کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

جب تک جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کردے خداتعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے

نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں؟

اس سوال کاجواب حضرت حجۃاللہ علیہ السلام نے ایک بار اپنی ایک مختصرسی تقریر میں دیاہے۔ فرمایا:۔

’’نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں۔ جس کے اعمال بجائے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جائیں۔ مثلاً ایک شخص خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرتاہے۔ وہ ایسی وفاداری کرے کہ اُس کی وفا خارق عادت ہوجاوے۔ اُس کی محبت اُس کی عبادت خارق عادت ہو۔ ہر شخص ایثار کرسکتاہے اور کرتابھی ہے، لیکن اس کا ایثار خارق عادت ہو۔ غرض اس کے اخلاق، عبادات اور سب تعلقات جو خداتعالیٰ کے ساتھ رکھتاہے اپنے اندر ایک خارق عادت نمونہ پیداکریں۔ تو چونکہ خارق عادت کا جواب خارق عادت ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر کرنے لگتاہے۔ پس جو چاہتا ہے کہ اس سے نشانات کاصدور ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کہ ان میں خارق عادت نتائج کے جذب کی قوت پیداہونے لگے۔

انبیاء علیہم السلام میں یہی ایک نرالی بات ہوتی ہے کہ ان کا تعلق اندرونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا شدید ہوتاہے کہ کسی دوسرے کاہرگز نہیں ہوتا۔ ان کی عبودیت ایسا رشتہ دکھاتی ہے کہ کسی اَور کی عبودیت نہیں دکھا سکتی۔ پس اس کے مقابلہ میں ربوبیت اپنی تجلّی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور رنگ کاکرتی ہے۔ عبودیت کی مثال عورت کی سی ہوتی ہے کہ جیسے وہ حیا اور شرم کے ساتھ رہتی ہے اور جب مرد بیاہنے جاتاہے تو وہ علانیہ جاتاہے۔ اسی طرح پرعبودیت پردۂ خفاء میں ہوتی ہے۔ لیکن اُلوہیت جب اپنی تجلّی کرتی ہے تو پھر وہ ایک بیّن امر ہوجاتاہے۔ اور ان تعلقات کاجو ایک سچے مومن اور عبد اور اس کے ربّ میں ہوتے ہیں خارق عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتاہے۔ انبیاء علیہم السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کُل انبیا ء علیہم السلام سے بڑھے ہوئے تھے۔ اس لیے آپؐ کے معجزات بھی سب سے بڑھے ہوئے ہیں۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 211۔ایڈیشن 1984ء)

سورۂ فاتحہ میں ایمان باللہ کے تین ذرائع

اللہ تعالیٰ پرایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خداتعالیٰ نے وہ تینوں ہی سُورۂ فاتحہ میں بیان کردی ہیں۔

اوّل۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حُسن کو دکھایا ہے جبکہ جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو متّصف کیاہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلوں کو کھینچتی ہے جیسے موتی کی آب، گھوڑے کی خوبصورتی، لباس کی چمک دمک، غرض یہ حُسن پھولوں، پتوں، پتھروں، حیوانات، نباتات، جمادات کسی چیز میں ہو اس کا خاصّہ ہے کہ بے اختیار دل کو کھینچتاہے۔ پس خداتعالیٰ نے پہلا مرحلہ اپنی خدائی منوانے کا حُسن کا رکھاہے جب اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فرمایا کہ جمیع اقسام حمدوستائش اسی کے لئےسزاوار ہیں۔

پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتاہے۔ انسان جیسے حُسن پرمائل ہوتاہے ویسے ہی احسان پر بھی مائل ہوتا ہے ۔ اس لیے پھراللہ تعالیٰ نے

رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ الرَّحْمٰنِ۔ الرَّحِيْمِ۔ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ

صفات کو بیان کر کے اپنے احسان کی طر ف توجہ دلائی۔ لیکن اگر انسان کامادہ ایساہی خراب ہو اور وہ حُسن اور احسان سے بھی سمجھ نہ سکے تو پھر تیسرا ذریعہ سورۂ فاتحہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ کہہ کر متنبہ کیا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے لوگ تو حُسن سے فائدہ اُٹھاتے اور جو اُن سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں۔ لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں اُن کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے۔ یہودیوں کو مغضوب کہاہے او ران پر طاعون ہی پڑی تھی۔ خداتعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا۔ یا یوں کہو کہ طاعون کے عذابِ شدید سے ڈرایا ہے۔ شیطان بےباک انسان پرایساسوار ہے کہ وہ سُن لیتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے۔ اصل یہ ہے کہ جب تک جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کردے خداتعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ212تا213۔ایڈیشن1984ء)

مخالفانہ تحریروں کاجواب

مخالف جو گالیاں دیتے ہیں اور گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں۔ ہم کو اُن کا جواب گالیوںسے کبھی دینا نہیں چاہیے۔ ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں، کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کو کم کریں۔ اُن کو تو مخاطب کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ لوگ بجائے خود واجب الرحم ہیں۔ ہاں فضول باتوں کو نکال کر اگر کسی معقول اعتراض کا جواب عوام کو دھوکہ سے بچانے کے لیے دیا جاوے تو نامناسب نہیں۔ اگر ہم ان کے مقابل پر سخت زبانی کا استعمال کریں تو یہ تو اپنے مرتبہ کا بھی تذلّل ہے اگر کبھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے تو وہ حق کی لازمی مرارت ہے جو دوا کے طور پر ہے جس کی نظیر انجیل اور نبیوں کے کلام میں پائی جاتی ہے۔ رِیس اور تقلید کرنا انبیاء کا کام نہیں۔ نام تو وہی ہوتا ہے جو آسمان پر رکھا جاتا ہے۔ کسی کے ظالم، کافر کہنے سے کیا بنتا ہے۔ زمینی ناموںکا آخر خاتمہ ہو جاتا ہے اور آسمانی نام ہی رہ جاتے ہیں۔ پس دنیا کے کیڑوں کے ناموں کی کیا پرواہ ؟اُس نام کی قدر کرو جو آسمان پر نیک لکھاجاوے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ217تا218۔ایڈیشن1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button