متفرق مضامین

فلسفۂ دعا از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

(عطاء الوحید)

’’اگرُمردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر اسیر رہائی پا سکتے ہیں تو دعائوں سے۔ اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعائوں سے‘‘

حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل2020ء میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

‘ آج کل دعاؤں دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں’

آخری حربہ دعا ہے

‘حضرت اقدس مسیح موعود کی معجزانہ قبولیت دعا کے واقعات’ کے عنوان سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قبولیت دعا کے بعض واقعات پیش کیے گئے تھے۔ اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے قسط دوم میں قارئین الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تحریرات وحیات طیبہ کی روشنی میں دعا کے مضمون کو بیان کیاگیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمارے حق میں بھی یہ دعائیں قبول فرمائے اور ہمیں بھی اس مضمون کا حقیقی فہم اور ادراک حاصل کرتے ہوئےان دعاؤں سے مستفیض ہونےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

مقربین کی دعاؤں کی قبولیت کی اطلاع ان کو دی جاتی ہے

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:

‘‘حقیقی خدادانی تمام اسی میں منحصر ہے کہ اس زندہ خدا تک رسائی ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہایت صفائی سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی پُر شوکت اور لذیذ کلام سے اُن کو تسلی اور سکینت بخشتا ہے اور جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے بولتا ہے ایسا ہی یقینی طور پر جو بکلی شک و شبہ سے پاک ہے اُن سے باتیں کرتاہے اُن کی بات سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتاہے اور اُن کی دعائوں کو سن کر دُعا کے قبول کرنے سے اُن کو اطلاع بخشتا ہے اور ایک طرف لذیذ اور پُرشوکت قول سے اور دوسری طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قوی اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں۔’’

(نصرت الحق، روحانی خزائن جلد21صفحہ 31)

اُس وقت خدا دُعائوں کو قبول کرے گا

خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو دعائیں خود بھی سکھا تا ہے چنانچہ حضور ؑخداتعالیٰ کے وعدوں اور پیشگوئیوں کے مطابق اپنی دعاؤں کی قبولیت کا ذکر فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کر کہ اے خدا میں مغلوب ہوں وہ بہت ہیں اور میں اکیلا ہوں وہ ایک گروہ ہے تو میری طرف سے مقابلہ کے لئے آپ کھڑا ہوجا۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ابتلائوں کی نسبت ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جو مخالفت کا بہت شور اُٹھے گا اور وہ گمنامی اور تنہائی کازمانہ ہوگا اور مخالفت پر ایک مخلوق تُل جائے گی اور ظاہری تزلزل دیکھ کر بشریت کے مقتضا سے خیال آئے گا کہ خدا نے اپنی نصرت کو چھوڑ دیا۔ پس خدائے تعالیٰ اس آئندہ زمانہ کو یاد دلاتا ہے کہ اُس وقت خدا دُعائوں کو قبول کرے گا اور وہ حالت نہیں رہے گی۔ اور دلوں کو اس طرف رجوع پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بہت فتنہ کے بعد جو کافر ٹھہرانے کے فتویٰ سے اٹھا تھا آخر دل اس طرف متوجہ ہوگئے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد 21صفحہ88)

صدقہ،خیرات،توبہ ،استغفار اور دعا

حضرت اقدس مسیح موعود ؑوعیدی پیشگوئیوں کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے صدقہ، خیرات،توبہ اوردعا اور صدقہ کی اہمیت اورتاثیر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اور سنت اللہ ہے کہ خواہ اُن میں کوئی شرط ہو یا نہ ہو وہ توبہ استغفار سے ٹل سکتی ہیں یا اُن میں تاخیرڈال دی جاتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی میں وقوع میں آیا۔ اور یونس نبی نے جو اپنی قوم کے لئے چالیس۴۰ دن تک عذاب آنے کا وعد ہ کیا تھاوہ قطعی وعدہ تھا۔ اُس میں ایمان لانے یا ڈرنے کی کوئی شرط نہ تھی۔ مگر باوجود اس کے جب قوم نے تضرع اور زاری اختیار کی تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو ٹال دیا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک بلا جو خدا تعالیٰ کسی بندہ پر نازل کرنا ارادہ کرتا ہے وہ بلا صدقہ اور خیرات اور توبہ او راستغفار اوردعا سے دفع ہوسکتی ہے پس اگر وہ بلا جس کانازل کرناارادہ کیا گیا ہے کسی نبی اور رسول اور مامورمن اللہ کو اُس سے اطلاع دی جائے تو وہ وعید کی پیشگوئی کہلاتی ہے۔ ’’

(براہین احمدیہ حصہ پنجم ،روحانی خزائن جلد21صفحہ180)

دُعا کے قبول ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں

‘‘جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے بارے میں علم دیا ہے وہ یہ ہے کہ دُعا کے قبول ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں۔

اوّل۔ دُعا کرنے والا کامل درجہ پر متقی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقبول وہی بندہ ہوتا ہے جس کا شعار تقویٰ ہو اور جس نے تقویٰ کی باریک راہوں کو مضبوط پکڑا ہو اور جو امین اور متقی اور صادق العہد ہونے کی وجہ سے منظور نظر الٰہی ہو۔ اور محبتِ ذاتیہ الٰہیہ سے معمور اور پُر ہو۔

۲۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عقدِ ہمت اور توجہ اس قدر ہو کہ گویا ایک شخص کے زندہ کرنے کے لئے ہلاک ہو جائے اور ایک شخص کو قبر سے باہر نکالنے کے لئے آپ گور میں داخل ہو۔ اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے مقبول بندے اس سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک خوبصورت بچہ جو ایک ہی ہو اس کی ماں کو پیارا ہوتا ہے۔ پس جب کہ خدائے کریم و رحیم دیکھتا ہے کہ ایک مقبول و محبوب اُس کا ایک شخص کی جان بچانے کے لئے روحانی مشقتوں اور تضرعات اور مجاہدات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ قریب ہے کہ اُس کی جان نکل جائے تو اُس کو علاقۂ محبت کی وجہ سے ناگوار گذرتا ہے کہ اسی حال میں اُس کو ہلاک کر دے۔ تب اس کے لئے اس دوسرے شخص کا گناہ بخش دیتا ہے جس کے لئے وہ پکڑا گیا تھا پس اگر وہ کسی مہلک بیماری میں گرفتار ہے یا اور کسی بلا میں اسیر و لاچار ہے تو اپنی قدرت سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے رہائی ہو جائے اور بسا اوقات اُس کا ارادہ ایک شخص کے قطعی طور پر ہلاک کرنے یا برباد کرنے پر قرار یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک مصیبت زدہ کی خوش قسمتی سے ایسا شخص پُر درد تضرعات کے ساتھ درمیان میں آ پڑتا ہے جس کو حضرت عزت میں وجاہت ہے تو وہ مِثل مقدمہ جو سزا دینے کے لئے مکمل اور مرتب ہو چکی ہے چاک کرنی پڑتی ہے کیونکہ اب بات اغیار سے یار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور یہ کیونکر ہو سکے کہ خدا اپنے سچے دوستوں کو عذاب دے۔

۳۔تیسری شرط استجابتِ دُعا کے لئے ایک ایسی شرط ہے جو تمام شرطوں سے مشکل تر ہے کیونکہ اس کا پورا کرنا خدا کے مقبول بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اُس شخص کے ہاتھ میں ہے جو دعا کرانا چاہتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نہایت صدق اور کامل اعتقاد اور کامل یقین اور کامل ارادت اور کامل غلامی کے ساتھ دُعا کا خواہاں ہو اور یہ دل میں فیصلہ کر لے کہ اگر دُعا قبول بھی نہ ہو تاہم اس کے اعتقاد اور ارادت میں فرق نہیں آئے گا۔ اور دُعا کرانا آزمائش کے طور پر نہ ہو بلکہ سچے اعتقاد کے طور پر ہو اور نہایت نیاز مندی سے اس کے دروازے پر گرے اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے مال سے خدمت سے ہر ایک طور کی اطاعت سے ایسا قرب پیدا کرے کہ اس کے دل کے اندر داخل ہو جائے اور باایں ہمہ نہایت درجہ پر نیک ظن ہو اور اُس کو نہایت درجہ کا متقی سمجھے اور اس کی مقدس شان کے بر خلاف ایک خیال بھی دل میں لانا کفر خیال کرے اور اس قسم کی طرح طرح کی جاں نثاری دکھلا کر سچے اعتقاد کو اُس پر ثابت اور روشن کر دے اور اس کی مثل دنیا میں کسی کو بھی نہ سمجھے اور جان سے مال سے آبرو سے اُس پر فدا ہو جائے۔ اور کوئی کلمہ کسر شان کا کسی پہلو سے اس کی نسبت زبان پر نہ لائے اور نہ دل میں۔ اور اس بات کو اس کی نظر میں بپایۂ ثبوت پہنچا دے کہ درحقیقت وہ ایسا ہی معتقد اور مرید ہے اور باایں ہمہ صبر سے انتظار کرے اور اگر پچاس دفعہ بھی اپنے کام میں نامراد رہے پھر بھی اعتقاد اور یقین میں سُست نہ ہو۔ کیونکہ یہ قوم سخت نازک دل ہوتی ہے اور اُن کی فراست چہرہ کو دیکھ کر پہچان سکتی ہے کہ یہ شخص کس درجہ کا اخلاص رکھتا ہے اور یہ قوم باوجود نرم دل ہونے کے نہایت بے نیاز ہوتی ہے۔ اُن کے دل خدا نے ایسے بے نیاز پیدا کیے ہیں کہ متکبّر اور خود غرض اور منافق طبع انسان کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ اس قوم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس قدر غلامانہ اطاعت اُن کی اختیار کرتے ہیں کہ گویا مر ہی جاتے ہیں۔ مگر وہ شخص جو قدم قدم پر بد ظنی کرتا ہے اور دل میں کوئی اعتراض رکھتا ہے اور پوری محبت اور ارادت نہیں رکھتا وہ بجائے فائدہ کے ہلاک ہوتا ہے۔ ’’

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ227تا228)

یہ وقت دعا کا وقت ہے

‘‘فظہر ممّا ظَھَرَ أن الوقت وقت الدعاء ، والتضرّع فی حضرۃ الکبریاء لا وقت الملاحم وقتل الأعداء ، ومن لا یعرف الوقت فیُلقِی نفسہ إلی التہلکۃ ، ولا یری إلّا أنواع النّکبۃ والذلۃ. ’’

(تذکرۃ الشہادتین،روحانی خزائن جلد20صفحہ81)

‘‘اس مشاہدہ سے یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ وقت دعا اور خدائے بزرگ و برتر کے حضورعاجزی سے گڑگڑانے کا وقت ہے نہ کہ جنگوں اور دشمنوں کو قتل کرنے کا وقت۔اور جو وقت کی نزاکت کو نہیں سمجھے گا وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے گا اور ہر طرح کی نکبت اور ذلت دیکھے گا۔’’

(تذکرۃ الشہادتین اردو ترجمہ صفحہ 2)

دعا آسمانی حربہ ہے

‘‘فاعلموا أن الدعاء حَرۡبَۃٌ أُعطیت من السماء لِفتح ہذا الزمان، ولن تغلبوا إلّا بہذہ الحربۃ یا معشر الخلّان، وقد أخبر النبیّون من أوّلہم إلی آخرہم بہذہ الحربۃ، وقالوا إنّ المسیح الموعود ینال الفتح بالدعاء والتضرع فی الحضرۃ ، لا بالملاحم وسفک دماء الأمّۃ۔ إنّ حقیقۃ الدعاء۔ الإقبال علی اللّٰہ بجمیع الہمّۃ، والصدق والصبر لدفع الضرّاء ، وإن أولیاء اللّٰہ إذا توجّہوا إلی ربہم لدفع موذٍ بالتضرّع والابتہال، جرت عادۃ اللّٰہ أنہ یسمع دعاء ہم ولو بعد حین أو فی الحال، وتوجّہت العنایۃ الصمدیۃ لیدفع ما نزل بہم من البلاء والوبال، بعد ما أقبلوا علی اللّٰہ کل الاقبال، وإنّ أعظم الکرامات استجابۃ الدعوات، عند حلول الآفات ’’

(تذکرۃ الشہادتین ،روحانی خزائن جلد20صفحہ82)

‘‘ پس تم جان لو کہ دعا وہ نیزہ ہے جو اس زمانے کی فتح کے لیے مجھے آسمان سے عطا کیا گیا ہے ۔ اے دوستو! اس حربے کے بغیر تم ہر گز غالب نہیں ہو سکتے۔اور تمام انبیاء نے اول تا آخر اسی حربے کی خبر دی ہے اور ان سب نے یہی کہا کہ مسیح موعود دعا اور اللہ کے حضور تضرع کے ذریعہ فتح حاصل کرے گا نہ کہ جنگ و جدال اور امت کا خون بہا کر۔اور دعا کی حقیقت یہ ہے کہ تکلیف کو دور کرنے کے لیے پوری ہمت،صدق اور صبر کے ساتھ اللہ کی طرف جھکنا۔اولیاء اللہ جب کسی ضرر رساں چیز کو دور کرنے کے لیے تضرع اور ابتہال کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو عادت اللہ اسی طرح سے جاری ہے کہ وہ ان کی دعا کو ضرور سنتا ہے خواہ کچھ مدت کے بعد یا فی الفوراور ان کے کام اقبال علی اللہ کے بعد خدائے صمد کی عنایت ان پر نازل ہونے والی آزمائش اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے توجہ فرماتی ہے۔آفات کے نزول کے وقت یقیناً قبولیت دعا سب سے بڑی کرامت ہے۔’’

( تذکرۃالشہادتین اردو ترجمہ صفحہ 3تا4)

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں تھکتے نہیں

‘‘یہ خیال مت کرو کہ ہم بھی ہر روز دُعا کرتے ہیں اور تمام نماز دُعا ہی ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ کیونکہ وہ دعا جو معرفت کے بعد اور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تند سیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے اور ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعائوں میں سُست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعائوں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔

مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اُٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جائو اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شور و غوغا سے الگ ہو جائو اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جائو۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنے صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیر متبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اُس کی ایک الگ تجلی ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ گویاوہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔’’

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20صفحہ222تا223)

تاثیر دعا

‘‘دعاؤں میں بلاشبہ تاثیر ہے۔ اگرُمردے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے۔ اور اگر اسیر رہائی پا سکتے ہیں تو دعائوں سے۔ اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعائوں سے۔ مگر دعا کرنا اور مرنا قریب قریب ہے۔’’

(لیکچر سیالکوٹ ،روحانی خزائن جلد20صفحہ234)

خدا تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعا اور اس کی قبولیت

‘‘مَیں سچ کہتا ہوں کہ مَیں اس وقت کچھ بھی نہ تھا۔ تنہا و بے کس تھا۔ خود اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں مجھے یہ دعا سکھاتا ہے۔

رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ۔

یہ دُعا اِس نے سکھائی کہ وہ پیار رکھتا ہے اُن لوگوں سے جو دُعا کرتے ہیں۔ کیونکہ دُعا عبادت ہے اور اس نے فرمایاہے۔ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ ۔ دُعا کرو۔ مَیں قبول کروںگا ۔اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مغز اور مُخ عبادت کا دُعا ہی ہے۔ اور دوسرا اشارہ اس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دُعا کے پیرایہ میں سکھانا چاہتا ہے کہ تو اکیلا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تو اکیلا نہ رہے گا۔ اور مَیں پکار کر کہتا ہوں کہ جیسا یہ دن روشن ہے اِسی طرح یہ پیشگوئی روشن ہے اور یہ امر واقعی ہے کہ مَیں اس وقت اکیلا تھا۔ کون کھڑا ہو کر کہہ سکتا ہے کہ تیرے ساتھ جماعت تھی۔ مگر اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کے موافق اور اس پیشگوئی کے موافق جو اس نے ایک زمانہ پہلے خبر دی۔ ایک کثیر جماعت میرے ساتھ کردی۔’’

(لیکچر لدھیانہ،روحانی خزائن جلد20صفحہ254)

بہشتی مقبرہ کے لیے دعائیں

‘‘ اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کے لئے ہوگئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا۔ آمین یاربّ العالمین۔

پھر مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے اُن پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہوچکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی اُن کے کاروبار میں نہیں۔ آمین یا ربّ العالمین۔

پھر میں تیسری دفعہ دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم اے خدائے غفور و رحیم تو صرف اُن لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تُو راضی ہے اور جن کو تُو جانتا ہے کہ وہ بکلّی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں۔ اٰمِیۡن یَارَبَّ الۡعَالَمِیۡنَ۔’’

(الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ316تا318)

سلسلہ کے لیے دعا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سلسلہ کے لیے بہت سی دعائیں کی ہیں جن میں سے ایک دعاذیل میں درج کی جاتی ہے۔ اس دعا کی قبولیت الحمد للہ عملی طور پر ہر ایک کے سامنے ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے مالی نظام کو محفوظ فرمایاہے اور یہ نظام دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس نظام سے جڑا ہوا ہر فرد جہاں اس کام کو کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہے وہاں اپنے ذاتی اموال سے زیادہ اس کی حفاظت کرتا ہے۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کیے جائیں وہ کثرت مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں۔ سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اِس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ’’

(الوصیت،روحانی خزائن جلد20صفحہ319)

چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہوگیا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنے نشانات کا تذکرہ کرتے ہوئے ملاوا مل کو مخاطب ہوکر تحریر فرماتے ہیں :

‘‘دوسری یہ بتاوے کہ کیا وہ ایک مرتبہ مرض دق میں مبتلا نہیں ہواتھا؟ اور اُس کو خواب بھی آچکی تھی کہ ایک زہریلے سانپ نے اس کو کاٹا ہے اور تمام بدن سوج گیا ہے۔ اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ وہ میرے پاس آکر رویا تھا اور دعا کے لئے کہا تھا۔ تب میں نے اس کے حق میں دُعا کی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا تھا۔ قلنا یا نار کونی بردًا وسلامًا یعنی اے تپ کی آگ ٹھنڈی ہو جا۔ اور یہ الہام اس کو سُنادیا گیاتھا۔ اور پھر بعد اس کے چند دنوں میں ہی وہ صحت یاب ہوگیا؟

مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ باتیں سچ ہیں۔ اور اگر یہ جھوٹ ہیں تو خدا ایک سال کے اندر میرے پر اور میرے لڑکوں پر تباہی نازل کرے اور جھوٹ کی سزا دے۔ آمین۔ ولعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔’’

(قادیان کے آریہ اور ہم،روحانی خزائن جلد20صفحہ443)

دعا کے وقت خدا کو قادر سمجھنا ضروری ہے

‘‘خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے اس سے بچو دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجزوعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں…جو شخص دعا میں لگا نہیں رہتا اور انکسار سے خدا کو یاد نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے… لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں اور ہماری گواہی رؤیت سے ہے نہ بطور قصّہ کے۔ اُس شخص کی دعا کیونکر منظور ہو اور خود کیونکر اس کو بڑی مشکلات کے وقت جو اُس کے نزدیک قانون قدرت کے مخالف ہیں دعا کرنے کا حوصلہ پڑے جو خدا کو ہر ایک چیز پر قادر نہیں سمجھتا۔ مگر اے سعید انسان تو ایسا مَتْ کر تیرا خدا وہ ہے جس نے بیشمار ستاروں کو بغیر ستون کے لٹکا دیا اورجس نے زمین وآسمان کو محض عدم سے پیدا کیا ۔کیا تو اُس پر بدظنی رکھتا ہے کہ وہ تیرے کام میں عاجز آجائے گا بلکہ تیری ہی بدظنی تجھے محروم رکھے گی ہمارے خدا میں بے شمار عجائبات ہیں مگر وہی دیکھتے ہیں جو صدق اور وفا سے اس کے ہو گئے ہیں۔’’

(کشتی نوح ،روحانی خزائن جلد19صفحہ18تا21)

بیماریوں کا دعا سے دور ہونا

‘‘مجھے دو مرض دامنگیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصّہ میں کہ سردرد اور دورانِ سر اور دورانِ خون کم ہو کر ہاتھ پَیرسرد ہو جانا نبض کم ہو جانا۔ دوسرے جسم کے نیچے کے حصّہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریباً بیس۲۰ برس سے ہیں۔ کبھی دعا سے ایسی رخصت ہو جاتی ہیں کہ گویا دُور ہوگئیں۔ مگر پھر شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک دفعہ مَیں نے دُعا کی کہ یہ بیماریاں بالکل دُور کر دی جائیں توجواب ملا کہ ایسانہیں ہوگا۔تب میرے دل میں خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُترے گا سو یہ وہی دو زرد رنگ کی چادریں ہیں۔ ایک اوپر کے حصّۂ بدن پر اَور ایک نیچے حصّۂ بدن پر۔ کیونکہ تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں کہ عالمِ کشف یا عالمِ رؤ یا میں جو نبوت کا عالم ہے اگر زرد چادریں دیکھی جائیں تو ان سے بیماری مُراد ہوتی ہے۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ یہ علامت مسیح موعود کی مجھ سے علیحدہ ہو۔’’

(نسیم دعوت ،روحانی خزائن جلد19صفحہ435تا436)

دعا کی طاقت

دعا کی تاثیر و طاقت انسانی فکر کی حدود سے باہر ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑکو قبولیت دعا کا اعجاز عطا فرمایا گیا تھا۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘ وإن دعائی یذیب الصخر۔ ’’

(اعجازالمسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ60)

یقیناً میری دعا چٹان کوپگھلا سکتی ہے۔

( ترجمہ از مضمون نگار)

اعجاز المسیح کتاب کے لیے دعا اور معجزہ

حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے کتاب‘‘اعجاز المسیح ’’عربی زبان میں تصنیف فرمائی اور اس کتا ب کے لیے دعا کی کہ خدا تعالیٰ اسے علماء کے لیے معجزہ بنا دے اور یہ کہ یہ بے مثال ہو اور کوئی اس کی مثال لانے پر قادر نہ ہوسکے۔ چنانچہ آپ ؑتحریر فرماتے ہیں:

‘‘وسمّیتُہ ‘‘إعجاز المسیح فی نمق التفسیر الفصیح’’۔ وإنی أُرِیتُ مبشرۃً فی لیـلۃ الثلثاء ۔ إذ دعوتُ اللّٰہ أن یجعلہ معجزۃ للعلماء۔ ودعوتُ أن لایقدر علی مثلہ أحدٌ من الأدباء ۔ ولا یُعطی لہمقدرۃ علی الإنشاء ۔ فأجیب دعائی فی تلک اللیلۃ المبارکۃ من حضرۃ الکبریاء۔ وبشّرنی ربی وقال’’منعہ مانع من السماء‘‘ففہمت أنہ یشیر إلی أن العدا لا یقدرون علیہ۔ ولا یأتون بمثلہ ولا کصفتیہ۔ وکانت ہذہ البشارۃمن اللّٰہ المنّان۔ فی العشر الآخر من رمضان۔الذی انزل فیہ القرآن۔’’

( اعجاز المسیح ،روحانی خزائن جلد18صفحہ68تا69)

ترجمہ: ‘‘ میں نے اس کا نام‘‘اعجاز المسیح فی نمق التفسیر الفصیح’’یعنی فصیح تفسیر کی تحریر کی صورت میں اعجاز المسیح رکھا ہے۔ منگل کی رات مجھےمبشر خواب اُس وقت دکھائی گئی جب میں نےاللہ سے دعا کی کہ وہ اس تفسیر کو علماء کے لئے معجزہ بنا دے ،نیز میں نے یہ بھی دعا کی کہ کوئی ادیب بھی اس کی مثل لکھنے پر قادر نہ ہو اور نہ ہی انہیں ا س کی تحریر کرنے کی توفیق ملے۔تو حضرتِ کبریاء کی طرف سے اُسی مبارک رات کومیری یہ دعا قبول کی گئی اور میرےربّ نے مجھے بشارت دیتے ہوئے فرمایا:اِس تفسیر نویسی میں کوئی تیرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔ خدا نے مخالفین سےسلب طاقت اور سلب علم کرلیا ہے۔ اس پر میں نے یہ سمجھ لیا کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مخالفین اس پر قادرنہیں ہوںگے اوراس کی مثل اور ان دوصفات(بلاغت وحقائق سورۃ فاتحہ)کی حامل تفسیر نہ لا سکیں گے۔یہ بشارت خدائے منان کی طرف سے رمضان کے آخری عشرے میں جس میں قرآن اتاراگیا مجھے دی گئی۔’’

مندرجہ بالا تفسیر کے حوالے سے آپؑ کی دعائیں کس رنگ میں قبول ہوئیں اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘اب ان کے پاس اس بات کاکیا جواب ہے کہ ہم نے اس بالمقابل تفسیرنویسی کومدارفیصلہ ٹھہراکرمخالف علماء کودعوت کی تھی اور ستر۷۰ دن کی میعاد تھی جو کچھ کم نہ تھی اور میں اکیلااور وہ ہزار ہا عربی دان اورعالم فاضل کہلانے والے تھے تب بھی وہ تفسیر لکھنے سے نامراد رہے اگروہ تفسیر لکھتے اور سورۃ فاتحہ سے میرے مخالف ثبوت پیش کرتے توایک دنیا اُن کی طرف اُلٹ پڑتی پس وہ کون سی پوشیدہ طاقت ہے جس نے ہزاروں کے ہاتھوں کو باندھ دیااور دماغوں کوپست کر دیااورعلم اورسمجھ کو چھین لیا’’

(روحانی خزائن جلد18صفحہ الف تاب)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑکو اللہ تعالیٰ نے باوجود شدید بیماری کے یہ توفیق عطا فرمائی کہ آپ ؑنے یہ تفسیر تحریر فرمائی۔آپؑ تحریر فرماتے ہیں:

‘‘ان دنوں میں یہ عاجز کئی قسم کے امراض اور اعراض میں بھی مبتلا ہوا جس سے اندیشہ تھا کہ یہ کام پورا نہ ہو سکے کیونکہ بباعث ہر روز کے ضعف اور حملہ مرض کے طبیعت اس لائق نہیں رہی تھی کہ قلم اٹھا سکے…غرض منصفین کے لئے خدا کی تائید دیکھنے کے لئے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے کیونکہ ستر دن کی میعاد ٹھہرا کر صدہا مولوی صاحبان بالمقابل بلائے گئے۔ اب ان کا کیا جواب ہے کہ کیوں وہ ایسی تفسیر شائع نہ کر سکے۔ یہی تو معجزہ ہے اور معجزہ کیا ہوتا ہے؟’’

(اعجاز المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ2)

قبولیت دعا کا چیلنج

جن دنوں طاعون حملہ آور تھی اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا وعدہ عطا فرمایا تھا،آپؑ نے اپنے مدمقابل علماء کو قبولیت دعا کے حوالہ سے اس رنگ میں دعوت عام دی اور فرمایا:

‘‘اور اگر مولوی احمدحسن صاحب کسی طرح باز نہیں آتے تو اب وقت آ گیا ہے کہ آسمانی فیصلہ سے ان کو پتہ لگ جائے یعنی اگر وہ درحقیقت مجھے جھوٹا سمجھتے ہیں اور میرے الہامات کو انسان کا افترا خیال کرتے ہیں نہ خدا کا کلام تو سہل طریق یہ ہے کہ جس طرح میں نے خداتعالیٰ سے الہام پا کر کہا ہے انّہ اوی القریۃ لو لا الاکرام لھلک المقام۔ وہ انہ اوی امروھہ۔لکھ دیں مومنوں کی دعا تو خدا سنتا ہے۔ وہ شخص کیسا مومن ہے کہ ایسے شخص کی دعا اس کے مقابل پر تو سنی جاتی ہے جس کا نام اس نے دجال اور بے ایمان اور مفتری رکھا ہے مگر اس کی اپنی دعا نہیں سنی جاتی۔ پس جس حالت میں میری دعا قبول کر کے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ میں قادیاں کو اس تباہی سے محفوظ رکھوں گا خصوصًا ایسی تباہی سے کہ لوگ کتوں کی طرح طاعون کی وجہ سے مریں یہاں تک کہ بھاگنے اور منتشر ہونے کی نوبت آوے۔ اسی طرح مولوی احمدحسن صاحب کو چاہئے کہ اپنے خدا سے جس طرح ہو سکے امروہہ کی نسبت دعا قبول کرا لیں کہ وہ طاعون سے پاک رہے گا اور اب تک یہ دعا قریب قیاس بھی ہے کیونکہ ابھی تک امروہہ طاعون سے دو سو کوس کے فاصلہ پر ہے لیکن قادیاں سے طاعون چاروں طرف سے بفاصلہ دو کوس آگ لگا رہی ہے یہ ایک ایسا صاف صاف مقابلہ ہے کہ اس میں لوگوں کی بھلائی بھی ہے اور نیز صدق اور کذب کی شناخت بھی۔ کیونکہ اگر مولوی احمدحسن صاحب لعنت بازی کا مقابلہ کر کے دنیا سے گزر گئے تو اس سے امروہہ کو کیا فائدہ ہو گا۔’’

(دافع البلاء ،روحانی خزائن جلد18صفحہ236تا237)

ہر معاملہ میں خدا تعالیٰ سے مدد مانگنا

حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے احیائے دین اسلام کے لیے جو چو مکھی لڑائی لڑی اس کے ہر لمحہ او رہر موڑ پر اپنے مولیٰ کریم سے مدد چاہی اور خدا تعالیٰ نے آپ کی التجاؤں کو شرف قبولیت بخشا۔اس کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب آپ نے تصنیف لطیف ‘‘اعجاز المسیح’’ تصنیف فرمائی اور ایڈیٹر المنار کو بھجوائی۔ ایڈیٹر المنار نے ایذارسانی کی راہ اختیار کرتے ہوئے استہزاء سے کام لیا ،اس کے نتیجہ میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑ اپنے رب کی بارگاہ میں جھک گئے اور مدد چاہی۔خدا تعالیٰ نے آپؑ کی دعاؤں کوقبول فرمایا اور ایک کتاب کی صورت میں جواب تحریر فرمانے کی رہنمائی فرمائی۔چنانچہ آپؑ نےکتاب‘‘الھُدٰی والتّبصرۃلمن یرٰی’’تحریرفرمائی ۔ چنانچہ حضور ؑتحریر فرماتے ہیں:

ترجمہ: ‘‘پھر میں آسمان کی طرف منہ کر کے دیکھنے لگا اور دعا اور زاری سے خدا سے مدد مانگنے لگااس لئے کہ مجھے حجت کو پورا کرنے اور حق کو حق کر دکھانے اور باطل کو نابود کرنے اور رستہ کے واضح کرنے کی راہ بتائے۔ پس میرے دل میں ڈالا گیا کہ مَیں اس غرض کے لئے ایک کتاب بناؤںپھر اُس کی مثل مانگوں اِس ایڈیٹرسے اور ہر ایسے شخص سے جو اُن شہروں سے دشمنی کی غرض سے اٹھے۔اور مَیں خدا کی طرف پورا پورا متوجہ تھا اور زاری اور فریاد کے میدانوں میں دوڑرہا تھا۔آخر کار قبول کے نشان ظاہر ہوئے اور شک شبہ کا پردہ پھٹ گیااور مجھے اِس کتاب کی تالیف کی توفیق بخشی گئی۔’’

(الھُدٰی والتّبصرۃلمن یرٰی ،روحانی خزائن جلد18صفحہ263تا264)

دُعا کی قبولیت اور بندوں کا رجوع

‘‘…یہ خدا کا فعل ہے جو باوجود ہزارہا روکوں کے جو قوم کی طرف سے اور مولویوں کی طرف سے ہوئیں خدا نے میری اس دعا کو قبول کر کے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۲۴۲ میں ہے یعنی یہ کہ رَبِّ لَا تَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا۔ اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دیا۔ جب میں نے کہا کہ اے میرے پروردگار مجھے اکیلا مت چھوڑ تو جواب دیا کہ میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ اور جب میں نے کہا کہ میں نادار ہوں مجھے مالی مدد دے تو اس نے کہا کہ ہریک راہ سے مدد آئے گی اور وہ راہیں عمیق ہو جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یکوں کی کثرت سے قادیان کی سڑک کئی دفعہ ٹوٹ گئی اُس میں گڑھے پڑ گئے اور کئی دفعہ سرکار انگریزی کو وہ سڑک مٹی ڈال کر درست کرانی پڑی اور پہلے اس سے قادیان کی سٹرک کا یہ حال تھا کہ ایک یکہ بھی اُس پر چلنا شاذونادر کے حکم میں تھا اب ہر یک سال راہ یکوں کے باعث سے عمیق ہو جاتا ہے اور نیز خدا نے اسی سال میں قریب ستر ہزار کے اس جماعت کو پہنچا دیا۔ کون مخالف ہے جو اس بات کو ثابت کر سکتا ہے کہ جب ابتدا میں یہ وحی الٰہی نازل ہوئی تو اس وقت سات آدمی بھی میرے ساتھ تھے مگر اس کے بعد ان دنوں میں ہزار ہا انسانوں نے بیعت کی خاص کر طاعون کے دنوں میں جس قدر جوق در جوق بیعت میں داخل ہوئے اس کا تصور خدا کی قدرت کا ایک نظارہ ہے۔ گویا طاعون دوسروں کو کھانے کے لئے اور ہمارے بڑھانے کے لئے آئی۔ ابھی معلوم نہیں کہ طاعون کی برکت سے کیا کچھ ترقی ہو گی۔ ’’

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18صفحہ498تا499)

ہم دعا کرتے ہیں

‘‘ایک شخص نور احمد نام مولوی غلام علی صاحب امرتسری کے شاگردوں میں سے قادیان میں آیا اور اس سے منکر تھا کہ اس امت کے بعض افراد خدا تعالیٰ سے سچی اور یقینی وحی پا سکتے ہیں۔ اس کو یہ کہہ کر ٹھہرایا گیا کہ ہم دعا کرتے ہیں شائد اللہ تعالیٰ کوئی ایسا الہام کرے جو کسی پیشگوئی پر مشتمل ہو۔ سو دعا منظور ہو کر یہ الہام حکایتًاعن الغیر انگریزی میں ہوا آئی ایم کوُرْلَرْ یعنی میں مقدمہ کرنے والا ہوں اور جھگڑنے والا ہوں اور ساتھ ہی یہ الہام ہوا ھٰذا شاھد نزاغ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ۴۷۲۔ یعنی یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے اور تفہیم کی گئی ہے کہ کسی کا مقدمہ ہے اور وہ مجھے گواہ بنانا چاہتا ہے یہ تمام مراتب میاں نور احمدکو قبل از ظہور پیشگوئی سنائے گئے اس دن حافظ نور احمد امرت سر جانے کو تیار تھا بارش ہوئی اور وہ روک لیا گیا۔ شام کو اس کے روبرو رجب علی نام اڈیٹر مطبع سفیر ہند کا امرتسر سے خط آیا اور ساتھ ہی ایک سمن شہادت میرے نام آیا جس سے معلوم ہوا کہ پادری رجب علی نے مجھے اپنا گواہ لکھوایا ہے۔ اور دعویٰ صحیح تھا اور میری شہادت موجب تباہی مدعا علیہ تھی’’

(نزول المسیح ،روحانی خزائن جلد18صفحہ513)

اس مضمون میں درج کیے گئے اقتباسات و واقعات ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم بھی دعا کے مضمون کو سمجھیں اور آج اس دَور میں اس کی ضرورت و اہمیت سے آگاہی حاصل کریں اور اپنے آقا حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے نقش قد م پر چلتے ہوئے اپنی مناجات بارگاہ ایزدی میں رکھیں تا وہ شرف قبولیت پائیں۔ آمین

حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر

کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

(آن لائن اشاعت 13؍اپریل 2020ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button