کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اللہ تعالیٰ کی شناخت کا یہی طریق ہے کہ اس وقت تک دعا کرتارہے جب تک خدااس کے دل میں یقین نہ بھر دے

قبولیتِ دعاہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل ہے

اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اُس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کہ محو و اثبات اُس کے ہاتھ میں ہے يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ(الرّعد:40)۔ دیکھواجرام سماوی کتنے بڑے اور عظیم الشان نظر آتے ہیںاور ان کی عظمت کو دیکھ کر ہی بعض نادان اُن کی پرستش کی طرف جھک پڑے ہیں او رانہوں نے اُن میں صفات ِالٰہیہ کو مان لیا جیسے ہندویا اور دوسرے بُت پرست یاآتش پرست وغیرہ جو سورج کی پوجاکرتے ہیں او راس کو اپنا معبود سمجھتے ہیں۔ کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سورج اپنے اختیار سے چڑھتاہے یاچھپتاہے؟ ہرگز نہیں اور اگر وہ کہیں بھی تووہ اس کا کیاثبوت دے سکتے ہیں۔ وہ ذرا سورج کے سامنے یہ دعا تو کریں ایک دن وہ نہ چڑھے یا دوپہر کو مثلاً چُھپ جاوے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کوئی اختیار اور ارادہ بھی رکھتاہے۔ اس کا ٹھیک وقت پر طلو ع اور غر وب تو صاف ظا ہر کرتا ہے کہ اس کااپناذاتی کوئی اختیار اور ارادہ نہیںہے۔

ارادہ کامالک تب ہی معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہواور کرنے والے امر کو کرے اور نہ کرنے والے کو نہ کرے۔

غرض اگر قبولیت ِدعانہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہو سکتے تھے اور ہوئے اور حقیقت میںجو لوگ قبولیت دعا کے قائل نہیں ہیں اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دعا اور اس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنم میں جائے گا، وہ خداہی کاقائل نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شناخت کا یہی طریق ہے کہ اس وقت تک دعا کرتارہے جب تک خدااس کے دل میں یقین نہ بھر دے او ر اَنَا الْحَقُّ کی آوازاس کو نہ آجاوے۔

قبولیت دعا کے لیے صبر واستقلال کی شرط

اس میںشک نہیں کہ اس مرحلہ کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں۔ مگر ان سب کا علاج صرف صبر سے ہوتاہے، حافظ نے کیا اچھاکہا ہے۔ شعر ؎

گویند سنگ لعل شود در مقام صبر

آرے شود ولیک بخُونِ جگر شود

یادرکھوکوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا۔ جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤںمیں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کامالک تصوّر کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سُن لے گا ا و ر اسے جواب دے گا۔ جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں، وہ کبھی بد نصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لیے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لیے بدل دے۔ وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جنا ب میں گستاخی کرتا اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے پھر یہ بھی یاد رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بےصبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں کہ ایک دَم میں سب کام ہو جائیں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بےصبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا۔ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا۔
میں ان باتوں کو کبھی نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہانیاں ہیںکہ فلاں فقیر نے پھونک مار کر یہ بنا دیا اور وہ کر دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنّت اور قرآن شریف کےخلاف ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔

ہر امر کے فیصلہ کے لیے معیا ر قرآن ہے۔ دیکھو حضرت یعقو ب علیہ السلا م کا پیا را بیٹا یو سف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اس کے لیے دعا ئیں کرتے رہے۔ اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا۔ چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں۔ اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے۔ مگر اُنہوں نے یہی کہاکہ میں خداسے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے، بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ (یوسف:95) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھاکہ دعاؤں کا سلسلہ لمباہوگیا ہے اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں میں محروم رکھناہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا،مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھاکر کبھی محروم نہیں کرتا بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا، وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتاہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دعاؤں کے زمانہ کی درازی پر وَابْيَضَّتْ عَيْنٰهُ (یوسف: 85) قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں۔ غرض دعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتاہے حضرت یعقوب ؑکی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی۔

مختصر یہ کہ دعاکایہ اُصول ہے جو اس کو نہیں جانتاوہ خطرناک حالت میں پڑتاہے اور جو اس اُصول کو سمجھ لیتاہے اس کا انجام اچھااور مبارک ہوتاہے۔

(ملفوظات جلد 3صفحہ204تا207۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button