حضرت مصلح موعود ؓ

نشاناتِ صداقت آنحضرت ﷺ (قسط نمبر 3)

از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

رسول کریم ﷺ کے شاہد کی بعثت

میرے آج کے لیکچر کا موضوع یہی ہے کہ میں اس بات کو ثابت کروں کہ خداتعالیٰ کو اس زمانہ میں اسلام کی حالت دیکھ کر غیرت آئی اور اس نے رسول کریم ﷺ کی صداقت ثابت کرنے کے لئے اس شاہد کو کھڑا کر دیا۔ جس کا اس نے قرآن کریم میں وعدہ کیا ہے۔ خداتعالیٰ نے ہندوستان ہی سے جو تمام مذاہب کا جولا ن گاہ بنا ہوا ہے اسے رسول کریم ﷺ کے خادموں میں سے کھڑا کیا ہے تاکہ وہ رسول کریم ﷺ کے نام کو دنیا میں پھیلائے اور آپؐ کا نام روشن کرے اور ثابت ہو جائے کہ آپؐ نعوذ باللہ کوئی فریبی اور دغا باز نہ تھے بلکہ خداتعالیٰ کے پیارے اور محبوب تھے۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحبؑ نے آکر یہی ثابت کیا اور ہم یہی مانتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے مرزا صاحب کو کھڑا کیا تھا۔ پس حضرت مرزا صاحبؑ کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں تھا بلکہ یہی تھا کہ مجھے خداتعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کی عزت قائم کرنے اور اسلام کو مخالفین کے حملوں سے بچانے کے لئے کھڑا کیا ہے اور مجھے رسول کریم ﷺ کا خادم ہونے کا فخر ہے۔ آپؑ کو خواہ مسیح کہیں یا مہدی، رسول کہیں یا نبی، بہرحال اس کا مطلب یہی ہو گا کہ آپؑ رسول کریم ﷺ کے غلام ہو کر آئے ہیں۔

حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ کی صداقت

اب میں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ نے جو دعویٰ کیا اس کو انہوں نے کس طرح پورا کیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ قرآن کریم میں جس شاہد کے آنے کا ذکر ہے وہ مرزا صاحبؑ ہیں؟ اس کے متعلق میں یہ عرض کرتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی سچائی معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا وہ جھوٹے تھے، غلطی خوردہ تھے، یا مجنون تھے، یہی وہ تین باتیں ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی اس شخص میں پائی جائے گی جو ایک دعویٰ کرتا ہے مگر سچا نہیں ہے۔ اور یہ تینوں باتیں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہو یا ہو سکتا ہے جھوٹا نہ ہو مگر کسی وجہ سے اسے غلطی لگ گئی ہو یا ہو سکتا ہے غلطی تو نہ لگی ہو لیکن پاگل اور مجنون ہو اب ہم دیکھتے ہیں حضرت مرزا صاحبؑ نے جو دعویٰ کیا ہے وہ کیسا ہے۔ آیا آپ جھوٹے ہیں یا غلطی خوردہ ہیں یا مجنون ہیں۔ ان میں سے کون سی بات پائی جاتی ہے۔

کیا حضرت مرز اصاحبؑ جھوٹے تھے؟

پہلے یہ لیتے ہیں کہ آیا آپؑ جھوٹے تھے؟ جھوٹے ہونے کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی عزت قائم کرنے کے لئے فریب سے یہ بات بنا لی کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص اس طرح اپنی عزت قائم کرنے کے لئے جھوٹ بنائے گا اس کے دل میں رسول کریم ﷺ کی کوئی عزت نہ ہو گی۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی عزت ہو مگر وہ بندوں کے سامنے جھوٹ بول لے۔ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول کریم ﷺ کی عزت ہو اور رسول کریم ﷺ اور خداتعالیٰ پر جھوٹ بولے۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے دل میں میری عزت ہو وہ دوسرے کے متعلق تو جھوٹ بول لے لیکن میرے متعلق نہیں بولے گا۔ پس اگر حضرت مرزا صاحبؑ کے دل میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی محبت اور عزت ہو تب تو وہ ایسا جھوٹ نہیں بول سکتے۔ ہاں جب ان کی عزت نہ ہو تب بول سکتے ہیں۔

حضرت مرزا صاحب کو رسول کریم ﷺ سے عشق

اس کے لئے پہلے میں حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی پیش کرتا ہوں۔ ان کی زندگی کوئی مخفی نہ تھی ایک مشہور انسان تھے۔ اخباروں میں ان کے حالات شائع ہوتے رہتے تھے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ان کو پڑھ کر دیکھ لیا جائے کہ شروع سے لے کر اخیر تک حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی رسول کریمﷺ کی تعریف میں لگی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی حضرت مرزا صاحبؑ کو فریبی کہے لیکن یہ تو غیرمذاہب کے لوگ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مرزا صاحبؑ کو محمد ﷺ کا عشق تھا۔ مجنوں و لیلیٰ، فرہاد و شیریں کے قصے مشہور ہیں۔ معلوم نہیں سچے ہیں یا جھوٹ۔ مگر اس میں شک نہیں کہ مرزا ؑ اور محمد ﷺ کا واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے گزرا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ لیلیٰ اور شیریں، مجنوں اور فرہاد کوئی وجود بھی تھے یا نہیں، ان میں عشق تھا یا نہیں اور اگر تھا تو کیسا تھا مگر ہم یہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب ؑ کے دل میں رسول کریم ﷺ کا ایسا سچا عشق تھا کہ جس کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی۔ چنانچہ مخالفین ہندوؤں، عیسائیوں وغیرہ کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو وہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اسلام کے لئے اور محمد ﷺ کے لئے مرزا صاحبؑ نے زندگی وقف کر رکھی تھی۔

میں اس کے متعلق بعض واقعات سناتا ہوں۔ پنڈت لیکھرام آریوں کے ایک مشہور مبلغ تھے ان سے اسلام کے متعلق حضرت مرزا صاحب ؑ کی خط و کتابت ہوتی رہی۔ چونکہ ان کی طبعیت میں سختی تھی اس لئے انہوں نے رسول کریم ﷺ کے متعلق سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کئے۔ جیسا کہ ان کی کتاب ‘‘کلیات آریہ مسافر’’ سے ظاہر ہے۔ حضرت مرزا صاحبؑ کو جو دلائل کا جواب دلائل سے دینے میں کبھی نہ تھکنے والے تھے ایسے الفاظ سن کر بہت تکلیف ہوئی۔ ایک دفعہ جب لاہور گئے تو پنڈت لیکھرام ملنے کے لئے آئے اور سامنے آکر سلام کیا۔ آپؑ نے ادھر سے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ دوسری طرف آئے لیکن آپؑ نے توجہ نہ کی۔ اس پر سمجھا گیا کہ شاید آپؑ کو معلوم نہیں یہ کون ہے اور بتایا گیا کہ یہ پنڈت لیکھرام ہیں اور آپؑ کو سلام کہتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا اسے شرم نہیں آتی میرے آقا کو تو گالیاں دیتاہے اور مجھے سلام کرتا ہے۔ پنڈت لیکھرام کی جو عزت آریوں میں تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپؑ فرماتے ہیں پہلے میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب میں ملوں گا۔

اسی طرح ایک اَور واقعہ ہے۔ حضرت مرزا صاحبؑ کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعاً خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپؑ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو یہ سمجھا کرتے تھے کہ حضرت صاحبؑ کبھی غصے ہوتے ہی نہیں۔ میرے بچپن کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے مولوی عبدالکریم صاحب جو اسی جگہ کے ایک عالم تھے اور جنہیں پرانے لوگ جانتے ہوں گے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا میری پسلی میں درد ہے۔ جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا۔ آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپؑ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا۔ جس کی وجہ سے پسلی میں درد ہو گیا۔ پوچھا گیا کہ حضور یہ کس طرح آپؑ کی جیب میں پڑ گیا۔ فرمایا محمود نے مجھے یہ اینٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا میں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا تو نکال دوں گا۔ مولوی صاحب نے کہا حضور مجھے دے دیجئے میں رکھ چھوڑوں۔ فرمایا نہیں میں اپنے پاس ہی رکھوں گا۔ تو آپؑ کو اولاد سے ایسی محبت تھی۔ آپؑ ہم سب سے ہی بہت پیار اور محبت کرتے تھے لیکن خاص کر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی سے آپؑ کو ایسی محبت تھی کہ ہم سمجھتے تھے سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں۔ ایک دن میں جب باہر سے آیا تو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے جسم پر ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہو اکہ بچپن کی ناسمجھی سے اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی تھی جو رسول کریم ﷺ کی شان کے خلاف تھی۔ اس پر حضرت صاحب نے اس زور سے اسے مارا کہ اس کے بدن پر نشان پڑ گئے۔ حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی کا یہ نہایت ہی چھوٹا اور معمولی واقعہ ہے لیکن اس کو سامنے رکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کےد لوں میں اسلام کی کس قدر عزت ہے۔ اکثر لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو مخالفین کے لیکچروں میں جاتے ہیں اور رسول کریم ﷺ کے متعلق خوشی سے گالیاں سنتے ہیں۔ بعض جوش میں آکر آگے سے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر یہ بھی درست نہیں اور اکثر بیٹھے سنتے رہتے ہیں۔ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحبؑ کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق کوئی برا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ لیکن جلسہ میں سخت گالیاں دی گئیں ہماری جماعت کے کچھ لوگ بھی وہاں گئے تھے جن میں مولوی نور الدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحبؑ خاص عزت کیا کرتے تھے جب آپؑ نے سنا کہ جلسہ میں رسول کریم ﷺ کو گالیاں دی گئی ہیں تو مولوی صاحب کو کہا۔ وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کس طرح گوارا کیا کیوں نہ آپ اٹھ کر چلے آئے۔ اس وقت آپؑ ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب نے کہا حضور غلطی ہو گئی۔ آپؑ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم ﷺ کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں بیٹھے رہیں۔

غرض ایسے بیسیوں واقعات ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی ساری زندگی رسول کریم ﷺ کی عزت اور توقیر کے لئے وقف تھی۔

حضرت مرزا صاحب کے نمونہ کا اثر

پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ آپؑ کے نمونہ کا آپؑ کی اولاد، آپؑ کے متبعین اور آپ کے مریدوں پر کیا اثر ہوا۔ اس وقت وہ خواہ کتنے ہی کمزور ہوں لیکن اسلام کے لئے غیرت انہی لوگوں میں نظر آئے گی جو حضرت مرزا صاحبؑ کو ماننے والے ہیں۔ کیونکہ اس وقت اسلام پر حملہ کرنےو الوں کا جواب اگر کوئی جماعت دے رہی ہے تو وہ وہی ہے جو حضرت مرزا صاحبؑ نے قائم کی ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ رات دن رسول کریمﷺ کی عزت قائم کرنے میں لگے رہتے تھے۔ ایسے انسان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے خداتعالیٰ اور رسول کریم ﷺ پر جھوٹ بولا۔

کیا حضرت مرزا صاحب غلطی خوردہ تھے؟

اب رہا یہ کہ کیا آپ ؑ غلطی خوردہ تھے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ مرزا صاحبؑ نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کو بعض ایسے مقامات سے گزرنا پڑتا ہے جہاں غلطی لگ جاتی ہے۔ اسی طرح مرزا صاحبؑ کے ساتھ ہوا اور اس کے ثبوت میں یہ سناتے ہیں کہ جس طرح منصورؒ نے ‘انا الحق’ کہا تھا اسی طرح مرزا صاحب نے جو دعوے کئے ان میں ان کو غلطی لگ گئی۔ مگر دراصل یہ کہنے والوں کی غلطی ہے۔ اگر منصورؒ کو انا الحق الہام ہوا تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے۔ قرآن کریم میں ایسی آیتیں ہیں جن میں خداتعالیٰ اپنے آپ کو اسی طرح مخاطب کرتا ہے۔ پس اس الہام سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منصور نے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ کیونکہ اگر کوئی خدا کا ہو کر بھی ایسی ٹھوکر کھائے تو پھر خداتعالیٰ سے تعلق ہونے کا فائدہ کیا۔ تو یہ غلط ہے کہ حضرت مرزا صاحبؑ کو غلطی لگ گئی۔ آپؑ متواتر کئی سال کہتے اور اعلان کرتے رہے کہ مجھے الہام ہوتا ہے اور وہ الہام پورے ہوتے رہے۔ اس لئے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ غلطی خوردہ تھے۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button