کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

’’انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے‘‘

امام کون ہوتا ہے

امام اور پیشوا وہی ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے مامور ہو کر آوے۔ اس میں اللہ تعالیٰ ایک جذب کی قوت رکھ دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے سعادتمند روحیں خواہ وہ کہیں ہوں اس کی طرف کھچی چلی آتی ہیں۔ جذب کا پیدا ہونا اپنے اختیار میں نہیں ہے۔ بناوٹ سے یہ بات پیدا نہیں ہو سکتی۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزو مند نہیں ہوتے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں بلکہ ان لوگوں میں طبعاً مخفی رہنے کی خواہش ہوتی ہے اور وہ دنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مامور ہونے لگے تو انہوں نے بھی عذر کیا۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم غار میں رہا کرتے تھے۔ وہ اس کو پسند کرتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ خود اُن کو باہر نکالتا ہے۔ اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے۔ ان میں ایک حیا ہوتی ہے۔ اور ایک انقطاع ان میں پایا جاتا ہے۔ چونکہ وہ انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک لذّت اور سرور پاتے ہیں۔ لیکن وہی انقطاع اور صفائی قلب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ان کو پسندیدہ بنا دیتی ہے اور وہ اُن کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ کر لیتا ہے۔ جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اُسے کارکن آدمی مِل جاوے اور جب وہ کسی کارکن کو پا لیتاہے تو خواہ وہ انکار بھی کر دے مگر وہ اسے منتخب کر ہی لیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ اُن کے تعلقات صافیہ اور صدق و صفا کی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپرد کرے۔

(ملفوظات جلد 7صفحہ9تا10۔ایڈیشن1984ء)

تسبیح کا ذکر

ایک شخص نے تسبیح کے متعلق پوچھا کہ تسبیح کرنے کے متعلق حضور کیا فرماتے ہیں؟

فرمایا:تسبیح کرنے والے کا اصل مقصود گنتی ہوتا ہے اور وہ اس گنتی کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہو کہ یا تو وہ گنتی پوری کرے اور یا توجہ کرے۔ اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کو پوری کرنے کی فکر کرنے والا سچی توبہ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذوق ہوتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فنا شدہ ہوتے ہیں انہوں نے گنتی نہیں کی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ اہل حق تو ہر وقت خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے لئے گنتی کا سوال اور خیال ہی بیہودہ ہے۔ کیا کوئی اپنے محبوب کا نام گِن کر لیا کرتا ہے؟ اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہو اور پوری توجہ الی اللہ ہو تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ پھر گنتی کا خیال پیدا ہی کیوں ہو گا۔ وہ تو اسی ذکر کو اپنی روح کی غذا سمجھے گا اور جس قدر کثرت سے کرے گا۔ زیادہ لطف اور ذوق محسوس کرے گا اور اس میں اَور ترقی کرے گا۔ لیکن اگر محض گنتی مقصود ہو گی تو وہ اُسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرنا چاہے گا۔

ایک صاحب نے پوچھا کہ بعد نماز تسبیح لے کر 33مرتبہ اللہ اکبر وغیرہ جو پڑھا جاتا ہے اس کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وعظ حسب مراتب ہوا کرتا تھا اور اسی حفظ مراتب نہ کرنے کی وجہ سے بعض لوگوں کو مشکلات پیش آئی ہیں اور انہوں نے اعتراض کر دیا ہے کہ فلاں دو احادیث میں باہم اختلاف ہے حالانکہ اختلاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تعلیم بلحاظ محل اور موقعہ کے ہوتی تھی۔ مثلاً ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور اُس نے پوچھا کہ نیکی کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہے کہ اس میں یہ کمزوری ہے کہ ماں باپ کی عزّت نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا کہ نیکی یہ ہے کہ تو ماں باپ کی عزّت کر۔ اب کوئی خوش فہم اس سے یہ نتیجہ نکال لے کہ بس اور تمام نیکیوں کو ترک کر دیا جاوے۔ یہی نیکی ہے۔ ایسا نہیں۔ اسی طرح پر تسبیح کے متعلق بات ہے۔ قرآن شریف میں تو آیا ہے۔

وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ (الانفال:46)۔

اللہ تعالیٰ کا بہت ذکر کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ اب یہ

وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا

نماز کے بعد ہی ہے تو 33 مرتبہ تو کثیر کے اندر نہیں آتا۔ پس یاد رکھو کہ 33 مرتبہ والی بات حسب مراتب ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو سچے ذوق اور لذّت سے یاد کرتا ہے اُسے شمار سے کیا کام۔ وہ تو بیرون از شمار یاد کرے گا۔

ایک عورت کا قصہ مشہور ہے کہ وہ کسی پر عاشق تھی۔ اُس نے ایک فقیر کو دیکھا کہ وہ تسبیح ہاتھ میں لئے ہوئے پھیر رہا ہے اس عورت نے اُس سے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے اُس نے کہا کہ میں اپنے یار کو یاد کرتا ہوں۔ عورت نے کہا کہ یار کو یاد کرنا اور پھر گِن گِن کر؟

در حقیقت یہ بات بالکل سچی ہے کہ یار کو یاد کرنا ہو تو پھر گِن گِن کر کیا یاد کرنا ہے اور اصل بات یہی ہے کہ جب تک ذکر الٰہی کثرت سے نہ ہو وہ لذت اور ذوق جو اس ذکر میں رکھا گیا ہے حاصل نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو 33 مرتبہ فرمایا ہے وہ آنی اور شخصی بات ہو گی کہ کوئی شخص ذکر نہ کرتا ہو گا تو آپ نے اُسے فرما دیا کہ 33 مرتبہ کر لیا کر۔ اور یہ تو تسبیح ہاتھ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات سے آشنا ہو تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ آپ نے کبھی ایسی باتوں کا التزام نہیں کیا وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا تھے۔ انسان کو تعجب آتا ہے کہ کس مقام اور درجہ پر آپ پہنچے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات آپ صلی اللہ علیہ و سلم میرے گھر میں تھے۔ رات کو جب میری آنکھ کھلی تو میں نے آپؐ کو اپنے بستر پر نہ پایا۔ مجھے خیال گذرا کہ کسی دوسری بیوی کے گھر میں ہوں گے۔ چنانچہ میں نے سب گھروں میں دیکھا مگر آپؐ کو نہ پایا۔ پھر میں باہر نکلی تو قبرستان میں دیکھا کہ آپ سفید چادر کی طرح پر زمین پر پڑے ہوئے ہیں اور سجدہ میں گرے ہوئے کہہ رہے ہیں سجدت لک روحی و جنانی۔اب بتاؤکہ یہ مقام اور مرتبہ 33 مرتبہ کی دانہ شماری سے پیدا ہو جاتا ہے۔ ہر گز نہیں۔

جب انسان میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش زن ہوتی ہے تو اس کا دل سمندر کی طرح موجیں مارتاہے۔ وہ ذکر الٰہی کرنے میں بے انتہا جوش اپنے اندر پاتا ہے اور پھر گِن کر ذکر کرنا تو کفر سمجھتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عارف کے دل میں جو بات ہوتی ہے اور جو تعلق اپنے محبوب و مولا سے اُسے ہوتا ہے وہ کبھی روا رکھ سکتا ہی نہیں کہ تسبیح لے کر دانہ شماری کرے۔ کسی نے کہا ہے؎ مَن کا منکا صاف کر۔

انسان کو چاہیے کہ اپنے دل کو صاف کرے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرے تب وہ کیفیت پیدا ہو گی اور ان دانہ شماریوں کو ہیچ سمجھے گا۔

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 18تا20۔ایڈیشن1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button