عالمی خبریں

جماعت احمدیہ کی مخالفت یا پاکستان دشمنی!

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

بسا اوقات ہم دیواروں پر چسپاں اشتہار پر لکھا پڑھتےہیں ’’میں بغیر دلیل کے قادیانیوں کو کافر مانتا ہوں۔ قادیانی واجب القتل ہیں‘‘ اخباروں میں سرخیاں پڑھتے ہیں کہ ’’قادیانیوں کو کلیدی آسامیوں سے برطرف کرو ورنہ …‘‘۔ سکول کی کاپیوں پر چھپا ہوا پڑھتے ہیں ’’محبت رسول کی پہلی نشانی قادیانیوں کا مکمل بائیکاٹ۔‘‘ دکانوں کے باہر یہ اعلان چسپاں ہوتا ہے ’’قادیانی گستاخ رسول ہیں۔ ان سے کسی قسم کا لین دین حرام ہے۔‘‘ اور اکثر ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ مذہبی اختلاف کی بنا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے۔ لیکن جلد یا بدیر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اصل مقاصد اَور تھے اور جماعت احمدیہ کی مخالفت کا نعرہ محض ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے، اپنے آپ کو مجاہد ثابت کرنے کے لیے اور اصل مقاصد کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بلند کیا جا رہا تھا۔ اور اصل مقاصد اتنے گھنائونے تھے کہ ان کو پوشیدہ رکھنے اور لوگوں کی توجہ دوسری طرف مرکوز رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کے خلاف نعرے لگانے ضروری تھے۔ یہ تاریخ کئی مرتبہ دہرائی گئی ہے اور سب سے زیادہ پاکستان میں دہرائی گئی ہے۔

زید حامد صاحب کا انٹرویو

دو ماہ قبل جب پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کی تیاری کر رہی تھی تو ایک ویڈیو سامنے آئی۔ یہ ویڈیو ایک طویل انٹرویو تھا۔ یہ انٹرویو لینے والے پاکستان کے سابق سفارت کار عبد الباسط صاحب تھے۔ یہ صاحب بھارت اور جرمنی میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اور ان ممالک کے علاوہ امریکہ، روس، برطانیہ اور صنعاء(یمن) کے سفارت خانوں میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔اور حالات حاضرہ کے بہت سے ٹی وی پروگراموں میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر کچھ عرصہ بعد کوئی نہ کوئی سنسنی خیز انکشاف فرماتے رہتے ہیں۔ اور انٹرویو دینے والے زید حامد صاحب تھے۔ زید حامد صاحب بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں اور پاکستان میں اپنی تنظیم چلا رہے ہیں۔ زید حامد صاحب کے نظریات اور بالخصوص جہاد کے بارے میں ان کے نظریات اور ان کے سابقہ بیانات بھی بہت سے تنازعات کو جنم دے چکے ہیں۔ یہ صاحب بعض مرتبہ ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے اپنے پیچھے ایک عدد بندوق بھی رکھ دیتے ہیں تاکہ جو کسر بیان میں رہ گئی ہے وہ اس بندوق کی موجودگی سے پوری ہو جائے۔ لیکن اس مضمون میں ان سب سے قطع نظر صرف یہ جائزہ لیا جائے گا کہ اس انٹرویو میں انہوں نے کن خیالات کا اظہار کیا۔

احمدیوں کو کافر کیوں قرار دیا جائے؟

اس انٹرویو کے ایک حصہ میں عبد الباسط صاحب نے زید حامد صاحب سے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا گیا تو نہ صرف وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوئے بلکہ Anti Pakistan Forces [پاکستان مخالف طاقت] میں تبدیل ہو گئے ۔ان کے اسرائیل سے بھی تعلقات ہیں اور بھارت میں بھی یہ جاتے رہتے ہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خود ایسے قدم اُٹھاتے ہیں کہ یہ لوگ ریاست کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔ان کا تو ہمیں علم ہے کہ انہیں باہر سے فنڈنگ بھی ملتی ہے اور باہر سے سپورٹ بھی ملتی ہے تو آپ اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ زید حامد صاحب نے کہا کہ جو آپ نے سوال کیا اسی میں اس کا جواب بھی ہے۔اس کے بعد کافی دیر تو زید حامد صاحب پاکستان کے مختلف سیاستدانوں کو [ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی احمدی نہیں ہے] غدار اور پاکستان کے دشمن ممالک کا ایجنٹ قرار دیتے رہے۔جب پاکستان کی ساری سیاسی قیادت کو غدار اور ایجنٹ قرار دے چکے تو احمدیوں کا ذکر کر کے کہنے لگے کہ یہ غلط ہے کہ کسی کو غیر مسلم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جب کسی کو چوریا ڈاکو قرار دیا جا سکتا ہے تو کافر کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا۔ صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ اسرائیل سے مل کر ہمیں نقصان پہنچائیں گے، ہم انہیں کافر کہنے سے نہیں رک سکتے۔ اس وجہ سے ہم انہیں مسلمان قرار نہیں دے سکتے۔ ان کا خطرہ ہے اور اس کا سد باب کرنا پڑے گا۔

جماعت احمدیہ پر لگائے گئے الزامات

اس پر عبد الباسط صاحب نے کہا کہ اس کا کیا کریں کہ بہت سے غیر اعلانیہ بھی قادیانی موجود ہیں۔ اس پر زید حامد صاحب نے بہت قلق سے کہا کہ ہم soft state ہیں۔ جب ہم کھلےغداروں کے خلاف اقدامات نہیں اُٹھا رہے تو پوشیدہ غداروں کے خلاف کیا کریں گے۔ اور انہوں نے کہا کہ مجھے خود سابق قادیانیوں نے بتایا کہ پاکستان کے سسٹم میں پوشیدہ قادیانی بہت ہیں اور پالیسیوں کو اپنے مفادات کے لیے بناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی مثال دی کہ انہیں محمدعلی جناح صاحب نے مقرر کیا تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس آدمی ہی نہیں تھے اورانہوں نے فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی قادیانی ہواوراس کی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ ہوں۔

جہاں تک جماعت احمدیہ کے خلاف لگائے گئے رٹے رٹائے الزامات کا تعلق ہے تو ان کا جواب پہلے بھی کئی مرتبہ دیا جا چکا ہے۔ جماعت احمدیہ کی سواسو سال کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہر احمدی جس ملک کا شہری ہے اس کا خیر خواہ اور وفادار شہری ہوتا ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس انٹرویو میں جماعت احمدیہ پر جوالزامات لگائے گئے، ان کا کسی قسم کا ثبوت دینے کا تکلف نہیں کیا گیا۔ شاید اس ایک دو گھنٹے کےانٹرویو میں پورے پاکستان پر اتنے الزامات لگائے جا رہے تھے کہ ان دونوں دانشوروں نے ثبوت دینے کو تضیع اوقات خیال کیا۔ 1953ء میں بھی جماعت احمدیہ پر اسی قسم کے الزامات لگائے گئے اور مخالفین جلدی میں ثبوت دینا بھول گئے۔ اسی قسم کے الزامات 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں لگائے گئے اور ثبوت دینے کا وقت نہیں ملا۔پھر 1984ء میں بھی یہ تاریخ دہرائی گئی اور پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ  کی خدمات

صرف چند باتوں کا ذکر کر کے ہم اصل موضوع کی طرف واپس آئیں گے۔زید حامد صاحب نے فتویٰ داغا کہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کے بارے میں پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچایا۔ یہ ساری کارروائی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اور چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کی تقاریر بھی حرف بحرف موجود ہیں۔ آخر یہ تو بتایا جائے کہ ان تقاریر کا وہ کون سا حصہ ہے جس سے ان صاحبان نے دریافت کیا ہے کہ چودھری صاحب نے پاکستان کے موقف کو نقصان پہنچایا تھا۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد محمد علی جناح صاحب نے آپ کو پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں بھجوایا تھا۔ ابھی آپ وزیر خارجہ مقرر نہیں ہوئے تھے۔ جس وقت آپ نے پاکستان کی نمائندگی شروع کی تو فلسطین کے مسئلہ پر خاص طور پر کمیٹیوں میں بحث کا آغاز ہو چکا تھا۔ جب چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے پاکستان کا موقف پیش کیا تو اس سے عرب ممالک اتنا متاثر ہوئے کہ جو کمیٹی فلسطینیوں اور عرب ممالک کا موقف پیش کر رہی تھی اس کا چیئر مین آپ کو مقرر کیا گیا اور اس کے ساتھ Rapporteur بھی آپ کو مقرر کیا گیا۔ یعنی اس کی روئیداد اورتجاویز تیار کرنا بھی آپ کے سپرد تھا۔ اصفہانی صاحب جو وہاں پر پاکستان کے سفارتکار تھے آپ کی کامیابیوں کے متعلق شاندار رپورٹیں محمد علی جناح صاحب کو بھجوا رہے تھے۔ جب آپ واپس آئے تومحمد علی جناح صاحب نے آپ سے میٹنگ کر کے اصفہانی صاحب کو لکھا کہ آپ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ تمام خط و کتابت Jinnah Papers میں جسے زوار حسین زیدی صاحب نے مرتب کیا تھا شائع شدہ ہے۔ اور اس کے بعد 25؍ دسمبر کو آپ کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔ اگر زید حامد صاحب اور عبد الباسط صاحب کا خیال ہے کہ وہ محمد علی جناح صاحب اور اس وقت کی تمام عرب قیادت سے بہتر اُس وقت کے حالات کو سمجھ سکتے ہیں توان کی مرضی۔ ورنہ حقائق تو کچھ اَور ہی ظاہر کر رہے ہیں۔

مالی مدد کس کو مل رہی ہے؟

جہاں تک دوسرے الزام کا تعلق ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اسرائیل سے کس کو فنڈنگ ملتی ہے؟ اس دور میں اس کا فیصلہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔اسرائیل والوں نے خود ہی ظاہر کر دیا ہے کہ وہ کس کو مالی اعانت مہیا کر رہے ہیں؟ آپ اقوام متحدہ [جنیوا] میں اسرائیلی مشن کی سائٹ پر جا کر خود دیکھ سکتے ہیں۔ اسرائیل میں پندرہ لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ بنیادی طور پران کی بھاری اکثریت سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ اور اسرائیل کی حکومت ان کے علماء کو، مؤذنوں اورمذہبی سکولوں کو تنخواہ اور مالی اعانت دے رہی ہے۔

(https://embassies.gov.il/UnGeneva/NewsAndEvents/Pages/Facts-and-Figures-Islam-in-Israel.aspx, accessed on 15.04.2020)

سنی احباب کی نسبت احمدیوں کی تعداد وہاں پر بہت کم ہے اور ان کو اسرائیل کی حکومت سے کوئی مدد نہیں ملتی۔اس کا ثبوت خود 1974ءمیں جماعت احمدیہ کے بارے میں ہونے والی کارروائی سے مل جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کے دوران جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مفتی محمود صاحب نے اپنی طرف سے بہت بڑا کارنامہ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ حیفا [فلسطین ] کا بجٹ بھی پیش کیا۔اس کارروائی کے صفحہ2049 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس جماعت کی ساری آمد چندہ عام، حصہ آمد، تحریک جدید اور زکوٰۃ وغیرہ سے ہے۔ کسی حکومت کی مدد کا ایک پیسہ اس میں شامل نہیں ہے۔ اس کا مقصد ان مسلمانوں پر جو اسرائیل میں آباد ہیں کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے۔ وہ اپنا برا بھلا دیکھ کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔لیکن حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ الزام کتنے بے بنیاد ہیں۔

پاکستانیوں پر بے غیرتی کا الزام

ہر انٹرویو کا ایک بنیادی خیال ہوتا ہے۔اور عبد الباسط صاحب نے ایک قسط کے آغاز میں ہی اقبال کا یہ شعر پڑھ کر اس بنیادی نظریے کو واضح کر دیا۔

تیرے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے

خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے

اور زید حامد صاحب نے بھی اس انٹرویو میں بار بار زور دے کر یہ نکتہ بیان کیا کہ پاکستانیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں غیرت نہیں ہے۔ہمارے میں مرد غیور اور مرد آزاد موجود نہیں ہیں۔ ہم بالکل بے غیرت ہو چکے ہیں۔ اور فرمایا کہ ہم تو اس بات کی طاقت رکھتے ہیں کہ نہ صرف بھارت کو سیدھا کر دیں بلکہ امریکہ اور چین کا بھی ٹینٹوا دبا سکتے ہیں۔ہم تو دنیا کو شہ رگ سے پکڑ سکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی تعریف کی کہ انہوں نے چین کے مظلوم مسلمانوں کو سہولیات دی تھیں ۔ اب ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

پاکستان کی ساری قیادت غدار قرار دے دی

بہر حال اس انٹرویو میں ملک کے تمام سیاسی نظام کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ ایک ایک سیاسی پارٹی کا نام لے کر اسے دشمن کا آلہ کار یا ایجنٹ قرار دیا گیا ۔ ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو دشمن کے ہاتھ compromisedقرار دیا گیا۔رہے موجودہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی تو ان سے شکوہ یہ تھا کہ اب تک جنگ کا آغاز کیوں نہیں کیا گیا؟ اتنا اچھا موقع تھا جنگ کرنے کا۔ یہ انٹرویو سن کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

پاکستان کی ساری قیادت کو رد کرنے کے بعد زید حامد صاحب نے فرمایا کہ افغان طالبان کو فوری طور پر تسلیم کر لینا چاہیے، اور ان کے دفاتر پاکستان میں کھولنے کی اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ افغان طالبان بہت سمجھدار لوگ ہیں۔

بہر حال مسئلہ یہ تھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ اس پر ان دونوں حاذق طبیبوں کا نسخہ یہی تھا کہ پارلیمانی نظام تو ناکام ہو چکا بلکہ گل سڑ بھی گیا۔ اب وزیراعظم صاحب کے پاس یہی راستہ ہے کہ وہ فوج اور عدلیہ کو اعتماد میں لے کر ملک میں ریفرنڈم کرائیں اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا جا سکے ۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 48کی رو سے وزیرا عظم اگر کسی مسئلہ پر ریفرنڈم کی ضرورت محسوس کرے تو اس معاملہ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں بھجواتا ہے۔ اگر یہ اجلاس اس کی اجازت دے تو پارلیمنٹ ہی اس کا طریقہ طے کرتی ہے۔ اس طرح زبردستی ریفرنڈم کرانے کا آئین میں کوئی تصور نہیں ہے۔

پاکستان میں کوئی آئین نہیں ہونا چاہیے

اس انٹرویو میں ویسےتو ہر ایک کو کمال فراخ دلی سے غدار قرار دیا جا رہا تھا لیکن پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سنگین غداری ہے کیا؟

آئین کی شق 6کی رو سے جو شخص طاقت یا کسی اور غیر آئینی ذریعہ سے دستور کو منسوخ کرے یا اس کی کوشش کرے یا اس کوشش میں مدد کرے وہ سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔اس رو سے اگر کوئی غداری کا مرتکب ہو رہا ہے تو پھر یہ دونوں صاحبان ہو رہے ہیں جو غیر آئینی طریق سے دستور کو ختم کر نے کا اعلان کر رہے تھے۔اس کا اعلاج بھی ان کے پاس تھا۔ زید حامد صاحب نے کہا کہ ہمیں آئین کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آئین تو ہوتا ہی غلاموں کے لیے ہے۔ہمیں آئین کے بغیر ہی کام کرنا چاہیے۔ یعنی امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک نے ، اسی طرح ایشیا کے مختلف ممالک نے جو اپنے ممالک کے آئین بنائے وہ اس لیے بنائے تھے تاکہ اپنے آپ کو غلام رکھ سکیں۔

دراصل اس سوچ کے پیچھے تو جنرل ضیاء الحق کی ذہنیت جھلک رہی ہے کہ آئین ایک کتاب ہی تو ہے جسے مَیں جب چاہوں پھاڑ سکتا ہوں۔ اگر کسی کے خیال میں اب بھی یہ اعلانات غداری نہیں تو وہ تجویز کردہ علاج کی مزید تفصیلات سنیں۔ بغیر آئین یا دستور کے ملک کس طرح چلے گا؟ اس مسئلہ کا حل بھی زید حامد صاحب کے پاس ہے۔وہ کیا ہے ؟

پاکستان پر حملہ کرانے کی سازش

زید حامد صاحب نے فرمایا کہ اب سیاسی جماعتیں تو دشمن کی آلہ کار ہیں۔ فوج اور عدلیہ بھی Status Quoکو بدلنے پر آمادہ نہیں لگ رہیں ۔اس حالت میں عوام انتشار تو پیدا کر سکتے ہیں تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ پھر ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان پر کوئی باہر سے حملہ کرے ۔ جس طرح عراق پر ہوا ، لیبیا پر ہوا یا شام پر ہوا۔ واضح رہے ان ممالک پر بڑی طاقتوں کی فوجوں نے حملہ کیا تھا اور زید حامد صاحب کے نزدیک پاکستان میں تو غیرت نام کو نہیں رہی ۔ ان کو غیرت مند بنانے کا ایک یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ کوئی فوج پاکستان پر حملہ کر کے ان کو غیرت کے ٹیکے لگائے۔اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ ان فوج کشیوں کے بعد عراق ، شام اور لیبیا پر کیا قیامت گذر رہی ہے۔ یہ تینوں ممالک تباہ ہو چکے ہیں۔ اور یہی تجربہ زید حامد صاحب پاکستان پر کرنا چاہتے ہیں تاکہ قوم غیرت مند بنے۔آخر بلی تھیلے سے باہر آ گئی ؟ جماعت احمدیہ کی مخالفت کا نعرہ تو صرف سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ اصل منصوبہ تو یہ بیان کرنا تھا کہ اب یہی راستہ باقی ہے کہ خدانخواستہ پاکستان پر کوئی بیرونی طاقت حملہ کرے اور ملک کو محکوم بنالے۔

اگر زید حامد صاحب کا یہ اعلان پاکستان سے غداری نہیں تو کوئی ہم جیسے کم علموں کو سمجھائے کہ کیا غداری کے سینگ ہوتے ہیں؟ اس کے ساتھ زید حامد صاحب بار بار یہ دعوے بھی کرتے رہے کہ انہوں نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں خود دیکھی ہیں ۔ اسی طرح باسط صاحب نے بھارت میں سفیر کی حیثیت سےجو وزیر اعظم کو خفیہ یادداشتیں بھجوائیں وہ بھی دیکھیں۔اس موقع پر باسط صاحب سر ہلا کر اور‘‘بالکل بالکل’’ کہہ کر ان کی تصدیق بھی کر رہے تھے۔

سوال یہ ہے کہ جو شخص اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ پاکستان پر باہر سے حملہ ہونا چاہیے اور پاکستان کا آئین ختم کردینا چاہیے، اس نے غیر قانونی ذریعہ سے ان خفیہ رپورٹوں تک رسائی کس طرح حاصل کی؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

تبصرے 3

  1. میرا تعلق جماعت احمدیہ سے تو نہی ہے، لیکن یہ مضمون آپ نے بہت اچھا لکھا ہے. اتنا غیر مذہب نے نقصان نہیں پہنچایا جتنا مسلمانوں نے مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے ہیں.

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button