حضرت مصلح موعود ؓمتفرق مضامین

ہدایاتِ زرّیں (مبلغین کو ہدایات) (قسط اول)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

26؍جنوری1921ء بعد نماز عصر بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے مبلغین جماعت احمدیہ، مبلغین کی کلاس کے طلباء، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسرانِ صیغہ جات کے سامنے حسب ذیل تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات سے نوازا۔

حضورِ انور نے اپنی اس تقریر میں مبلغ کے معانی، اس کے کام اور اُس کی اہمّیت کے علاوہ مبلغ کے بعض ضروری اوصاف مثلاً مبلغ بے غرض ہو، دلیر ہو، لوگوں کا ہمدرد ہو۔ دنیاوی علوم بھی جانتا ہو، فضول خرچ نہ ہو، عبادات کا پابند ہو، دعا گو ہو، انتظامی قابلیت رکھتا ہو، دشمن کو حقیر نہ سمجھتا ہو، کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے، اپنا علم بڑھاتا رہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا جانتا ہو، اس میں ایثار کا مادہ ہو، عقلی دلائل سے آگاہ ہو، چُست و ہوشیار ہو، غلیظ نہ ہو، خودستائی اس میں نہ ہو، احباب کے اخلاق پر نظر رکھنے والااور بے ہودہ بحثوں سے بچنے والا ہو وغیرہ پیش فرمائے۔

چونکہ ہر احمدی انفرادی طور پر مبلغ کی حیثیت بھی رکھتا ہے اس لیے ان ہدایات کو افادۂ عام کے لیے الفضل میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو محض اپنے فضل کے ساتھ کامیاب مبلغ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (مدیر)

مبلغین کو ہدایات

تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

تبلیغ کے طریقوں پر غور کرنا

ہم چونکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اَور ذمہ داریوں کے علاوہ اس ذمہ داری کا اٹھانا بھی ضروری قرار دیا ہوا ہے کہ ساری دنیا کو ہدایت پہنچائی جائے اور ہر مذہب، ہر ملت ، ہر فرقہ اور ہر جماعت کے لوگوں کو ہدایت کی جائے اس لیے ہمارے لئے تبلیغ کی ضروریات پر غور کرنا اور اس کے لیے سامان بہم پہنچانا نہایت ضروری معاملہ ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس معاملہ پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کہ تبلیغ کن ذرائع سے کرنا زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور کن طریقوں کو کام میں لا نے سے اعلیٰ نتائج نکل سکتے ہیں ۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ تیس سال سے زیادہ عرصہ ہمارے سلسلہ کو تبلیغ شروع کیے ہوئے ہوا ہے مگر اس وقت تک وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے جن کے پیدا ہونے کی امید ان صداقتوں کی وجہ سے کی جاسکتی ہے جو ہمارے پاس ہیں۔ مفید اور اعلیٰ نتائج دو ہی طرح پیدا ہوا کرتے ہیں یا تو طاقت ور ہاتھ ہوں، مضبوط بازوہوں یا اعلیٰ درجہ کے اور مضبوط ہتھیار ہوں اور اعلیٰ درجہ کا نتیجہ اسی طرح نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حاصل ہوںورنہ اگر طاقت ور ہاتھ ہوں لیکن ہتھیار ناکارہ اور کمزور ہو ں تو بھی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا اور اگر ہتھیار اعلی درجہ کے ہوں لیکن ہاتھوں میں طاقت نہ ہو تو بھی بہتر نتیجہ نہیں رونما ہو سکتا مثلاً اگر کمزور شخص ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تلوار لے کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہوجائے تو مار ہی کھائے گا۔یا طاقتور انسان ہو مگر خراب اور ناقص بندوق لے کر کھڑا ہوجائے تو بھی شکست ہی کھائے گا پس مفید اور اچھا نتیجہ اس صورت میں نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں حاصل ہو ں ۔ ہاتھوں میں طاقت اور قوت بھی ہو اور کام کی مشق ہو اور ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے ہوں۔

متوقع نتائج کیوں نہیں نکل رہے ؟

اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جس نتیجہ کے نکلنے کی ہمیں امید ہو سکتی ہے وہ اگر نہیں نکلتا تو ان دونوں میں سے کون سی چیز ہے جس میں کمی ہے ۔ آیا ہمارے پاس ہتھیار ایسے ناقص ہیں کہ ان سے کام نہیں لیا جا سکتا ؟ یا ہتھیار تو اعلیٰ درجہ کے ہیں مگر ہم ایسے نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکیں۔ یا دونوں باتیں نہیں ہیں ۔ ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں ا ور ہم بھی اس قابل نہیں کہ کام کر سکیں۔

جب ہم غور کرتے ہیں ۔ تو اس امرمیں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ہتھیار تو ہمارے پاس اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ کیوں کہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل ہمارے پاس ہیں وہ بہت مضبوط اور زبردست ہیں ۔ خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جو دلائل اور براہین ہمیں پہنچے ہیں ان کی قوت اور طاقت کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں ۔ اس بات کی موجودگی میں اور پھر اس بات کے ہوتے ہوئے کہ ہم شواہد اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑخدا تعالیٰ کی طرف سے تھے ۔ پھر اعلیٰ درجہ کے نتائج کا نہ نکلنا بتاتا ہے کہ ہم میں ہی نقص ہے ورنہ اگر ہم ان ہتھیاروں کو عمدگی کے ساتھ چلانے والے ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اعلیٰ درجہ کے نتائج نہ پیدا ہو ں۔ بس یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیار چلانے والے اچھے نہیں ہیں اور انہیں ہتھیار چلانے کا فن نہیں آتا ۔ چونکہ نیا سال شروع ہو رہا ہے اس لیے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ دوستوں کو جمع کرکے مَیں اس مضمون پر کچھ بیان کروں کہ کس طرح تبلیغ کے عمدہ نتائج نکل سکتے ہیں۔

مخاطبین

اس مجلس میں مَیں نے ایک تو ان لوگوں کو بلایا ہے جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور دوسرے ان کو بلایا ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں تاکہ ابھی سے ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں اور ان کے دلوں پر نقش ہو ں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان کہنے کا ارشاد فرمایا ہے(ترمذی کتاب الاضاحی باب الاذانُ فی اُذُن المولود) تاکہ پہلے دن ہی اس کے کان میں خداکانام پڑے ۔ تو مَیں نے اس لیے کہ جو مبلغ بننے والے ہیں ان کے دلوں میں ابھی سے یہ باتیں بیٹھ جائیں ان کو بھی بلایا ہے یہ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں ۔ پھر میرے مخاطب منتظمین ہیں جنہوں نے مبلغین سے کام لینا ہے کیونکہ جب تک انہیں ان باتوں کا علم نہ ہو وہ کام نہیں لے سکتے تو اس وقت میرے مخاطب تین گروہ ہیں اول وہ جو کام کر رہے ہیں ۔ دوسرے وہ جو اس وقت تو کام نہیں کر رہے لیکن دو تین سال کے بعد کام کرنے والے ہیں اور تیسرے وہ جنہوں نے کام لینا ہے۔

مخاطبین کی پہلی قسم

پھر اس وقت میرے سامنے تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ جن کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے جیسے طالب علم جو آئندہ کام کرنے والے ہیں ان کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے اور ان کی مثال ایسی ہے جیسی کہ کنویں کے مینڈک کی ایک مثل بیان کی جاتی ہے کہ کوئی کنویںکا مینڈک تھا وہ سمندر کے مینڈک سے ملا اور پوچھا بتاؤ سمندر کتنا بڑا ہے ۔ سمند رکے مینڈک نے کہا بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اس نے کہا کیا کنویں جتنا ۔ کہا ۔ نہیں بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس پر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ لگائی اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے ۔ اس نے کہا نہیں ۔ یہ کیا ہے وہ بہت بڑا ہوتا ہے ۔ اس پر کنویں کے مینڈک نے دو تین اکٹھی چھلانگیں لگا کر پوچھا اتنا بڑا۔ اس نے کہا یہ کیا بے ہودہ اندازہ لگاتے ہو سمندر تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ کنویں کے مینڈک نے کہا تم بہت جھوٹے ہو اس سے بڑا کیا ہو سکتا ہے مَیں تم جیسے جھوٹے کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا ۔ تو طالب علموں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے ۔ ان کو اگر ایک بات بھی مل جاتی ہے اور استاد سے کوئی ایک دلیل بھی سن لیتے ہیں تو کہتے ہیں اسی دلیل کو لے کر کیوں لوگ نہیں نکل جاتے اور ساری دنیا کو کیوں نہیں منوا لیتے ۔ اس کی کیا تردید ہوسکتی ہے اور کون ہے جو اس کو توڑ سکتا ہے ۔ حالانکہ مختلف طبائع مختلف دلائل کی محتاج ہوتی ہیں ۔ اور مختلف لیاقتوں کے دشمنوں کے مقابلہ میں مختلف ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ اگر ایک دلیل ایک قسم کے پانچ دس آدمیوں کے لیے مفید ہوتی ہے تو سینکڑوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ بعض اور قسم کے دلائل کے محتاج ہوتے ہیں ۔ پس مبلغ کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

تو بعض لوگوں کے خیالات بالکل محدود ہوتے ہیں وہ ایک دلیل کو لے لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہ سب کے لیے کافی ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ پھر یا ایسے لوگوں کی مثال ان بچوں کی سی ہے جو گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیریوں کے درختوں کے سرے سے بیرکھا چھوڑے یا جانوروں کے لیے چارہ لے آئے یا جانوروں کو باہر چرا لائے ۔ انہوں نے نہ کبھی کوئی شہر دیکھا ہوتا ہے نہ ریل اور تار سے واقف ہوتے ہیں اور جب کوئی ان کے متعلق ا نہیں باتیں سناتا ہے تو وہ اس طرح سنتے ہیں جس طرح کہانیاں سنی جاتی ہیں اس سے زیادہ دلچسپی ان کو نہیں ہوتی اور نہ کوئی اثر ان پر پڑتا ہے۔ ان بچوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کے قلب پر یہ اثر پڑتا ہے کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو ان چیزوں کو دیکھیں گے ورنہ سب ان باتوں کو سن کر اسی طرح مطمئن ہوجاتے ہیں جس طرح قصوں اور کہانیوں کو سننے کے وقت ہوتے ہیں کہانیاں سن کر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ جن باتوں کا ان میں ذکر ہے ان کو ہم دیکھیں اور معلوم کریں ۔ یہی حال طالب علموں کا ہوتا ہے اور ایسے ہی لوگوں کا جن کے خیال و سیع نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک نکتہ سے وہ سب مباحثات میں فتح پا لیں گے وہ حیران ہوتے ہیں کہ دشمن کی فلاں دلیل کو توڑنا کون سی مشکل بات ہے ۔ ہمارے استاد نے یا فلاں مولوی صاحب نے جو بات بتائی ہے اس سے فوراً اسے رد کیا جا سکتا ہے ۔ اور دشمن کو اپنی بات منوانے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک غلط اور نادرست بات بھی ایسے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ عوام کو درست ہی معلوم ہو یا ایک ایک بات میں اعتراض کے کئی ایسے پہلو نکالے جا سکتے ہیں جن کی طرف پہلے ان کا خیال بھی نہیں گیا ہوتا ۔

دوسری قسم

دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نظر تو محدود نہیں ہے وہ دنیا میں پھرے ہیں لوگوں سے ملے ہیں مخالفین کے اعتراضات سننے کا انہیں موقع ملا ہے مگر ان کی نظر کی وسعت عرض کے لحاظ سے ہے عمق کے لحاظ سے نہیں ۔

مَیں نے عورتوں کو کئی دفعہ بڑی حیرت سے یہ کہتے سنا ہے کہ لوگ خدا کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں بھلا خدا کی ہستی کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے ؟ مگر ان کو دنیا کا علم نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتیں کہ دنیا میں ایسےبھی لوگ ہیں جو حیرت سے پوچھتے ہیں کہ دنیا خدا کو مانتی کیوں ہے ؟ بھلا اس کے ماننے کے لیے بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے ۔ ان عورتوں نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر یہ سمجھا کہ خدا کا انکار کوئی کر ہی نہیں سکتا لیکن اگر ان کی نظر وسیع ہوتی اور وہ دنیا کے لوگوں کی حالت سے آگاہ ہوتیں تو پھر وہ حیرت کے ساتھ یہ نہ کہتیں ۔

تو ہمارے مبلغوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو عرض کے لحاظ سے تو وسعت حاصل ہے مگر ان کے اندر عمق نہیں ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ لوگوں میں مذہبی مسائل میں کتنا اختلاف ہے۔ مگر یہ نہیں جانتے کہ کیوں ہے؟ کیوں پیدا ہوا ہے ؟اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کنویں میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس میں پانی ہے اور اتنی جگہ میں ہےمگر یہ نہیں جانتا کہ کتنی گہری زمین سے جاکر پانی نکلا ہے اور کس طرح نکلا ہے۔ تو یہ لوگ دنیا کے اعتراضات سے واقف ہیں ، دنیا کے خیالات انہیں سننے کا موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں دہریت پیدا ہو رہی ہے، انہیں علم ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو مذاہب کے پیروؤں کو حقیر جانتے ہیں اور مذاہب پر ہنسی اڑاتے ہیں ۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں کیوں لوگوں میں ایسے خیالات پیدا ہو رہے ہیں؟ کیوں وہ مذاہب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

تیسری قسم

تیسرا گروہ وہ ہے جس کو یہ تینوں باتیں حاصل ہیں۔ اس کی نظر بھی وسیع ہے، وہ لوگوں کے خیالات کے عرض سے بھی واقف ہے اور ان کے عمق کا بھی علم رکھتا ہے یعنی ان خیالات کے پیدا ہونے کے جو اسباب ہیں ان سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ ظاہری تغیر کے پسِ پردہ کیا طاقتیں کام کر رہی ہیں۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button