از افاضاتِ خلفائے احمدیت

شرائط بیعت اور ہماری ذمہ داریاں: زنا اور بد نظری سے بچو

دوسری شرط بیعت(حصہ دوم)

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

زنا سے بچو

پھر اسی شرط دوم میں زنا سے بچنے کی شرط ہے ۔ تو اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا(بنی اسرائیل: آیت ۳۳)

یعنی زنا کے قریب نہ جائو یقینا ً یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

ایک حدیث ہے ۔ محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے درج ذیل امور کی نصیحت فرمائی ، پھر ایک لمبی روایت بیان کی جس میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ عفت یعنی پاک دامنی اور سچائی ، زنا اور کذب بیانی کے مقابلہ میں بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔

(سنن الدارمی۔ کتاب الوصایا۔ باب مایستحبّ بالوصیۃ من التشھد والکلام)

یہاں زنا اور جھوٹ دونوں کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ کتنا بڑا گناہ ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘ زنا کے قریب مت جائو یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔ جو زنا کرتا ہے وہ بدی کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ زنا کی راہ بہت بری ہے یعنی منزل مقصود سے روکتی ہے اور تمہاری آخری منزل کے لیے سخت خطرناک ہے۔ اور جس کو نکاح میسر نہ آوے چاہئے کہ وہ اپنی عفت کو دوسرے طریقوں سے بچاوے۔ مثلاً روزہ رکھے یا کم کھاوے یا اپنی طاقتوں سے تن آزار کام لے۔’’

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد10۔ صفحہ342)

آپ نے فرمایا ہے کہ ایسی چیزوں سے دوررہو جن سے خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو۔ نوجوانوں میں بعض اوقات یہ احساس نہیں رہتا ۔فلمیں دیکھنے کی عادت ہوتی ہے اورایسی فلمیں دیکھتے ہیں جو اس قابل نہیں ہوتیں کہ دیکھی جائیں ۔بڑی اخلاق سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان سے بھی بچنا چاہئے ۔ یہ بھی زناکی ایک قسم ہی ہے۔

بدنظری سے بچو

پھر دوسری شرط میں تیسری قسم کی برائی بدنظری سے بچنے کی ہے ۔ا ب یہ کیاہے یہ غضِ بصر ہے۔
ایک حدیث ہے کہ ابوریحانہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ایک رات انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا: ‘‘آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بیدار رہی۔ اورآگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسوبہاتی ہے’’۔

ابوشریح کہتے ہیں کہ مَیں نے ایک ر اوی کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آگ اس آنکھ پر حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا ء کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے۔ اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عزوجل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔

(سنن الدارمی۔ کتاب الجہاد۔ باب فی الذی یسھر فی سبیل اللّہ حارساً)

پھر ایک حدیث ہے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے بارہ میں چھ باتوں میں مجھے ضمانت دے دو۔

(رسول اللہﷺ فرما رہے ہیں کہ مَیں تمہیں جنت میں جانے کی بشارت دیتاہوں)۔ فرمایا: جب تم گفتگو کرو تو سچ بولو۔ جب تم وعدہ کرو تووفا کرو ۔جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو عند الطلب دے دیا کرو۔( ٹال مٹول نہیں ہونی چاہئے)۔ اپنے فروج کی حفاظت کرو، غض بصر سے کام لو۔اور اپنے ہاتھوں کو ظلم سے روکے رکھو۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد5۔ صفحہ 323۔ مطبوعہ بیروت)

حضرت ابوسعید خدری ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :رستو ں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ! ہمیں رستوں میں مجلس لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا :پھر رستے کا حق ادا کرو ۔ انہوں نے عرض کیا پھراس کا کیا حق ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: ہر آنے جانے والے کے سلام کا جوا ب دو،غض بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی راہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔

(مسند احمد بن حنبل۔ جلد3۔ صفحہ61۔مطبوعہ بیروت)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

‘‘قرآن شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر حسب حال تعلیم دیتا ہے کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے۔

قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَ یَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ(النور:آیت31)

کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے ان کے نفوس کا تزکیہ ہو گا ۔ فروج سے مراد صرف شرمگاہ ہی نہیں بلکہ ہر ایک سوراخ جس میں کان وغیرہ بھی شامل ہیں اور ان میں اس امر کی مخالفت کی گئی ہے کہ غیر محرم عورت کا راگ وغیرہ سنا جاوے۔ پھر یاد رکھو کہ ہزار در ہزار تجارب سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ روکتا ہے آخر کار انسان کو ان سے رکنا ہی پڑتا ہے’’۔

(ملفوظات۔ جلد 7۔ صفحہ 135)

پھر آپ فرماتے ہیں : ‘‘اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں ۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غض بصر کا ۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج ، حلال و حرام کا امتیاز، خداتعالیٰ کے احکام کے مقابلہ میں اپنی عادات رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہو سکتا’’۔

(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلد5۔صفحہ 614)

اس سے مردوں کو وضاحت ہو گئی ہوگی کہ ان کی بھی نظریں ہمیشہ نیچی رہنی چاہئیں۔حیا صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں مردوں کے لیے بھی ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں:‘‘خدائے تعالیٰ نے خُلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لیے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لیے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا۔ کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا۔ نامحرموں کے قصے نہ سننا۔ اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ’’۔

آپ ؑنے فرمایا :‘‘اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے۔ یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لیے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لیے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے’’۔(اگر روک ٹوک نہ ہو تو ٹھوکرکا موجب ہو جاتی ہے)۔’‘‘اگر ہم ایک بھوکے کتّے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر ہم امید رکھیں کہ اس کتّے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آئے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔’’

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن۔ جلد10۔صفحہ343-344)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button