خلاصہ خطبہ جمعہ

رمضان المبارک تقویٰ اور روحانی ترقی کے حصول کا مہینہ

قرآن کریم، احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے اقتباسات کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت اور حصول تقویٰ کا پُر معارف بیان

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍اپریل 2020ء بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنے24؍اپریل 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمدصاحب کے حصے میں آئی

تشہد و تعوذ، سورة الفاتحہ اور سورة البقرہ کی آیات 184تا 186کی تلاوت اور ترجمہ بیان کرنےکے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل سے یہاں رمضان شروع ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے ہماری رُوحانی ترقیات کےلیے رکھے ہیں۔ پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اُس میں روزوں کی فرضیت کے ساتھ اُن کی غرض تقویٰ بیان فرمائی گئی ہے ۔ تقویٰ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔

تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھےیعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پرتابمقدور کاربند ہوجائے۔حضورِانور نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے جتنے ہم پر احسان ہیں اُس کی شکر گزاری کاحق ہم ادا نہیں کرسکتے۔ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں گویا یہ ہمارا حق ہے حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو ہماری ناشکری کے باوجود ہمیں نوازتا چلا جاتا ہے۔پھر خدا تعالیٰ سے کیے گئے ہمارے عہد ہیں جنہیں ہم پورا نہیں کرتے۔مخلوق کے حقوق میں والدین،ہمسائے،مسافروں اور معاشرے کے عمومی حقوق ہیں۔ مَیں نےمخلوق کے موٹےموٹے حقوق کی ایک عمومی فہرست بنوائی تھی تو وہ ہی اٹھائیس ، انتیس بن گئے تھے،انہیں بھی ہم ادا نہیں کرتے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ اس لیے آیا ہے کہ ان حقوق کی ادائیگی میں جو کمیاں، کوتاہیاں سال کے گیارہ مہینوں میں رہ گئی ہیں اب اس مہینے میں خالصۃًاللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہوئے اُس کی عبادت اوراُس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کرو۔جب ان کمیوں کو دُور کرو گے تو اسی کا نام تقویٰ ہے اور یہی رمضان اور روزوں کا مقصد ہے۔ جب انسان اس نیّت اور اس مقصد کے حصول کے لیے روزے رکھے گا تو پھر یہ تبدیلی عارضی نہیں ہوگی بلکہ ایک مستقل تبدیلی ہوگی۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اُس کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے چہرے اور آگ کے درمیان ستّر خریف کا فاصلہ پیدا کردیتا ہے۔ حضورِانور نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اتنا فاصلہ پیدا کردیتا ہے جو ستّر سالوں کے برابر ہے۔پس روزہ صرف تیس دن کےلیے تقویٰ پیدا نہیں کرتا بلکہ حقیقی روزہ ستّر سال تک اپنا اثر رکھتا ہے۔ پس رمضان کی حقیقی روح کو سمجھ کرروزے رکھنے والاتمام عمر اُن برکات سے فیض پاتا رہے گا جو اللہ تعالیٰ نے روزے میں رکھی ہیں۔ اگر ایسے روزےدار ہمارے معاشرے میں پیدا ہوجائیں تو وہ کس قدر خوب صورت معاشرہ ہوگا جہاں اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کیے جارہے ہوں گے۔جہاں تک اپنے حقوق کا تعلق ہے تو ایسے معاشرے کی ہر انسان خواہش رکھتا ہے لیکن اسلام کہتا ہے کہ دوسروں کے لیے بھی تم نے یہ معاشرہ قائم کرنا ہے۔

آج کل پھیلی ہوئی وباکی وجہ سے خدّام الاحمدیہ کے تحت رضاکارلوگوں کی مدد کر رہے ہیں،اُن کو اجناس اور ادویہ پہنچا رہے ہیں۔ اس سےوہ ایک ایسا نمونہ پیش کر رہے ہیں جس سے غیر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ پس خدمتِ انسانی کی یہ سوچ جو آج کل ہم میں پیدا ہوئی ہےیہ ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہنے والی ہونی چاہیے۔ اسی طرح روحانی فائدے ہیں، لوگ لکھتے ہیں کہ اس وجہ سے ہمارے گھر کا ایک نیا ماحول بن گیا ہے۔ باجماعت نمازیں،درس، ایم ٹی اے کے پروگرام اور خطبہ جمعہ اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں ، پس اس طرف بھی مزید توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔بچوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل بھی سکھائیں۔ یہ دن جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے اِن کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دنیا دار لوگوں کے گھروں میں تو لڑائیاں،فساد اور بے چینیاں بڑھ گئی ہیں لیکن ہمارے ماحول بہتر ہونے چاہئیں۔

حضرت مسیح موعودؑ اس زمانے کا حصنِ حصین ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہ نمائی پاکر اسلام کی حقیقی تعلیم ہم پر واضح کی ہے۔ ہم جو آپؑ کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم عہد کریں کہ آپؑ کی باتوں کو سن کر اُن پر عمل کریں گے۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اقتباسات پیش کروں گا جن میں آپؑ نے تقویٰ اور روحانی ترقی کا مضمون بیان فرمایا ہے۔ تقویٰ کیا ہے اور کیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں آپؑ فرماتے ہیں۔

تقویٰ تو یہ ہے کہ باریک در باریک پلیدگی سے بچے اور اس کے حصول کا یہ طریق ہے کہ انسان ایسی کامل تدبیر کرے کہ گناہ کے کنارے تک نہ پہنچے۔ پھر نِری تدبیر ہی کافی نہیں بلکہ ایسی دعا کرے جو اس کا حق ہے کہ گداز ہوجاوے۔ جو شخص نِری دعا کرتا ہے اور تدبیر نہیں کرتا وہ گناہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کو آزماتا ہے ایسا ہی جو نِری تدبیر کرتاہے اور دعا نہیں کرتا وہ بھی شوخی کرتا ہے۔سچا مومن تدبیر اور دعا دونوں سے کام لیتا ہے۔ یہی تعلیم اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنمیں دی گئی ہے۔

اِیَّاکَ نَعْبُدُکے معنی ہیں کہ جو کچھ قویٰ خدا تعالیٰ نے انسان کو عطا کیے ہیں اُن سے پورا کام لے کر پھر انجام خدا کے سپرد کرنااور خدا تعالیٰ سے عرض کرناکہ جہاں تک تُو نے مجھے توفیق عطا کی تھی اُس حد تک تو مَیں نے اس سے کام لے لیا۔ پھراِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کہہ کر خدا سے امداد چاہتا ہے۔

جس کھڑکی کی راہ سے معصیت آتی ہے پہلے ضروری ہے کہ اُس کھڑکی کو بند کیا جاوے۔ انسان کو چاہیے کہ نفس کی کشاکش کےلیے دعا کرتا رہے۔ اسی کے واسطے کہا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔دوسری طرف فرمایا اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ پس اگر انسان پورے تقویٰ کا طالب ہے تو چاہیے کہ تدبیر کرے اور دعا کرے۔

تقویٰ اللہ ہر ایک عمل کی جڑ ہے جو اس سے خالی ہے وہ فاسق ہے۔تقویٰ سے زینتِ اعمال پیدا ہوتی ہے۔ولایت کا حصّہ تقویٰ ہی پر ہے۔ کامل طور پر جب تقویٰ کا کوئی مرحلہ باقی نہ رہے تو پھر یہ اولیاء اللہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ تقویٰ حقیقت میں اپنے کامل درجے پر ایک موت ہے کیونکہ جب نفس کی سارے پہلوؤں سے مخالفت کرے گا تو نفس مرجاوے گا۔ نفس ظاہری لذّات کا دل دادہ اور پنہانی لذّات یعنی روحانی لذّات سےبالکل بےخبر ہوتا ہے۔آپؑ اپنی جماعت کو عمومی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کو چاہیے کہ نفس پر موت وارد کرنے اور حصولِ تقویٰ کےلیے وہ اوّل مشق کریں۔ جیسے بچّے جب خوش خطی سیکھتے ہیں تو اوّل اوّل ٹیڑھے حروف لکھتے ہیں۔ اسی طرح اِن کو بھی مشق کرنی چاہیے۔

فرمایا مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزاعیں بھی ہوجاتی ہیں، آپس میں جھگڑے ہیں جن سے ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتے ہیں ۔ یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے۔اپنے بھائی پر فتح پانے کا خیال رعونت کی ایک جڑ ہے اور بڑی بھاری مرض ہےجو اپنے بھائی کے عیب مشتہر کرنے کی ترغیب دلاتی ہے۔

فرمایا بیعت کا زبانی اقرار کچھ شے نہیں، اللہ تعالیٰ تزکیۂ نفس چاہتا ہے۔ پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں۔ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور اپنے بھائیوں سے ہم دردی کرو۔ ہم سایوں سے نیک سُلوک کرو۔ اپنی بیویوں سے عمدہ معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے۔ تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل ایمان پیدا ہوجائے تو ایک عجیب رنگ کی تبدیلی انسان کے اعمال میں پیدا ہوجاتی ہے۔ پس ہماری جماعت کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر سچّا ایمان حاصل کرے۔

حضورِانور نے فرمایا کہ یہ وہ معیارِ تقویٰ ہے جسے حاصل کرنے کی طرف حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو اگلی آیات میں بیان کردہ روزے کی تفصیلات میں چھوٹ اور اس کے صحیح استعمال کی بھی توفیق دیتا ہے۔پس انسان کو تقویٰ سے کام لے کر اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ روزہ رکھنا بہتر ہے یا فدیہ دینا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان کے آنے پر خوش ہے کہ وہ روزہ رکھے گالیکن بوجہ بیماری روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔

کوروناوائرس کے تناظر میں حضورِ انور نے فرمایا کہ لوگ سوال کرتےہیں کہ روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ فرمایا مَیں اس بارے میں کوئی عمومی فتویٰ یا فیصلہ نہیں دیتا۔ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے دل سے فتویٰ لینا چاہیے۔ مَیں نے مختلف ڈاکٹروں سے رائے لی ہے۔ ڈاکٹرز کی رائے میں بھی اختلاف ہے لیکن مختلف آرا دیکھ کر یہی رائے قائم ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔

اس وبا کی وجہ سے دنیا کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو عقل دے اور وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے مزید فساد پیدا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس وبا سے بچنے کےلیے دعا کریں اورجو سائنس دان اس بیماری کے علاج کےلیے کوشش کر رہے ہیں ان کی دعا کے ذریعے مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے اور اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے۔ دنیاوی بڑی طاقتوں کو عقل سے اپنی پالیسیاں بنانے اور آئندہ کا لائحہ عمل بنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button