خلاصہ خطبہ جمعہ

مکرم ذوالفقار احمد دامانک صاحب مبلغ انڈونیشیا، ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب اور مکرم غلام مصطفیٰ صاحب کا ذکرِ خیر

اِن کے واقعات سُن کر یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اِس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعودؑ سے جُڑ کر ہی بندے اور خدا کے درمیان حقیقی تعلق پیداکرنے کا سلیقہ آسکتا ہے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم مئی2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ یکم مئی 0202ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمدصاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اِس وقت مَیں چند مرحومین کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ۔ اِن میں سے ہر ایک مختلف پیشے سے منسلک تھا۔ مصروفیات اور تعلیمی معیار مختلف تھے لیکن ایک چیز مشترک تھی کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہدِ بیعت کو نبھانے والے حضرت مسیح موعودؑ اور خلافتِ احمدیہ سے کامل وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے،حقوق العباد کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اِن کے واقعات سُن کر یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اِس زمانے میں ہمیں حضرت مسیح موعودؑسے جُڑ کر ہی بندے اور خدا کے درمیان حقیقی تعلق پیداکرنے کا سلیقہ آسکتا ہے۔

جن مرحومین کا ذکر مَیں نے کرنا ہے اُن میں سے ایک ہمارے مبلّغ ِ سلسلہ ذوالفقار احمد دامانک صاحب ریجنل مبلغ انڈونیشیاہیں۔ آپ 21؍ اپریل کو 42سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم 24 مئی 1978ء کو نارتھ سماٹرا میں پیدا ہوئے۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ 1944ء میں ان کے دادا کے ذریعے ہو ا۔ ذوالفقار صاحب نے 1997ء سے 2002ء تک جامعہ احمدیہ انڈونیشیامیں تعلیم حاصل کی۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ مکرمہ مریم صدیقہ صاحبہ اور اُن کے چار بچے ہیں ۔ مرحوم نہایت کامیاب اور محنتی مبلغ تھے۔ ہر ایک سے نرمی سے بات کرتےاور سب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے۔ موصوف اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن مبلغین میں شامل تھے جنہیں کثیرتعداد میں بیعتیں کروانے کی سعادت ملی۔ اس وجہ سے آپ کو جماعتی انتظام کے تحت 2018ء میں یہاں جلسے پر آنے کا بھی موقع ملا۔ گُم شدہ مبائعین سے رابطے بحال کرنے کے سلسلے میں اِن کو کشتی کے ذریعے چھوٹے چھوٹے جزیروں میں جانا پڑتا تھا۔ مریض ہونے کے باوجود ہمت کرتے اور کہتے میرے اندر جب تک خدمت کی طاقت ہے مَیں آخری دم تک خدمت کرتا رہوں گا۔ ڈائلیسز کی وجہ سے ہسپتال میں زیرِ علاج تھے ۔اس حالت میں ایک لوکل اجلاس میں شامل ہوئے کسی خادم نے پوچھا کہ اتنی تکلیف کیوں اٹھائی تو آپ نے یہی جواب دیا کہ اگرچہ مَیں بیمار ہوں لیکن میری خواہش ہے کہ مَیں ہمیشہ خدمتِ دین کے کاموں میں مصروف رہوں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ یہ ہے وہ واقفِ زندگی کا جذبہ جو ہر ایک واقفِ زندگی میں ہونا چاہیے ۔

مرحوم میں تبلیغی امور سرانجام دینے کا ایک خاص جذبہ تھا۔ داعیان اور لوکل مبلغین کے انتظامات خوش اسلوبی اور مہارت سے سرانجام دیتے۔ انہوں نے اپنے عہدِ بیعت اور وقف کے عہد کو خوب صورتی سے نبھایا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ان کی اہلیہ اور بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خود ان کا کفیل بھی ہو۔

دوسرے مرحوم جن کا مَیں نے ذکر کرنا ہے وہ اسلام آباد پاکستان کےڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب ہیں جو کورونا وائرس کے سبب 18؍اپریل کو وفات پاگئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ سب بچے شادی شدہ اور اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ مرحوم کےددھیال اور ننھیال سب صحابہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے تھے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت صوفی احمد جان صاحب سے ملتا ہے۔ آپ کے دادا حضرت پیر مظہر الحق صاحبؓ اور نانا حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ دونوں کو حضرت مسیح موعودؑ کے اکابر صحابہ میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ حضرت پیر مظہرالحق صاحبؓ کو مدرسہ احمدیہ میں حضرت مصلح موعودؓ کاکلاس فیلو ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب 1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت تقریباً ایک سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ہم راہ قادیان سے ہجرت کرکے پہلے لاہور اور پھر میلسی ضلع وہاڑی میں آباد ہوئے۔ 1970ء میں نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا اور چند سال بعد اسلام آباد میں شفٹ ہوگئے جہاں سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں ملازمت اختیارکی۔کافی عرصہ خدمت کے بعد دو تین سال کے لیے ایران چلے گئے تھے اور اب گذشتہ پچیس تیس سال سے اسلام آباد میں بڑی کامیابی سے اپنا کلینک چلا رہے تھے۔غریبوں کی بڑی خدمت کرتے تھے۔

امیر صاحب اسلام آباد لکھتے ہیں کہ مرحوم گذشتہ بارہ سال سے جماعت احمدیہ اسلام آباد میں قاضی کے منصب پر خدمت بجا لارہے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوا کرتے تھے ۔ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار،پیار کرنے والے شفیق اور غریب پرور، ہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مخلوقِ خدا کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ جماعت کے غربا اورباقی نادار مریضوں کے لیے آپ کا کلینک ہمیشہ کھلا رہتا۔بڑے نافع الناس وجود تھے۔ نوجوانی میں ڈاکٹری کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب اپنے دادا حضرت پیر مظہرالحق صاحبؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے نصیحت فرمائی کہ اپنے مریضوں کو دوا دینے کے علاوہ اُن کے لیے دعا بھی کرنا۔ ڈاکٹرصاحب فرماتے تھے کہ مجھے ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کیے ہوئے پچاس سال ہوئے ہیں اور مَیں پچاس سال سے اپنے دادا کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے مریضوں کا نہ صرف سستا علاج کرتا ہوں بلکہ اُن کے لیے بِلا ناغہ ہرروز دو نفل نماز پڑھتا اوراُن کے لیے دعا کرتا ہوں۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ ہے وہ طریق جو ہمارے ہر ڈاکٹر،ہر طبیب کو اپنانا چاہیے ۔ صرف اپنے پیشے میں مہارت پر ہی اعتماد نہ رکھیں۔ صرف دوائیوں پر ہی یقین نہ ہوبلکہ مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے بھی پیش آئیں۔ اُ ن کے لیے دعا بھی ضرور کریں۔

مرحوم کی اہلیہ عظمیٰ نقی صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میرے شوہر انتہائی مخلص اور فدائی احمدی تھے ۔ تبلیغ کاجنون کی حد تک شوق تھا۔ جلسہ سالانہ پر غیراز جماعت احباب کو خصوصاً گھرپر مدعو کرتے اور پُرتکلّف کھانوں سے اُن کی تواضع کرتے۔ آپ نے بہت سی بیعتیں بھی کروائیں اور بہت سوں کو احمدیت کی صداقت کے متعلق قائل بھی کیا۔ زندہ خدا سے تعلق بہت گہرا تعلق تھا۔

مرحوم بےحد دعا گو تھے۔ شادی بیاہ اور دیگرمواقع پر ہونے والی بدرسومات اور بدعات کے سخت خلاف تھے۔ قرآن کریم کا گہرا عِلْم رکھتے ، اکثر لمبی لمبی آیات زبانی یاد تھیں۔حضورِانورنے کئی احباب کے بیان کردہ واقعات پیش فرمائے جن سے عِلْم ہوتا ہے کہ زندہ و قائم خدا مرحوم کی دعاؤں کا جواب بھی دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

اگلا ذکر مکرم غلام مصطفیٰ صاحب آف لندن حال ٹلفورڈ کا تھا۔ آپ 25؍ اپریل کو 69برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہ ِوَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رضاکار کارکن تھے۔

مرحوم نے 1986ء میں لندن آنے کے بعد وقف کی درخواست دی لیکن چونکہ تعلیم واجبی تھی اس لیے وقف تو منظور نہ ہوا لیکن ہمیشہ ایک واقفِ زندگی کی طرح کام کرتے رہے۔ ابتدا میں خالی ہاتھ تھے لیکن پھر خدا نے برکت ڈالی اور وسیع کاروبار کے مالک بن گئے لیکن وقف کی رُوح ایسی تھی کہ اگرکاروبار کے سلسلے میں کہیں ملک سے باہر جانا ہوتایا ویسے ہی لمبی چھٹی چاہیے ہوتی تو باقاعدہ رخصت لیتے تھے۔ غرض واقفِ زندگی نہ ہوتے ہوئے بھی بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اللہ سے کیا ہوا اپنا عہد نبھایا۔پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹاشامل ہیں۔

اِن کی اہلیہ محمودہ مصطفیٰ صاحبہ لکھتی ہیں کہ مرحوم کا ہر قدم خداتعالیٰ کےلیے ہوتا تھا۔بےشمار اوصاف کے مالک ایک مخلص شوہر،باپ،بھائی اور دوست تھے۔ دُور اندیش اور بےلوث خدمت کرنے والے،بہادر،نڈر انسان تھے۔ خلافت پر مرمٹنے والےتھے۔کہتے تھے کہ مَیں نےپاکستان میں بیعت کرنے کے بعداپنے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ مَیں نے ہمیشہ خلافت کے نزدیک رہنا ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ اُس وقت اِن کے پاس وسائل نہیں تھے لیکن انہوں نےخداتعالیٰ کے فضل سے وہ وعدہ پورا کیا۔ مالی قربانی میں بھی بہت بڑھے ہوئے تھے۔اپنی ذات پر کنجوسی کی حد تک کم خرچ کرتے لیکن دوسروں پر خرچ کرنے سے پہلے کبھی سوچتے بھی نہیں تھے۔ مختلف طریقوں سے اپنے رشتےداروں اور بہن بھائیوں کی مدد کرتے رہتے۔ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے کہ کہیں سے خلیفة المسیح کا تبرک مل جائے۔پھر تبرککو لوگوں میں بھی تقسیم کرتے اور جلسے کے مہمانوں کے لیے بھی محفوظ رکھتے تاکہ انہیں بھی اِس میں سے حصّہ دے سکیں۔ مہمان نوازی کی صفت بھی بہت بڑھی ہوئی تھی جلسے کے مہمانوں کی بھرپور مہمان نوازی کیا کرتے تھے۔

آخری علالت کے دوران کورونا وائرس کی شدت کو بڑی ہمت کے ساتھ برداشت کیا۔ نہایت پختہ طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ تکلیف جب انتہائی بڑھ جاتی تو گھر والے کہتے کہ خلیفۂ وقت کا پیغام ہے کہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق عمل کریں۔ جب ان کو یہ پیغام ملتا تواچانک مطمئن ہوجاتے۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سےفرمایا کہ یہ لوگ شہدا ء میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے۔جس طرح انہوں نے خدا تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ وفا کی اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر اِن سے پیار کا سلوک فرمائے۔اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کوبھی اپنی حفظ وامان میں رکھےاور ان کی نیکیاں اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button