو کسی پیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو۔ وزیر چونکہ اس کی حقیقت جانتا تھا اس لیے ٹلاتا رہتا۔ آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا۔ پیر صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔ بادشاہ سلامت ! دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے سکندر بادشاہ نے دینِ اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے۔ یہ سُن کر وزیر نے کہا۔ دیکھئے حضور! پیر صاحب کو ولایت کے ساتھ تاریخ دانی کا بھی بہت بڑا ملکہ ہے اس پر بادشاہ کو اس سے نفرت ہوگئی۔ حضرت صاحبؑ یہ قصہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ علمِ مجلس بھی نہایت ضروری ہے۔ جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے مثلاً ایک مجلس مشورہ کی ہورہی ہو اور کوئی بڑا عالم ہو۔ مگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر بہت بُرا اثر پڑے گا۔ پس یہ نہایت ضروری علم ہے اور مبلغ کا اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔ ہر ایک مبلغ کو چاہیے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب، طب، آدابِ گفتگو، آدابِ مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں۔

پھر واقعات حاضرہ سے واقفیت ہونی چاہیے۔ مثلاً کوئی پوچھے کہ مسٹر گاندھی کون ہے اور مبلغ صاحب کہیں کہ میں تو نہیں جانتا۔ تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور اسے حقیر سمجھیں گے۔ اس لیے ایسے واقعات سے جو عام لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں اور روزمرہ ہو رہے ہوں ان سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button