متفرق مضامین

رمضان کا آخری عشرہ…آگ سے نجات

(سید احسان احمد۔ مربی سلسلہ الفضل انٹرنیشنل لندن)

حضور اکرمﷺ کی روح کی غذا، آنکھوں کی ٹھنڈک اور مقصدِ حیات محض عبادتِ الٰہی تھی۔ آنحضورﷺ کی عبادات، روحانی مجاہدات،گریہ و زاری اور دعاؤں کا تصور کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں۔ یہ عبادات کبھی آپ کو غار حرا کی تنہائیوں میں لے جاتی تو کبھی راتوں کو آپ کا رخ قبرستان کی طرف ہوتا۔ آپؐ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی محبت اوراس کے احکامات کی تعمیل میں گزرتا۔ آپؐ کا عشقِ الٰہی اس قدر بڑھاہوا تھا کہ خدا تعالیٰ نے بھی آپؐ کی زبان سے قرآن کریم میں یہ اعلان کروایا کہ

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (الانعام:163)

تُو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مَرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جس وجود کا سب کچھ ہی خدا تعالیٰ کے لیے پہلے سے ہی فنا تھا، جس نے خدا تعالیٰ سے بھی اس کی سند حاصل کر لی تھی اور جس کے بارے دشمن بھی کہتا :

عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ

کہ محمد تو اپنے رب کا عاشق ہے۔ جب یہ ذات با برکات وجودﷺ رمضان کے آخری عشرے میں داخل ہوتا ہے تو آپؐ کی کیفیت کا نقشہ حضرت عائشہ ؓان الفاظ میں کھینچتی ہیں کہ

إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُشَدَّ الْمِئْزَرَہُ وَ أَحْيَا لَیْلَہُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ۔

(صحيح بخاری كتاب فضل لیلۃ القدر باب العمل فی العشر الاواخر من رمضان)

یعنی جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبیﷺ اپنی کمرکس لیتے اور رات بھر جاگتے رہتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے۔

گویا برکتوں سے معمور اس مہینےکا اختتام جب قریب آتا تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضورﷺ اپنی عبادتوں میں مزید خوبصورتی لاتے ہوئے اس کوشش میں ہوتے ہیںکہ اس کا اختتام حسین انداز میں ہو اور جس قدر ممکن ہو خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا جائے۔ اس مقصد کے لیے جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں بیان ہے آپؐ راتوں کو بھی پہلے سے بڑھ کر زندہ کرتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار فرماتے۔

حضرت مصلح موعودؓ حضرت عائشہؓ کی مذکورہ روایت کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

غور کرو یہ کیا الفاظ ہیں؟ کس نے کمر کس لی؟ اُس نے جس کی تمام راتیں جاگتے اور دن عبادات میں گزرتا تھا اور ہر ایک گھڑی خدا کی یاد میں بسر ہوئی ہوتی تھی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ جن کے تعلق اور وابستگی کی یہ کیفیت تھی ان کے متعلق عائشہ ؓکہتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں کمر کس لیتے تھے۔ اس بات کو عائشہ صدیقہ ؓ ہی سمجھ سکتی تھیں اور کسی کے لئے اس کی حقیقت سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کمر کھولتے ہی نہ تھے اور آپ فرماتے کہ جب مَیں سوتا ہوں تو درحقیقت اس وقت بھی جاگ ہی رہا ہوتا ہوں۔ چنانچہ فرمایا۔ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر دل جاگتا ہے۔

( بخاری کتاب المناقب باب کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم تنام عَیْنٰہٗ وَ لَا ینام قلبُہٗ)

پس جب آپ بستر پر جاتے ہیں اُس وقت بھی آپ کی کمر نہیں کھلتی تو اور کس وقت کھولتے تھے۔ درحقیقت یہ قول ایک بہت بڑے معنی رکھتا ہے جو قیاس میں بھی نہیں آسکتے اور ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے آپ کی صحبت اُٹھائی ہو۔ بعد میں آنے والے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ غرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری عشرہ میں راتوں کو جاگتے اور رشتہ داروں کو جگاتے اور خود کمرکَس لیتے تھے۔ یعنی جن کی کمر ہر وقت کسی رہتی تھی وہ بھی کس لیتے تھے۔ اس سے سمجھ لو کہ جن کی کمر ہمیشہ ڈھیلی رہتی ہے ان کے لئے رمضان میں کس قدر توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍جون1919ءمطبوعہ الفضل28؍جون1919ء)

آخری عشرے کی فضیلت

رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت کے متعلق قرآن کریم اور حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میںایک ایسی رات ہوتی ہےجو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور جو بھی ایمان اوررضاء الٰہی کی غرض سے اس عشرے کی راتوں میں عبادت کی غرض سے اٹھے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کیے جائیں گے۔

(صحیح بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر)

رمضان کا مہینہ رسول کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ

ھُوَ شَھْر اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَ اَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَ اٰخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔

یعنی رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اس کا درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ آگ سے نجات ہے۔

(کنز العمال جلد 8 صفحہ 463 حدیث 23668
مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)

اس حدیث کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’یہ تین الفاظ جو استعمال کئے گئے ہیں یا تین فقرات جو استعمال کئے گئے ہیں، اگر ان پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کے ایسے پیار کے نظارے نظر آتے ہیں، ایسے پیار کا اظہار ہوتا ہے جو انسان کی دنیا و عاقبت سنوار دیتا ہے‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ10؍اگست2013ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جولائی2014ءصفحہ1)

عِتْقٌ مِنَ النَّارِ کی وضاحت

آگ سے نجات کے حصول کے کیا معنی ہیں؟حضرت خلیفۃ المسیح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کے متعلق فرماتےہیں:

’’پھر عِتْقٌ مِنَ النَّارِ ہے، تو اس کا مطلب آگ سے آزادی ہے، آگ سے بچایا جانا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیطان سے گردن آزاد ہو جاتی ہے، کیونکہ جہنم کی آگ شیطان کے پیچھے چلنے سے ہی ہے یا شیطان ہی جہنم ہے۔ جب شیطان نے کہا کہ میں صراطِ مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا تا کہ اُن کو ورغلاؤں یعنی انسانوں کو ورغلاؤں، اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور کروں۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے سے دنیا کی لالچیں دے کر ورغلاتا رہوں، اُن کو نیک کاموں سے دور ہٹاتا رہوں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ

لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ۔ (الاعراف:19)

کہ اُن میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا، میں تم سب کو جہنم سے بھر دوں گا۔ پس شیطان کی پیروی اور اتّباع ہی جہنم ہے۔ پس شیطان سے گردن آزاد کروا کر اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر رحمت، ہمدردی، مغفرت سے توجہ کرتے ہوئے اُس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ دیکھیں، رمضان میں اللہ تعالیٰ نے کتنے وسیع احسانات کے دروازے ہم پر کھولے۔ نہ صرف جہنم سے نجات دلائی بلکہ جنت کے دروازے بھی کھولے۔‘‘

(خطبہ عید الفطر فرمودہ10؍اگست2013ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍جولائی2014ءصفحہ1)

پھر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ آخری عشرہ جہنم سے بچانے کا عشرہ ہے تو جب انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں بھی لپٹ جائے، اس کی مغفرت سے روشنی اور طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے، اس کی روشنی سے حصہ لے لے اور اس کی طاقت پکڑ کر اس پر قائم بھی ہو جائے تو ظاہر ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والا ہی ہوتا ہے۔ … جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے نیکیاں بجا لا رہا ہو یا بجا لانے کی کوشش کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ صرف اتنا نہیں فرماتا کہ اچھا مَیں تمہیں جہنم میں نہیں ڈالوں گا۔ جہنم سے تم بچ گئے بلکہ جہنم سے بچانے کا عشرہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل میں ہمیں یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے عمل کرنے والوں سے راضی ہو کر اپنی جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ …

اگر مستقل اس کی مغفرت طلب کرتے رہو گے، استغفار کرتے رہو گے، نیکیوں پر دوام حاصل کرنے کے لئے اور ان پر قائم رہنے کے لئے مستقل اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رہو گے تو جہنّم کے دروازے صرف رمضان میں ہی نہیں بلکہ ان تیس دنوں کی عبادات اور عہد اور حقوق کی ادائیگی اور توبہ اور استغفار کی مستقل عادت جہنم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍ جولائی 2015ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍جولائی2015ءصفحہ7)

پس آگ سے نجات اگر حاصل ہو جائے تو مستقل طور پر ہم خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے ہوں گے اور ہماری زندگی نہ صرف اگلے جہان میں بلکہ اس دنیا میں بھی جنت نظیر ہو گی۔

جہنم سے نجات اس دنیا سےشروع ہوجاتی ہے

کوئی خیال کر سکتا ہےکہ جہنم سے نجات ایسی چیز ہے جس کا علم ہمیں دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ تاہم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتب میں اس مضمون کو بار ہا بیان فرمایا ہے کہ جہنم سے نجات حاصل کرنا کوئی ایسی چیز نہیں جس کا اثر اس دنیا میں نہ دکھائی دے بلکہ ایک حقیقی مومن کی زندگی میں اس کے آثار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’مذہب سے غرض کیا ہے؟ بس یہی کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی صفات کاملہ پر یقینی طور پر ایمان حاصل ہو کر نفسانی جذبات سے انسان نجات پا جاوے اور خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ درحقیقت وہی بہشت ہے جو عالم آخرت میں طرح طرح کے پیرایوں میں ظاہر ہو گا۔ اور حقیقی خدا سے بے خبر رہنا اور اس سے دور رہنا اور سچی محبت اس سے نہ رکھنا درحقیقت یہی جہنم ہے جو عالم آخرت میں انواع و اقسام کے رنگوں میں ظاہر ہوگا۔‘‘

(چشمہ مسیحی روحانی خزائن جلد20 صفحہ352)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس مضمون کو یوں بیان فرماتے ہیں:

’’پس اس نکتے کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہنم سے نجات بھی اس دنیا سے شروع ہوتی ہے اور جنت کا ملنا بھی اس دنیا میں ہوتا ہے اور ان دونوں کے جو وسیع اثرات ہیں، جو مختلف حالتوں اور رنگوں میں انسان کو ملنے ہیں یا ملتے ہیں وہ اگلے جہان میں ملتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ سے حقیقی تعلق، توبہ استغفار انسان کو اس دنیا میں بھی جنت دکھا دیتا ہے جس کے وسیع تر انعامات جیسا کہ میں نے کہا اگلے جہان میں ملیں گے۔ اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق اور محبت اور اس کی رحمت اور بخشش ہر وقت طلب نہ کرتے رہنا اس کے احکامات کو جان بوجھ کر توڑنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍ جولائی 2015ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 31؍جولائی2015ءصفحہ7)

آگ سے نجات کا حصول کس طرح ہو سکتا ہے؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرماتےہیں:

’’ہر ایک ناپاک آنکھ اُس سے دُور ہے۔ ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے۔ وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گا۔ وہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہنسے گا۔ وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا۔ تم سچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے۔ تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو۔ تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جاوے‘‘

فرمایا: ’’کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو۔ اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو۔ سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔‘‘

فرمایا: ’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کے لئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پرتم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہےنجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہےاور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ 12تا 14)

استغفار کرنے والوں پر عذاب نہیں آتا

قرآن کریم نے ہمیں خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچنےکے لیے ایک گُر سکھایا کہ اللہ تعالیٰ اس حالت میں عذاب نہیں نازل کرتا جب لوگ استغفار کر رہےہوں جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت 34میں فرمایا:

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ

اللہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش کے طالب ہوں۔ پس اس لحاظ سے آگ سےنجات اور استغفار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔

اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’پس استغفار اور نیک اعمال جب ہمیں رمضان کے آخری عشرے میں داخل کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مطابق آگ سے آزاد کرانے کا عشرہ ہو گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 19؍ ستمبر 2008ء)

دنیا اور آخرت کے حسنات کے حصول اور آگ کے عذاب سے بچنےکی دعا

دنیا و آخرت کی حسنات حاصل کرنےاور آگ کے عذاب سے بچنے کے لیے قرآن کریم نے ہمیں ایک خوبصورت دعا سکھائی کہ

رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ (البقرۃ:202)

کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت سے یہ دعا پڑھاکرتے تھے اور صحابہ کو بھی یہ تلقین فرماتے کہ وہ صرف آخرت کی حسنات نہ مانگیں بلکہ دنیا کی حسنات کے بھی طالب ہوں۔

ایک روایت میں آتا ہےحضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کی عیادت فرمائی جوبیماری کے باعث کمزور ہوتے ہوئے بہت دبلا پتلا ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کرکے فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے ہو اس نے جواب دیا ہاں۔ پھر اس نے بتایا کہ مَیں یہ دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ! جو سزا تو مجھے آخرت میں دینے والا ہے وہ مجھے اس دنیا میں دے دے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے کہ خدا کی سزا اس دنیا میں حاصل کرو۔ تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے کہ

اَللّٰھُمَّ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ

کہ اے اللہ تو ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب اس بیمار نے یہ دعا کی تو اللہ کے فضل سے شفایاب ہو گئے۔

(مسلم کتاب الذکر والدعاء۔ باب کراھۃ الدعاء بتعجیل العقوبۃ فی الدنیا)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس دعا میں آگ سے بچنےکی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتاہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن…غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 145، ایڈیشن 1988ء)

اس دعا کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’اس دنیا میں بھی جو انسان کے ساتھ متفرق قسم کے مسائل لگے ہوئے ہیں بعض دفعہ وہ دل کو بے چین کر دیتے ہیں۔ جب انسان ان مسائل میں الجھا ہوتا ہے، بعض لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ اس آگ میں جل رہے ہیں۔ لوگ بڑے پریشانی کے خطوط بھی لکھتے ہیں۔ پس یہ دعا اگر صحیح معنوں میں کی جائے گی توشرک سے بچاتے ہوئے آخرت کے عذاب سے بھی بچا رہی ہو گی۔ کیونکہ جب دعا کرنے والا خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک رہا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی دعا مانگتے ہوئے اس دنیا کی پریشانیوں کی آگ سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کررہا ہو گا تو اللہ تعالیٰ پھر فضل فرماتا ہے۔ پس یہ بڑی جامع دعا ہے… یہ دعا بھی نماز میں پڑھی جاتی ہے …اس لئے احمدی اس کو زیادہ پڑھتے ہیں۔ اس لئے ہر قسم کی آگ سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے عبادت بڑی ضروری ہے جس کی شکل اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلی دُعا میں قیام نماز بتائی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ ستمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل20؍اکتوبر2006ءصفحہ8)

جہنم سے کیا مراد ہے؟

اس آخری عشرہ کو جہنم سے نجات دلانے والا قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ

رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا۔ (الفرقان:66)

یعنی اے ہمارے ربّ! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے یقیناً اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔

مگر سوال ہے کہ جہنم سے کیا مراد ہے ؟اس کی لغوی اور معنوی وضاحت حضرت مصلح موعودؓ نے یوں بیان فرمائی ہے:

’’جہنم سے گواخروی جہنم مراد ہے جس سے ہر سچا مومن اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہے مگر دنیوی نقطہ نگاہ سے ہر وہ امر جو انسان کے لئے دُکھ اور تکلیف کا موجب ہو اور جو اسے قوم اورملک کی نظروں میں گرانے اور ذلیل کرنے والا ہو وہ بھی اس کے لئے جہنم کا ہی رنگ رکھتاہے۔ اصل جہنم جھن اور جھمسے مرکب ہے۔ جھن کے معنی کسی چیزکے قریب ہونے کے ہوتے ہیں جو جھم کے معنی منہ کے بگڑجانے کے ہیں۔ پس جہنم کے لفظ کا اطلاق ہر ایسی چیز پر ہو سکتاہے جس کی طرف انسان پہلے تو بڑے شوق اور حرص کےساتھ بڑھے مگر جب وہ قریب پہنچے تو اس کا منہ بگڑ جائےاور وہ گھبرانے لگ جائے۔‘‘

آپؓ نے مزید فرمایا: ’’اس نام میںدرحقیقت جہنمی افعال کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان پہلے تو عیاشیاں اور بدکاریوں کو بڑا اچھا فعل سمجھتا ہے اور ان کےقریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ ان بدیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور ان کا بُرا انجام آنکھوں کے سامنے آتا ہے تواس کا منہ بگڑ جاتا ہے اور وہ رونےاور چیخیں مارنے لگ جاتا ہے۔ اور کہتا ہےکہ میں نے تو بڑی غلطی کی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 565)

جہنم کے عذاب سے کیا مراد ہے؟

اس مضمون میں مذکور اقتباسات سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ جب رسول کریمﷺ نے آخری عشرہ کو جہنم سے نجات دلانے والا قرار دیا تو اس سے مراد صرف اخروی جہنم نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی موجود مختلف اقسام کی جہنم ہیں جن سے بچنے کی ایک مومن کوشش اورخدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے۔

جہنم کے عذاب سے بچنے میں کون کونسے امور شامل ہیں؟ ان کی وضاحت حضرت مصلح موعودؓ نے یوںبیان فرمائی ہے کہ مومنین یہ دعا کرتے وقت خدا تعالیٰ سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ

’’الٰہی ہمیں ہر ایسے کام سے بچائیو جو ہمیں دنیا اور آخرت میں ذلیل کرنےوالا ہو۔ تو ہمیں افلاس اور تنگ دستی کے جہنم سے بچا۔ ہمیںجہالت اور کم علمی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں بد اخلاقی اور عیاشی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں دنیا داری اور ہوس پرستی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں کفر اور شیطنت کے جہنم سے بچا۔ ہمیں لامذہبیت اور اباحت کے جہنم سے بچا ہمیں منافقت اور بے ایمانی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں خود سری اور جھوٹ اور ظلم اور تعّدی کے جہنم سے بچا۔ ہمیں اپنی محبت اور رضا سے دُوری کے جہنم سے بچا۔ کیونکہ خواہ یہ برائیاں ہم میں عارضی طور پر پیدا ہوںیا مستقل طور پربہر حال ان کا پیدا ہوناہمارے لئے تباہی اور رسوائی کا باعث ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مستقل طور پر ان خرابیوںکا پیدا ہونا تو الگ رہا ہم میںعارضی اور وقتی طور پر بھی یہ خرابیاں پیدا نہ ہوں اور ہمیشہ ہمارا قدم صراط مستقیم پر قائم رہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 565)

اس لحاظ سے جہنم سے نجات کی مقبول دعا ہماری زندگی میں انقلاب لانے والی بن جاتی ہے اور مستقل طور پر ہمیں خداتعالیٰ کا قرب اور روحانی ترقی کے منازل طے کرنے والا بنا دیتی ہے۔

اس دعا کی اہمیت

خدا تعالیٰ کے حضور جہنم سے بچنے کی دعا کی اہمیت کس قدر ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسے یوں بیان فرمایا ہے:

’’اگر مسلمان اپنے غلبہ کے اوقات میں اس قرآنی دعا کو ہمیشہ یاد رکھتےاورہر کامیابی کے حصول پر قومی تنزل کے خطرات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تو اللہ تعالیٰ ان پر دائمی طور پر اپنا فضل نازل کرتا اور ہمیشہ ان کا قدم ترقی کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتا رہتا۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 566)

ان دنوں میں کیا دعا کرنی چاہیے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیںنصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’ان چنددنوں کے بارے میں خداتعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہ جو آخری عشرہ کے دن ہیں یہ اس برکتوں والے مہینے کی وجہ سے جہنم سے نجات دلانے کے دن ہیں۔ گناہ گار سے گناہگار شخص بھی اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے تو اپنے آپ کو آگ سے بچانے والا ہو گا۔ پس یہ گناہگار سے گناہگار شخص کے لئے بھی ایک خوشخبری ہے کہ اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے سامان کر لو۔

آخری عشرہ میں اللہ تعالیٰ جہنم سے نجات دیتا ہے۔ دعائیں قبول کرتا ہے۔ تو یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کی ہوا و ہوس کی جہنم سے بھی ہمیں نجات دے۔ ہماری دعائیں قبول فرمائے، ہماری توبہ قبول فرماتے ہوئے ہمیں اپنی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ

’’اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ(البقرۃ :187)

یعنی میں توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرتا ہوں۔ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ اس اقرار کو جائز قرار دیتا ہے جو کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا کرتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی طرف سے اس قسم کا اقرار نہ ہوتا تو پھر توبہ کا منظور ہونا ایک مشکل امر تھا۔ سچے دل سے جو اقرار کیا جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر خداتعالیٰ بھی اپنے تمام وعدے پورے کرتا ہے جو اس نے توبہ کرنے والوں کے ساتھ کئے ہیں اور اسی وقت سے ایک نور کی تجلّی اس کے دل میں شروع ہو جاتی ہے جب انسان یہ اقرار کرتا ہے کہ میں تمام گناہوں سے بچوں گا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘

(البدرمورخہ 24؍ اپریل1903ء صفحہ107کالم نمبر 1)
(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍ اکتوبر 2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل18؍نومبر2005ءصفحہ6)

ایک حدیث

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی طرف دیکھتا ہے تو پھر اسے کبھی بھی عذاب نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر روز ہزاروں لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات دیتا ہے۔ پس جب رمضان کی 29ویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کی گزشتہ 28راتوں کے برابرلوگوں کو بخش دیتا ہے۔

(الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان)

اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا اور آخرت میں ہر قسم کی جہنم، آگ اور عذاب سے مکمل طور پر آزاد کرے۔ اس رمضان میںہم خدا تعالیٰ کے ان برگزیدہ لوگوں میں شمار ہوں جو خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کی رضا کوحاصل پانے والے ہوں۔ ہم نہ صرف جہنم اور آگ کے عذاب سے بچیں بلکہ خدائےرحمان کی دائمی جنتوں کے وارث بھی بنیں اور اس کے نظارے ہم دونوں جہانوں میں دیکھنے اور محسوس کرنے والے ہوں۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button