متفرق مضامین

توبہ اور نیکی کی ٹوکری

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

یہ 1973ءکی بات ہےجب خاکسار جامعہ احمدیہ سے فراغت کے بعد لاٹھیانوالہ ضلع فیصل آباد میں متعین ہوا اور وہاں خدمت کی توفیق ملی۔ اگست کے مہینہ میں خاکسار نے دو ہفتوں کی چھٹیاں لیں اس وقت مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب مرحوم ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ہوتے تھے۔ انہوں نے خاکسار کی درخواست منظور کر لی۔ اور یوں اس طرح دو ہفتوں کی چھٹیاں گزارنے خاکسار اپنے گاؤں چھٹی گوٹھ ضلع بہاول پور چلا گیا۔ یہاں میری دادی جان مرحومہ (سیدہ دولت بی بی)، والد صاحب  اوروالدہ مرحومہ رہائش پذیر تھے۔

ابھی ایک دو دن ہی گزرے تھے کہ شدید بارشیں شروع ہو گئیں۔ یہاں ہمارا رقبہ ہے اس کے ساتھ ہی ہیڈ پچنند جہاں پر سارے دریاء آکر ملتے ہیں ۔ اس قدر بارشیں اور سیلاب آیا کہ ہزار ہا میل تک گاؤں، شہر، آبادیاں، رقبہ، فصلیں سب کچھ تباہ و برباد ہوگئے۔ پانی کا بہاؤ اس قدر زبردست تھا کہ خانپور کے علاقہ میں مکانوں کے روشن دانوں سے پانی نکلنے کی خبر تھی ۔ کیونکہ ساری نہریں توڑ دی گئی تھیں۔ ہیڈ پچنند سے پانی کا بہاؤ سنبھالا نہیں جا رہا تھا۔

ہمارا گھر گاؤں میں بڑے اونچے ٹیلے پر واقعہ تھا۔ اور گھر سے  ربع میل کے فاصلہ پر ایک قبرستان تھا جو بہت اونچا تھا۔ ہمارے ارد گرد کے سب لوگ گھروں میں پانی آجانے کی وجہ سے اس قبرستان میں چلے گئے تھے۔ ساتھ ہی مال مویشی بھی لے گئے تھے۔ ہمارا گھر چونکہ ٹیلے پر واقعہ تھا اس لیے ہم نے سو چا کہ یہاں پانی کے آنے کا امکان نہیں ہے اس لیے گھر چھوڑ کر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دودن بعد ہمیں فیصلہ کرنا پڑا کہ نہیں ہمیں بھی گھر چھوڑ کر جہاں باقی لوگ گئے ہیں ( یعنی قبرستان کے ٹیلہ پر) جانا چاہیے چنانچہ ہم نے اپنے مویشی ،گھر کا کچھ سامان، کھانے پینے کی کچھ اشیاء، برتن، چولہا وغیرہ لے کر قبرستان ہی جا ڈیرہ لگایا۔ اس وقت ٹی وی تو زیادہ نہیں ہوتے تھے ریڈیو ہی پر خبریں سنتے تھے۔ ہمارے پاس بھی ایک ریڈیو تھا جس پر سیلاب کی خبر یں ہی آتی تھیں۔

پانی اور سیلاب کا ریلا، ہر روز زیادہ سے زیادہ ہوتا جارہا تھا قبر ستان سے ہمارے گھر کے درمیان ربع میل کا فاصلہ تھا کسی ضرورت کے لیے گھر جانا پڑتا تو اب ہم پانی میں سے ہو کر پیدل نہیں جاسکتے تھے، پانی 8-9 فٹ سے اونچا آچکا تھا۔ ہمارے پاس کشتی بھی نہیں تھی، گڑ بنانے کے لیے ایک بڑا کڑاہا ہوتا تھا۔ اسے ہم نے بطور کشتی استعمال کرنا شروع کیا اور اس طرح آنا جاتا ہوتا تھا۔

یہ بہت خوفناک نظارہ تھا۔ پھر قبرستان میں بھی پانی آنا شروع ہوگیا۔ اوربعض قبریں پانی کی نذر ہوگئیں۔ قبرستان رات کو کچھ ہوتا صبح اس کی شکل اور بدل جاتی تھی قبریں بیٹھ رہیں تھیں۔ کہیں سے ہڈیاں اور کہیں سے مچھر اور دوسرے کیڑے مکوڑے نکلتے تھے۔

اس وقت خاکسار نے پہلی دفعہ دیکھا کہ لوگ، ہر جگہ اذانیں دے رہے تھے، رات کو، دن کو، صبح کو، شام کو، نمازوں کےلیے نہیں بلکہ بلا کے دور ہونے کے لیے۔ یعنی سیلاب سے بچنے کے لیے۔

کچھ لوگ درختوں پر چڑھ گئے تھے۔ دن کے وقت تو کچھ پتہ نہ چلتا تھا مگر رات کو جو لوگ پریشانی میں روتے تھے اس سے ایک خوفناک ماحول پیدا ہو جاتا تھا۔ اور یہ بھی پتہ نہ لگتا تھا کہ کون ہے؟ اور کہاں سے یہ آوازیں آرہی ہیں اور ان کی مدد کس طرح کی جائے۔ بہر کیف جیسے تیسے یہ چند ایام گزرے اور پھر ہیلی کاپٹروں کے ذریعہ اس جگہ پر پھنسے لوگوں کو مدد ملی۔

ہم چونکہ قبرستان میں تھےاس لیے چند دنوں ہی میں خوراک بھی ختم ہو گئی۔ جانوروں کا چارہ بھی ختم ہو گیا۔ لوگ جانوروں کو ذبح کر کے کھانے لگے۔

پانی کاریلا، سیلاب اس قدر خوفناک تھا کہ بس اللہ کی پناہ۔ وہ بات جو آج سے 113 سال پہلے خدا کے فرستادہ نے اپنی کتاب حقیقۃا لوحی میں فرمائی تھی کہ

’’میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آ تی جاتی ہے، نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشمِ خود دیکھ لو گے، مگرخدا غضب میں دھیما ہے توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جواس سے نہیں ڈرتا وہ ایک مردہ ہے نہ زندہ۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ269)

اُس وقت کے اخباروں نے لکھا کہ یہ سیلاب بالکل اس طرح کا سیلاب  ہے جو نوح ؑ کی زمانے میں آیا تھا۔

قبرستان میں روزوشب کا حال یہ تھا کہ اگرچہ وہاں پر 150-100سے زائد لوگ تھے۔ خاکسار کی اقتداء میں کچھ لوگ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھتے تھے، درس دینے کی بھی توفیق ملتی تھی، نصائح ، توبہ اور استغفار کی تلقین کی جاتی تھی۔ آنحضرتﷺ کی سیرت کے واقعات بیان کیے جاتے تھے۔ ہمارے علاوہ بھی کچھ اور لوگ تھے جو اپنی نمازیں ہم سے الگ پڑھتے تھے۔ لیکن ایک بات سب میں مشترک تھی کہ خدا کے حضور توبہ کریں، دعا کریں۔

خدا تعالیٰ نے رحم فرمایا اور پھر یہ سیلابی کیفیت ختم ہو گئی ۔ لوگ کے حالات معمول میں آنے لگے، لیکن وہ توبہ کیا تھی، وہ تو صرف چند دن کی توبہ تھی۔ اس توبہ کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ملک میں ہر جگہ امن ہو جاتا، بد دیانتی، رشوت، بے ایمانی، ملاوٹ، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی ختم ہو جاتی اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی عادت کو پختہ کر لیتے مگر ایسا نہ ہوا۔

اِس وقت جب کہ تمام دنیا کورونا وائرس کی وبا میں مبتلا ہے تو ایک بار پھر اذانوں کی آوازیں گونج رہیں ہیں۔ اس وقت ہر جگہ ٹیلی ویژن میسر ہے، ہر جگہ پر نظر آجاتا ہے کہ گلی ،بازاروں میں، گھر میں، چھتوں پرالغرض ہر جگہ اذانیں دی جارہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

تکلیف، مصیبت اور پریشانی کے وقت توبہ تو ہر شخص کرتا ہے۔ لیکن اس کے بعد توبہ پرکتنی دیر تک قائم رہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے۔ قرآن کریم میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے ۔

سورۃ العنکبوت آیت 66-67 کا ترجمہ یوں ہے ۔ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے :

’’پس جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں اُسی کے لئے اپنے دین کو خالص کرتے ہوئے۔ پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف بچا لے جاتا ہے تو اچانک وہ شرک کرنے لگتے ہیں۔

تاکہ وہ ناشکری کریں اُس کی جو ہم نے انہیں عطا کیا اور تاکہ وہ کچھ عارضی فائدہ اٹھالیں۔ پس وہ عنقریب (اس کا نتیجہ) جان لیں گے۔‘‘(العنکبوت :66-67)

اس آیت میں انسانی فطرت کا حال بیان کی گیا ہے ۔ مشرک ہو ، کافر ہو، مسلمان ہو، جب وہ مصیبت میں پھنستے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں۔

باقیوں کی تو ہم بات نہیں کرتے ، وہ لوگ جو اسلام کے دعویدار ہیں، ان کی توبہ کی حقیقت سامنے آرہی ہے ۔ کیونکہ جب انسان توبہ کرتا ہے تو پھر خدا کا رحم پہلے سے بڑھ کر آتا ہے پہلے سے بڑھ کر انہیں روحانی ، اخلاقی ترقیاں اور کامیابیاں  نصیب ہوتی ہیں ۔ 1973ء کے سیلاب پر سارے ملک نے توبہ کی ، خدا سے گناہوں کی معافی مانگی ، لیکن اس کے بعد کیا حالات ہوئے ۔ اس توبہ کی دھجیاں اڑا دی گئیں ۔ یہ میں نہیں کہ رہا ، ملک کے حالات بتا رہے ہیں ، ریڈیو، اخباراتT.V پر لوگ بیان کررہے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے تو فرمایا ہے ۔ وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ۔کہ میں کسی پہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ۔

چند دن ہوئے T.V پر ایک شخص نے یہ کہا کہ پاکستا ن میں اگر یہ بتا دیا جائے کہ کل کو قیامت آنے والی ہے تو وہ اس وقت اپنے مصلّوں(جائے نماز) کی قیمت دگنی کر دیں گے ۔دور کیوں جاتے ہو ابھی  چند دن ہوئےمستحقین کو امداد دینے کے لیے وزیراعظم صاحب نے احساس کفالت کا پروگرام متعارف کرایا۔ اس کے لیے مسلمانوں نے جعلی فارمز تیار کر کے بیچنے شروع کردیے ۔

ٹی وی پر یہ تبصرے بھی سنے ، کہ بعض غریب لوگ اپنے ہاتھوں میں برتن لے کر کھڑے ہیں۔ رورہے ہیں کہ  ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں، بھوکے ہیں لیکن، جونہی انہیں کچھ دیا جائے۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے کہ دور جاکر اس خوراک کو چھپا دیں گے اور پھر واپس آکر اسی طرح کھڑے ہو جائیں گے۔ اور اگر انہیں کہا جائے کہ آئیں ہم آپ کو مزدوری دیتے ہیں تو انکار کر دیں گے۔

ایک معروف تجزیہ نگار نے توبہ کے حوالےسے چند باتیں بیان کیں۔ انہوں نے کہا:

’اس وقت بہت سارے لوگ توبہ کی طرف مائل ہیں۔ وہ دعائیں بھی کررہے ہیں لیکن کرتوت کا ذکر نہیں کر رہے کیونکہ توبہ کااور دعاؤں کا کرتوتوں کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ یعنی کیا اس بات پر ندامت ہے، توبہ ہے، کہ آج تک میں نے جو ذلت کمائی ہے، گناہ کیے ہیں گند کیا ہے کیا اس پر توبہ ہے؟ کیا آئندہ کے لیے بھی کچھ کروں گا؟ ‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ’ یہ دعا ئیں اجتماعی بھی ہورہی ہیں۔ بہتیرے ایسے ہیں جو آپ کی اس اجتماعی توبہ اور دعا میں شامل ہی نہیں ہیں۔ ان کو توبہ کی پھرحقیقت ہے؟ وہ تو توبہ کر ہی نہیں رہے۔ اور جو کر رہے ہیں وہ بھی آئندہ کے لیے نہیں صرف اس وقت تک کہ گناہوں پر توبہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ’یہ اللہ رب العزت کو ناپسند ہے۔ جو کم تو لتا ہے، کم دیتا ہے، ملا وٹ کرتا ہے ہم میں سے نہیں۔ رشوت لینے والا، رشوت دینے والا جہنمی ہے ملک میں خوشی منائی جارہی ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے شرح سود میں کمی کردی ہے؟

رہ گئی دعائیں، تو کتنی صدیوں سے لوگ کروڑوں دعائیں مانگ رہے ہیں تو پھر ان کی یہ دعائیں نتیجہ خیز کیوں نہیں؟ کیوں اس پر غور نہیں کرتے ۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ کوئی خفا ہے ہم سے، کوئی ناراض ہے ہم سے، وہ کون ہے؟ کہ جس کے اذن سے حکم سے پتہ بھی نہیں ہلتا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ’میں مسلمان ہوں لیکن بد کار ہوں۔ ایک غیر مسلم کی بیوہ کی جائیداد پر قبضہ کیا ہوا ہے ۔ میں مسلمان ہوں، کلمہ گو ہوں، پنچگانہ نمازیں پڑھتا ہوں لیکن قبضہ کسی مسکین اور بیوہ کی زمین پر کیا ہواہے۔ میں مسلمان ہوں، مصلے پر بیٹھا ہوں، دعا مانگ رہا ہوں، کہ اے اللہ! تیری عدالت میں ہوں اللہ، میری دعا قبول فرما۔رب وہ جو منصفوں کا منصف ہے۔ اس بیوہ کی دعا کو سنے گا یا میری دعا سنے گا۔‘

 اسی قسم کی بات ایک عالم دین ، شیخ الحدیث مولانا فضل رحیم صاحب نے چند دن پہلے ٹی وی چینل C-44۔ جو UK-ED کے لیے تھا، نے بھی کی ۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہم مسلمان ہیں پر کم تولتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، مہنگائی کردیتے ہیں۔ منافع خوری کرتے ہیں، قرضہ مار لیتے ہیں، بندوں کے ساتھ ہمارے معاملات ٹھیک نہیں ہیں، اس نے اور بہت سے گناہ گنوائے جو اس وقت مسلمان کر رہے ہیں انہوں نے حضرت ابو ہریرۃؓ کی یہ روایت بھی سنائی کہ آخری زمانے میں ایسے لوگ نکل کھڑے ہوں گے جو دین کو دھوکے کا ذریعہ بنا کر دنیا کمائیں گےتاکہ اپنی عظمت ان کے دلوں میں بٹھا کر دنیا کمائیں۔

یہ سب کچھ لکھنے کا مقصدنہ کسی کی ہتک اور نہ ہی کسی کو آئینہ دکھانا ہے بلکہ زندگی کے تجربات کے ذریعہ حقیقت حال سے پردہ اٹھا رہا ہوں، کہ ایک وقت وہ تھا جب میں نے اپنی ہوش میں پہلی مرتبہ 1973ء سیلاب میں اذانیں سنی، اور اب 2020ء میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہر جگہ اذانیں سنائی دی جارہی ہیں۔ 73ء سے 2020ء تک کے درمیان کا زمانہ قریباً 47 سال بنتا ہے۔ اس دوران تو ہمارے اخلاق میں توبہ کی وجہ سے بہت تبدیلی آجانی چاہیے تھی۔ کیونکہ سب نے رو رو کر دعائیں مانگیں، سب نے اذانیں دے دے کر توبہ کی، لیکن ایسا ہوا نہیں بلکہ لوگ اپنی شوخیوں، تکبر، جہالت، ظلم، ملاوٹ، بےایمانی، غیبت اور دھوکہ دہی وغیرہ خرابیوں میں بڑھ رہے ہیں۔ کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کر لینے میں، لوٹ کھسوٹ اور جھوٹ میں، پہلے سے ہزار گنا اور بڑھ گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ میرے خیال میں ا س لیے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم جو چاہیں کریں ہماری بخشش کے لیے آنحضرتﷺ نے قیامت کے دن ہماری شفاعت کردینی ہے۔ ہم ختم نبوت پرایمان لانے والے ہیں کیونکہ ہم نے ایمان لا کر ختم نبوت کی حفاظت کردی ہے ہمارا یہی کارنامہ اللہ رب العزت کو پسند ہے ۔ خواہ ختم نبوت والے کی باتوں پر عمل کریں یا نہ کریں۔ کیونکہ اس کے نام لیوااور امتی ہیں۔

توبہ ہے کیا؟

 اب میں توبہ کی طرف آتا ہوں کہ توبہ کسے کہتے ہیں اور توبہ ہوتی کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کس قسم کی توبہ کو پسند کرتا ہے اور ا س کے کیا نتائج نکلتے ہیں کیونکہ یہ بات بہت اہم ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا  ہے:

وَ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۔(النور:32)

یعنی اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک اسے غرغرہ نہ ہو ( یعنی عالم نزع اس پر طاری نہ ہو) ۔

حضرت امام الزمان ؑ فرماتے ہیں:

’’توبہ دراصل حصول اخلاق کے لیے بڑی محرک اور موید چیز ہے اور انسان کو کامل بنا دیتی ہے یعنی جو شخص اپنے اخلاق سیئہ کی تبدیلی چاہتا ہے اسکے لیے ضروری ہے کہ سچے دل اور پکے ارادے کے ساتھ توبہ کرے ۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں، بدوں ان کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النصوح کہتے ہیں، حاصل نہیں ہوتی۔ ان ہرسہ شرائط میں سے

 پہلی شرط جسے عربی زبان میں اقلاع کہتے ہیں یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کردیا جاوے جو ان خصائل ردیہ کے محرک ہیں…

دوسری شرط ندم ہے ۔ یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا…

تیسری شرط عزم ہے ۔ یعنی آئندہ کے لیے مصمم ارادہ کرلے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا تو خدا تعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا۔‘‘

پھر فرماتے ہیں:’’ ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلی اخلاق کے لیے کوشش کرنے والے ہوں یہ ایک امر واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑ کو جگہ سے ہٹا سکے، نہیں نہیں ، اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیل اخلاق پر مقدرت پاوے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ87)

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’’توبہ کا درخت بھی بالکل ایک باغ کے درخت کی ما نند ہے جو جوحفا ظتیں اور خدمات اس باغ کے لیے جسمانی طورسے ہیں وہی اس توبہ کے درخت کے واسطے روحانی طور پرہیں پس اگر توبہ کے درخت کا پھل کھا نا چاہوتو اس کے متعلق قوانین اور شرائط کو پورا کرو ورنہ بے فائدہ ہو گا ۔ یہ خیال نہ کرو کہ توبہ کرنا مرنا ہو تا ہے ۔خدا قلیل شئے سے خوش نہیں ہو تا اور نہ وہ دھوکہ کھاتا ہے ۔دیکھواگر تم بھوک کو دورکرنے کے لیے ایک لقمہ کھا نے کا کھا و یا پیاس کے دور کرنے کے لیے ایک قطرہ پانی کا پیوتو ہرگزتمہاری مقصد براری نہ ہو گی ۔ایک مرض کے دفع کرنے کے واسطے ایک طبیب جو نسخہ تجویزکرتا ہے جب تک اس کے مطابق پوراپورا عمل نہ کیا جاوے تب اس کے فائدہ کی امید امر موہوم ہے …

اگر توبہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو…ایمان کی تکمیل کے لیے عمل کی از حد ضرورت ہے اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہو ں گے تو بوٹے خشک ہو جائینگے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گے۔‘‘

( ملفوظات جلد سوم صفحہ152تا153،ایڈیشن1988ء)

فرمایا :’’اس بات کو خوب سمجھ لو کہ جب پورا خوف دامنگیر ہو اور جان کندن کی سی حالت ہوگئی ۔اس وقت توبہ، توبہ نہیں۔ جب بلا نازل ہوگئی پھر اس کا رد کرنا اللہ تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں ہے ۔تم بلا کے نزول سے پہلے فکرِ کرو ۔جو بلا کے نزول سے پہلے ڈرتا ہے عاقبت بین اورباریک بین ہوتا ہے اور بلا کے آجانے کے وقت تو کافر بھی ڈرتے ہیں…بہت دُعائیں کرتے رہو تاکہ ان بلائوں سے نجات ہو اور خاتمہ بالخیر ہو ۔عملی نمونہ کے سوا بیہودہ قیل قال فائدہ نہیں دیتی اور جیسے ضروری ہے کہ ڈر کے سامانوں سے پہلے ڈرنا چاہیے ۔یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کے ڈر کے سامان قریب ہوتو ڈر جائو اور جب وہ دور چلے جاویں تو بیباک ہو جاؤ بلکہ تمہاری زندگی ہر حالت میں ا للہ تعالیٰ کے خوف سے بھری ہوئی ہو خواہ مصیبت کے سامان ہو ں یا نہ ہوں ۔‘‘

فرمایا:’’جیسے آج کل سنا گیا ہے کہ ہندو اور سکھ لوگ طاعون کے ڈر سے مسلمانوں کو بلا بلا کر اپنے گھروں میں بانگ دلواتے ہیں، مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ، غرض اس وقت یہ لوگ نرم ہو جاتے ہیں ، جب غرض نکل گئی تو پھر ویسے ہی سخت قلب ہوگئے ، مومن کی یہ حالت نہ چاہئے بلکہ اسے خدا سے صدق اور وفا سے دعا کرنی چاہئے ۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ173،ایڈیشن1988ء)

آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے :’’حقیقی تو بہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اوراس سے پا کیز گی اور طہارت کی تو فیق  ملتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ (البقرۃ:۲۲۳) یعنی اللہ تعالیٰ تو بہ کر نے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہو نیوالے ہیں… آنحضرتﷺ نے بھی فرما یا ہے کہ گناہوں سے تو بہ کر نے والا ایسا ہو تا ہے کہ گو یا اس نے کو ئی گناہ نہیں کیا یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اس کے معاف ہو جاتے ہیں… اگر اس نے خدا تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی ہے تو اسے چا ہیئے کہ اب اپنے گناہوں کا نیا حساب نہ ڈالے اور پھر اپنے آپ کو گنا ہ کی ناپاکی سے آلودہ نہ کر ے بلکہ ہمیشہ استغفار اور دعاؤں کے ساتھ اپنی طہارت اور صفائی کی طرف متوجہ رہے اور خدا تعالیٰ کو راضی اور خوش کر نے کی فکر میں لگا رہے اور اپنی اس زند گی کے حالات پر نا دم اور شر مساررہے جو تو بہ کے زمانہ سے پہلے گذری ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ432تا433،ایڈیشن1988ء)

پس حقیقی توبہ کے تو معنی ہیں کہ انسان خدا کا قرب حاصل کرتا ہے ۔ اس کی رضا اور اس کی خوشنودی اسے حاصل ہوتی ہے ۔

یہ عجیب بات ہے کہ 1973ء کے سیلاب کا خاکسار نے ذکر کیا ہے اور اس وقت یہ مشاہدہ کیا کہ پاکستان کے سارے باشندوں نے توبہ کی۔ اذانیں دیں ، مولود کیے، قوالیاں گائیں، درگاہوں پر منتیں کیں، اور اب 47 سال کے طویل عرصہ گزرنے کے بعد اپنی زندگی میں دوبارہ یہی مشاہدہ کیا۔ پہلی توبہ کے بعد غیر اخلاقی باتوں میں ، لوٹ کھسوٹ ، جھوٹ ، دغابازی ، فریب ودھوکہ ملاوٹ اور بے ایمانی میں ترقی ہوئی جس کا اعتراف علماءاور دیگر تجزیہ نگار آج کل کر رہے ہیں۔ العیاذ باللّٰہ۔علاوازیں اکثر T.Vچینلوں پر علماء اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرب قیامت کی نشانی ہے اور اب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے ۔

ہم تو شکر کریں گے کہ اگر اب بھی امام مہدی آجائیں تاہم اس بات کا اندیشہ اور سخت خطرہ ہے کہ جن کے لیے وہ آئیں گے وہ انہیں بھی جھٹلا دیں گے ۔ اور پاکستان میں تو ا ن کے آنے پر ہی پابندی ہے۔ وہاں کے 20 کروڑ مسلمان تو ان کی زیارت سے محروم رہیں گے۔ پاکستان کا آئین انہیں روکتا ہے ، پاکستان کے آئین میں 1974ء میں ترمیم کی گئی تھی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی پیغامبر نہیں آسکتا ۔ کوئی مصلح نہیں آسکتا کوئی نبی نہیں آسکتاکیونکہ یہ سب کچھ ختم نبوت کے منافی ہوگا۔

اب پھر اس کرونا وائرس کی بلا اور آفت کے وقت اذانوں کا سلسلہ جاری ہے شاید ہمار ے لوگ اسے ہی کافی سمجھتے ہیں کہ اذان سے بلا ٹل جائے گی اور صرف اذان دے کر ہی آفت اور مصیبت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ مسلمان ہر قسم کی برائی کی انتہاء کو چھو چکے ہیں۔

نیکی کی ٹوکری

میں نے عثمانیوں کی ایک کہانی پڑھی ہے اس کہانی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے روٹی پکانے کا تنور لگایا ہوا ہے۔ وہ روٹی پکا پکا کر ایک طرف رکھتا جاتا ہے گاہک بھی آتے ہیں اور اس سے روٹی خرید تے ہیں ۔ چنانچہ ایک گاہک آتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے دو روٹی دے دیں۔ لیکن وہ پیسے 4 روٹیوں کے دیتا ہے ۔ تنوروالا اسے کہتا ہے تم نے پیسے زیادہ دیے ہیں۔ ہاں ، دو روٹیوں کے پیسے زیادہ ہیں ان کی دو روٹیاں نیکی کی ٹوکری میں ڈال دیں (تنوروالے نے ایک دوسری طرف ایک بڑی سی ٹوکری لٹکائی ہوتی ہے) چنانچہ تنور والا دو روٹیاں اس ٹوکری میں ڈال دیتا ہے ۔ پھر اور گاہک آتا ہے اور وہ بھی کچھ روٹیاں زائد پیسے دے کر اس نیکیوں کی ٹوکری میں روٹی ڈلوا دیتا ہے ۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک غریب ، مسکین خاتون بھی آتی ہے اس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تنور والے کو وہ آکر کہتی ہے کہ مجھے روٹی دے دیں۔

تنور والا اس نیکی کی ٹوکری سے 4 روٹیاں نکالتا ہے اور اس غریب خاتون کو دیتا ہے ۔ خاتون جب روٹیوں کو گنتی ہے تو وہ چار روٹیاں ہیں۔ تو وہ دو روٹیاں واپس کر دیتی ہے، کہ مجھے آج صرف دو روٹیوں کی ضرورت ہے چار کی نہیں اور اس طرح ہوتا رہتا ہے۔

اس کہانی میں ہماری قوم کے لیے بہت سارے سبق ہیں۔ جو انہیں خود معلوم کرنے چاہئیں اگر ایسا کرتے رہیں گے جس طرح تنور والے نے کہا ، جس طرح گاہکوں نے کیا اور جس طرح غریب خاتون نے غریب ہونے کے باوجود دو روٹیاں واپس کر دیں تو خدا رب العزت کو یہ بات پسند آئے گی۔ اور اس کا رحم سب کے شامل ہوگا لیکن اس وقت وطن عزیز میں T.V چینلز پر دیکھنے سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ ہماری قوم اس احساس سے ابھی بہت دور ہے بلکہ اس احساس کے قریب قریب بھی نہیں آئی ۔ وہی جھوٹ، دغا ، دھوکہ ، بے ایمانی ، حرص ، لالچ  پنپ رہی ہے تو توبہ کیسے قبول ہو؟

کیا خدا ایسے لوگوں کی توبہ قبول فرمائے گا جو ظالم ہوں۔ دوسروں کے حقوق مارتے ہوں اور جن میں رحم نہ ہو۔  اور جو تکبر و غرور کا تاج پہنے رکھتے ہوں اور غرباء اور مساکین  سے بالکل ہمدردی نہ کرتے  ہوں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سوچنے کی توفیق دے۔ آمین

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے :

’’مومن وہ نہیں کہ جو خودتو پیٹ بھرکر کھانا کھاتا ہو۔ لیکن اسکے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوکا ہو۔ ‘‘

پس یہ نیکی کی ٹوکری ایک بہترین مثال  ہے کہ باہم ہمددری اور خیر خواہی ہو،لالچ نہ ہو۔کیا   اس احساس کے بغیر ہم پر امن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں؟

حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:

’’پس یہ معیار ہے ایک مومن کا چاہے وہ مرد ہے یا عورت کہ برائیوں سے بچنے کے لیے ایک پکا ارادہ کرے اور اس پر پھر قائم رہنا ہے اور اس کے لیے اگر جان بھی قربان کرنی پڑے تو اس کی بھی پروا نہیں کرنی۔ نہ یہ کہ اس دنیا کی رنگینیوں یا لوگوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان دنیوی برائیوں میں پڑ جانا اور پھر اس حد تک چلے جانا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دل سے نکل جائے۔

اس قسم کی توبہ کرنے اور دنیاوی آلائشوں اور برائیوں سے بچنے کے لیے استغفار ضروری ہے جہاں ان سب دنیاوی برائیوں سے انسان بچ سکے۔ آج کل تو قدم قدم پر دنیاوی برائیاں ہیں۔ ٹی وی کھول لیں وہاں برائیاں۔ انٹرنیٹ کھول لیں وہاں برائیاں۔ بازار میں چلے جائیں وہاں برائیاں۔ سکول میں چلے جائیں وہاں برائیاں۔ نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے میں کوئی ایسی محفوظ جگہ نہیں ہے جہاں برائیاں نہ ہوں۔ پس ان سے بچنے کے لیے توبہ اور استغفار ضروری ہے۔‘‘

(لجنہ اماء اللہ سے خطاب برموقع جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21 ؍جنوری 2020ء صفحہ8تا9)

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کے  مطابق اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ میں صحیح معاشرہ تشکیل دینے کی توفیق دے۔

؏ ہمیں بھی عشق ہے بادہ یثرب سے ساقی

ہمارا نام بھی لکھ لینا بادہ خواروں میں

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button