کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا تعالیٰ نے اپنی غیرت اور جلال کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا

مسیح موعود کی بعثت کی غرض

خدا کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بُری بات تو کہتے ہی نہیں۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو۔ نمازیں پڑھو اور جو غلطیاں مذہب میں پڑ گئی ہوئی ہیں انہیں نکالتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت جو میں آیا ہوں تو میں بھی اُن غلطیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں جوفیجِ اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ تعلیم توحید کو مشکوک کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہیں۔ نہ زمانہ کا کوئی اثر اُن پر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور دو ہزار برس سے اب تک اسی طرح موجود ہے۔ کوئی تغیّر وتبدّل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ زندہ نبی کو مُردہ رسول قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور بے عزّتی اسلام کی کیا ہوگی۔ مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے جنہوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئی بات پیدا کرلی۔ قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لیے رکھا تھا کیونکہ میرا نام خدا نے حَکم رکھا ہے۔ اب جو اس فیصلہ کے لیے آوے وہی اس غلطی کو نکالے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا پر خدا اُس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔

مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے۔ خدا تعالیٰ نے جس کو حَکم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتی ہیں۔ بھلا دائی سے پیٹ چھپ سکتا ہے۔ قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا اور وہ آگیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا جو فیجِ اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خود نقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا۔ اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدہ نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے۔ اس اصول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین۔ جب یہ مان لیا کہ مُردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا، آخری انصاف کرنے والا یسوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاذاﷲکچھ بھی نہ ہوئے حالانکہ اُن کو رَحْمۃٌ لِّلْعَالَمِین کہا گیا اور وہ کافۃ النّاس کے لیے رسول ہو کر آئے۔ خاتم النبیین وہی ہوئے۔ ان لوگوں کا جنہوں نے مسلمان کہلا کر ایسے بیہودہ عقیدہ رکھتے ہیں، یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں اُن میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ میں نے ایک بار ایک موحّد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کیے جاویں اور پوچھا جاوے کہ خدا کا کونسا ہے اور مسیح کا کونسا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ مل جل ہی گئے ہیں۔

پھر وہ دین جو خدا تعالیٰ کی توحید کا سرچشمہ تھا اور جس کی حمایت اور آبیاری کے لیے زمین صحابہ کے پاک خون سے سرخ ہو گئی تھی۔ اسی کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے ایک عورت کے بچہ کو عیسائیوں کا تتبع کر کے خدا بنادیا اور خدا کی صفات کو اس میں قائم کر دیا۔ جب یہاں تک نوبت پہنچ گئی تو خدا تعالیٰ نے اپنی غیرت اور جلال کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا اور اُس نے اس نبی ناصری کے نمونہ پر (جس کو نادان مسلمانوں نے خدائی صفات سے متّصف کرنا چاہا ہے)مجھے بھیجا ہے، مگر ان لوگوں نے جو ضد اور تعصّب سے خالی نہ تھے بلکہ اُن کے دل ان تاریک بخارات سے سیاہ ہو چکے تھے، میری مخالفت کی اور اس مخالفت کو شرارت اور ایذ ارسانی کی حدتک پہنچایا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں کے لیے غیرت رکھتا ہے طاعون کو بھیجا۔ اور یہ اس وقت ہوا ہے جب ہر قسم کی حجّت پوری ہو چکی۔ عقلی دلائل اُن کے سامنے پیش کیے گئے۔ نصوص قرآنیہ حدیثیہ سے اُن پر حجّت پوری کی اور آخر خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانات بھی کثرت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ہر قسم کے نشان اُن کو ملے مگر انہوں نے اُن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُن پر ٹھٹھا کیا۔ اس لیے آخری علاج طاعون رکھا گیا۔ یہ وہ نشان ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے براہین میں بھی کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں بھی مسیح موعود کے زمانہ کا یہ ایک نشان رکھا ہے۔ اس سے وہی بچیں گے جو توحید اختیار کریں گے اور عاجز انسان کو خدا نہ بنائیں گے۔ اور خدائی صفات سے اس کو متّصف نہ ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی قدر کریں گے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ 251تا253۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button