کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں

مامور اور پیروں میں فرق

یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے۔ وہ کوٹھڑیوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذّت پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کو اُن کے حال پر اطلاع نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے۔ پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزارہا مخلوق طبعاً ان کی طرف چلی آتی ہے۔ اگر فریب ہی کا کام ہوتو پھر وہ سر سبز کیوں ہو۔ پیر اور گدی نشین آرزو رکھتے ہیں کہ لوگ اُن کے مرید ہوں اور ان کی طرف آویں مگر مامور اس شہرت کے خواہشمند نہیں ہوتے۔ ہاں وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ مخلوق الٰہی اپنے خالق کو پہچانے اور خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرلے۔ وہ اپنے دل میں بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ چیز ہی نہیں ہیں۔ خدا تعالیٰ بھی اُن کو ہی پسند کرتا ہے کیونکہ جب تک ایسا مخلص نہ ہو کام نہیں کر سکتا۔ ریاکار جو خدا کی جگہ اپنے آپ کو چاہتے ہیں وہ کیا کر سکتے ہیں۔ اس لیے خدا ان کو پسند کرتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے آسائش و آرام کے آرزو مند نہیں ہوتے۔

ریاکاری ایک بہت بڑا گند ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ریاکار انسان فرعون سے بھی بڑھ کر شقی اور بد بخت ہوتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کو نہیں چاہتے بلکہ اپنی عزت اور عظمت منوانا چاہتے ہیں۔ لیکن جن کو خدا پسند کرتا ہے وہ طبعاً اس سے متنفر ہوتے ہیں۔ ان کی ہمت اور کوشش اسی ایک امر میں صرف ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کا جلال ظاہر ہو اور دنیا اس سے واقف ہو۔ وہ ایسی حالت میں ہوتے ہیں اور پسند کرتے ہیں کہ دنیا اُن کو نہ پہچان سکے مگر ممکن نہیں ہوتا کہ دنیا اُن کو چھوڑ سکے کیونکہ وہ دنیا کے فائدہ کے لیے آتے ہیں۔ ان لوگوں کے جو دشمن اور مخالف ہوتے ہیں ان سے بھی ایک فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نشانات اُن کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں اور حقائق و معارف کھلتے ہیں۔ اُن کی چھیڑ چھاڑ سے عجیب عجیب انوار ظاہر ہوتے ہیں۔ اگر ابو جہل وغیرہ نہ ہوتے تو قرآن شریف کے تیس سیپارے کیونکر ہوتے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی سی فطرت والے ہی اگر سب ہوتے تو ایک دم میں وہ مسلمان ہو جاتے۔ اُن کو کسی نشان اور معجزہ کی حاجت ہی نہ ہوتی۔ پس ہم ان مخالفوں کے وجود کو بھی بے مطلب نہیں سمجھتے۔ اُن کی چھیڑ چھاڑ اللہ تعالیٰ کو غیرت دلاتی ہے اور اس کی نصرت اور تائیدات کے نشانات ظاہر ہوتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ کے ماموروں کا یہ خاص نشان ہوتا ہے کہ وہ اپنی پرستش کرانا نہیں چاہتے۔ جس طرح پر وہ لوگ جو پیر بننے کے خواہشمند ہیں چاہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی پُوجا کرائے تو کیا وجہ ہے کہ دوسرے انسان کے بچے اس پوجا کے مستحق نہ ہوں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایک مرید اس مرشد سے ہزار درجہ اچھا ہے جو مکر کی گدی پر بیٹھا ہوا ہو کیونکہ مرید کے اپنے دل میں کھوٹ اور دغا نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ اخلاص کو چاہتا ہے۔ ریاکاری پسند نہیں کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 10تا11۔ ایڈیشن 1984ء)

حقیقتِ بیعت

بیعت کا لفظ ایک وسیع معنے رکھتا ہے اور اس کا مقام ایک انتہائی تعلق کا مقام ہے کہ جس سے بڑھ کر اور کسی قسم کا تعلق ہو ہی نہیں سکتا۔

بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ ہمارے نور کی پوری روشنی میں نہیں ہیں۔ جب تک انسان کو ابتلا کی برداشت نہ ہو اور ہر طرح سے وہ اس میں ثابت قدمی نہ دکھا سکتا ہو تب تک وہ بیعت میں نہیں ہے۔ پس جو لوگ صدق و صفا میں انتہائی درجہ تعلق پر پہنچے ہوئے ہیں ۔خدا تعالیٰ اُن کو امتیاز میں رکھتا ہے۔ طاعون کے ایام میں جو لوگ بیعت کرتے ہیں۔ وہ سخت خطرناک حالت میں ہیں کیونکہ صرف طاعون کا خوف اُن کو بیعت میں داخل کرتا ہے۔ جب یہ خوف جاتا رہا تو پھر وہ اپنی پہلی حالت پر عود کر آویں گے۔ پس اس حالت میں اُن کی بیعت کیا ہوئی؟

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 4تا5۔ایڈیشن 1984ء)

جماعت کو نصیحت

ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفّاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشا کو پورا کرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہیے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر، فریب ، کسل اور سُستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کیے جاؤ گے ہر ایک کو چاہیے کہ اپنے بوجھ کو اُٹھائے اور اپنے وعدے کو پُورا کرے۔ عمر کا اعتبار نہیں۔ دیکھو مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو گئے۔ ہر جمعہ میں ہم کوئی نہ کوئی جنازہ پڑھتے ہیں۔ جو کچھ کرنا ہے اب کر لو۔ جب موت کا وقت آتا ہے تو پھر تاخیر نہیں ہوتی۔ جو شخص قبل از وقت نیکی کرتا ہے امید ہے کہ وہ پاک ہو جائے۔ اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت:70) میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا ، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے۔ اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دُور کرنے کے واسطے ہر طرح کی کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدہ کے جس قدر طریق خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجا لاؤ۔ صدقہ خیرات کرو۔ جنگلوں میں جا کر دعائیں کرو۔ سفر کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرو۔ بعض آدمی پیسے لے کر بچوں کو دیتے پھرتے ہیں کہ شاید اسی طرح کشوف باطن ہو جائے۔ جب باطن پر قفل ہو جائے تو پھر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ حیلے کرنے والے کو پسند کرتا ہے۔ جب انسان تمام حیلوں کو بجا لاتا ہے تو کوئی نہ کوئی نشانہ بھی ہو جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 188-189۔ ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button