متفرق مضامین

موت کے اندھیروں سے زندگی تک واپسی کا سفر (قسط اول)

(ابراہیم اخلف۔واقف زندگی)

مہبطِ انوار الہٰیہ خلافتِ احمدیہ

اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے دل و جان سے پیارے حضور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی صورت میں آج ہمیں ہادی و رہ نما عطا فرمایا ہے ۔اسی طرح ہم سب بھی بحیثیت جماعت حضور کے درخت وجودکی شاخیں ہیں۔ ہماری بقا حضور سےمضبوط اورمستقل تعلق میں مضمر ہے اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح سے ذرہ برابر دوری بھی ہماری تباہی کا موجب ہوگی۔ اس بات کی بابت مجھے ‘‘حق الیقین ’’ حالیہ دنوں میں حاصل ہوا جب مجھ پر Covid-19 کا حملہ ہوا۔ میں اپنے آپ میں ان ایام کی تکالیف اور قربتِ مرگ کی کیفیات کے ناقابل فراموش تلخ تجربہ کو بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا تاہم میں کوشش کروں گا کہ قارئین کے ازدیادِ ایمان کے لیے کچھ عرض کروں۔

میں اپنے تمام احمدی بھائیوں اور بہنوں کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے مجھے اور میرے اہل خانہ کو اپنی بے لوث دعاؤں میں یاد رکھا۔ خلافت احمدیہ کی عظیم الشان نعمت کی بدولت اخوت و اتحاد کی لڑی میں پروئے ہوئے ان تمام احباب جماعت کی پُرخلوص دعاؤں کوخدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے قبولیت کا شرف عطا فرمایا جو ہمارے پیارے حضور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعاؤں کے زیرِ سایہ جاری تھیں۔ بالآخر حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اپنے مولیٰ کے حضور کی جانے والی دعائیں رنگ لائیں اور اس حی وقیوم خدا نے مجھے موت کے اندھیروں سے نکال کر زندگی کی نعمت سے ایک بار پھر سرفراز فرما دیا۔

اپنی بیماری کے دوران ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھے شدت سے احساس ہواکہ یہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں ہی تھیں جن کی بدولت خدا تعالیٰ نے اس کمزور پر رجوع برحمت ہوتے ہوئے گویا اپنی تقدیر کو بدل ڈالا اور معجزانہ رنگ میں مجھے شفا عطا فرمائی۔ گویا اس کے ارادےنے اپنا رخ بدل لیا اور اس حفیظ اور شافی خدا کی رضاؤں کی ٹھنڈی اور خوش گوار ہواؤں نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

جہاں تک میری بیماری کا تعلق ہے تو اس میں سراسر میری لاپرواہی شامل ہے اور اس کے لیے میں خود کو کافی حد تک ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔

ماضی میں مختلف مواقع پر حضورِ انور نے متعدد بار مجھےمیری صحت کے متعلق مختلف رنگ میں نصیحت بھی فرمائی۔ چنانچہ ایک موقعے پر حضور نے فرمایاتھا:

’’اخلف صاحب ، لگتا ہے آپ 3 ، 4 گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتے۔ آپ کو 6گھنٹے سونا چاہیے کیونکہ آپ کے نفس کا بھی آپ پر حق ہے۔ میں لوگوں کو عموماً زیادہ کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں لیکن جہاں تک آپ کا تعلق ہے تومیں آپ کو یہ نصیحت کروں گا کہ آپ کچھ وقت سو بھی لیا کریں۔ اپنے دفتر کے لیے صوفہ بیڈ خریدیں ، دروازہ بند کریں اور 6گھنٹے کی نیند مکمل کرنے کے لیےسہ پہر کو ایک ،آدھ گھنٹے کے لیے سو جایا کریں! ‘‘

اگرچہ اللہ کےخاص فضل سے خا کسار حضور انور کی ہدایات پر حتی المقدور عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے ، لیکن میں ان دنوں بعض مصروفیات کی بنا پر اورکسی حد تک غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر 2 ، 3 یا 4 گھنٹے سے زائد نیند نہ لے سکا اور روزانہ 18 یا 19 گھنٹے کام کرتا رہا۔ اگرچہ میرا جسم مضبوط ہے، لیکن اتنی کم نیند کے ساتھ اپنی جسمانی قوت مدافعت کو برقرار رکھنا میرے لیے ناممکن تھا۔

سَری (SURREY) کے فریملے پارک ہسپتال (FRIMLEY PARK HOSPITAL) میں داخل کیے جانے سے کچھ روز قبل میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں Covid-19کی بعض علامات پیدا ہو رہی ہیں لہٰذا میں نے خود کو مکمل طور پر الگ کر لیا۔ میرے جسم کا ہر حصہ درد سے دکھا جا رہا تھا۔ نہ مجھ میں بیٹھنے کی سکت باقی رہی، نہ ہی اٹھنے کی۔ میرا جسم تھکاوٹ سے چور ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ میرا سانس بھی پھولنے لگا۔

رات کے وقت مجھے تیز بخار ہوجاتا تھا۔ میرا پورا جسم پسینے میں ڈوب جاتا اور میں نیم بے ہوشی کی حالت محسوس کرتا اور مجھے چکر آنے لگتے۔ اسی اثنا میں میری اہلیہ ریم کی بھی طبیعت خراب ہونے لگی اور ان میں بھی کورونا وائرس سے متأثر ہونے کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔

ہم اس جسمانی مرض کا تو شکار تھے ہی مگر ذہنی طور پر بھی ہم نہایت پریشان تھے ۔طرح طرح کے خیالات ہمارے ذہنوں پر سوار تھے۔مثلاً:کیا ہم کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں؟ اور اگر ہم COVID-19 کا شکار ہیں تو مَیں کس منہ سے لوگوں کو بتاؤں گا کہ ہم اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں؟

اس پریشانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ کچھ لوگ اس وبا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی زندگی میں ظاہر ہونے والی طاعون کی بیماری کے نشان کی طرح ایک نشان سمجھنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں یہ گمان کر رکھا تھاکہ کوئی بھی سچا احمدی اس وبا میں مبتلا نہیں ہو گا۔ نیز یہ کہ جو شخص اس وبا سے متاثر ہوا، تو یقیناً وہ کمزور ایمان کا ہو گا۔

ان ایام میں ہم نے خدا کے حضور اپنی آہ و بکا پیش کیں اور التجا کی کہ ہم کورونا وائرس کا شکار نہ ہوں۔ میں نے اپنے گھر والوں سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی تھی اور گھر سے ہی جماعتی کام سر انجام دے رہا تھا۔ لیکن پھر میری بیماری نے شدت اختیار کر لی اور جمعرات کی صبح مجھے خون کی الٹیاں آنے لگیں۔ بخار بھی 40ڈگری تک پہنچ گیا۔ اور پھر میں نے بہت سی ہمت جمع کر کے اپنی اہلیہ سے کہا:

’’خواہ یہ مرض کورونا وائرس ہے یا کچھ اَور، مجھے لگتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں بچوں گا، میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔ برائے کرم ایمبولینس کو فون کریں اور صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب سے رابطہ کریں اور ان سے کہیں کہ وہ حضور انور کی خدمت میں میری صحت یابی کے لیے عاجزانہ درخواست دعا کردیں۔‘‘

اسی روز شام کو مکرم صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب نے میری اہلیہ کو آگاہ کیا کہ حضورمیرے لیے دعا کر رہے ہیں۔

مجھے فوراًہسپتال میں داخل کرلیاگیا جہاں ایکسرے اور خون کا ٹیسٹ لیا گیا ۔نیز کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے بھی میرے حلق سے swabٹیسٹ کیا گیا۔

میں نےمکرم عابد خان صاحب کو اپنی صورت حال سے آگاہ کیا، انہوں نے جوابی پیغام میں مجھے مطلع کیا کہ حضورِ انور کو اگرچہ ابھی یہ اطلاع نہیں کہ مجھے Covid-19ہو چکا ہے لیکن حضور میرے لیے دعا کر رہے ہیں نیزیہ کہ حضور نے مجھے صدقہ دینے اور مجھے اور میرے گھر کے لوگوں کو ہومیوپیتھک نسخہ استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔اس سے میری ہمت بندھی اور مجھے تسلّی ہوئی۔

اگلے روز میری بیماری میں اضافہ ہوگیا۔ میرے پھیپھڑے جواب دینے لگے جس کے باعث جسم مطلوبہ مقدار میں آکسیجن حاصل نہیں کر پا رہا تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خون سے نکالنے کی صلاحیت میں بھی کمی واقع ہوتی گئی۔ سانس کی سخت بیماریاں مجھ پر حملہ آور ہونے لگیں جن میں نمونیہ بھی شامل ہے اور اسی طرح بے چینی اور تھکاوٹ بھی بڑھتی چلی گئی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی گہری ندی میں ڈوب رہا ہوں اور موت بہت تیزی سے میرے گرد اپنا دائرہ تنگ کر رہی ہے۔

میرا بخار 40درجہ حرارت کو چھو رہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا کہ کمرہ شدید گرم ہو رہا ہے۔ میرے پوچھنے پر معلوم ہواکہ نرسیں heating بند کرنا بھول گئی تھیں جس کی وجہ سے کمرہ نسبتاً زیادہ گرم ہو رہا تھا۔ مجھے سانس لینے میں شدید دشواری کا سامنا تھا۔عام طور پر صبح فجر کے بعد کا وقت میرا پسندیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس وقت فضا میں آکسیجن بھی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔ میں نے صبح کے وقت نرس سے کھڑکی کھولنے کو کہا تو مجھے اپنے پھیپھڑوں میں آکسیجن جاتی محسوس ہوئی اور مجھے سکون حاصل ہوا۔

سکون کے اس لمحے میں مجھے خدا تعالیٰ کے حضور نہایت تضرع اور عاجزی کے ساتھ ان الفاظ میں دعا کی توفیق حاصل ہوئی کہ ‘‘اے قادر و توانا خدا ! تو نے مجھے تمام عمر ہر پریشانی اور ہر غم سے محفوظ رکھا۔ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی تیری خاطروقف کردی ہے اور بچپن سے لے کر اب تک تو میرے ساتھ رہا ہے اور میرا سہاراہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے باعث محض تیری رضا اور تیری محبت کی خاطر اپنے تمام خاندان سے علیحدگی برداشت کی ہے۔ اے میرے پروردگار! تُو ہی تو میرا محافظ تھا جب ایک بارپانچ سو کے قریب مخالفین نے مجھ پر ایک مسجد میں حملہ کر دیا تھا اور میرے احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے شدید زد و کوب کیا اورمجھے مردہ حالت میں چھوڑ گئے تھے۔ تب بھی میرے خدا! تو نے ہی مجھے نئی زندگی بخشی ۔اے میرے پروردگا ر! تو ہی تو میرا حامی و ناصر تھا جب ایک شخص نے مجھے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے اور اس کے بیٹے کو احمدی کرنے کی وجہ سے مارنے کی سازش کی تھی۔ اس شخص نے مجھ پر اینٹ سے حملہ کیا تا وہ میرا سر کچل ڈالے لیکن تو نےمجھے محفوظ رکھا اور وہ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام رہا۔

اے میرے پیارے خدا ! پھر ایک مشہور و معروف ملا ں نے تیری پیاری جماعت کے خلاف مسلسل سات جمعوں کے اجتماعات میں مغلظات بکیں اور مجھے مرتد قرار دیا۔ اور اس نے لوگوں کو میرے خلاف اکسایا ۔ اس کی نفرت انگیز تقریروں کے باعث اس کے ایک پیروکار نے اچانک ایک بُک شاپ میں مجھ پر حملہ کیا جس کے نتیجہ میں مَیں گر گیا ، اس تصادم کے نتیجے میں کتابوں کی الماریاں بھی نیچے گر گئیں۔ اُس حملہ آورنے میرے ہاتھوں کو اپنے ناخنوں سے زخمی کردیا جو چھریوں کی مانند تیز تھے نیز مجھے پتھروں سے مارنا شروع کردیا۔ آج 20 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس تشدّد کے نشان میرے ہاتھ پر موجود ہیں۔
دشمنوں کے ان تمام بد ارادوں کے باوجود اے میرے اللہ! تونے ہمیشہ مجھے بچایا۔ اے میرے اللہ! اے میرے پیارے ! بے شک میں گنہگار ہوں اور تیری محبت کا مستحق نہیں ہوں ، لیکن تو ہی رحم کرنے والا ہے ، مجھ پر رحم کر اور اس بار بھی مجھے بچا، تامیں خلافت احمدیہ کے ادنیٰ خادم کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کر سکوں اور پہلے سے بڑھ کر نیک اعمال بجا لا سکوں۔ اے اللہ! میں نے اور میرے اہل و عیال نے اپنی زندگیاں تیری خاطر وقف کردی ہیں پس ہم پر رحم فرما۔‘‘

ہسپتال میں قیام کے دوران جب بھی میں نے آنکھیں بند کیں میں نے حضورِ انور کا روشن اور خوبصورت چہرہ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود پایا اور ہمیشہ یہ خیال مجھے اپنے دامن میں سمو لیتا کہ ’’الحمدللہ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہم میں خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ اورجانشین موجود ہے جو اس دنیا کا حقیقی رہ نما اور ہادی ہے اور بس وہی ایک حقیقی عالِم ہے جس کی مٹھی میں آج تمام علوم سمو گئے ہیں، جس سے دنیا فائدہ اٹھاسکتی ہے اور درحقیقت آج اگر دنیا میں کسی وجود سے فیض حاصل کیا جا سکتا ہے تو وہ صرف حضورِ انور ہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے والد ، ماموں ، خالہ ، چچا زاد بھائی اور خاندان کے دوسرے سینکڑوں افراد کے احمدیت کی نعمت سے محروم رہنے پر بہت افسوس رہتا ہے۔

ان مشکل دنوں میں ایک عجیب بات تھی جو ہر وقت میرے دل میں میخ کی طرح گڑی رہتی کہ ابراہیم! تمہیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حضورِ انور تمہارے لیے بطور ایک رحم دل باپ کے موجود ہیں نا! چنانچہ میں جب بھی جاگتا اپنے احمدی ہونے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ۔

بیماری کے دوران اضطراب اور تکلیف کی شدّت میں مجھے یہ دعا کرنے کی بھی توفیق حاصل ہوئی کہ اے اللہ تعالیٰ! میں حضورِ انور سے بہت محبت کرتا ہوں اور میں خلافت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ خلافت کو پہچاننے اور اس کی پیروی میں ہی دنیا کی نجات وابستہ ہے۔ پس مجھے ایک نئی زندگی عطا کر تا کہ میں بھی اس پودے کی آبیاری کے لیے اپنی حقیر خدمات پیش کر سکوں جسے تو نے اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا ہے۔ اس حالت میں بھی میری صرف ایک ہی خواہش تھی :کوئی حضورِ انور کو میری طرف سے ’’السلام علیکم‘‘ عرض کر دے۔

اگلے دن بروز جمعة المبارک فجر کے وقت ایک معروف ڈاکٹر جو مغربی افریقہ میں ایبولا کی وبا کے وقت بھی خدمات سرانجام دے چکے تھے تشریف لائے اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ آپ Covid-19 میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کے علاج کی ایک ہی صورت ہے کہ آپ کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ (ICU) میں داخل کر دیا جائے۔ آپ کے جسم میں ابھی بھی کچھ طاقت ہے اس لیے یہی آپ کے لیے بہتر ہو گا کیونکہ آپ کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔

مجھے ڈاکٹر کی اس بات نے بہت پریشان کر دیا کہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ اس بیماری سے مَیں اپنی زندگی کی بازی بھی ہار سکتا ہوں۔ بہر کیف، میں بہت گھبرا گیا۔

میری اہلیہ ریم کو میری بگڑتی حالت کی اطلاع دینے کے لیے بلایا گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا حضور میرے لیے دعا کر رہے ہیں ؟ کیونکہ اس مشکل وقت میں مجھے حضور کی دعاؤں کی اشد ضرورت تھی۔
شاید آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ میری بیوی کے صرف مجھے تسلی بخش الفاظ کہنے سے کہ ’’حضور آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں‘‘ مجھے اللہ رب العزت کی طرف سے کتنا سکون اور اطمینان حاصل ہوا!میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے:

لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّاْ بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔

اے وائرس! یہ مت سمجھ کہ تُو طاقتور ہے۔ تیرے پاس نہ تو اس بات کی کوئی قوت ہے اور نہ ہی استطاعت کہ مجھے اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نقصان پہنچا سکے۔ پھر میرے دل میں یہ خیال بھی گزرا کہ جس ڈاکٹر نے یہ کہا تھا کہ میرے زندہ رہنے کے امکانات کم ہیں اسے معلوم ہونا چاہیے کہ میری زندگی اس کے ہاتھ میں ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔

مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرا جسم وائرس سے انتہائی متاثر ہو چکا ہے۔ میری بینائی اس قدر کمزور ہوچکی تھی کہ بعض اوقات مجھے بعض مخصوص رنگوں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا تھا۔

مزید علاج شروع کرنے سے قبل مجھے نیم بیہوش کر دیا گیا اور ایک نالی میری سانس کی نالی میں ڈال دی گئی تاکہ میں وینٹی لیٹر کی مدد سے سانس لے سکوں کیونکہ مجھے جتنی آکسیجن کی ضرورت تھی وہ بغیر وینٹی لیٹر کے میرے خون تک پہنچنا ناممکن تھی۔ گویا میرے جسم کی سو فیصد ضرورت میں سے اسّی فیصد آکسیجن مجھے مصنوعی طریقے سے دیا جانا ضروری ہو چکا تھا۔

ایک لمحے کے لیے ، بطور ایک واقفِ زندگی، مجھے پریشانی لاحق ہوئی کہ میری اچانک موت سے اُس کام میں کسی قسم کا عارضی خلا پیدا نہ ہوجائے جو مجھے حضور انور کی طرف سے سونپا گیا ہے۔ لیکن پھر مجھے یہ سوچ کر تسلی ہوئی کہ میرے سپرد ہر ایک کام کے لیے الگ الگ نائب مقرر تھے اورحضور انور کی ہدایات کی روشنی میں ان کی کافی حد تک ٹریننگ بھی ہو چکی تھی تاکہ وہ میری غیرموجودگی میں کام سنبھال سکیں۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنو! کتنی حیرت کی بات ہے کہ اسی دن جب حضورِ انور کو اطلاع پہنچی کہ مجھے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے، پیارے حضور نے نہایت فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے فاروق آفتاب صاحب سے فرمایا:

’’ابراہیم کو بہت پہلے آئی سی یو میں داخل کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن خیر، آپ اسے کچھ ہومیوپیتھک ادویات لا کر دیں اور یہ ہر صورت میں اس تک پہنچنی چاہئیں، چاہے اس کے ہونٹوں پر چند قطرے ہی ٹپکا دیں۔‘‘

پھر انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب حضورِ انور کو جمعے کے بعد میری صحت کی بگڑتی ہوئی حالت کے بارے میں اطلاع پہنچی تو اس کے کچھ ہی دیر بعد میری حالت جو بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی تھی سنبھلنے لگی اور میں بہتری کی طرف مائل ہونے لگا۔ یقیناً پیارے حضور نے اپنے اس گنہگار خادم کے لیے دعا ئیں کی ہوں گی! بہر کیف میری حالت بہتر ہونے لگی، sedation یعنی غنودگی کی ادویات میں کمی کی گئی اور وینٹی لیٹر سے دی جانے والی 60 فیصد آکسیجن میرے جسم کی ضرورت کے لیے کافی ٹھہری جبکہ باقی چالیس فیصد کا بوجھ میرے جسم نے خود اٹھا نا شروع کر دیا۔

ان دنوں تقریباً ہر وقت چاہے بےہوشی کا عالم ہو، یا نیم خوابی کا حیرت انگیز طور پر میرے دل میں کچھ الفاظ بڑی مضبوطی کے ساتھ موجزن رہتے کہ میں تمہارا قادر و توانا خدا ہوں(خدا کی صفتِ قھّار ذہن میں جاگزین تھی)، میں اعلیٰ و اکبر اور لوگوں کی پہنچ سے دور ہوں۔ مجھے لوگوں کی کوئی پروا نہیں (اگر وہ میری عبادت نہیں کرتے )۔ اگر وہ میری عبادت کرتے ہیں تو وہ ان کے ہی لیے بہتر ہے۔ اور اگر وہ میری عبادت نہیں کرتے تو مجھے اس کا ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا۔

ان الفاظ کا میرے اوپر اتنا اثر اور رعب اور خوف تھا کہ میں نے اپنی بیوی سے کئی مرتبہ ان کا ذکر کیا۔

اگلے روز یعنی ہفتے کو میری حالت میں بہتری پیدا ہونے کے باعث جب ڈاکٹروں نے وینٹی لیٹر کو ہٹانے کے بارے میں سوچا تو اچانک مجھے گھبراہٹ کا حملہ (panic attack) ہوگیا۔ نرس نے فوراً میرے ایک عزیز کو اطلاع دی کہ میں نے لکھ کر اس سے یہ پوچھا ہے کہ جنوب مشرق کی سمت کس طرف ہے، یعنی یہ کہ میں قبلے کا رخ جاننا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بات یاد نہیں لیکن یہ چیز ضرور میرے ذہن میں ہے کہ (آئی سی یومیں داخل رہنے کے دوران) میں اپنی نمازوں کے چھوٹنے کے بارے میں بہت پریشان تھا اور عین ممکن ہے کہ پہلے panic attack کی وجہ یہی بات بنی ہو ۔

بعد میں نرس نے میری بیوی کو بھی اس بات کی اطلاع دی۔ اس پر ریم نے اسے کہا کہ ’’برائے کرم ابراہیم کو بتائیں کہ حضورِ انور آپ کے لیے دعا کر رہےہیں اور پوری دنیا میں موجود احبابِ جماعت بھی آپ کے لیے دعا ئیں مانگ رہے ہیں۔‘‘

نرس نے یہ پیغام نوٹ کر لیا تا کہ وہ بھول نہ جائے۔ پھر اس نے میری اہلیہ سے پوچھا کہ ’’کیا میں جان سکتی ہوں کہ آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے اور آپ کے روحانی پیشوا کون ہیں؟‘‘

جب ریم نے اسے جماعت اور حضورِ انور کا تعارف کروایا تو نرس کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکلتے رہے کہ !amazing !amazing۔

پھر اتوار کے دن مجھے ایک بار پھر panic attackہوا۔ اس دوران میں مجھے سخت تیز بخار ہو گیا۔ میں نے ڈیوٹی پر موجود نرس سے درخواست کی کہ وہ میری اہلیہ سے بات کریں ، گو کہ میری یاد داشت میں یہ واقعہ بھی محفوظ نہیں لیکن تحریری شواہد اور اپنی اہلیہ کے بیان کی بنیاد سے یہ بات واضح ہوئی کہ دراصل اس وقت مجھے یہ خدشہ لاحق تھا کہ پتہ نہیں حضور میرے لیے دعا کر رہےہیں یا نہیں۔ بے ہوشی کے عالم میں میرے ذہن میں یہ سوچیں گھومتی تھیں کہ کیا حضور میرے لیے دعا کر رہے ہیں ؟ کیا حضور مجھ سے راضی ہیں؟ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حضور کی رضا میں ہی اللہ کی رضا ہے۔

ریم نے مجھے بتایا کہ نرس نے اس وقت ریم کو فون کیا اور فون کا سپیکر آن کر دیا تا کہ جو سوال میں نرس کو لکھ کر دکھا رہا تھا اس کا جواب خود ریم کے الفاظ میں سن سکوں۔ نرس میرے لکھے ہوئے سوال اس سے پوچھتی جاتی۔

میں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا:

’’کیا حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ میرے لیے دعا کر رہے ہیں؟ کیا حضور ِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں کوئی واضح ارشاد فرمایا ہے؟

میری اہلیہ نے مجھے کورونا وائرس کے بارے میں الحکم میں شائع ہونے والے حضورِ انور کےارشاد کے بارے میں بتایا اور کہا کہ حضور آپ کے لیے دُعائیں کر رہےہیں اور وہ باقاعدگی سے آپ کی طبیعت کے متعلق استفسار فرماتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ حضورِ انور نے بڑے پُراعتماد لہجے میں فرمایا ہے کہ آپ بچ جائیں گے۔ لہذا آپ ہمت سے کام لیں، آپ کو کچھ نہیں ہوگا۔

بعد میں نرس نے میری اہلیہ کو بتایا کہ اس فون کے بعد میں بہت مطمئن ہو گیا اور میری حالت بہترہونے لگی۔

ریم دراصل منیر عودہ صاحب کے بیان کردہ ایک عظیم الشان معجزے کی طرف اشارہ کررہی تھی کہ جب منیر عودہ صاحب نے حضور ِانور کو ایک ملاقات کے دوران آگاہ کیا کہ ریم بہت پریشان ہے اور حضور کی طرف سے تسلی بخش الفاظ کی منتظر ہے توجس طرح اللہ کے نبیوں اور پیغمبروں کا طریق ہے حضور انور نے کچھ توقف کیا اور دیگر دفتری معاملات کے متعلق استفسار فرماتے رہے لیکن سبحان اللہ جب منیر عودہ صاحب جانے لگے اور دروازے کے قریب پہنچے تو حضور انور نے فرمایا :

’’ریم سے کہہ دو کہ تسلّی رکھے ،ابراہیم کو کچھ نہیں ہو گا ۔ وہ صحت یاب ہو جائے گا۔‘‘

الحمدللہ اسی دن میری حالت میں زبردست بہتری آئی اور معالجین نے مجھے صحت یاب ہونے کے بعد بتایا کہ اس دن میں مسکرا رہا تھا اور دوسرے تمام مریضوں سے زیادہ بہتر نظر آتا تھا۔ تب ڈاکٹرز نے مجھے بتایا کہ عین ممکن ہے کہ جلد ہی مجھے وینٹی لیٹر سے ہٹا دیا جائے گا۔

(ترجمہ: ٹیم تراجم الفضل انٹرنیشنل)

[یہ مضمون انگریزی زبان میں پریس اینڈ میڈیا آفس کی ویب سائیٹ پرشائع کیا گیا۔ اصل مضمون کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

https://www.pressahmadiyya.com/corona/2020/04/ibrahim-ikhlaf-part1[

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button