سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائلِ مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ آپؑ کی انگوٹھی کا بیان

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی انگوٹھی / مُہر کا بیان

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

‘‘…جو الہام

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

ہوا تھا وہ بہت سے لوگوں کو قبل از وقت سنایا گیا جن میں سے لالہ شرمپت مذکور اور لالہ ملاوامل مذکور کھتریان ساکنان قادیان ہیں اور جو حلفاً بیان کرسکتے ہیں ۔اور پھر مرزا صاحب مرحوم کی وفات کے بعد وہ عبارت الہام ایک نگین پر کھدوائی گئی۔اور اتفاقاً اسی ملاوا مل کو جب وہ کسی اپنے کام کے لیے امرتسر جاتا تھا وہ عبارت دی گئی کہ تا وہ نگین کھدواکر اور مہربنواکر لے آئے۔چنانچہ وہ حکیم محمد شریف مرحوم امرتسری کی معرفت بنواکر لے آیا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔’’

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 198)

حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘…اس سے پہلے میرے ساتھ اسماعیل مذکور بھی ایک دفعہ قادیا ن ہو گیا تھا۔حضور نے مجھ سے فرمایا تم نے اس وقت کیوں نہ مجھ سے ذکر کیا جب اسماعیل یہاں آیا تھا ہم اسے یہیں تحریک کر تے۔پھر آپ نے میرے ماموں محمد یوسف صاحب مرحوم کو جو حضرت صاحب کے بڑے معتقد تھے اور جن کے ذریعہ مجھے حضرت صاحب کی طرف رہ نمائی ہوئی تھی خط لکھا اور اس میں اسماعیل کے نام بھی ایک خط ڈالا اور لکھا کہ اسماعیل کے نام خط اسکے پاس لے جائیں اور اسے تحریک کریں ۔اور اس خط میں میرے والداور دادا اور خسر کی طرف بھی حضور نے خطوط ڈال کر بھیجے اور ان سب خطوط کو اہم بنانے کے لیے ان پر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی مہر لگائی …’’

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر101)

حضرت میاں نبی بخش صاحبؓ متوطن بن باجوہ ضلع سیالکوٹ نے بیان کیا کہ:

‘‘حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت بابرکت میں میں نے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی بنا کر پیش کر نا چاہتا ہوں اسکے نگینہ پر کیا الفاظ لکھے جاویں ؟ حضرت صاحب نے فرمایا ‘‘مولا بس’’ کے الفاظ لکھ دیں ۔چنانچہ میں نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ وہی انگوٹھی ہے جس کا سیرۃ المہدی حصّہ اول کی روایت نمبر16میں ذکر گزر چکا ہے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ‘مولابس’ کے الفاظ گو یا ایک طرح

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کا ترجمہ ہیں او ر اس حالت رضا وفنا کو ظاہر کر رہی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے قلب صافی پر ہر وقت طاری رہتی تھی۔’’

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر326)

حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘جب کبھی باہر سیر کو جاتے تو ہاتھ میں بھیرے کی بنی ہوئی بید کی سوٹی ہوتی جس کے قبضہ پر انگریزی حروف میں میرزا غلام احمدؐ مسیح موعود لکھا ہوا تھا۔ہاتھ میں چاندی کی انگشتری ہوتی جس کا نگینہ سرخ عقیق کا تھا۔اور اس پر

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

کا الہام کندہ تھا۔’’

(ظہور الحق یا ظہور احمد موعود از قاضی محمد یوسف صاحبؓ صفحہ 33)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ مولیٰ بس والی انگوٹھی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

‘‘30؍نومبر1905ء کو حضرت سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسیؓ قادیان سے جانے والے تھے اور وہ مہمان خانہ جدید میں اترے ہوئے تھے۔حضرت اقدس وہاں تشریف لائے اور سیٹھ صاحب کو مخاطب کر کے وہ الہامات سنائے جو 29؍نومبر 1905ء کی شب کو ہوئے تھے۔اور اسی سلسلہ میں تقریر فرماتے رہے دوران تقریر میں فرمایا :

‘‘میرے ایک چچا صاحب فوت ہو گئے تھے (مرزا غلام محی الدین صاحب مراد ہیں ۔ایڈیٹر) عرصہ ہوا میں نے ایک مرتبہ ان کو عالم رؤیا میں دیکھا اور ان سے اس عالم کے حالات پوچھے کہ کس طرح انسان فوت ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہےانہوں نے کہا کہ‘‘اس وقت عجیب نظارہ ہوتا ہے۔جب انسان کا آخری وقت قریب آتا ہے تو دو فرشتے جو سفید پوش ہوتے ہیں سامنے آتے ہیں اور وہ کہتے آتے ہیں مولیٰ بس۔مولیٰ بس’’۔فرمایا حقیقت میں ایسی حالت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے یہی لفظ مولیٰ بس موزوں ہوتا ہے اور پھر وہ قریب آ کر دونوں انگلیاں ناک کے آگے رکھ دیتے ہیں ۔اے روح جس راہ سے آئی تھی اسی راہ سے واپس نکل آ۔’’

‘‘فرمایا طبعی امور سے ثابت ہوتا ہے کہ ناک کی راہ سے روح داخل ہوتی ہے اسی راہ سے معلوم ہوا نکلتی ہے توریت سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ نتھنوں کے ذریعہ زندگی کی روح پھونکی گئی۔’’

یہ رؤیا مولیٰ بس والی انگشتری کے نقش کا ماخذ ہے چونکہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کا مفہوم صحیح مولیٰ بس میں ہی ادا ہوتاتھا اس لیے زندگی کے آخری حصہ میں جب کسی نے انگشتری بنا کر پیش کرنے کے لیے عرض کیا تو آپ نے اس کو مولیٰ بس لکھ دیا۔اور یہی انگشتری آپ کی وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی۔کیسا عجیب معاملہ ہے کہ موت ہی کے نقشہ میں یہ مولیٰ بس سنایا اور دکھایا گیا تھا۔اور وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں یہ انگوٹھی تھی۔آپ کو اپنے والد ماجد کی وفات پر خدا تعالیٰ نے اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کے پیارے اور تسلی بخش الفاظ میں مطمئن فرمایاتھا اور آپ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اس انگشتری سے پچھلوں کو بتایا کہ مولیٰ بس۔یہ ایک ذوقی بات ہے۔حضرت کی اس تقریر میں جو سیٹھ عبد الرحمان صاحب کو رخصت کے وقت خطاب کر کے فرمائی ان الفاظ پر غور کرو کہ فرمایا:

‘‘حقیقت میں جب کوئی مفید وجود درمیان سے نکل جاتا ہے یہی لفظ مولیٰ بس موزوں ہوتا ہے’’۔یہ کلمات اس وقت کوئی نہ سمجھ سکتا تھا کہ ایک نشان اور پیشگوئی کا رنگ رکھیں گے مگر واقعات نے بتایا کہ آپ کی انگشتری اس آخری وقت کے بعد یہ تسلی دے گی۔بہرحال اس طرح پر یہ آخری اور تیسری انگشتری تیار ہوئی دوسری انگشتری آپ کے ایک الہام کو اپنے اندر رکھتی ہے۔’’

(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 37-39)

حضرت اقدس ؑ کی تین انگوٹھیاں

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :

خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین انگوٹھیاں تھیں ایک

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

والی جس کا آپ نے کئی جگہ اپنی تحریر ات میں ذکر کیا ہے یہ سب سے پہلی انگوٹھی جو دعویٰ سے بہت عرصہ پہلے تیار کرائی گئی تھی۔دوسری وہ انگوٹھی جس پر آپ کا الہام

غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ۔ الخ

درج ہے۔یہ آپ نے دعویٰ کے بعد تیار کروائی تھی اور یہ بھی ایک عرصہ تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔الہام کی عبارت نسبتاً لمبی ہونے کی وجہ سے اس کا نگینہ سب سے بڑا ہے۔تیسری وہ جو آخری سالوں میں تیار ہوئی اور جو وفات کے وقت آپکے ہاتھ میں تھی۔یہ انگوٹھی آپ نے خود تیار نہیں کروائی بلکہ کسی نے آپ سے عرض کیا کہ میں حضور کے واسطے ایک انگوٹھی تیار کروانا چاہتا ہوں اس پر کیا لکھواؤں حضور نے جواب دیا۔‘‘مولابس’’ چنانچہ اس شخص نے یہ الفاظ لکھوا کرانگوٹھی آپکو پیش کر دی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت ایک شخص نے یہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ سے اتار لی تھی پھر اس سے والدہ صاحبہ نے واپس لے لی۔حضرت مسیح موعود کی وفات کے ایک عرصہ بعد والد ہ صاحبہ نے ان تینوں انگوٹھیوں کے متعلق ہم تینوں بھائیوں کے لیے قرعہ ڈالا۔

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ

والی انگوٹھی بڑے بھائی صاحب یعنی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے نام نکلی۔

غَرَسْتُ لَکَ بِیَدِیْ رَحْمَتِیْ وَ قُدْرَتِیْ(تذکرہ صفحہ 428 حاشیہ، مطبوعہ 2004ء)

والی خاکسارکے نام اور‘‘مولا بس’’ والی عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی۔ہمشیرگان کے حصّہ میں دو اور اسی قسم کے تبرک آئے۔’’

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر16)

مُہر

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :

‘‘ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے کتب خانہ کے مینیجر محمد سعید صاحب۔حکیم فضل الدین صاحب مرحوم۔پِیر سراج الحق صاحب۔پِیر منظور محمد صاحب۔میر مہدی حسین صاحب وغیرہ لوگ مختلف اوقات میں رہے ہیں ۔جو فرمائش آتی یا حکم ہوتا وہ حضرت صاحب کی طرف سے مہتمم کتب خانہ کے پاس بھیج دیا جاتا۔وہ کتاب کا پارسل بنا کر رجسٹری یا وی۔پی کر کے بھیج دیتا۔وی۔پی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا ہوتا تھا۔ایک مہر ربڑ کی ‘‘اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ’’کی بنوائی گئی تھی۔اور اعلان کر دیا تھا کہ جس کتاب پر یہ مُہر اور ہمارے قلمی دستخط دونوں موجود نہ ہوں وہ مال مسروقہ سمجھا جائے گا۔یہ مہر مہتمم کتب خانہ کے پاس رہتی تھی۔جو کتابیں باہر جاتیں ان پر وہ مُہر لگا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس وہ کتابیں دستخط کے لیے بھیج دی جاتی تھیں ۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا انتظام غالباً خاص خاص اوقات میں خاص مصلحت کے ماتحت ہوا ہوگا۔ورنہ مَیں نے حضرت صاحب کے زمانہ کی متعدد کتب دیکھی ہیں جن پر حضرت صاحب کے دستخط نہیں ہیں گو بعض پر مَیں نے دستخط بھی دیکھے ہیں ۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص زمانہ میں یہ احتیاط برتی گئی تھی۔

(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر558)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘ایک زمانہ میں آپ منی آرڈروں پر اور رجسٹروں کی رسیدات پر دستخط کرتے وقت ساتھ ہی مہر بھی لگا دیا کرتے تھے 1898ء کے آغاز میں آپ نے کتابوں پر بھی اپنی مہر لگانے اور دستخط کرنے کا حکم دیا تھا اس کے لیے ایک ربڑ کی مہر اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کی بیضوی شکل کی بنوائی تھی چنانچہ آپ کتاب کے شروع کے صفحہ پر دستخط معہ تاریخ اپنی قلم سے فرماتے اور مہر بھی لگائی جاتی تھی اس کے متعلق 20؍ستمبر 1898ء کو آپ نے ایک اشتہار بھی شائع فرمایا تھا جو الحکم مؤرخہ 20و 27؍ستمبر 1898ء میں طبع ہوا۔’’

(سیرت حضرت مسیحِ موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 39)

آپؑ کے عیادت کرنے کا بیان

10؍اگست کی شام کو اس نے (ایک قریشی صاحب۔ ناقل) بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں ، مگر پاؤں کے متورّم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔حضرت نے خود 11؍اگست کو اُن کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا؛ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لیے آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے۔آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔

(ملفوظات جلدسوم صفحہ 317-318)

حضرت اقدس بوقت ظہر تشریف لائے اور مولانا حکیم نورالدین صاحب کی علالت طبع کا حال خود ان سے دریافت کیا۔غذا کے انتظام کے لیے تاکید فرمائی۔حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ہر چند کوشش کی جاتی ہےمگر قدرت کی طرف سے کچھ ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں کہ جس سے انتظام قائم نہیں رہتا۔شاید ارادہء الٰہی ابھی اس امر کا خواہاں نہیں ہے کہ آرام ہو۔

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ252)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :

‘‘مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شہادت کے لیے ملتان تشریف لے گئے تو راستہ میں لاہور بھی اترے اور وہاں جب آپکو یہ علم ہوا کہ مفتی محمدصادق صاحب بیمار ہیں تو آپ ان کی عیادت کے لیے انکے مکان پر تشریف لے گئے۔اور ان کو دیکھ کر حدیث کے یہ الفاظ فرمائے کہ لَا بَأْسَ طَہُوْرًا اِنْشَآءَ اللّٰہ۔

یعنی کوئی فکر کی بات نہیں انشاء اللہ خیر ہو جائے گی اور پھر آپ نے مفتی صاحب سے یہ بھی فرمایا کہ بیمار کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے ،آپ ہمارے لیے دعا کریں ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ ملتان کا یہ سفر حضرت صاحب نے 1897ء میں کیا تھا۔’’

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر412)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button