متفرق مضامین

کورونا وائرس کے اینٹی جن اور اینٹی باڈی ٹیسٹ اور ہرڈامیونٹی

(پروفیسرڈاکٹر امۃ الرزاق کارمائیکل)

یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

آج کل دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ اِس کے بارے میں بہت ہی زیادہ معلومات سوشل میڈیا، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے دنیا کو دی جارہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ معلومات لوگوں کے ذہنوں میں شبہات پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ لوگ کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی بات کرتے ہیں۔ اِس بیماری کی تشخیص کے لیے یا کہنا چاہیے کہ اس سے متعلق مختلف قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے قارئین کے لیے کچھ معلومات اکٹھی کی ہیں جنہیں یہاں عام فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاءاللہ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اِس بیماری کے برے اثرات سے محفوظ رکھے۔ آمین

اینٹی جن ٹیسٹ(Antigen Test)

کورونا وائرس انسان کے حلق میں اکٹھا ہوجاتا ہے اور اپنے بے حد پتلے پنجوں کی مدد سے انسان کے خلیات میں داخل ہوکر بیماری پیدا کرتا ہے جسے Covid-19کا نام دیا گیا ہے۔ وائرس protein یعنی لحمیات سے بنا ہوتا ہے۔ اینٹی جن ٹیسٹ کے لیے حلق سے ایک پتلی سی ڈنڈی (swab)کے ذریعے کچھ مواد اکٹھا کرلیا جاتا ہے۔ اِس مواد کوایک جراثیم سے پاک لفافے میں ڈال کر لیبارٹری میں لے جایاجاتاہے۔ وہاں پر خاص مشینوں کے ذریعے کورونا وائرس کی لحمیات یعنی اینٹی جن کا سراغ لگایاجاتا ہے۔ لحمیات ڈی این اے (DNA) پر پائے جاتے ہیں۔ ایک خاص مشین کے ذریعے کورونا وائرس کے ڈی این اے کی لاکھوں کاپیاں بنا کر اِن کا معائنہ کیا جاتاہے۔ اِس طرح سے اِن مریضوں میں بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے جن کو Covid-19ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اینٹی جن ٹیسٹ کے ذریعے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔

اینٹی باڈی ٹیسٹ

جب کورونا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو جسم کے مدافعتی نظام کو حرکت میں لاتا ہے۔ وائرس کی اینٹی جن کو ختم کرنے کے لیے جسم بھی کئی طرح کے مدافعتی مادے پیدا کرتا ہے۔ انسانی جسم میں خون کے اندر سفید جرثومے (wbc)ہوتے ہیں جن کا کام مدافعتی خلیات اور مادے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اِس طرح انسانی جسم کسی بھی وائرس یا جرثومے کا مقابلہ کرتا ہے۔ انسان کا جسم کئی قسم کی اینٹی باڈیز بنا سکتا ہے۔ ان کو امیونوگلوبن (immunoglobins) کہا جاتا ہے۔جب کورونا وائرس انسان کے جسم میں داخل ہوتا ہے تو سات دن کے اندر اندر امیونوگلوبن ایم جس کو ‘‘آئی جی ایم’’ کہا جاتا ہے انسانی جسم میں پیدا ہوجاتی ہے اور وائرس کا مقابلہ کرتی ہے۔ جیسے جیسے وائرس کم ہونے لگتا ہے۔ آئی جی ایم کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے اور جب مریض پوری طرح تندرست ہوجاتاہے تو آئی جی ایم بھی جسم سے غائب ہوجاتی ہے۔

اِس دوران انسانی جسم ایک اَور طرح کی امیونوگلوبن بھی بناتا ہے۔ جس کو‘‘ آئی جی جی’’ کہا جاتا ہے۔ آئی جی جی (IGG) وائرس کے حملے کے 14 دن بعد جسم میں بنتی ہے اور لمبےعرصے تک انسانی جسم میں رہتی ہے۔ آئی جی جی کے ذریعے انسانی جسم میں بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان وائرس کے حملے سے محفوظ رہتا ہے۔

سائنسدانوں نے آئی جی جی کی بنیاد پر اینٹی باڈی ٹیسٹ بنایا ہے۔ جس سے یہ تشخیص ہوسکتی ہے کہ آیا کوئی شخص اس بیماری سے گزر چکا ہے اور اُس کا جسم آئندہ اِس وائرس کے حملے کا مقابلہ کرسکتا ہےیا نہیں۔

Vaccination یا ٹیکہ

ٹیکے کے ذریعے انسانی جسم میں وائرس کی بہت ہی تھوڑی سی مقدار داخل کردی جاتی ہے ۔ یہ مقدار انسان کے مدافعتی نظام کو ہوشیار کردیتی ہے اور انسانی جسم آئی جی ایم اور آئی جی جی بنانے لگتا ہے۔ مگروائرس کی مقدار اتنی تھوڑی ہوتی ہے یا وائرس کا ایسا حصہ جسم میں داخل کیا جاتا ہے، جس سے انسان کو بیماری نہ ہوسکے۔ یہ ہی بنیاد ہے جس پربچوں کو Measles، Mumps اور روبیلا کے ٹیکے بچپن میں لگائے جاتے ہیں۔ اِن ٹیکوں کے ذریعے بچوں میں قوتِ مدافعت پیدا ہوجاتی ہے اور بڑے ہو کر وہ بیماری کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ہرڈامیونٹی (Herd Immunity)

جب آبادی کے بڑے حصے میں مدافعتی نظام پیدا ہوجائے تو اِس کو ہرڈامیونٹی کہا جاتاہے۔ ایسی حالت میں وائرس ایک آدمی سے دوسرے کو بیماری نہیں دے سکتا کیونکہ آبادی کا زیادہ ترحصہ وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو چکا ہوتا ہے۔

اِس لیے آج دنیا کے سائنسدان اس کوشش میں ہیں کہ ایک vaccine یا ٹیکہ ایجاد کرلیں تاکہ کورونا وائرس کے خلاف زیادہ تر لوگوں میں اینٹی باڈیز پیدا ہوجائیں اور وہ بیماری کا مقابلہ کرسکیں۔

آج کل سائنسدان اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی بنانے کی تگ و دو میں ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا ٹیسٹ کر کے معلوم کیا جا سکے کہ کتنے افراد میں اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تشکیل پا چکی ہیں لہٰذا انہیں اب کورونا سے خطرہ نہیں۔ ایسے لوگوں کو ویکسین کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ اس ٹیسٹ کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ ہے کیونکہ آبادی کی غالب اکثریت کے ٹیسٹ کر کے ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنیاد پر یہ فیصلہ بسہولت کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی احکامات کی بنا پر عائد کیے جانے والے لاک ڈاؤن (lock down) کو کب ختم کیا جائے۔

خداتعالیٰ اس وبا کے دنوں میں ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں اپنی حفظ وامان میں رکھے۔آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button