تحدیث رحمت خدائے ذوالجلال Listen to corona survival byAl Fazl International on hearthis.at ہم ابھی سال 2020ء کے صرف چوتھے مہینے میں داخل ہوئے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہم سب یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جنوری سے اب تک گویا ہم چارسال کاعرصہ گزار چکے ہیں۔اس سال کے آغاز سے ہی دنیا متعدد آفات اور ہولناک واقعات سے نبرد آزما ہے۔ اور سب سے بڑی آفت تو ابھی بھی جاری ہے، یعنی کورونا وائرس (Covid-19) کی عالمی وبا۔ جو بات میں اگلی سطروں میں بیان کرنے والی ہوں وہ میرے لئے نہایت ذاتی نوعیت رکھتی ہے، کیونکہ بدقسمتی سے یہ وبا میرے گھربھی پہنچی۔مجھے نہیں معلوم کہ کیسے! تاہم جو میں جانتی ہوں وہ یہ ہے کہ میرے شوہرابراہیم اخلف جن میں سب سے پہلے بیماری کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں، وہ دن میں 3-4 گھنٹے سے زیادہ نیند نہیں لیتے۔ باقی سارا وقت وہ اللہ تعالیٰ کی خاطرمصروفِ عمل رہتے ہیں جیسے ایک حقیقی واقفِ زندگی کا طریق ہوتا ہے۔ اگروہ اپنے دفتر یا جامعہ (جہاں وہ عربی پڑھاتے ہیں) میں نہ ہوں تو وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ یا کسی نہ کسی پروگرام یا میٹنگ میں شمولیت کے لئے گاڑی پر سفر میں رہتے ہیں۔کئی سال سے ان کا معمول ہے کہ وہ روزانہ 90 سے 100 میل کا سفر کرتے ہیں ۔ نتیجۃً بعض اوقات ان سے کھانا بھی چھوٹ جاتا ہے۔ ان کے یہ معمولات ان کی قوت مدافعت پر اثر انداز ہوئے اور اس طرح وہ کورونا وائرس کا نشانہ آسانی سے بن گئے۔ کورونا وائرس چند ہی روز میں ان کے پھیپھڑوں تک سرایت کر گیا۔ اور پھرہمیں ایمرجنسی سروسز کو بلانا پڑا۔ انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں پر ایک روز بعد ہی انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ (ICU) میں منتقل کر دیا گیا۔ ہسپتال جانے سے قبل ہی وہ شدید کمزوری کی وجہ سے صاحبِ فراش ہوچکے تھے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے تیز بخار، کپکپاہٹ اور ہلکی کھانسی کی شکایت تھی۔لیکن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ضروری گھریلو کام کاج اورجماعتی خدمت کرنے کے قابل تھی۔ لیکن جب میرے شوہر کو ICU میں لے جایا گیا تو میری ٹانگیں میرا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں سمندر کے عین وسط میں ایک گرداب کے اندر ہوں اور لہریں مجھے دائیں بائیں دھکیل رہی ہیں اورایسا لگتا تھا جیسے میں کسی بھی وقت ڈوب جاؤں گی۔ میں جسمانی طور پر تو نہیں لیکن ذہنی طورپر بہت کمزورہو چکی تھی، اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے میرے سینے، دل اور پھیپھڑوں پردباؤ پڑنے لگا تھا۔ ایک طرف میرے شوہر گویا موت کے کنارے پر تھے اور دوسری طرف میں اپنے بچوں کے بارے میں فکرمند تھی۔ میرے ذہن میں مختلف وہم گردش کرنے لگے: ’’اگر میری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور مجھے ہسپتال جانا پڑاتو میرے بچوں کا کیا بنے گا؟‘‘ ’’ہماری فیملی یہاں نہیں ہے۔ اس صورت میں اگرمیرے شوہراور میں فوت ہو گئے تو پیچھے بچوں کا کیاہوگا؟‘‘ ’’کیا میرے شوہرکے بھائی ان حالات میں انگلینڈ آکر انہیں لے جانے کے قابل ہوں گے؟‘‘ کتنا عرصہ ایسے رہے گا؟ اس وقت تک بچوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ کیا یہ یتیم رہیں گے؟ ہمارا جنازہ اورغسل کیسے ہوگا؟ کیا ہمیں غسل بھی دیا جائے گا؟ کیا ہمیں اسلامی طریق پر دفن کیا جائے گا؟‘‘ بہت سارے تکلیف دہ سوالات میرے دل ودماغ کو اذیت پہنچانے لگے۔ جس چیز نے مجھے بہت تکلیف پہنچائی وہ میری بہت ساری جاننے والیوں کی طرف سے میری معیّن علامات کے بارے میں ملنے والے بعض تکلیف دہ پیغامات تھے۔ ایک پیغام نے مجھے خاص طور پر تکلیف پہنچائی۔ ایک خاتون نے مجھے کہا ،’’پریشان نہ ہو۔ یہ اللہ کی مرضی اورگناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ ہاں ، میں جانتی ہوں کہ ہر تکلیف جو ایک مومن کو پہنچتی ہے حتی ٰ کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھ جائے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے(بخاری)۔ لیکن یہ بندے اور اس کے خدا کے درمیان معاملہ ہے۔اس بات کا کوئی جواز نہیں کہ بنتا کہ ایک بیمار شخص کو یہ کہا جائے کہ یہ بیماری تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے۔صرف خدا ہی بندے اور خداکےتعلق کو جانتا ہے۔ اسی طرح مجھے معلوم ہوا کہ جماعت سے منحرف ہونے والے بعض لوگ میرے شوہر کی بیماری پر خوش ہو رہے تھے۔میں نے کہا، ’’انہیں کہہ دیں کہ میں ہر گزیہ نہیں چاہوں گی کہ یہ بیماری تمہیں لاحق ہو۔ لیکن خدا ہماری حفاظت کرنے والا ہے۔‘‘ اسی دوران مجھے بہت زیادہ سپورٹ بھی ملی۔مجھے سینکڑوں نہیں تو درجنوں پیغامات دنیا بھرسے، نیک تمناؤں اورخوبصورت کلمات سے پُر موصول ہوئے، خاص طور پراحمدی بھائیوں اور بہنوں کی طرف سے۔بعض نے ابراہیم کے متعلق یاد دلایا کہ جو نیک کام کرتے ہوئے انہوں نے ابراہیم کو دیکھا تھا۔ اورانہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ مجھے تسلی بخش پیغامات بچوں کی طرف سے بھی موصول ہوئے جو ہمیں اپنی ہر دعا میں یاد رکھے ہوئے تھے۔ میں نے فون کالز کا جواب نہیں دیا کیونکہ میں لوگوں کی آواز میں غم اور دکھ نہیں سننا چاہتی تھی اوراس وجہ سے میرے سینے اور پھیپھڑوں پر دباؤ کا احساس پیدا ہوتا تھا۔ میں نے صرف حضور انور کے دفتر کے سٹاف اورڈاکٹر صاحبان، اوراپنے شوہر کے دو دوست جو ہسپتال سے رابطہ میں تھے ان کی فون کالزسنیں۔ ایک مشفق باپ اب میں آپ کو حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بارے میں بتانا چاہوں گی۔ میرا تعلق ملک شام سے ہے۔ جنگ کے بعد میرے بہن بھائی ساری دنیا میں منتشر ہو چکے ہیں، بہت سال ہوگئے میری ان سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میرے شوہر ہالینڈ میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی ساری فیملی وہاں ہی رہتی ہے۔یوکے میں ہمارے کوئی عزیز واقارب نہیں ہیں۔اگر کوئی دور کے رشتہ دار ہیں بھی تو ان میں سے کوئی ہمارے بارے میں فکرمند نہیں ہوگا۔کیونکہ جب ہم نے احمدیت قبول کی تھی توان سب نے ہمارا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ الحمدللہ ،اسی وجہ سے ہمیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ہم ان سب باتوں کا تجربہ کریں جن سے آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کو گزرنا پڑا۔ ہماری اجنبیت اورتنہائی کی حالت میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمارے لئے ایک مشفق باپ کی طرح تھےاورابھی تک ہیں۔ آپ ہمارا اس طرح خیال رکھتے ہیں جیسے اپنے بچوں کا، جو ہمارے لئے بھی سگے بہن بھائیوں جیسے ہیں۔ بیگم صاحبہ (حضورانور کی اہلیہ محترمہ) کو میں اپنی ماں سمجھتی ہوں، درحقیقت آپ میری ماں ہی نہیں بلکہ ایک شفیق دوست بھی ہیں۔ جب میرے شوہر ہسپتال میں تھے تو جو پیار اور محبت میں نے خصوصاً حضورِ انور اور حضور کے باقی گھر والوں سے پائی، اس نے مجھے آنحضرتﷺ کے عظیم صحابی حضرت سلمان فارسی ؓ کی یاد دلادی۔ وہ عربوں میں ایک عجمی تھے لیکن پھر بھی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ آپ ؐ کے اہل میں سے ہیں۔ اسی طرح میں نے محسوس کیا کہ میں بھی حضورانور کے اہل بیت میں سے ہوں۔آپ ہمارے لئے دوائیں بھجواتے،کھانے پینے کی اشیاء تجویز فرماتے اوراپنے افرادِ خانہ اوردفتری سٹاف کے توسّط سے ہمارا حال احوال دریافت فرماتے رہتے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ قلم میں سکت نہیں کہ حضور انور کی شفقتوں کو الفاظ میں سمیٹ سکے۔ میں جوکچھ بھی لکھ لوں، حضور کی پدرانہ شفقت اور سلوک کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوں گی۔ ہم حضور انور کے بہت زیادہ شکرگزار ہیں۔ اللہ کرے کہ ہماری زندگیاں خلافت پر قربان ہوں۔آمین حضور انورکا خطبہ جمعہ 20؍ مارچ اورآپ کا کورونا وائرس سے متعلق ارشاد جو ’الحکم‘ میں شائع ہوا مَیں اس کو نہیں بھول سکتی۔ حضورِانور کے الفاظ میرے خطوط کا جواب تھے۔اوریہ میرے لئے ایک شفا بخش مرہم تھے۔مجھے یقین تھا کہ یہ میرے لئے جواب ہیں لیکن اس کے باوجود دو روز سے میری تسلی کے لئے حضور کی طرف سے براہ راست کوئی پیغام نہیں موصول ہوا تھا۔پس جب محترم منیر عودہ صاحب (ڈائریکٹرایم ٹی اے انٹرنیشنل)حضورانورسے ملاقات کے لئے حاضر ہونے لگے تو انہوں نے مجھے فون کیا اور پوچھا : ’’کیا آپ حضور انور کی خدمت میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہیں؟‘‘ میں نے کہا:’’امیرالمؤمنین سے عرض کریں کہ میں اطمینان قلب کی خاطرآپ کے الفاظ کی منتظرہوں۔‘‘ جب منیرعودہ صاحب نے میراپیغام حضورانور کی خدمت میں پیش کیا تو حضورخاموش رہے۔ لیکن ملاقات کے آخر میں حضور انور نے فرمایا: ’’ریم سے کہہ دو کہ تسلّی رکھے، ابراہیم کو کچھ نہیں ہوگا۔ وہ صحت یاب ہو جائے گا۔‘‘ رحمت الٰہی اب مَیں رحمت الہی کا تذکرہ کرتی ہوں۔ میں نے دن رات رب العالمین کے حضور دعائیں کیں۔مجھے وہ حدیث یاد تھی جس میں بیان ہوا ہے کہ تین افراد جو ایک غار میں تھے اور ایک پتھر گرجانے کی وجہ سے اس غار کا منہ بند ہوگیا تھا۔ انہوں نے خدا کی بارگاہ میں گڑگڑانا شروع کیا اوراپنے نیک اعمال یاد کئے جو انہوں نے محض خدا کی رضا کی خاطر کیے تھے۔ اور ان اعمال کا واسطہ دے کر دعا کی تو پتھرسرکتا گیا اورغار کا منہ کُھلتا گیا۔ اور وہ سب بچ گئے۔ اسی طرح میں نے اپنے محبوب خدا کے سامنے وہ کام یاد کئے جو میں نے اور ابراہیم نے محض اُس کی رضا کے لئے کئے تھے، اور یقیناً وہ انہیں سب سے بہتر جانتا ہے۔میں نے آنحضورﷺ کی دعاؤں، قرآنی دعاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا ورد بھی جاری رکھا۔ تب اللہ نے میرے دل میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس وقت کی دعا ڈالی جب وہ صلیب پر لٹکائے گئے : "اے اللہ ، اس پیالے کو ہم سے ٹال دے"۔ میں نے اس دعا کو سینکڑوں بار دہرایا جب تک کہ مجھے یہ محسوس نہ ہوا کہ جیسے اللہ نے پیالہ عیسیٰؑ سے ٹال دیا تھا، وہ اسے ہم سے بھی دور کردے گا۔ ایک رات میں نے ایک خواب میں دیکھا کہ نورا نامی ایک عیسائی نرس ہسپتال میں بڑے پیار و محبت سے ابراہیم کی دیکھ بھال کررہی ہے۔ اسی دوران، اس نے انہیں تبلیغ بھی کرنے کی کوشش کی۔ اس کے فوراً بعد ابراہیم کوہسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ ابراھیم نے مجھے بتایا کہ "اللہ کے فضل سے، میں نے اس کی صلیب توڑ دی ہے" یعنی عیسیٰ کو صلیب پرچڑھانے یا خدا ہونے کے ان کے تمام دعووں کا ناقص ہونا ثابت کر دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ حقیقت میں وہاں ایک مسیحی نرس آپ کی دیکھ بھال کر رہی تھی جس کے ساتھ ابراہیم نے مسیح علیہ السلام کے متعلق گفتگو کی تھی۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کے مطابق حضرت عیسیٰ کے اصل مقام کی وضاحت کی تو وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور مطمئن ہوگئی، الحمدللہ۔ اب ، دنیا بھر کے ہزاروں احمدی، اور سب سے بڑھ کر حضرت امیرالمومنین، ہمارے لئے دلی درد اور محبت کے ساتھ دعائیں مانگ رہے تھے۔ ان میں سے بہت سوں نے صدقہ خیرات بھی کیا، بھائی شریف عودہ صاحب (امیر جماعت کبابیر) نے قادیان میں بیت الدعا میں خصوصی طور پر ادا کیے جانے والے نوافل میں ابراہیم کے لیے دعا کی۔ مجھے ہر جگہ سے قادیان، ربوہ، امریکہ، کینیڈا، عرب ممالک ، یورپ اور برطانیہ سے تسلی بخش دعائیہ پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ میں ناروے میں اپنی دوست بیریوان کو نہیں بھولوں گی، جس دن ابراہیم ICU میں داخل ہوئے، اس نے مجھے میسج کیا، ’’کیا آپ ٹھیک ہیں؟ میں دعا کر رہی تھی کہ اچانک اللہ نے میرے دل میں ڈالا کہ مجھے آپ اورآپ کے گھر والوں کے لئے بہت دعا کرنی چاہیئے‘‘ اس پرمیں نے کہا، ’’اے میرے رب ، مجھے یقین ہے کہ تو نے اس کی توجہ صرف اس وجہ سے اس طرف پھیری ہے کہ تو اس کی دعاؤں کو قبول کرنا چاہتا ہے۔‘‘ ان سب کی وجہ سے، میرے دل میں رحمت الٰہی کی امید اَوربھی بڑھ گئی اورمجھے یقین ہو گیا کہ وہ ضرورہم پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا۔ اس کے بعد فی الحقیقت میرے شوہر کی حالت بہتری کی طرف مائل ہونے لگی۔ وہ چار دن ICU میں رہنے کے بعد عام وارڈ میں منتقل ہو گئے اور پانچویں دن اللہ کے فضل و کرم سے گھر واپس آگئے۔ اب جبکہ میں اس واقعے کے بارے میں سوچتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ اس تجربے سے ہمیں کتنے فوائد اور برکتیں حاصل ہوئیں۔ اس کے علاوہ میں نے دیکھا کہ یہ میری دعاؤں کی قبولیت کا ایک مظہر تھا۔ ہاں، اللہ نے میری دعاؤں کا جواب دیا، جیسا کہ میں ہمیشہ سے دعا کرتی تھی کہ ’’اے خدا! کوئی ایسا امر ہمارے شامل حال فرما جو ہمیں تیرے قریب لانے کا باعث بنے‘‘ اور اب اس ذات کریمہ نے اس دعا کو سنا اور ہمیں ان تجربات سے گزارا۔ اس تمام وقت میں جو دیگر فوائد ہمیں حاصل ہوئے، ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ لوگوں نے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہمارے سے اپنائیت کا اظہار کیا اور ہم حدیث کی رو سے یہ بات جانتے ہیں کہ یہ محبت بھی اللہ کی محبت کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ اس کےعلاوہ مجھے اپنی زندگی میں پہلی باررسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کے مطالب کا صحیح ادراک حاصل ہوا کہ: ’’مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت ‘ اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو نیند نہیں آتی اوروہ بخارمیں مبتلا ہو جاتا ہے.‘‘ (مسلم) مجھے طلوع فجر سے پہلے نماز تہجد کے وقت بھی ہر قسم کی تسلی اوردعاؤں کے پیغامات مل رہے تھے۔ لیکن جس طرح میں نے پہلے بھی ذکر کیا ان سب حالات کا مجھے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ہمیں خدا کا مزید قرب حاصل کرنے کی توفیق ملی اور خلافت اور اس کے مقام کے متعلق ہمارا ایمان مضبوط ترہوتا چلا گیا اور اس بات کا کامل ادراک حاصل ہواکہ کس طرح خلافت سے وابستگی ہی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہمارے لئے حیات جاوِداں کا موجب ہے۔ میری پیاری بہنو اور بھائیو! ایک چھوٹے سے وائرس نے کہ جسے ظاہری آنکھوں سے بھی نہیں دیکھا جاسکتا، دنیا کی عظیم الشان طاقتوں کو بے بس اور مفلوج کردیا ہے۔ آئیے ہم اس مشکل وقت میں اپنے ایمانوں سے فائدہ اٹھائیں، خداتعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور اس کی رحمت کے طلب گار ہوں کہ وہ اس وبا سے زمین کو نجات بخش دے! آئیے ہم اس دنیا کو اس کے حقیقی خالق سے آگاہ کریں اوربتائیں کہ اب نجات کا انحصار حضورﷺ اور آپﷺ کے غلام صادق، آپ کے موعود مسیح علیہ السلام کو ماننے میں ہی ہے۔ ہرنفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہی ہے۔ ہماری وفات چاہے اس وائرس کی وجہ سے ہویا کوئی اَور بات اس کا بہانہ بنے، اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں قبول کیے جائیں۔ آمین۔ (ترجمہ: ٹیم تراجم الفضل انٹرنیشنل) [یہ مضمون انگریزی زبان میں پریس اینڈ میڈیا آفس کی ویب سائیٹ پرشائع کیا گیا۔ اصل مضمون کے لیے درج ذیل لِنک ملاحظہ فرمائیں: https://www.pressahmadiyya.com/corona/2020/04/expel-coronavirus-home/]