متفرق مضامین

مختلف رکاوٹوں کے باوجود جماعت احمدیہ میں قیام نماز کے دلکش نظارے

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

انسان اپنی محبت اور وفا میں ابتلاؤں کے وقت آزمایا جاتا ہے اور یہی وقت خلوص اور عشق کے ناپنے کا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیض یافتہ عشاق اس میدان میں بھی سرخرو ہو کر نکلے۔ اور ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود قیام نماز کے لیے ایسے ایسے مظاہرے کیے جن پر آسمان بھی رشک کرتا ہو گا۔ اس بات کو غیروں نے بھی مشاہدہ کیا اور برملا اس کی گواہی دی۔

دیوان سنگھ مفتون ’’ایڈیٹر ریاست‘‘ دہلی نے تحریر فرمایا ‘‘جہاں تک اسلامی شعار کا تعلق ہے ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا مذہبی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکوٰة اور دوسرے دینی احکام کا عملی طور پر پابند ہو۔‘‘

(اخبار ریاست بحوالہ مسیح موعود اور جماعت احمدیہ انصاف پسند احباب کی نظر میں صفحہ323 مرتبہ عبدالمنان شاہد )

مشکلات اور مصائب کے سو رنگ ہیں۔ اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی۔ نفس کی روکیں بھی اور مشکلات بھی۔ مگر ان دیوانوں کا تو ہر رنگ عدیم المثال ہے۔ آئیے چند نمایاں رکاوٹیں اور ان کو پھلانگنے والوں کا نظارہ کریں۔اول تو نماز باجماعت مسجد میں ہو گی اگر یہ ممکن نہیں تو ادا ضرور ہو گی۔

بصارت سے محرومی

اندرونی مشکلات میں ایک بہت بڑی مشکل تو ظاہری بصارت سے محرومی ہے۔ جس کے نتیجہ میں آدمی مساجد کا راستہ دیکھنے سے عاری ہو جاتا ہے۔ مگر خدا والوں کی اندرونی حسیں جاگ اٹھتی ہیں اور روحانی روشنی کے نیچے چل کر وہ خدا کے گھر تک آ پہنچتے ہیں۔سب سے پہلے اس احمدی کا ذکر جوظاہری آنکھوں سے محروم تھا مگر دل کی آنکھوں سے خدا کو دیکھ چکا تھا اور آنکھیں رکھنے والوں کے لئے ایک نمونہ بن گیا۔

٭حضرت حافظ معین الدین صاحب ؓصحابی حضرت مسیح موعود ؑکو ایک عرصہ تک حضرت مسیح موعود ؑکا امام الصلوٰة ہونے کی توفیق ملی۔آپ نماز کے لیے بلانے اور اول صف میں کھڑے ہونے کے انتہائی دلدادہ تھے. آپ نابینا تھے مگر ہر حال میں نماز کے لیے اول وقت میں پہنچتے۔ اور ان کا وجود سب دوسروں کےلیے نماز کا وقت بتانے والی گھڑی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ بارش ہو، آندھی ہو، کڑکڑاتا جاڑا ہو، تیز دھوپ ہو، وہ اول وقت پر پہنچتے۔ اذان بلند کرتے اور اول صف میں جگہ پاتے۔ حتی الوسع اس مقام پرکھڑے ہوتے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ ہی جگہ ملے۔آپ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بالعموم موذن ہوتے تھے اور اگر کوئی دوسرا آدمی اذان دیتا تو انہیں ناگوار گزرتا تھا۔ نماز، نوافل اور تہجد بھی التزام سے پڑھتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد 13صفحہ290)

٭حضرت بابا کرم الٰہی صاحب نمازوں اور تہجد کے بھی پابند تھے آپ کا یہ معمول تھا کہ سب سے پہلے مسجد میں پہنچتے اور سب سے آخر میں واپس آتے اور مسجد کی فضا کو دعائوں سے معمور کر دیتے۔ وفات سے قریباً پانچ سال قبل آپ کو موتیا بند ہو گیا تھا اور آپ کی بینائی جاتی رہی تھی تا ہم وہ ایک اندازے اور دیواروں کے سہارے باقاعدہ مسجد پہنچتے۔

(گلدستہ درویشاں کے پھول۔ از فیض احمد گجراتی صفحہ44 )

٭حضرت بابا صدرالدین صاحب کی بینائی ان کی وفات سے چار پانچ سال قبل ختم ہو گئی تھی مگر وہ نورایمان کا ہاتھ تھامے مسجد میں برابر پہنچتے تھے تا آنکہ ضعف پیری نے منزل کے قریب پہنچ جانے کے باعث قدم بالکل دھیمے اور ماؤف کر دیے۔

(گلدستہ درویشاں کے پھول صفحہ4)

بیماری۔بڑھاپا

٭حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ؓکو نماز سے بے انتہا شغف تھا۔ 1905ء میں آپ کو کثرت پیشاب کی شکایت ہوگئی۔ حضرت مسیح موعود نے ان کا قارورہ منگوا کر دیکھا۔ علاج تجویز کیا اور فرمایا:‘‘آپ کے پیشاب کو دیکھ کر مجھے توحیرت ہی ہوئی کہ آپ کس طرح التزام کے ساتھ نمازوں میں آتے ہیں۔’’اس پر حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا۔ حضور کی دعا ہی ہے جو اس ہٹ اور استقلال سے میں حاضر ہوتا ہوں ورنہ بعض اوقات قریب بہ غش ہو جاتا ہوں۔ اس پر حضور نے فرمایا: ’’میں بہت دعا کروں گا ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ252 )

٭حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کوایک عرصہ دراز تک حضرت مسیح موعود کی خدمت کی توفیق ملی۔ حضرت اقدس حافظ صاحب کی التزام نماز کے بارے میں اپنی ایک تصنیف لطیف میں فرماتے ہیں:

’’…میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میت کی طرح ہو گیا تھا التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ انسان کی خدا ترسی کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے التزام نماز کو دیکھنا کافی ہے کہ کس قدر ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ جو شخص پور ے پورے اہتمام سے نماز ادا کرتا ہے اور خوف اور بیماری اور فتنہ کی حالتیں اس کو نماز سے روک نہیں سکتیں وہ بے شک خداتعالیٰ پر ایک سچا ایمان رکھتا ہے۔ مگر یہ ایمان غریبوں کو دیا گیا۔ دولتمند اس نعمت کو پانے والے بہت ہی تھوڑے ہیں‘‘

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ540)

٭حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانیؓ باقاعدگی سے تہجد اور نماز باجماعت ادا کرنے والے تھے۔ اکثر دیکھنے میں آتا کہ آپ علالت کے باوجود باجماعت تہجد اور نماز میں تشریف لاتے اور سنن ونوافل میں دیر تک مصروف رہتے۔

(اصحاب احمد جلد9صفحہ 101)

٭حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ شدید بیماری میں بھی نماز باجماعت ادا فرماتے تھے۔آخری بیماری میں ایک دن بخار کی حالت میں مسجد تشریف لے گئے۔ تھرمامیٹر لگایا گیا تو بخار 105 درجہ تھا۔ آپ کو ڈاکٹری ہدایت تھی کہ پوری طرح آرام کریں آپ کو سخت ضعف تھا مگر پھر بھی مسجد میں ضرور جاتے وفات سے کچھ دن پہلے اپنے بیٹے کے ساتھ اللہ کے گھر جا رہے تھے کہ کمزوری کی وجہ سے رستہ میں دوبار گر گئے۔

(اصحاب احمد جلد 5حصہ دوم صفحہ71)

٭حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک بار حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ کے بارے میں اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

’’نماز کے عاشق تھے، خصوصاً نماز باجماعت کے قیام کے لئے آپ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے۔ بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت مسجد میں جانے والے۔ جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہو گئے تو اذان کی آواز کو بھی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنی محبوب آواز کو۔جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آ گے کر لیتے اور نماز باجماعت ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کر لیتے۔‘‘

(اصحاب احمد جلد 12 طبع اول 1965ء صفحہ 152)

٭حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کی اہلیہ اور حضرت مسیح موعودؑ کی لخت جگر حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبؓہ کو نماز بروقت ادا کرنے کی اس قدر فکر رہتی تھی کہ ایک دفعہ آپ نے بتایا کہ آج میں نے تین چار دفعہ نماز فجر ادا کی ہے۔ چونکہ آپ کو نیند بہت کم آتی تھی اس لیے سمجھتیں کہ شاید فجر کا وقت ہو گیا ہے۔ اس لیے نماز ادا کرلیتیں۔ پھر دیکھتیں کہ صبح نہیں ہوئی شاید میں نے نماز جلدی ادا کر لی ہے۔ پھر دوبارہ نمازادا کرتیں۔ اسی طرح تین چار دفعہ نماز ادا کی۔

ایک دفعہ شدید بیمار تھیں اور تقریباً دو دن تک بےہوش رہیںہوش میں آئیں تو اتنی کمزوری تھی کہ بات نہ کر سکتی تھیں۔ہوش میں آنے پر جو پہلی چیز اشارةً طلب کی وہ پاک مٹی کی تھیلی تھی جس سے تیممکر کے آپ نمازادا کرتی تھیں۔ جب اس سے آپ نے تیممکیا تو نماز ادا کرنے کی کوشش میں دوبارہ بے ہوش ہو گئیں۔وہ لڑکیاں جو آپ کے پاس رہتی تھیں۔ انہیں نماز بر وقت ادا کرنے کی تلقین فرماتی تھیں اور ہر نماز کے وقت ہر لڑکی سے پوچھتیں کہ تم نے نماز ادا کی ہے یا نہیں۔

(دخت کرام از سید سجاد احمد صفحہ406)

٭حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نماز باجماعت کے ایسے پابند تھے کہ آخری عمر میں جب کہ چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا آپ نماز باجماعت پڑھتے تھے اور کبھی اس میں ناغہ نہیں ہوتا تھا۔مسجد مبارک سے دُور دارالعلوم میں رہتے تھے مگر نمازوں میں شمولیت کے لیے وہاں سے چل کر آتے تھے۔

(حیات ناصر صفحہ24از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)

٭حضرت ڈاکٹر سید غلام غوث صاحبؓ کا دل گویا ہر وقت مسجد میں اٹکا رہتا تھا۔آخری ایام میں جب کہ ڈاکٹروں نے انہیں چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا وہ پھر بھی داؤ لگاکر مسجد میں پہنچ جاتے تھے حتیٰ کہ انہیں بزرگوں نے اصرار کے ساتھ روکا کہ نفس کابھی انسا ن پر حق ہوتا ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد 19صفحہ580)

٭حضرت بابا شیر محمد صاحبؓ کی عمر 98؍سال کی تھی مگر وہ اس حال میں بھی ضعف اور کمزوری کے باوجود نمازوں کے لیے برابر مسجد تشریف لاتے تھے۔

٭محترم چوہدری فیض احمد صاحب حضرت بھائی شیر محمد صاحب قادیانی درویش کی نمازوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

75۔80 سال کی عمر میں مسجد مبارک کی چھت پر سیڑھیاں طے کر کے جب نماز کو جاتے تو اس بوڑھی جوانی پررشک آ جاتا۔ اور اپنی سستیوں پر شرم وندامت کا احساس بیدار ہو جاتا۔

(گلدستہ درویشان کے پھول حصہ اول صفحہ47،116)

جان کا خطرہ

بزرگوں کی روایات تو یہ ہیں کہ موت کو سامنے دیکھ کر آخری یاد اپنے مولیٰ کی ہوتی ہے۔ اور قطعاً کسی قسم کے خوف کے بغیر وہ اطمینان سے اپنے رب کے حضور سربسجود ہوتے ہیں۔حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات اور بیعت کے بعد واپس کابل جا رہے تھے کہ ایک جگہ آپ نے بنوں جانے کے لیے ٹمٹم کرائی اور اس میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے۔ احمد نور کابلی بیان کرتے ہیں کہ جب عصر کا وقت آیا تو آپ نے اتر کر نماز پڑھائی اس اثنا ء میں سخت بارش ہوئی مگر مرحوم نے کوئی پروا نہ کی اور خوب مزے سے نماز پڑھائی۔واپس اپنے علاقہ میں پہنچے تو حکومت نے گرفتار ی کا حکم دے دیا۔ اور ایک دن 50سوار آپ کو حراست میں لینے کے لیے آ گئے۔ اتنے میں عصر کا وقت ہو گیا تو مرحوم نے آگے ہو کر نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ان سواروں کے کہنے پر ان کے ساتھ ہو لیے۔ اور بالآخر شہید کر دیے گئے۔

(الفضل 15,14؍جولائی 2000 ٫)

٭حضرت مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کو 1924ء میں کابل میں شہید کر دیا گیا۔ 31؍اگست 1924ء کو پولیس نے مولوی صاحب کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا اور ہر جگہ منادی کی کہ یہ شخص آج ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقعہ پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں۔دیکھنے والوں کی شہادت ہے جس وقت آپ کو گلیوں میں پھرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے۔ گویا آپ کی موت کا فتویٰ نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی تھی۔ آخر عصر کے وقت ان کو کابل کی چھاؤنی کے میدان میں (جسے شیرپور کہا جاتا ہے ) سنگسار کرنے کے لیے لے جایا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقعہ دیا جائے۔ حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو۔چنانچہ آپ کمر تک گاڑ دیے گئے اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے پھینکا۔اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خداتعالیٰ کے راستے میں شہید ہو گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4ص477)

٭حضرت حاجی محمد الدین صاحب تہالویؓ 1886ء میں پیدا ہوئے۔ 1903ء میں حضرت مسیح موعود ؑکے سفر جہلم کے موقع پر پہلی بار زیارت سے فیضیاب ہوئے اور فوراً بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس پربعض شر پسندوں نے آپ کوقتل کی دھمکیاں بھی دیں اور بعد میں گاؤں جانے پر آپ کو بہت سے مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک بار قریبی بارہ دیہات سے لوگ اس نیت سے اکٹھے ہو گئے کہ آپ کو قتل کردیں گے۔ آپ نے ان سے کہا کہ اگر مارنے ہی آئے ہو تو میں دو نفل نماز پڑھ کردعا کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ قریبی مسجد میں چلے گئے اور اس طرح دعا میں مشغول ہوئے کہ وقت گزرنے کا احساس نہ رہا۔ باہر لوگوں نے سمجھا کہ آپ ڈر گئے ہیں۔ جب کافی دیر کے بعد آپ باہر نکلے تو ایک گھڑ سوار آتا دکھائی دیا اور للکار کربولا کہ کوئی اس شخص کو ہاتھ نہ لگائے۔ اس شخص کا دبدبہ اتنا تھا کہ مجمع منتشر ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ آپ بتایا کرتے تھے کہ میں دعوت الی اللہ کے لیے کئی دیہات میں گیا ہوں لیکن اس نوجوان کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔

(الفضل انٹرنیشنل 6؍اپریل 2001ء)

٭حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانیؓ ہندوؤں سے احمدی ہوئے تھے۔ آپ قادیان آ ئے مگر آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعوؑد سے واپس بھیجنے کا وعدہ کر کے بھائی جی کو ساتھ لے گئے۔ گھر جا کر آپ پر بہت سختیاں کیں اور ادائیگی نماز سے بھی روکا گیا چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں:

’’ایک زمانے میں مجھے فرائض کی ادائیگی تک سے محروم کرنے کی کوششیں کی جاتیں…… اس زمانہ میں بعض اوقات کئی کئی نمازیں ملا کر یا اشاروں سے پڑھتا تھا۔ ایک روز علی الصبح میں گھر سے باہر قضائے حاجت کے بہانے سے گیا۔ گیہوں کے کھیت کے اندر وضو کر کے نماز پڑھ رہا تھاکہ ایک شخص کدال لئے میرے سر پر کھڑا رہا۔ نماز کے اندر تو یہی خیال تھا کہ کوئی دشمن ہے جو جان لینے کے لئے آیا ہے۔ لہٰذا میں نے نماز کو معمول سے لمبا کر دیا اور آخری نماز سمجھ کر دعائوں میں لگا رہا۔ مگر سلام پھیرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ایک مزدور تھا کشمیری قوم کا۔ جو مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور جب میں نماز سے فارغ ہوا تو نہایت محبت اور خوشی کے جوش میں مجھ سے پوچھا۔ منشی جی! کیا یہ پکی بات ہے کہ آپ مسلمان ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام پر قائم ہوں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں میرے لئے گواہ بنا کر بھیجا ہے اور کم از کم تم میرے اسلام کے شاہد رہو گے۔

(اصحاب احمد جلد 9صفحہ64)

٭چوہدری حبیب اللہ صاحب شہید آف چک حسن ارائیں کا آخری عمل وضو اور نماز تھا۔اپنے گاؤں سے قریبی قصبہ‘‘قبولہ’’ میں آپ کا بک ڈپوتھا اور آپ قبولہ جماعت کے امام الصلوٰةمقرر تھے۔آپ معمول کی نمازیں اور نماز جمعہ قبولہ میں ہی ادا کرتے تھے۔13؍جون 1969ء کو جب آپ قبولہ میں نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد واپس گاؤں میں آئے تو ان کی اہلیہ نے کہا آج زمین پر نہ جانا۔ میں نے سنا ہے کہ مخالفوں نے آپ سے لڑائی کا پروگرام بنایا ہوا ہے۔ مگر آپ نے کہاجب میں نہیں لڑوں گا تو وہ خواہ مخواہ کیسے لڑیں گے۔ چنانچہ آپ خالی ہاتھ اپنی زمینوں کی طرف چل پڑے۔جمعہ کے روز پانی لگانے کی ان کی باری تھی مگر آپ کے ایک بہنوئی نے ان کا پانی اپنی زمینوں کو لگالیا۔ آپ نے جا کر دیکھا تو اپنے ایک مزارع کو جو برہم ہو رہا تھا کہا‘‘یہ بھی تو اپنے ہی کھیت ہیں، انہیں پانی لگادو’’ پھر خود وہیں نالے پر وضو کر نے لگ گئے۔ نماز عصر کا وقت ہو گیا تھا۔ ابھی وضو کر کے واپس کھیتوں میں جا رہے تھے کہ ان کے چچا زاد اور چند دوسرے مخالف للکارتے ہوئے لاٹھیوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے۔آپ چونکہ گتکے کے ماہر تھے اس لیے ان سے ہی ایک لاٹھی چھین کر اپنا دفاع کرنے لگے۔آپ کے ایک بہنوئی نے جب یہ دیکھا تو وہ برچھی سے ان پر حملہ آور ہوا۔ برچھی آپ کے پیٹ میں لگی۔ اس دوران جب کہ آپ کے ایک کزن جو آپ کی مدد کو آئے تھے انہیں بھی برچھی لگی۔ اس دوران جب کہ آپ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑے تھے۔ گائوں سے آپ کی برادری کی ایک منافق عورت جو گائوں میں نیک بی بی کے نام سے مشہور تھی دودھ کا گلا س لائی او رمرحوم کے منہ سے لگا دیا کہ پی لو۔ مرحوم نے اس دودھ کے چند گھونٹ پی لیے۔ آپ کو ہسپتال پہنچانے کے لیے لوگ اٹھا کر شہر کی طرف لے جا رہے تھے کہ آپ رستہ میں ہی شہید ہو گئے۔ … آپ کی عمر اکتیس سال تھی۔

(رونامہ الفضل 21؍جون 1999ء)

٭میجر منیر احمد صاحب شہید جماعت کے قابل فخر سپوت تھے 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پرمسلسل دو دن اور دو راتیں دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ 21؍ستمبر کو دشمن کی طرف سے گولہ باری تھمی تو انہیں ہدایت ملی کہ وہ پیچھے مورچوں میں جا کر آرام کرلیں میجر منیر احمد بادل نخواستہ اپنے مورچے سے نکلے اور مورچے کے قریب ہی نماز عشاء کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے۔ ابھی وہ نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ دشمن کی طرف سے گولہ باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور میجرمنیر احمد دشمن کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے۔

(الفضل 7؍نومبر 1965ء)

گھٹیالیاں کے نمازی

30؍اکتوبر 2000ء کو گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں فجر کی نماز کے بعد فائرنگ کی گئی جس میں 5؍احمدی شہید اور کئی زخمی ہو گئے یہ سب نماز پنجگانہ کے عادی تھی۔ ان میں سے محترم عطاء اللہ صاحب نے پہلے مسجد میں ہی نماز تہجد ادا کی اور پھر فجر کی نماز میں شامل ہوئے۔ 16سالہ شہزاد احمد نے نماز کے لیے اپنے تین چھوٹے بھائیو ں کو اٹھایا اور نما ز پر لے کر گیا۔ 70؍سالہ نصیر احمد صاحب جو شدید زخمی ہوئے نماز کے بہت پابندتھے اور صبح کی نماز کبھی نہیں چھوڑی۔ دیگر نماز یں بھی بروقت مسجد میں ادا کرتے تھے۔ان سب خوش نصیبوں کو مسجد میں نماز کے بعد دہشت گردی کانشانہ بنایا گیا۔

(الفضل 13؍نومبر2000ء)

گھٹا لہو کی جو گھٹیالیاں سے آئی ہے

وہ ساتھ قصے بھی حبل متیں کے لائی ہے

وہ سرزمین چونڈہ چک سکندر ہو

ہر اک مقام پہ رسم وفا نبھائی ہے

تخت ہزارہ کے جانثار

10؍نومبر 2000ء کو تخت ہزارہ ضلع سرگودھا کی احمدیہ مسجد میں پانچ احمدیوں کو شہید کر دیا گیا۔عشاء کی نماز کے بعد اڑھائی سو افراد اسلحہ اور ڈنڈے لے کر پہنچ گئے۔ پہلے مسجد کی دیوار گرائی پھر اندر گھس گئے، چھت پرچڑھ گئے احمدی خواتین کو تو بڑی مشکل سے گھروں میں بھیج دیا گیا مگر 5احمدیوں کو بڑے ظالمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا۔

(الفضل 13؍دسمبر 2000ء)

یہ تارے تخت ہزارے کے چمکیں گے روز محشر تک

اس خاور سے جو ابھرے ہیں پہنچیں گے دوسرے خاور تک

وہ مر بھی گئے اور جی بھی گئے زخموں کو ہمارے سی بھی گئے

جو آب حیات وہ پی بھی گئے کب تیری نگہ اس ساغر تک

کاروبار اور ملازمت

کاروبار، ملازمت، روزی اور دنیاوی فرائض نماز کی راہ میں ایک بہت بڑی روک ہیں مگر اللہ والے تو ان کو خاطر میں نہیں لاتے۔

٭حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ دفتری اوقات میں نماز کےلیے جاتے تھے۔ہندو اور سکھ کلرکوں نے اس کی شکایت کر دی۔ بڑے افسر نے بلا کر سمجھایا مگر آپ نے فرمایا میں نماز ضرور پڑھوں گا اور اگر آپ کو یہ بات ناگوار ہے تو میں ملازمت سے استعفیٰ دیتا ہوں چنانچہ آپ نے اس نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔

(اصحاب احمد جلد 3صفحہ68)

٭محترم چوہدری رشید احمد صاحب جو سالہاسال حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ کی اراضی کے مینیجر رہے حضرت نواب صاحب کے بارے میں سناتے ہیں:

ابتداء میں جب آپ نے سندھ میں اراضی حاصل کی تو میرے بھائی محمد اکرم صاحب اور میں آپ کے ساتھ بنگلہ یوسف ڈھری نزد محمود آباد فارم میں مقیم تھے۔ ہندو ایس ڈی او (S.D.O) وہاں آیا ہوا تھا اور اراضی کے تعلق میں نواب صاحب اس کے محتاج تھے لیکن نواب صاحب وقت پر ادائیگی نماز کے پابند تھے۔ عین اس وقت جب کہ ضروری گفتگو ہو رہی تھی ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور آپ کے ارشاد پر اذان دی گئی اور آپ اٹھ کر نماز کے لئے چلے آئے۔

(اصحاب احمد جلد 12بار اول 1965ءصفحہ172)

٭حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کو ایک دفعہ ملکہ میری نے ونڈسر کے محل میں مدعو کیا۔گفتگو جاری تھی کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ قاعدہ کے مطابق جب تک ملکہ ملاقات ختم نہ کرے اس وقت تک ملاقاتی اشارةً بھی ملاقات کے اختتام کی کوشش نہیں کر سکتا تھا۔ مگر چوہدری صاحب نماز ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔اسی سوچ میں آپ کے چہرے پرفکر کے آثار نمودار ہو گئے۔ ملکہ نے سمجھ لیا کہ کوئی بوجھ والی بات ہے۔ اس نے پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میری نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ اس پرملکہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ہدایت کی کہ چوہدری صاحب کی نمازوں کے اوقات نوٹ کر لیے جائیں اور اگر دوران ملاقات نماز کا وقت آ جائے تو فوراً بتا دیا جائے۔

(ماہنامہ خالد دسمبر 1985ء صفحہ1989ء)

٭سویڈن کے ایک نواحمدی محمود ارکسن کو جب ضروری فوجی تعلیم کے لیے فوج میں داخل ہونا پڑا تو انہوں نے براہ راست بادشاہ سے نماز کو صحیح اوقات پر ادا کرنے کے لیے رخصت کی درخواست کی جسے منظور کر لیا گیا۔ یہ سویڈن کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد 18صفحہ485)

٭مکرم غلام احمد چشتی صاحب معلم وقف جدید وقف سے پہلے فوج میں تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں شرکت کی۔ جنگ کے اختتام پر آپ کو فارغ کر دیا گیا اور ان کے افسر نے لکھا کہ اس نوجوان کے دماغ میں کوئی عارضہ ہے جس کی وجہ سے یہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرتا ہے اور روتا ہے۔

(الفضل ربوہ 30؍ستمبر 2000ء صفحہ7)

٭حضرت شیخ محمد شفیع صاحب بھیرہ کے رہنے والے اور محکمہ نہر میں ضلعدار تھے۔ ایک دن مہتمم نہر نے جو ہندو تھا آپ کو کسی کام کے لیے بلا بھیجا۔ جمعہ کی نماز کا وقت تھا آپ نے جواب بھجوایا کہ میں نماز کے وقت میں نہیں آ سکتا۔مہتمم نے سپرنٹنڈنٹ انجینئر سے شکایت کر دی کہ حکم عدولی کا مرتکب ہوا ہے۔آپ نے جواب میں فرمایا کہ نماز جمعہ کا وقت تھا اور اس اہم مذہبی فریضہ کے رہ جانے کا اندیشہ تھا۔یہ جواب اس شان اور توکل سے دیا گیا کہ افسر نے اس ہندو سے باز پرس کی اور نماز جمعہ کےلیے مسلمان ملازمین کی خاطر ایک گھنٹہ کی مستقل رخصت محکمہ سے منظور کرا دی۔

(بھیر ہ کی تاریخ احمدیت صفحہ 89 فضل الرحمان بسمل 1972ء)

٭حضرت خواجہ محمد دین صاحب بٹ ولد حسن محمدصاحب بٹ بہت نیک، متقی او رپرہیز گار بزرگ تھے۔ قادیان میں سبزی کی دوکان تھی۔یہ ایک ایسا کاروبار ہے جس کا پھیلائو زیادہ ہونے کی وجہ سے دکان بار بار بند نہیں کی جا سکتی۔ مگر حضرت خواجہ صاحب دکان کھلی چھوڑ کر نماز با جماعت کے لیے مسجد چلے جاتے تھے۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ361)

٭مکرم شیخ خورشید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ خدا بخش صاحب درویش قادیان کے ریلوے سٹیشن کے قلی تھے۔ ان کے دو ہی شوق تھے ایک یہ کہ نماز باجماعت اد اکرنی ہے اور حتی الوسع یہ نماز مسجد مبارک قادیان میں ادا کرنی ہے جو ریلوے سٹیشن سے کافی دور تھی۔مجھے علم نہیں کہ ان کے پاس کوئی گھڑی تھی یا نہیں مگر نمازوں کے اوقات کا انہیں علم تھا۔ جب نماز کا وقت قریب ہوتا تو وہ کسی سواری کا سامان نہیں اٹھاتے تھے اور بھاگم بھاگ مسجد کا رخ کرتے۔

دوسرا شوق انہیں یہ تھا کہ مسجد مبارک میں اس مقام پرکھڑے ہو کر نفل ادا کرنے ہیں جہاں حضرت مسیح موعودؑ کھڑے ہو کر نمازادا کیا کرتے تھے۔ اگر وہ جگہ خالی نہ ہوتی تو نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد وہ پچھلی صف میں بیٹھ کر انتظار کرتے اور جونہی وہ جگہ خالی ہوتی تو فوراً وہاں چلے جاتے اور عین اسی جگہ کھڑے ہو کر سنتیں اور نفل ادا کرتے جہاں حضرت مسیح موعودؑ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ بس یہی دو شوق ان کے تھے جسے وہ حتی الامکان پور اکرنے کی کوشش کرتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد انہوں نے درویشان قادیان میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔

(الفضل انٹرنیشنل 17؍اگست 2001ء)

٭مکرم عبدالحلیم سحر صاحب بیان کرتے ہیں:

اباجی اور تایا جان (قریشی عبدالغنی صاحب مرحوم قریشی فضل حق صاحب مرحوم) دونوں گولبازار میں اکٹھی دکان کرتے تھے۔ یہ دونوں بھائی نمازوں کے اوقات کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ایک دن نماز عصر میں تقریباً چار یا پانچ منٹ باقی تھے دکان پر سودا خریدنے تین چار خواتین آئیں اباجی دکان بند کرنے کی تیاری کر رہے تھے انہوں نے خواتین سے کہا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اب سودا نماز کے بعد ملے گا۔ خواتین نے کہا کہ قریشی صاحب ابھی دے دیں ہم انتظار نہیں کر سکتیں اباجی نے کہا کہ نہیں پہلے نماز پھر کاروبار۔ عورتوں نے کہا کہ قریشی صاحب 50,40 روپے کا سامان خریدنا ہے۔(اس وقت اتنے روپوں کی بہت اہمیت تھی) خواتین نے کہا کہ سامان ہمیں دے دیں ورنہ ہم کسی اور سے خرید لیں گی آپ (اباجی) نے کہا کہ کسی اور سے خرید لیں بہت اچھا ہے۔ میں نے اباجی سے کہا کہ ابھی پانچ منٹ ہیں سودا دے دیں انہوں نے کہا کہ رازق اللہ ہے اس کی عبادت پہلے کاروبار بعد میں غرض دکان بند کی اور مسجد میں چلے گئے چہرے پر اطمینان اور بے غرضی تھی۔ جب نماز کے بعد دکان کھولی تو دو یا تین منٹ بعد ایک گاہک آیا اور 460 روپے کا سودا خریدا اور چلا گیا۔ اباجان نے مجھے مخاطب ہو کرکہا کہ بیٹا دیکھا میرے خدا نے مجھے کئی گنا زیادہ عطا کر دیا ہے یہ حیران کن واقعہ تھا کیونکہ اس زمانے میں دکان کی کل سیل 400 یا 500 روپے دن میں ہوتی تھی یہ تھے وہ خدا کے پیارے بندے جو صرف اور صرف اس پر توکل کرتے اور عبادت کے وقت خواہ کتنا نقصان ہو جائے مسجد کی طرف دوڑتے تھے خاکسار کا ایمان او ر توکل اس واقعہ کے بعد اور مضبوط ہو گیا۔

(الفضل 6؍دسمبر 1999ء)

٭گیمبیا کے ایک مخلص احمدی غوث کجیرا صاحب نمازیں مسجد میں آ کرباجماعت اد کرتے تھے حالانکہ دھان کے کھیت میں جہاں وہ کام کرتے تھے مسجد سے دو میل سے زائد فاصلہ پر دریاکے دوسرے کنارے پر واقع تھا۔انہیں اکثر بخار رہتا تھا جو بگڑتے بگڑتے میعادی شکل اختیار کر گیا وہ باوجود طبیعت ناساز ہونے کے باقاعدگی سے مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں مسجد میں آ کر ادا کرتے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 12؍دسمبر 1997ء)

٭حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1988ء میں تحریک فرمائی کہ یورپ کے احمدی نماز جمعہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور اگر ان کے مالکان اور اداروں کے سربراہان جمعہ پڑھنے کے لیے وقت نہ دیں تو احمدی ایسی نوکریاں چھوڑ دیں۔حضور ؒکے ارشاد پر احمدیوں نے والہانہ انداز سے لبیک کہا۔ کئی ایک نے نوکریوں سے استعفے دے دیے اکثر کو خدا نے پہلے سے بہتر روزگار عطا کیا۔ مگر بعضوں کو شدید مشکلات سے بھی گزرنا پڑا۔ جس کا وہ دیوانہ وار مقابلہ کرتے رہے۔

سفرکی رکاوٹ

سفر تو عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ اپنے ماحول ، حالات اور سہولتوں سے دور مسافر اکثر حالتوں میں بے یارومددگار ہوتا ہے اسی لیے تو اسے قبولیت دعا کی بشارت دی گئی ہے مگر ان مسافروں کے کیا کہنے جو فرائض تو ادا کرتے ہی ہیں نوافل کی عادت پربھی آنچ نہیں آنے دیتے۔

٭حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ کے متعلق میاں عطاءاللہ صاحب بیان کرتے ہیں : مرحوم باقاعدگی سے نماز تہجد پڑھتے تھے۔ شاید ہی کبھی نماز قضا ہوتی ہو۔ ایک دفعہ مرحوم موضع سلوہ میں دعوت الی اللہ کے لیے گئے اور اس عاجز کو بھی ساتھ لے گئے رات کو دوبجے تک گفتگو ہوتی رہی۔ ہم بستروں پر کوئی اڑھائی بجے لیٹے۔ کوئی تین سوا تین بجے کروٹ بدلتے وقت میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حاجی صاحب تہجد پڑھ رہے تھے۔ پھر صبح کی نماز کے لیے بھی مرحوم سب سے پہلے جاگنے والوں میں سے تھے۔ نیز ضحی اور اشراق کے نوافل بھی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد 10صفحہ125)

مخصوص آواز

٭حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ کے متعلق آپ کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں:

ایک دفعہ سفر کراچی میں آپ کے ہم راہ تھا ان دنوں یہ سفر دو راتوں اور ایک دن میں طے ہوتا تھا۔ رات کو آپ نے مجھے نچلے برتھ پر سلا دیااور خو د اوپر والے برتھ پر سوئے رات کے آخری حصہ میں مجھے ایک مخصوص آواز نے جگا دیا میں نے اوپر کی طرف جھانکا تو آپ کو حسب معمول اپنے رب کے حضور نماز تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف پایا۔

(الفضل 25؍جنوری 1984 ٫)

٭پاکستان کے مشہور ادیب نقاد اور مورخ رئیس احمد جعفری حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:

چوہدری صاحب اس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جسے عام طور پر کافر بلکہ گمراہ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ گمراہ اور کافر شخص بغیر شرمائے ہوئے داڑھی رکھتا ہے۔ اور اقوام متحدہ کے جلسوں میں علی الاعلان نماز پڑھتا ہے۔ جھمپیر کا قیامت خیز ریلوے حادثہ جب رونما ہوا تو یہ شخص اپنے سیلون میں فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔

(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر 1985 ٫ صفحہ13)

٭چوہدری صاحب کی پابندیٔ نماز کی گواہی سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست نے بھی دی و ہ لکھتے ہیں آپ (دینی) شعار کے سختی سے پابند ہیں کبھی بھی نماز کو قضا نہیں ہونے دیتے۔ اور آپ کی کوٹھی پر جب بھی نماز ہو تو نماز پڑھانے کے فرائض آپ کے ایک باورچی ادا کرتے ہیں یعنی اپنے باورچی کی امامت میں نماز پڑھتے ہیں۔

(اخبار ریاست دہلی 28؍مئی 1956 ٫ بحوالہ اصحاب احمد جلد 11صفحہ191)

٭حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے متعلق ایک مربی صاحب بیان کرتے ہیں :

حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب باقاعدگی سے نماز تہجد ادا فرماتے تھے جو ہم نوجوانوں کے لئے اس سلسلہ میں بہترین نمونہ تھے۔ جب میں لائل پور میں مربی سلسلہ تھا تو آپ میرے پاس بھی تشریف لایا کرتے تھے۔ایک رات ہم آدھی رات سے بھی زائد عرصہ تک باتیں کرتے رہے۔ پھر ہم سو گئے۔ میں نے دل میں گمان کیا کہ آج مولانا صاحب نماز تہجد کے لئے نہیں اٹھ سکیں گے۔مگر جب تہجد کے وقت میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ آپ بڑی رقت سے نماز تہجد اد ا کر رہے ہیں۔

(ابوالعطا جالندھری مولفہ محمد افضل ظفر صاحب صفحہ247)

٭مکرم محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ محترم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:

حضرت مولوی صاحب تہجد گزار تھے۔ سفر ہو یا حضر میں نے کبھی بھی آپ کو ناغہ کرتے نہیں دیکھا۔ رات کے وقت جلدی سونے کے عادی تھے۔ بعض اوقات جماعتی مصروفیات یا میٹنگز وغیرہ کی وجہ سے رات کو دیر تک جاگنا پڑتا۔ پھر بھی کوشش کرتے کہ فارغ ہوتے ہی سونے کے لئے چلے جائیں تا کہ اگلے دن تہجد کے لئے بیدار ہو سکیں۔

(ہفت روزہ بدر قادیان مئی 2001ء)

٭محترم قریشی نورالحق تنویر صاحب اعلیٰ تعلیم کے لیے مصر گئے ۔ وہاں بھی نماز تہجد کا التزام رکھا۔ ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ قاہرہ میں اپنے چھ سالہ قیام کے دوران ایک روز بھی ڈائری لکھنے کا ناغہ نہ کیا اور تقریباً ہرروز کی ڈائری کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا کہ الحمد للہ آج بروقت تہجد کے وقت آنکھ کھل گئی۔

(الفضل 21؍جون 2001ء)

دوری اور موسم کی شدت

مسجد سے فاصلہ، دوری خصوصاً جب کہ موسم بھی شدید گرم یا سرد ہو نماز کی راہ میں ایک بڑی مشکل پیدا کرتا ہے مگر سچا عشق تو اسی وقت پرکھا جاتا ہے۔

٭حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کے نماز پڑھنے کی عجیب شان تھی نماز میں اس طرح کھڑے ہوتے کہ دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو جاتے حتی الامکان مسجد مبارک میں نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھ کر آتے کھانا کھاتے وضو کرتے اور پھر نماز کے لیے چلے جاتے اس معمول میں گرمی سردی بارش بادل آندھی بیماری کوئی چیز حائل نہ ہو سکتی تھی۔ گھنٹوں خدا کے حضور خشوع وخضوع سے کھڑے رہتے وضو اتنے اطمینان اور توجہ سے کرتے کہ دوسرے آدمی اس دوران دس دفعہ وضو کر کے فارغ ہو جائیں۔

(سیرت شیر علی صفحہ80-81 از ملک نذیر احمد صاحب ربوہ 1955ء)

٭مکرم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی حضرت مولانا شیر علی صاحب ؓکے بارہ میں لکھتے ہیں:

’’ایک دفعہ مجھے مولوی شیرعلی صاحبؓ کی رفاقت میں نماز کے لئے مسجد مبارک میں جانے کا موقع ملا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو نماز ختم ہو چکی تھی۔ چنانچہ آپ مجھے اپنے ہمراہ لئے مسجد اقصیٰ تشریف لے گئے لیکن وہاں بھی اتفاق سے نماز ختم ہو چکی تھی۔ اب حضرت مولوی صاحب مجھے ساتھ لے کر مسجد فضل (جو ارائیاں محلہ میں تھی) کی طرف چل پڑے۔ وہاں پہنچے تو نماز کھڑی تھی۔ چنانچہ ہم نے نماز باجماعت اد اکی۔ اس طرح مجھے حضرت مولوی صاحب کے نماز باجماعت ادا کرنے کے شوق سے روحانی طور پر ایک خاص لذت محسوس ہوئی ا ور یہ سبق بھی کہ حتی الامکان نماز باجماعت ادا کی جائے‘‘

(سیرت حضرت مولانا شیر علی ؓ صفحہ263)

٭حضرت چوہدری امین اللہ خان صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ رات کو قادیان میں اپنے محلہ کی مسجد میں بعد نماز عشاء تراویح ادا کرتے۔ اور سحری سے پہلے نماز تہجد کے لیے مسجد مبارک پیدل چل کر جاتے اور پھر گھر پہنچ کر روزہ رکھتے۔

(روزنامہ الفضل 12؍دسمبر 2002ء صفحہ3)

٭حضرت میاں امام دین صاحب پٹواری ؓ اور ان کی بیوی دونوں کا طریق تھا کہ جمعہ کی خاطر بلاناغہ قلعہ درشن سنگھ ضلع گورداسپور سے قادیان پہنچتے جو بٹالہ سے چار میل آ گے ہے۔ جمعہ کو صبح پیدل چل کر قادیان آتے اور جمعہ کے بعد پیدل واپس جاتے سخت سردی اور گرمی کی کوئی پروا نہ کرتے۔ قادیان ہجرت کر کے آنے تک دونوں کا یہی طریق رہا۔

(اصحاب احمد جلد اول صفحہ103)

٭حضرت منشی زین العابدین صاحبؓ جمعہ اور عیدین قادیان میں ادا کرتے تھے۔ سردی ہو گرمی ہو بارش یا آندھی آپ کے اس معمول میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔

(اصحاب احمد جلد 13صفحہ102)

٭حضرت شیخ برکت علی صاحب اور ان کی اہلیہ حضرت اللہ رکھی صاحبہ بالعموم اپنے گاؤں نواں پنڈ سے آ کر جمعہ کی نماز قادیان پڑھتے تھے۔

(اصحاب احمد جلد 13صفحہ91)

٭حضرت منشی محمداسماعیل صاحبؓ کے متعلق حضرت ملک غلام فرید صاحب گواہی دیتے ہیں:

میں اپنے کئی سالوں کے مشاہدہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ حضرت منشی صاحب تہجد کی نماز ایسی ہی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے جیسی دوسری پانچ نمازیں ، موسم کی کوئی حالت ، ان کی بیماری کوئی چیز ان کی تہجد کی نماز میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی تھی ایسے بہت ہی کم لوگ ہوں گے جنہوں نے سالہاسال تک بغیر کسی ناغہ کے نماز تہجد پڑھی ہو۔ حضرت منشی صاحب ان چند لوگوں میں سے تھے۔

(اصحاب احمد جلد اول صفحہ201)

٭حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ پانچوں نمازیں مسجد مبارک قادیان میں ادا فرماتے تھے۔ بارش ہو یا آندھی ہو اندھیری رات ہو یا سخت دھوپ، جلسہ ہو یا جلوس، مشاعرہ ہو یا مناظرہ ، عام تعطیل ہو یا خاص، آپ نماز کھڑی ہونے سے پہلے اپنے مقررہ وقت پر اپنی مقررہ جگہ پر موجود ہوتے تھے۔ آپ کی نمازوں میں جو خشوع وخضوع ہوتا تھا اسے وہی لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جو اس کوچہ یار ازل سے کچھ آشنائی رکھتے ہیں۔

(اصحاب احمد جلد 5حصہ سوم صفحہ175)

٭ مکرم ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب قلعہ کالروالہ صوم وصلوٰةاور نماز تہجد کے پابند تھے جب بجلی نہیں ہوتی تھی تو آدھی رات کے بعد مسجد میں آتے جہاں کنواں تھا۔پانی کنویں سے نکال کر ٹوٹیاں بھر دیتے اور پھر نماز تہجد ادا کرتے تھے۔

(الفضل 2؍دسمبر 2002ء صفحہ6)

٭حضرت چوہدری محمد حسین صاحب (والد ڈاکٹر عبد السلام صاحب) نے خود بھی تاریکیوں میں عبادت کا چراغ روشن کیا اور اپنی اولاد کی بھی یہی تربیت فرمائی۔ چنانچہ جس زمانہ میں آپ ملتان میں قیام پذیر تھے۔ جماعت احمدیہ کی سخت مخالفت تھی اور دشمن جماعت کی مسجد کو چھین لینا چاہتے تھے۔ایسے نازک وقت میں جب کہ کئی لوگ گھبرا جاتے ہیں حضرت چوہدری صاحب ایک نڈر پہلوان کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک میل کی مسافت طے کروا کر بلا خوف وخطر تنگ گلیوں سے گزر کر اسی مسجد میں نماز کے لیے آتے تھے اور خصوصیت سے عشاء اور فجر کی نماز یں ادا کرتے تھے گویا اپنی اور اپنی اولاد کی قربانی نماز کی خاطر روز اپنے مولیٰ کے حضور پیش کر دیتے تھے۔ آپ ملتان کی جھلسا دینے والی گرمی میںروزہ رکھ کر دو اڑھائی میل سائیکل چلا کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے جایا کرتے تھے۔ اور واپسی پر گرمی اور پیاس کی وجہ سے حالت غیر ہوتی تھی۔

(سوانح محمد حسین صفحہ240و247 از شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی محمد احمد اکیڈمی لاہور 1974ء)

٭محترم ماسٹر نذیر احمد صاحب بگھیو شہید سخت گرمی میں بھی تراویح کی نماز ادا کرنے کے لیے گھر سے مسجد تک جو کافی فاصلہ پر تھی پیدل جایا کرتے تھے۔

(الفضل 17؍اکتوبر 1998ء)

٭سیرالیون کے ایک احمدی الحاج پاسعید دنگورا نمازباجماعت کے علاوہ تہجد گزاری میں بھی ایک نمونہ تھے۔ باوجود گھر دور ہونے کے صبح کی نماز سے پہلے مسجد سب سے پہلے پہنچ کر نماز کےلیے ایسی بلند اور سریلی ندا بلند کرتے کہ سارا علاقہ گونج اٹھتا تھا۔ او ران کا نام بلال احمدیت مشہور ہو گیا تھا۔

( روح پرور یادیں صفحہ515)

٭حافظ قدرت اللہ صاحب سابق انچارج ہالینڈ مشن تحریر فرماتے ہیں:

’’ہمارے نوجوانوں میں بعض نہایت اخلاص کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جماعتی کاموں میں نہایت شوق سے حصہ لیتے ہیں اور اپنا بہت سا وقت اس کے لئے قربان کرتے ہیں۔بعض دوستوں کے گھر ہیگ سے خاصے فاصلے پر ہیں مگر اس کے باوجود مسجد میں التزام سے آتے ہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ214)

اقرباء کی محبت

انسان کی جذباتی کیفیات، اس کی بیوی ، بچے، عزیز ، دوست بڑی آسانی کے ساتھ نماز کی راہ میں روک پیدا کر دیتے ہیں مگر جن کی پہلی محبت ان کا خدا ہو ان کا نمونہ اور ہے۔

٭حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب کی ادائیگی نماز باجماعت کا تذکرہ مولوی سلیم اللہ صاحب یوں کرتے ہیں:

مجھے 1911ء سے 1927ء تک قادیان میں قیام کاموقع ملا۔آپ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا۔ آپ کو نماز باجماعت کا جس قدر احساس تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ اذان نماز ہو گئی۔ آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پرہاتھ پھیرا اور اسے سپرد خدا کر کے مسجد چلے گئے۔ بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا اب فوت ہو چکی ہو گی اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی وفات پا چکی تھی

(اصحاب احمد جلد 5حصہ سوم صفحہ82طبع اول 1964ء)

٭چنیوٹ کے حاجی تاج محمود صاحب نے 1902ء میں تحریری بیعت کی ملکی تقسیم سے قبل اکثر قادیان تشریف لایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ گاڑی بٹالہ میں نہ ملنے پر وہاں سے پیدل قادیان پہنچ جایا کرتے تا کہ شام کی نماز حضرت مصلح موعودؓ کی اقتدا میں پڑھنے کا شرف حاصل کر سکیں۔ 1939ء میں رمضان شریف کے مہینہ میں ان کی اہلیہ کی وفات ہوئی۔ حاجی صاحب مع چند اور احمدیوں کے تراویح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کا ایک نواسہ جو ماشاء اللہ حافظ قرآن تھا، قرآن مجید سنا رہا تھا کہ ساتھ والے مکان سے رونے کی آوازیں آئیں۔ اور ایک لڑکے نے آ کر بتلایا کہ حاجی صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت چار تراویح پڑھی جا چکی تھیں۔ اس حادثہ کی اطلاع پا کر حاجی صاحب نے انا للّٰہ پڑھا۔ اور اپنے نواسے کو ہدایت کی کہ بقیہ چار تراویح میں حسب معمول قرآن مجید سنائے۔ پوری نماز ختم کرنے کے بعد وہ اور دیگر اقرباء میت والے مکان میں گئے۔

1941ء میں چنیوٹ میں جب مسجد تعمیر ہوئی تو اس دن سے آخری ایام تک وہ مسجد ان کا ملجا وماویٰ بنی رہی۔ اور آپ وہاں گویا دھونی رما کر بیٹھ گئے۔ ہر وقت قرآن مجید کی تلاوت اور وعظ ونصیحت میں مصروف رہتے تھے۔ نماز کے لیے بلانے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ اور بڑے خلوص اور جوش اور بلند آواز سے بلاوا دیتے تھے۔

( تابعین اصحاب احمد جلد 10صفحہ50,49)

شہید احمدیت محمد اسلم قریشی صاحب مربی سلسلہ کے والد محمد احسن قریشی صاحب بھی نماز کے عاشق تھے۔ اسلم شہید کے بچپن کا واقعہ ہے کہ احسن قریشی صاحب نے ایک دن صبح کی نمازکے لیے جانا تھا مگر ننھا اسلم ان کی گود نہیں چھوڑ رہا تھا۔ زبردستی ماں کو پکڑا یا اور کہا ’’نماز پڑاں کہ میں تیں ول ویکھاں‘‘ یعنی میں نماز پڑھنے جاؤں یا تمہیں دیکھتا رہوں۔ یہ کہہ کر جلدی سے باہر نکل گئےکہ وہ نماز کے شیدائی تھے اور یہ ان کی روح کی غذا تھی۔

(حافظ محمد حسین صفحہ139)

مخالفانہ ماحول

اگر ماحول ساز گار نہ ہو تو انسان بڑی آسانی سے عذرتلاش کر لیتا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعودؑ کے متبعین نے اس روک کو بھی رد کر دیا۔ او ریورپ کے ماحول میں نماز قائم کر کے اپنے آقا کی صداقت پر کیسی ناقابل تردید گواہی مہیا کی۔

٭ایک دفعہ ایک نوجوان نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ سے کہا کہ یورپ میں فجر کی نماز اپنے وقت پر ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا اگرچہ مجھے اپنی مثال پیش کرتے ہوئے سخت حجاب ہوتا ہے لیکن … بتاتا ہوں کہ خدا کے فضل سے نصف صدی کا عرصہ یورپ میں گزارنے کے باوجود فجر تو فجر میں نے کبھی نماز تہجد بھی قضا نہیں کی۔ یہی حال باقی پانچ نمازوں کا ہے۔

(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر 1985ء صفحہ89)

٭ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جب انگلستان میں تعلیم حاصل کرتے تھے تو عام طور پر پاکستانی نماز ادا کرنے سے شرماتے تھے مگر آپ سید محمود احمد صاحب ناصر کے ساتھ مل کر نماز باجماعت ادا کرتے۔ اور اس باقاعدگی کا یہ نتیجہ نکلا کہ بعض دفعہ پروفیسر یہ کہہ کر کلاس روم خالی کر دیا کرتے تھے کہ تمہاری نماز کا وقت ہو گیا ہے تم یہاں نماز پڑھو۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں (New Year’s Dayنیوائیرزڈے) کے موقع پر پیش آیا۔ یعنی اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا۔ اور عید کا سماں تھا۔ رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹرائفلگر سکوائر میں اکٹھے ہو کر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں، کوئی مذہبی روک نہیں، ہر قسم کی آزادی ہے۔ اس وقت اتفاق سے وہ رات مجھے بوسٹن اسٹیشن پر آئی۔ مجھے خیال آیاجیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں۔ مجھے بھی موقع ملا۔ میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا۔ اخبار کے کاغذ بچھائے اور دو نفل پڑھنے لگا۔کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا ہے اور پھر نماز میں نے ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جوبچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے میں گھبرا گیا میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں۔ اس لئے شائد بیچارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے۔ ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا ہے۔ا س چیز نے اور اس مواز نے نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا۔ چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا:

God Bless you.God Bless you.God Bless you.God Bless you.

خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے، خدا تمہیں برکت دے

(الفضل 31؍اکتوبر ٫1983)

٭ڈاکٹر عبدالسلام صاحب بیسویں صدی کے عظیم موحد سائنسدان تھے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود نماز اور دیگر دینی شعار کے پابند تھے۔ نوبل انعام کی اطلاع ملنے پر سب سے پہلے مسجدفضل لندن میں نوافل ادا کیے۔ لندن میں جمعہ کے رو ز اول وقت مسجد میں تشریف لاتے اور پہلی صف میں امام کے عین پیچھے بیٹھتے۔اٹلی کے سنٹر میں نماز جمعہ کی امامت خود کرتے تھے۔

(ماہنامہ خالد ربوہ دسمبر1997صفحہ49، 162)

اسیری اور قید وبند

٭حضرت مولانا ظہور حسین صاحب بخارا کو جاسوسی کے الزام میں روس کی جیلوں میں غیرانسانی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے وہاں بھی عبادت کا جھنڈا سر بلند رکھا۔ وہ اپنی آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں:

’’میں دن رات بس اللہ تعالیٰ سے ہی دعا ئیں مانگتا اورحسب عادت رات کو تہجد کے لئے اٹھتا۔ صبح کے وقت نماز کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتاا ور سورج طلوع ہونے کے بعد دو نفل ادا کرتااور اللہ کریم سے اپنی حفاظت اور بچائو کی دعائیں مانگتا۔اشک آباد جیل خانہ میں بہت سے ترک قیدی تھے وہ مجھے روزانہ نماز پڑھتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے دیکھتے تھے او ر ان میں سے بہتوں کو مجھ سے شدید محبت ہو گئی۔تاشقند جیل میں بہت سے مسلمان قیدی تھے انہوں نے مجھے اپنا امام منتخب کرلیا اور سب میری اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔بخارا جیل میں حکومت کے کارندوں کو عاجز پر اس قدر شک تھا کہ رات کو جب میں تہجد کے لئے اٹھتا اور نماز پڑھتا تو باہر جو سپاہی پہرہ پر مقرر ہوتا وہ کھڑکی سے اٹھ کر مجھے دیکھ کر شک کرتا کہ یہ بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے اور چونکہ میری جگہ کمرہ میں کھڑکی کے ساتھ تھی اس لئے وہ میری حرکات بآسانی نوٹ کر لیتا تھا۔ دوسرے دن وہ صبح اپنے افسر کو اس امر کی اطلاع دیتا اور ایک دو افسر اسی کمرہ کے دروازہ اور کھڑکی کو غور سے دیکھتے کہ کہیں یہ بھاگ تو نہیں سکے گا۔ چنانچہ میرا ساتھی مجھے کہتا کہ یہ تیری نماز کو جو رات کو اٹھ کر پڑھتا ہے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ کہیں قید خانہ سے بھاگنے کی کو شش تو نہیں کرتا۔‘‘

(مولوی ظہور حسین مجاہد اول روس وبخارا مولفہ کریم ظفر ملک۔ناشر سلیم ناصر ملک صفحات 41,56,47,44)

1948ء میں حضرت مصلح موعودؓ سفر سندھ کے دوران میرپور خاص کے بعض مقید احمدیوں کو دیکھنے کےلیے تشریف لے گئے۔ یہ احمدی دوست جن میں سے اکثر واقف زندگی تھے عرصہ چھ سات ماہ سے محمد آباد اسٹیٹ کی زمین میں ایک فساد کے سلسلہ میں زیر الزام تھے۔حضورؓ کے تشریف لے جانے پرجیل کے افسر صاحب کے حکم کے مطابق سب ماخوذین کو برآمدہ میں لائے جانے کی اجازت دی گئی۔ اس جگہ سب دوستوں نے یکے بعد دیگرے حضورؓسے مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھنےکی سہولت ہے یعنی وضو وغیرہ کے لیے پانی مل جاتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نماز کی سہولت ہے ہم نماز ادا کر لیتے ہیں۔وضو کے لیے قریب کی جگہ سے پانی لے آتے ہیں۔پھر حضورؓ نے فرمایا ماہ رمضان میں بھی آپ اس جگہ تھے روزے رکھ سکتے تھے یا نہیں؟ انہوں نے بتلایا کہ ہم نے رمضان کے روزے رکھے تھے۔ ہم شام کو ہی دونوں وقت کاکھانا پکا لیاکرتے تھے۔ کیونکہ سحری کے وقت آگ وغیرہ جلانے کی اجازت نہ تھی۔

(تاریخ احمدیت جلد 12صفحہ284)

٭مولوی محمد شریف صاحب کو حج کے مناسک ادا کرتے ہوئے مکہ مکرمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کو ایک معاند احمدیت کی رپورٹ پر اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ حرم میں مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے۔ وہ جنوری 1974 ٫سے مئی 1974 ٫تک جیل میں رہے۔ انہوں نے جیل کے کمرہ میں داخل ہوتے ہی قرآن کریم طلب کیا۔ اور اکثر وقت اس کی تلاوت میں گزارتے تھے اور نہایت خشوع وخضوع سے نمازیں ادا کرتے۔ اور سلسلہ اور جماعت کے لیے بہت دعائیں کرتے۔ انہوں نے جیل میں اپنے عزیزوں کے نام وصیت لکھی اور فرمایا‘‘میری تمام بیٹوں کو وصیت ہے کہ وہ تمام نمازیں باجماعت اد اکرنے کی کوشش کیا کریں۔‘‘

(عالمگیر برکات مامور زمانہ صفحہ255، 257)

سرکاری وقانونی پابندیاں

یہ روکیں وہ ہیں جو مخالفین او ردشمنوں کی طرف سے ڈالی جاتی ہیں۔ مگر اہل ایمان کی حالت کا نقشہ یوں ہے۔

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

اور اس راہ میں قدم ہمیشہ آگے بڑھایا ہے۔مگر یہ کہانی ایک ملک کی نہیں بلکہ جگہ جگہ دہرائی جاتی رہی ہے۔

٭کئی سال قبل سیرالیون کی ریاست ٹونگیا میں احمدیت کے خلاف ایک زبردست رو چلی اور احمدی مختلف قسم کے مصائب سے دو چار ہونے لگے۔ اسی دوران رمضان کا مبارک مہینہ آ گیا تو احمدیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ روزے رکھیں گے اور پنج وقتہ نمازیں بہرحال باجماعت ادا کریں گے۔ چنانچہ اس مقدس جرم کی پاداش میں ایک روز آٹھ دس سرکردہ احمدیوں کو جو روزے دار تھے سزا کے طور پر عدالت سے باہر دھوپ میں سورج کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونے کا حکم دیا گیا۔ اور چیف نے اعلان کیا کہ جب تک وہ احمدیت سے توبہ نہیں کریں گے انہیں رہائی نہیں ملے گی۔ مگر کسی احمدی کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی اور انہوں نے عبادت کا جھنڈا سربلند رکھا۔

(روح پرور یادیں صفحہ323)

ضمیر بیچ کے کوئی خوشی قبول نہیں

یہ خودکشی کسی قیمت ہمیں قبول نہیں

جو ہم نے کوچہ یار ازل میں دی ہے صدا

پھر اس کے بعد کسی کی گلی قبول نہیں

٭جنوبی افریقہ کے دو گاؤں میں 1944ء میں احمدیوں کو نماز عید غیر احمدیوں سے علیحدہ ادا کرنے کی وجہ سے جرمانہ کیا گیا۔ا سی طرح ٹونگیا میں بھی احمدیوں کو قید اور جرمانہ کی سزا دی گئی اور رمضان میں سارا دن انہیں د ھوپ میں بٹھایا گیا۔

(الفضل 16؍جنوری 1944ء)

٭حضرت بھائی عبدالرحیم شرما صاحب (کشن لعل) ہندوؤں سے احمدی ہوئے تھے انہوں نے اپنے قبول احمدیت کے واقعات بہت دلگداز طریق پربیان فرمائے ہیں ان میں سے جن خاص واقعات کا تعلق نماز سے ہے ان کا تذکرہ درج ذیل ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

’’حضرت منشی عبدالوہاب صاحب کی تبلیغ اور صحبت کی وجہ سے ہندومذہب کی لغویت اور اسلام کی صداقت مجھ پر کھل گئی تھی۔ مگر ہندو ہونے کی وجہ سے اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور حالات کی وجہ سے میں احمدیت کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔ میں ایک غیر مسلم ریاست کا باشندہ تھا۔ شادی ہو چکی تھی۔ پھر والدہ صاحبہ او رعزیزواقرباء کو چھوڑنا بھی مشکل تھا ان حالات کی وجہ سے احمدیت کوبرملا طور پر قبول کرنا میرے لئے بالکل محال تھا اور ادھر ایک صداقت کو دیدہ دانستہ چھوڑ ا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ دل میں سخت بے چینی تھی دعا کرتا تھا کہ الٰہی تو خود دستگیری فرما اور مجھے سچے مذہب کے قبول کرنے کی توفیق دے۔

اس وقت تین مقاصد تھے جو میرے پیش نظر تھے۔ میں نے منشی عبدالوہاب صاحب سے کہا کہ مجھے نماز سکھائیں۔ میں آپ کے طریق پر اپنے بعض مقاصد کے لئے دعا کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے مقاصد تو ان کو نہیں بتائے تھے البتہ نماز ان سے سیکھنی شرو ع کر دی۔ گومیری زبان پر عربی عبارت نہ چڑھتی تھی۔ تا ہم اچھی بری میں نے سیکھ ہی لی۔ اور ترجمہ بھی سیکھا۔اور چھپ کر اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دی۔میرے گھر والوں دفتر کے ملازموں حتیٰ کہ منشی عبدالوہاب صاحب کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ میں نے نماز پڑھنی شروع کر دی ہے۔ صرف فقیرمحمد سپاہی کو جو میرے ساتھ چونگی پر کام کرتا تھا میں نے اپنا ہم راز بنایا ہوا تھا۔ نماز کے لئے میں نے دو جگہیں مخصوص کر رکھی تھیں۔ دن کی نماز میں اپنی چونگی کے ایک کمرہ میں جو کہ ذراعلیحدہ تھا اور لوگوں کی آمدورفت وہاں نہ ہوتی تھی۔ کواڑ بند کر کے پڑھتا تھا اور فقیر محمد کو تاکید کر رکھی تھی کہ اگر کوئی ہندو ادھر آئے تو مجھے اطلاع کر دینا۔ فقیر محمد خود نماز نہ پڑھتا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ ایک ہندو نماز پڑھتا ہے اسے شرم آئی اور وہ بھی نماز پڑھنے لگ گیا اور بعد میں احمدی بھی ہو گیا تھا۔ رات کی نمازوں کے لئے میں نے گھر میں ایک جگہ مخصوص کر رکھی تھی۔ ہمارا مکان پرانی وضع کا تھا۔ سب کمروں کے پیچھے ایک ا ندھیری کوٹھڑی ہوتی تھی۔ اس کے ایک کونہ میں کواڑ بند کر کے میں نماز پڑھا کر تا تھا۔ نمازوں کے متعلق کچھ عرصہ تک مجھے بڑی غلطی لگی رہی۔ دو رکعت کے بعد قعدہ تک کو میں ایک رکعت سمجھتا تھا۔ اس لحاظ سے چار رکعت کی بجائے میں آٹھ رکعت پڑھتا تھا۔ گو یا میری ہر نماز دگنی ہوتی تھی۔ چونکہ زبان میں روانی نہ تھی۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا۔عشاء کی نماز میں مجھے گھنٹہ بھر لگ جاتا تھا۔ پانچ نمازوں میں تقریباً تین چار گھنٹے صرف ہو جاتے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے میں پسینہ سے شرابور ہو جاتا تھا۔ تین چار ماہ مجھے ایسی ہی غلطی لگی رہی۔ غرض ایک عرصہ تک میں اپنے مقصد کے لئے اسی طرح دعائیں کرتارہا۔آخر میرے رب نے میری سنی اور اپنے وعدہ کے مطابق میری دستگیری فرمائی اور اس صفائی سے میرے مقاصد پور ے کئے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا۔ کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے۔اس کے نتیجہ میں میں ہر مخالفت سے بے نیاز ہو کر احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اور جون یا جولائی 1904ء میں مسیح موعود کی بیعت کر لی۔ مگر واپس آ کر میں نے ابھی اپنے احمدی ہونے کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اور چھپ چھپ کر نمازیں پڑھتا تھا۔

مگر میرے مسلمان ہونے کا علم میرے گھر والوں کو جلد ہو گیا۔ اس طرح کہ رات کی نمازیں جو میں اپنے گھر کی ایک کوٹھڑی میں کواڑ بند کر کے پڑھا کرتا تھا۔ مجھ کو متواتر اس کوٹھڑی میں جاتے دیکھ کر میری بیوی کو شک گزرا اور اسے جستجو ہوئی۔ کہ و ہ معلوم کرے کہ میں دروازہ بند کر کے اس کوٹھڑی میں کیا کرتا ہوں۔ وہ دروازہ کی درازوں سے دیکھنے کی کوشش کرتی۔لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے اس کو دکھائی نہ دیتا۔ ایک روز نماز میں مجھ پر رقت طاری ہو گئی۔ او رمیری آواز اس نے باہر سن لی۔ وہ گھبرا گئی۔ اور میری والدہ سے جا کر ذکر کیا۔میری والدہ نے مکان کی چھت پر چڑ ھ کر کوٹھڑی کے مگھ سے جھانکا۔ اور مجھ کو رکوع او رسجدہ کرتے دیکھ کر ان کو حیرانی ہوئی۔ چونکہ ان دنوںمیرا میل ملاپ مسلمانوں سے بڑھ گیا تھا۔ اس لئے والدہ صاحبہ کو شبہ ہوا کہ کہیں مسلمانوں کا اثر مجھ پر نہ ہو گیا ہو۔ جب میں نماز سے فارغ ہو کر باہر آیا تو والدہ صاحبہ نے دریافت کیا کہ تم اندر کیا کر رہے تھے۔ میں نے کہا۔پرمیشور کی عبادت کیا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہندو تو اس طرح عبادت نہیں کرتے۔ تم تو نیل گروں کی طرح نماز پڑھ رہے تھے۔ ہمار ے پڑوس میں مسلمان انگریز رہتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے کہیں ان کونماز پڑھتے دیکھا ہوگا۔ مجھے اقرار کرنا پڑا۔ اوربات کھل گئی۔ والدہ صاحبہ بہت برہم ہوئیں۔ میں نے عرض کیا اماں! میں اسلام کو سچا مذہب سمجھتا ہوں۔ میں نے ا س کو آزمایا ہے۔ میں اس کو کسی طرح بھی نہیں چھوڑ سکتا۔محض آپ کی خاطر اپنے ایمان کو چھپایا ہوا تھا۔ اگر آپ ناراض ہوں گی اور مخالفت کریں گی تو میں اعلانیہ طور پر مسلمان ہو جاؤں گا اور گھر چھوڑ کر کہیں چلا جائوں گا۔ والدہ صاحبہ مرحومہ کو مجھ سے بہت محبت تھی۔ وہ ڈر گئیں کہ میں ان کو چھوڑ کر کہیں چلا نہ جاؤں۔ آخر وہ اس بات پر رضا مند ہو گئیں۔ کہ میں چھپ کر بے شک نماز پڑھ لیا کروں مگر اس بات کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دوں۔ ورنہ انہوں نے فرمایا کہ برادری ہمارا بائیکاٹ کر دے گی۔ غرض اپنے گھر سے تو مجھے ایک گونہ تسلی ہو گئی۔ میں اطمینان سے نمازیں پڑھنے لگا۔ لیکن عام طور پر ہندوئوں کومیرے مسلمان ہونے کا علم نہ تھا۔ اسی اثناء میں میں نے پوشیدہ طور پر منشی عبدالوہاب صاحب سے قرآن شریف بھی پڑھنا شروع کر دیا۔

گھر کے لوگوں کے علاوہ میرے مسلمان ہونے کا علم سوائے فقیرمحمد سپاہی کے جو چونگی میں میرے ساتھ کام کرتا تھااور بعض احمدیوں کے کسی کو نہ تھا۔لیکن ان کی غفلت کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ بات نکلنی شروع ہوئی اور ہمارے شہر کے مسلمانوں میں عام طور پر اس کا چرچا ہونے لگامسلمان مجھ سے تعلق بڑھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ہمارے شہر میں زیادہ تر شیعہ فرقہ کے لوگ تھے۔ وہ مجھے اپنے مذہب کی کتب مطالعہ کے لئے دینے لگے۔ اسی طرح دوسرے فرقہ کے لوگ بھی بعض کتب پڑھنے کیلئے دے جاتے۔ ایک دن ایک صاحب ایک ر سالہ مجھ کو دے گئے اس میں لکھا تھا کہ جو مسلمان دیدہ دانستہ ایک جمعہ جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتا۔ اس کا چوتھا حصہ ایمان جاتا رہتا ہے۔ اور اگر وہ دو جمعے نہیں پڑھتا تو نصف ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور اگر تین جمعے نہیں پڑھتا تو اس کا دوتہائی ایمان چلا جاتا ہے۔اور اگر چار جمعے نہیں پڑھتا تو وہ بالکل بے ایمان ہو جاتا ہے۔ یہ پڑھ کر میرے دل میں خوف پیدا ہوا۔ کہ میں مسلمان ہو کر پھر جمعہ مسجد میں جا کر نہیں پڑھتا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جمعہ کیلئے مسجد میں جایا کروں گا۔ احمدیہ مسجد ہمارے قصبہ سے باہر کی طرف تھی۔ جمعہ کے روز میں اپنے دفتر سے ایک کمبل اوڑھ کر قصبہ کے باہر باہر مسجد میں چلا گیا۔ منشی عبدالوہاب صاحب خطبہ پڑھ رہے تھے میں جا کر بیٹھ گیا۔اتفاق کی بات ہے کہ جب میں مسجد میں داخل ہو رہا تھا۔ تو ایک ہندو نوجوان راجہ رام جو ہمارے قصبہ میں عطاری کی دکان کرتا تھا۔پانی بھرنے کیلئے مسجد کے سامنے والے کنویں پر آیا۔ وہ کنواں آدھا مسجد کے صحن میں تھا اور آدھا مسجد کے باہر جب اس نے مجھ کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھ لیا۔شک رفع کرنے کے لئے اس نے مسجد میں دو تین بار جھانک کر دیکھا۔ جب اس کو یقین ہو گیا کہ میں ہی ہوں۔ اور پھر اس نے نماز پڑھتے بھی مجھ کو دیکھ لیا۔ تو وہ دوڑا دوڑا بازار میں آیا۔ اور شور مچا دیا کہ میں نے کشن لعل داروغہ چونگی کو مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا ہے۔لوگوں میں جوش پیدا ہو گیا۔ اتفاق سے اس وقت ایک برہمن جو ہماری برادری کا بزرگ تھا۔ اور مالدار بھی تھا۔ قصبہ میں اس کابڑا اثر ورسوخ تھا۔ ادھر آ نکلا۔ اس نے ڈانٹ ڈپٹ کر سب کو چپ کرا دیا۔او رکہا کہ اس طرح ہنگامہ کھڑا کرنے سے لڑکا ضد میں آ کرہاتھ سے نکل جائے گا۔ تم خاموش ہو جائو۔ ہم اسے سمجھاتے ہیں۔شام کو جب میں گھر آیا۔ تو ہماری برادری کے برہمن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے سنا ہے کہ تم مسلمانوں کے ساتھ نمازیں پڑھتے ہو۔ میں نے کہا ہاں یہ درست ہے میں نے آج جمعہ کی نماز پڑھی ہے۔ وہ نہایت نرمی سے پیش آئے۔ اور کہنے لگے کہ کوئی بات نہیں اس عمر میں انسان سے اکثر غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ہم تمہارے پاس ا س واسطے آئے ہیں کہ اگر اپنے مذہب کے متعلق کسی کے بہکانے سے تمہارے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو گیا ہے تو بتائو ہم رفع کر دیں گے۔میں نے مورتی پوجا اور تناسخ کے متعلق جو مجھے اعتراض تھے ان پر ظاہر کئے اور بحث میں وہ مجھ سے نہ جیت سکے۔
غرض ہندو جب دلائل سے بات کرنے میں عاجز آ گئے تو ایک دن ہماری برادری کے بڑے بوڑھے اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے۔ اور مجھ کو سمجھانے لگے کہ اگر تم نماز نہیں چھوڑ سکتے۔ تو بے شک پڑھو ہم تم کو منع نہیں کرتے۔لیکن مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے احتیاط کرو۔ اور اسلام کا اظہار نہ کرو۔ میری والدہ صاحبہ کے ذریعہ بھی مجھ پر وہ یہی زور ڈالتے۔ وہ رو رو کر نصیحت کرتیں۔ کہ بیٹا تم اپنے گھر میں جو مرضی ہے کرو مگر باہر نماز یں پڑھ کر ہمیں بدنام نہ کرو۔میری بیوی کو بھی یہ لوگ ورغلاتے اور کہتے کہ دیکھو تم کشن لعل کو دھرم پر قائم رکھ سکتی ہو۔اگر تم نے کمزوری دکھائی اور اس کا ساتھ دیا تو وہ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ غرض میں نے ان سب کے زور دینے پر منظور کر لیا کہ میں اسلام کا اعلانیہ اظہار نہیں کروں گا۔ ادھر پنڈتوں نے میری خاطر باقاعدہ کتھا کرنے کا انتظام کیا۔ ہماری برادری کے بزرگ بڑے اہتمام کے ساتھ مجھ کو بلا کر لے جاتے حتیٰ کہ انہوں نے مجھ کو اپنی سبھا کا سیکرٹری بھی بنا دیا۔ اور میری کڑی نگرانی کرنے لگے۔تا کہ میری مصاحبت مسلمانوں کے ساتھ نہ ہو۔ غرض میں ایک آفت میں پڑ گیا۔

ہندو وہمی تو ہوتے ہی ہیں ان میں پوتر اپوتر کا ان کو بڑا خیال ہوتا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا۔ منشی صاحب کے ساتھ مل کر کھانا بھی کئی بار کھایا تھا۔ اس لئے ان کو خیال گذرا کہ اس کو گنگا جی کا اشنان کروانا چاہئے تا کہ شدھ ہو جائے۔ چنانچہ ایک دن موقع پا کر انہوں نے مجھ کو کہا کہ تم ہر دوار جا کر اشنان کر آئو۔ وہاں کئی دھرماتما رہتے ہیں۔ان سے مل کر تم کو فائدہ ہو گا۔ میں نے کہا بہت اچھا موقع نکال کر اشنان کرآؤں گا۔ اس خیال سے کہ شاید میں کسی بہانہ سے اس تجویز کو ٹلانہ دوں انہوں نے میرے لئے خرچ بھی مہیا کر دیا۔ او رمصر ہوئے کہ میں جلد چلا جائوں۔ میں سخت گھبرایا۔منشی صاحب سے مشورہ کیاکہ کیاجائے۔ میں مسلمان ہوں۔ ہر دوار کیسے جاؤں؟ انہوں نے کہا کیا حرج ہے۔ تم اشنان کر آؤ۔ گنگا بھی دوسرے دریائوں کی طرح ایک دریا ہے۔ اس میں نہانے سے تمہارااسلام تو نہ دھل جائے گا۔ چنانچہ میں ان کے مشورہ کے مطابق ہر دوار کو روانہ ہو گیا۔ ہمارے شہر کے برہمنوں نے وہاں کے جان پہچان والے برہمنوں کے نام چٹھیاں لکھ دیں۔ کہ کشن لعل آ رہا ہے۔ یہ دھرم سے برگشتہ ہے اسے سمجھاؤ۔ ہر دوار جاتے ہوئے راستے میں میری مصاحبت لدھیانہ کے بعض ہندوؤں سے ہو گئی۔ وہ بھی ہر دوار یا ترا کے لئے جا رہے تھے۔ لکسر کے سٹیشن پر گاڑی بدلنا تھی۔صبح کی نماز کا وقت تھا۔ ہماری گاڑی کے آنے میں تھوڑی دیر تھی۔مجھ کو نماز پڑھنے کی فکر ہوئی۔ لیکن اپنے ہم سفروں کے سامنے جو مجھ کو ہندو خیال کرتے تھے میں نماز نہیں پڑھ سکتا تھا۔ میں اپنا سامان ان کے سپرد کر کے خود اسٹیشن کے باہر چلا گیا۔ تا کہ نماز پڑھوں۔ پانی کی تلاش میں دور نکل گیا۔ ایک جگہ جوہڑ تھا۔ وہاں میں نے وضو کیا اور نماز نیت دی۔ اتنے میں گاڑی آ گئی میں شش وپنج میں پڑ گیا کہ کیا کروں۔ گاڑی تھوڑی دیر ٹھہرتی تھی۔ نماز ہلکی پڑھتے بھی دل ڈرتا تھا۔کہ شاید گناہ کی بات نہ ہو۔ او ر توڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے پاس جس قدر نقدی تھی وہ اسباب کے ساتھ تھی۔ اس لئے فکر لاحق تھا کہ اگر گاڑی چھوٹ گئی اور میرے ساتھی اس میں سوار ہو کر ہردوار چلے گئے تو اس موقعہ پر جب کہ ہزاروں آدمی یاترا کے لئے وہاں آئے ہوئے ہیں ان کو کس طرح ڈھونڈونگا۔ نماز ختم کر کے جب میں اسٹیشن پر پہنچا تو گاڑی چل پڑی۔ میں نے دوڑ کر چڑھنے کی کوشش کی۔ خدا کی قدرت! جس دروازہ کو میں لپک کر پکڑتا وہ نہ کھلتا۔یکے بعد دیگرے گاڑی کے پانچ چھ ڈبے گذر گئے۔ مگر مجھے کامیابی نہ ہوئی اچانک ایک دروازہ پر جو میں نے ہاتھ ڈالا تو وہ کھل گیا جونہی میں اندر گیا ایک کونے سے آوازیں اٹھیں ‘‘وہ آگیا کشن لعل وہ آگیا۔ ادھر آئو تمہارا انتظار کرتے تھے’’۔ دیکھا تو میرے ہمسفر تھے جن کے پاس میرا اسباب تھا۔ میں نے خدا کا شکر کیا اگر میں رہ جاتا تو ان کا تلاش کرنا مشکل ہو جاتا۔ اور مجھ کو سفر میں خرچ نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف اٹھانی پڑتی۔ یہ بات اگرچہ بظاہر معمولی معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت خدا تعالیٰ کی اس تائید کا میرے دل پر بڑا اثر ہوا۔آخر ہردوار پہنچ گئے۔

سب سے بڑی دقت مجھ کو وہاں نماز پڑھنے کے لئے اٹھانی پڑی۔ ہندوئوں کے سامنے میں نماز نہ پڑھ سکتا تھا۔ میں تین چار کوس دور نکل جاتا۔ اور جوالا پور کے پاس جنگل میں چھپ کر نمازیں پڑھتا۔ ہردوار کی سیر کامجھ کو خوب موقعہ مل گیا۔ اس دوران سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہو گیا تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الاول کی خلافت کے ابتدائی ایام تھے۔ دن اسی طرح گذررہے تھے چھپ کر نمازیں پڑھتا تھا۔اعلانیہ اسلام کا اظہار نہ کیا تھا۔ دل میں سخت کڑھتا تھا لیکن کچھ کر نہ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو مجھے اس حالت میں رکھنا منظور نہ تھا۔ ایک دن شام کو جب میں دفتر سے گھر آنے لگا۔ توراستہ میں میری حالت سخت خراب ہو گئی اور مجھ میں چلنے کی سکت باقی نہ رہی۔ بڑی مشکل سے گھر آیا۔ اور چار پائی پر آ کر گر گیا۔میری والدہ سخت گھبرا گئیں بھائی کو بلایا انہوں نے نبض دیکھی اور فکر مند ہوئے۔ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے۔ میں نے بھی اپنی نبض دیکھنے کی کوشش کی۔مگر گھبراہٹ میں مجھے نبض نہ ملی اس وقت مجھ کو خیال آیا کہ میں دل سے مسلمان ہوں۔لیکن میں نے اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار نہیں کیا۔ اگر مر گیا تو ہندو مجھ کو جلا دیں گے۔ اور میری لاش مسلمانوں کو نہ دیں گے۔ خداتعالیٰ کے حضور جا کر اس کو تاہی پرمجھ سے باز پرس ہو گی۔ اس خیال سے میری طبیعت میں سخت بے چینی پیدا ہوئی۔ میرے دل میں تحریک ہوئی کہ میں اپنے مولیٰ کے حضور دعا کروںکہ مجھے اتنی مہلت مل جائے کہ میں اپنے مسلمان ہونے کا ا علان کردوں۔ مسائل سے مجھ کو زیادہ واقفیت نہ تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ دعا صرف نماز میں ہی ہو سکتی ہے اور چونکہ میں نے کبھی کسی کو چارپائی پر نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا اس لئے میں اس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ چارپائی پر نماز نہیں ہو سکتی۔ اتنی مجھ میں سکت نہ تھی۔ کہ اٹھ سکتا۔بڑی مشکل سے میں نے اپنے آپ کو چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پرلیٹ کر نماز پڑھنی شروع کر دی کہ الٰہی! اگر میری موت ہی مقدر ہے تو مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کردوں۔ نماز میں ہی میری حالت سنبھلنے لگی۔

بھائی صاحب ڈاکٹر صاحب کولینے گئے ہوئے تھے۔ڈاکٹر صاحب کے آنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا۔ تو میرے بھائی صاحب ڈاکٹر بابو تانی رام کو ہمراہ لے کر آئے تانی رام باقاعدہ ڈاکٹر نہ تھے۔ ایک قسم کے کمپاؤنڈر تھے۔لیکن قصبہ میں مشہور اور شہرت یافتہ تھے اور ہمارے قصبہ میں پریکٹس کرتے تھے۔ انہوں نے ملاحظہ کر کے بتلایا کہ ان کو بند ہیضہ ہو گیا ہے واللہ اعلم کیا مرض تھا۔ اور تسلی دی کہ اب فکر کرنے کی بات نہیں ہے حالت اچھی ہو رہی ہے۔ غرض وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے۔ ادھر خدا تعالیٰ نے مجھ پرفضل کیا کہ لحظہ بہ لحظہ روبصحت ہونے لگا۔ دو چار روز میں کمزوری جاتی رہی۔ اور میں بالکل تندرست ہو گیا دراصل میرے مولا کریم کو پسند نہ تھا کہ میں اسلام کو دل سے قبول کر کے پھر اپنی فطری کمزوی کی وجہ سے چھپا رہتا۔ اس نے اس موقعہ پرمیری دستگیری فرمائی۔ اور ایک ٹھوکر لگا کر میری آنکھیں کھول دیں۔ اور مجھ کو مجبور کیا کہ میں اعلانیہ مسلمان بنوں ۔ غیر مسلم ریاست تھی۔ ان دنوں وہاں مذہبی آزادی نہ تھی۔ پھر بال بچے دار بھی ہو گیا تھا۔بیوی ساتھ نہ دیتی تھی۔ ملازمت سے برطرف ہونے اور جدی جائیداد سے محروم ہونے کا خوف بھی دامنگیر تھا۔ جب اس بارہ میں سوچتا تو سب موانع بھیانک شکل بنا کر میرے سامنے آ تے۔ دماغ کہتا اپنے انجام کو سوچ لاوارثوں کی طرح کہاں مارا مارا پھریگا۔ اور مجھ کو اس ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔مگر میں خدا تعالیٰ سے عہد کر چکا تھا کہ اب میں اسلام کا اعلان ضرور کروں گا۔ میں جانتا تھا کہ زندگی ختم تھی۔ یہ مہلت مانگ کر لی ہوئی ہے۔ اب غفلت کی اور بد عہدی ہوئی تو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوگی۔ چنانچہ میں نے احمدی ہونے کا اعلان کر دیا۔

(اصحاب احمد جلد 10صفحہ47تا60)

کام جو مشکل تر جانا ہے

اب ہم نے وہ کر جانا ہے

آپ جلائیں جتنا چاہیں

ہم نے اور نکھر جانا ہے

استقامت کے مظاہرے

اس زمانہ میں احمدیوں نے نماز پر صبر اور استقامت کے جو مظاہرے کیے ہیں وہ اس دور کی تاریخ کے درخشندہ ستارے ہیں۔ احمدیوں کو توحید سے کاٹنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کرنے کے لیے کوششیں تو آغاز سے جاری ہیں۔ مگر 1984ء کے آرڈیننس کے ذریعہ تو قانونی پابندیاں لگا دی گئیں اذان کی آواز بلند کرنے پر سزائیں دی گئیں نماز اور قرآن پڑھنے کے جرم میں زندانوں میں ڈالا گیامساجد چھین لی گئیں تالے ڈال دیے گئے نذر آتش کر دی گئیں لاؤڈ سپیکر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا اور تو اور اخبار میں نماز کا لفظ لکھنے پر مقدمات قائم کیے گئے مگر احمدیوں نے نماز کا دامن نہیں چھوڑا اپنی زمینیں مساجد کے لیے پیش کر دیں اپنے اندوختے اٹھا کر دے دیے مسجدوں کے ارد گرد صفیں بنا لیں سڑکوں پر سجدہ ریز ہو گئے آواز آگے پہنچانے کے لیے مکبرین کا بندوبست کر لیا نماز کی جگہ عبادت کا لفظ لکھ لیا مگر خدا کو یاد کرنا نہیں چھوڑاآنے والے دور کا مؤرخ اس دور کو حیرت سے یاد کرے گا۔

2020ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے حکومتوں نے احتیاطی طور پر مساجد بند کر دیں تو احمدیوں نے اپنے گھروں کو مساجد بنا لیا کہ خدا کے رسولﷺ کا یہی فرمان تھا کہ ساری زمین میرے لیے مسجد بنائی گئی ہے اور خدا کے خلیفہ کا یہی حکم تھا کہ اب گھروں کو مسجدوں میں تبدیل کر دو کہ اب ہم ہی وارث دینِ محمدی ہیں۔

کریں گے ہر جگہ تشکیل مسجد نبوی

ہر اک زمیں کو بنائیں گے سرزمین حجاز

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button