متفرق مضامین

رمضان۔ مغفرت کا مہینہ

(نصیر احمد قمر۔ ایڈیشنل وکیل الاشاعت (طباعت))

’’خدا تعالیٰ جیسا غفور اور رحیم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پریقین کامل رکھو کہ وہ تمام گناہوں کو بخش سکتاہے اور بخش دیتاہے‘‘

انسان فطرتاً بہت ہی کمزور اور خطا و نسیان کا پتلا ہے۔ ‘‘نفس امّارہ اس کے ساتھ ساتھ لگا ہواہے اور خون کی طرح انسان کے ہر رگ و ریشہ اور ذرّ ہ ذرّہ میں داخل ہے’’۔ کوئی انسان اللہ کے فضل اور رحم کے بغیر شیطان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ایک اٹل حقیقت ہے اور‘‘نفس امارہ کا مغلوب کرنا بہت بھاری مجاہدہ ہے’’۔ بعض گناہ ظاہر ہوتے ہیں اور بعض مخفی او ر چونکہ اللہ تعالیٰ ‘‘غَفُور’’ہے اور ‘‘ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْر’’۔بہت معاف کرتا ہے اور درگزر فرماتاہے اس لیے اکثر انسان کو اپنے مخفی گناہوں کا علم نہیں ہوتا حالانکہ ہو سکتاہے کہ کئی مخفی گناہ ظاہر کے گناہوں سے زیادہ بدتر اور خطرناک ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘گناہوں کا حال بھی بیماریوں کی طرح ہے ۔ بعض موٹی بیماریاں ہیں ہر ایک شخص دیکھ لیتاہے کہ فلاں بیمار ہے مگر بعض ایسی بیماریاں ہیں کہ بسا اوقات مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتاکہ مجھے کوئی خطرہ دامنگیر ہے ۔…ایساہی انسان کے اندرونی گناہ ہیں جو رفتہ رفتہ اسے ہلاکت تک پہنچا دیتے ہیں ۔’’

(ملفوظات جلد 9صفحہ280،ایڈیشن1984ء)

گناہ کیاہے؟گناہ دراصل اس حدِّ اعتدال سے باہر جانے کا نام ہے جس حد اعتدال پر خدا تعالیٰ انسان کو قائم کرنا چاہتاہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حد اعتدال سے باہر جانے کا نام ہی ظلم ہے ۔ ‘‘جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں’’۔ وہ لو گ جو بہت باریک بینی سے اپنے اعمال و افعال کا تجزیہ نہیں کرتے رفتہ رفتہ وہ اس حد سے بہت دور نکل جاتے ہیں اور وہ گناہ جو ابتدا میں چھوٹے ہوتے ہیں انسان کو بتدریج بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی طرف لے جاتے ہیں اور‘‘ طرح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رچ جاتے ہیں کہ ان سے نجات مشکل ہو جاتی ہے’’۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘… اللہ جلّ شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکاوزاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتاہے تو وہ مولائے کریم اس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتاہے اوراپنی عظمت کا غلبہ اس پر اس قدر کردیتاہے کہ بے جا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں دور بھاگ جاتاہے۔’’(ملفوظات جلد 3صفحہ315،ایڈیشن1988ء)پس ‘‘ دعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دُور ہوتی ہے ’’۔ اور ‘‘گناہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگنی چاہئیں۔’’

قرآ ن مجید میں آغاز ہی میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ مذکور ہے کہ ان سے ایک بھول ہوئی اور وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ۔ تب آپؑ کو نہایت شرمندگی ہوئی او رآپؑ نے اپنی کمزوریوں کی تلافی کرنا چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ا ٓپ کوکچھ دعائیہ کلمات سکھائے ۔ جب آپ نے ان کے مطابق دعا کی تو خداتعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کی طرف متوجہ ہوا اور آپ کی توبہ کو قبول کیا اور رحمت کا سلوک فرمایا ۔وہ کون سے مبارک کلمات تھے جو خدا تعالیٰ نے ہمارے جدّامجد حضرت آدم علیہ السلام کو سکھائے کہ جن کی تکرار سے خداتعالیٰ اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ آپؑ کی طرف متوجہ ہوا۔ قرآن مجید نے وہ دعائیہ کلمات ہمارے لیے محفوظ فرمائے ہیں ۔ قرآن مجید بیان فرماتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے ساتھی نے یہ دعا کی کہ

رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف :24)

اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پررحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہونگے ۔

یہ دعا جو حضرت آدم علیہ السلام کے لیے خدا کی مغفرت اور رحمت کو کھینچ لانے کا موجب ہوئی تھی آج بھی خدا کے فضلوں کوجذب کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے اگر اس دعا کو اس کے معانی ومفاہیم پرگہری نظر رکھتے ہوئے کامل عجز اور انکسار کے ساتھ اور پورے درد کے ساتھ کیا جائے۔ اپنے ظلموں کا اقرار اور خداتعالیٰ کی مغفرت اور رحمت پرکامل یقین حقیقی توبہ کا پہلا قدم ہے ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلا م کے ہاتھوں جب غیر ارادی طورپر ایک شخص مارا گیا تو آپؑ نے بھی اپنے گناہ کا اقرار کرتے ہوئے بخشش طلب کی اور یوں عرض کی

رَبِّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ

اے میرے ربّ مَیں نے اپنی جان پر ظلم کیا پس تو مجھے بخش دے ۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہ ھُوَالْغَفُوْرُالرَّحِیْم۔(القصص:17)

سو اس نے اسے بخش دیا اور وہ بہت بخشنے والا باربار رحم فرمانے والاہے

اسی طرح جب حضرت یونس علیہ السلام سے ایک خطا ہوئی اور اس کی پاداش میں آپؑ مچھلی کے پیٹ میں ڈالے گئے تو آپؑ نے یوں دعا کی :

لَا اِلٰہ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ

(الانبیاء:88)

اے اللہ تیرے سوا کو ئی معبود نہیں ہے ۔تو ہر عیب سے پاک ہے۔ یقینا ًمَیں ہی ظالموں میں سے ہوں۔ آپؑ نے یہ دعا اس زاری سے کی کہ خداتعالیٰ فرماتاہے

فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنَاہُ مِنَ الْغَمِّ (الانبیاء:89)

ہم نے اس کی پکار کو قبول کیا اور اسے غم سے نجات دی ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ؓنے ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی دعا سکھائیں جو مَیں بطورخاص نماز میں کیا کروں۔ تو آپ ؐ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو:

اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَلَا یَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُالرَّحِیْم

اے اللہ !مَیں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے سوا کوئی گناہ کو نہیں بخشتا۔ پس تو اپنی مغفرت سے مجھے ڈھانپ لے اور مجھ پر رحم فرما ۔ یقینا ًتو بہت بخشنے والا باربار رحم کرنے والاہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘دیکھو !خدا تعالیٰ جیسا غفور اور رحیم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ پریقین کامل رکھو کہ وہ تمام گناہوں کو بخش سکتاہے اور بخش دیتاہے۔خداتعالیٰ فرماتاہے کہ اگردنیا بھر میں کوئی گنہگار نہ رہے تو مَیں ایک اور اُمّت پیدا کروں گا جو گناہ کرے اور مَیں اسے بخش دوں۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام غفور ہے اور ایک رحیم ۔ یاد رکھو کہ گناہ ایک زہر ہے اور ہلاکت ہے مگر توبہ او ر استغفار ایک تریاق ہے ۔قرآن شریف میں آیاہے

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (البقرہ :223)۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پیار کرتا ہے جو توبہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاک ہو جاویں ۔ خدا تعالیٰ نے ہر ایک شے میں ایک حکمت رکھی ہے ۔اگر آدم گناہ کر کے توبہ نہ کرتا اور خداتعالیٰ کی طرف نہ جھکتا تو صفی اللہ کا لقب کہاں سے پاتا؟ اگرکوئی انسان ایسا اپنے آپ کو دیکھتا کہ جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے اور اپنے اندر کو ئی گناہ نہ دیکھتا تو اس کے دل میں تکبر پیدا ہو تاجو تمام گناہوںسے بڑا گناہ ہے اور شیطان کا گناہ ہے۔ شیطان نے گھمنڈ کیا کہ مَیں نے کوئی گناہ نہیں کیا اسی واسطے وہ شیطان بن گیا۔ گناہ جو انسان سے صادر ہوتاہے وہ نفس کو توڑنے کے واسطے ہے ۔ جب انسان سے گناہ ہوتاہے تو وہ اپنی بدی کا اقرار کرتاہے اور اپنے عجز کو یقین کر کے خداتعالیٰ کی طرف جھکتاہے۔ …اگر گناہ صادر ہو جائے تو توبہ کرو کہ وہ اس کے واسطے تریاق ہے اور گناہ کے زہر کو دو ر کردیتی ہے۔ عاجزی اور تضرع سے خداتعالیٰ کے حضور میں جھکو تا کہ تم پر رحم کیا جاوے۔ اگر گناہ نہ ہوتا تو ترقی بھی نہ ہوتی۔ جو شخص جانتاہے کہ مَیں نے گناہ کیاہے اور اپنے کو ملزم دیکھتاہے وہ خداتعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تب اس پررحم کیا جاتاہے اور ترقی پکڑتاہے۔لکھاہے

اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ۔

گناہ سے توبہ کرنے والا ایساہے کہ گویا اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔ لیکن توبہ سچے دل کے ساتھ ہونی چاہئے اور نیت صادق کے ساتھ چاہئے کہ انسان پھر کبھی اس گناہ کا مرتکب نہ ہوگا گو بعد میں بہ سبب کمزوری کے ہو جاوے لیکن توبہ کرنے کے وقت اپنی طرف سے پختہ ارادہ اور سچی نیت رکھتاہو کہ آئندہ یہ گناہ نہ کرے گا ۔نیت میں کسی قسم کا فساد نہ ہو بلکہ پختہ ارادہ ہو کہ قبر میں داخل ہونے تک ا س بدی کے قریب نہ آئے گا تب وہ توبہ قبول ہوجاتی ہے۔’’

(ملفوظات جلد 5صفحہ43تا44،ایڈیشن1988ء)

حضور علیہ السلام نے عہد بیعت میں بھی یہ دعا شامل فرمائی ہے کہ

رَبِّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ ذُنُوبِیْ فَاِنَّہٗ لَایَغْفِرُالذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ

اے میرے ربّ مَیں نے اپنی جان پرظلم کیاہے اور مَیں اپنے گناہ کا اعتراف کرتاہوں ۔ پس تو میرے گناہ بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہ بخشنے والا نہیں۔

رمضان کا مہینہ مغفرت کا مہینہ ہے ۔یہ مہینہ دعائوں کا مہینہ ہے ۔ ہم ہزار قسم کی ظلمتوں میں مبتلا ہیں۔ کئی گناہ ایسے ہیں جو خود کو دکھائی دیتے ہیں اور اکثر خود ہماری نظروں سے بھی پوشیدہ ہیں مگراللہ تعالیٰ ان سے واقف ہے ۔

آئیے اس رمضان میں اپنے گناہوں کی بخشش اور نفس امّارہ سے نجات کے لیے خصوصیت سے دردمندانہ دعائیں مانگیں ۔

مولا مرے قدیر مرے کبریا مرے

پیارے مرے حبیب مرے دلربا مرے

بارگنہ بلا ہے مرے سر سے ٹال دو

جس رہ سے تم ملو مجھے اس رہ پر ڈال دو

اک نور خاص میرے دل و جاں کو بخش دو

میرے گناہ ظاہر و پنہاں کو بخش دو

بس اک نظر سے عقدۂ دل کھول جائیے

دل لیجئے مرا مجھے اپنا بنائیے

ہے قابل طلب کوئی دنیا میں اور چیز؟

تم جانتے ہو تم سے سواکون ہے عزیز

دونوں جہاں میں مایۂ راحت تمہیں تو ہو

جو تم سے مانگتاہوں وہ دولت تمہیں توہو

٭…٭…٭

نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے

کھلا تو ہے تری ‘‘جنت کا باب’’ جانے دے

مجھے تُودامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی

حساب مجھ سے نہ لے ‘‘بے حساب’’ جانے دے

سوال مجھ سے نہ کر اے مرے سمیع و بصیر

جواب مانگ نہ اے ‘‘لاجواب’’جانے دے

مرے گنہ تری بخشش سے بڑھ نہیں سکتے

ترے نثار حساب وکتاب جانے دے

تجھے قسم ترے ‘‘ستّار’’ نام کی پیارے

بروئے حشر سوال وجواب جانے دے

بُلا قریب کہ یہ ‘‘خاک’’پاک ہو جائے

نہ کر یہاں مری مٹّی خراب جانے دے

رفیق جاں مرے،یارِوفا شعار مرے

یہ آج پردہ دری کیسی ؟ پردہ دار مرے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button