متفرق مضامین

آنکھ کے پانی سے یارو! کچھ کرو اس کا علاج

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

حضرت مسيح موعودعليہ الصلوٰة و السلام نے اپني تصنيف لطيف حقيقة الوحي ميں فرمايا:

’’اے يورپ تو بھي امن ميں نہيں اور اے ايشيا تو بھي محفوظ نہيں۔اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئي مصنوعي خدا تمہاري مدد نہيں کرے گا۔‘‘

(حقيقة الوحي ، روحاني خزائن جلد22صفحہ269)

 اس پُر شوکت اقتباس کي صداقت کي ايک جھلک اس وقت اس عالمي وبا ‘‘کورونا وائرس’’ کي شکل ميں نظر آگئي ہے۔

دنيا کے تمام براعظم، دنيا کے اکثر ملک، دنيا ميں بسنے والي بہت سي اقوام اس وقت بہت بے چيني کا شکار ہيں۔ اس عالمي وبا کے پيش نظر ہمارے پيارے امام حضرت امير المومنين خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے اپنے خطبات جمعہ ميں احباب جماعت کو اس حوالے سے جامع ہدايات دي ہيں کہ وہ:

1۔ ساري احتياطي تدابير اختيار کريں۔

2۔ مساجد ميں بھي جب آئيں تو احتياط کے ساتھ آئيں۔

3۔ اگر کسي کو تھوڑا سا بھي ہلکا بخار ہے يا ہلکي سي تکليف ہوياکسي قسم کي بيماري کي علامات ہيں نہ تو ايسے احباب پبلک جگہوں پر جائيں اور نہ ہي مسجد ميں تشريف لائيں۔

4۔ خواتين اور بچے بچياں بطور خاص مسجد نہ آئيں۔

6۔ صفائي کي طرف خصوصي توجہ ديں۔ وضو کريں۔ بار بار ہاتھ دھوئيں۔

7۔ حکومتي اقدامات کي پوري پوري پابندي کريں۔

8۔ احتياطي تدبيرکے طور پر ہوميو پيتھي ادويہ کا استعمال کريں۔

ان سب باتوں کےساتھ ساتھ جواصل بات ہے جس کي طرف حضور انور نے مسلسل توجہ دلائي ہے وہ يہ ہے کہ

’’… دعاؤں کي طرف زيادہ توجہ ديں’’۔ اللہ تعاليٰ سب دنيا کو آفات سے بچائے۔

حضرت مسيح موعودؑ کو 1906ء ميں الہام ہوا تھا کہ

’’اٹھو نمازيں پڑھو اور قيامت کا نمونہ ديکھو۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 507)

آپؑ نے اپني کتاب کشتي نوح ميں ‘‘ہماري تعليم’’ کے حصہ ميں ہميں بہت ساري باتوں اور اعمال صالحہ کي طرف توجہ دلائي ہے۔ آپؑ نے ايک جگہ فرمايا:

’’کوئي آفت زمين پر پيدا نہيں ہوتي جب تک آسمان سے حکم نہ ہو۔اور کوئي آفت دور نہيں ہوتي جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو۔‘‘

(کشتي نوح ، روحاني خزائن جلد 19صفحہ13 )

يہ کوئي وقتي تعليم نہيں ہے اور نہ ہي صرف حضرت مسيح موعودؑ کے زمانہ تک محدود تھي۔ آج بھي بعينہٖ يہ اسي طرح اطلاق پاتي ہے جس طرح آپ ؑکے زمانہ ميں اور انہي شرائط کے ساتھ۔جيساکہ آپؑ نےفرمايا:

’’وہ يقين کريں کہ ان کا ايک قادر اور قيوم اور خالق الکل خدا ہے جو اپني صفات ميں ازلي ابدي اور غير متغير ہےابدي اور غير متغير ہے…… فرمايا:

’’دنيا اپنے اسباب اور اپنے عزيزوں پر اس کو مقدم نہيں رکھتي مگر تم اس کو مقدم رکھو تاتم آسمان پر اس کي جماعت لکھے جاؤ …… سو تم مصيبت کو ديکھ کر اور بھي قدم آگے رکھو کہ يہ تمہاري ترقي کا ذريعہ ہے۔‘‘

حضور عليہ السلام جماعت کو نصيحت کرتے ہوئے فرماتے ہيں:

’’چاہئے کہ ہر ايک صبح تمہارے لئے گواہي دے کہ تم نے تقويٰ سے رات بسر کي اور ہر ايک شام تمہارے لئے گواہي دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کيا…… ‘‘

فرمايا: ’’پس تم سيدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ۔‘‘

(کشتي نوح ، روحاني خزائن جلد 19صفحہ12)

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے فرمايا ہے کہ

دن بہت ہيں سخت اور خوف و خطر درپيش ہے

پر يہي ہيں دوستو اس يار کے پانے کے دن

(درثمين)

جہاں اس کورونا وائرس کي وبا نے ہر جگہ ڈيرے ڈالے ہيں وہاں ہم احمديوں کي بہت بڑي ذمہ داري بنتي ہے کہ دن رات خدا کے حضور جھک کر ، رو رو کر دعائيں کريں اور‘‘ اٹھو نمازيں پڑھواور قيامت کے نمونے ديکھو’’ کي ايک زندہ اور عملي تصوير بن جائيں۔ دنيا خدا کو بھول چکي ہے بلکہ صرف ايک فسانہ ہي سمجھ بيٹھي ہے۔ اپنے اسباب اور تدبيروں پر فخر اور گھمنڈ ہے جس کي وجہ سے وہ خدا کي طرف آنا نہيں چاہتي۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے اپني جماعت کو نصيحت کرتے ہوئے فرمايا ہے کہ

’’دعا ميں خداتعاليٰ نے بڑي قوتيں رکھي ہيں خداتعاليٰ نے مجھے بار بار بذريعہ الہامات کے يہي فرمايا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہي کے ذريعہ ہو گا۔‘‘

(سيرت حضرت مسيح موعود عليہ السلام مولفہ يعقوب علي عرفاني صاحبؓ صفحہ518)

پھر فرماتے ہيں:

’’ابتلاؤں ميں ہي دعاؤں کے عجيب و غريب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہيں اور سچ تو يہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہي سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ147۔ جديد ايڈيشن)

پھر فرماتے ہيں:

’’اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ خيريت سے رہو اور تمہارے گھروں ميں امن رہے تو مناسب ہے کہ دعائيں بہت کرو اور اپنے گھروں کو دعاؤں سے پُر کرو۔ جس گھر ميں ہميشہ دعا ہوتي ہے خداتعاليٰ اسے برباد نہيں کرتا۔ ‘‘

(البدر 24؍اپريل 1903ء، ملفوظات جلد 3 صفحہ 232)

ہميں خداتعاليٰ کے مسيح نے دعا کا ہتھيار ديا ہے جس ميں بہت طاقت ہے۔ اس دعا کي طاقت کا کوئي اور چيز مقابلہ نہيں کر سکتي۔ہميں اپني رات اور دن کي دعاؤں سے دنيا کي خيرخواہي اور ان ہلاکت کرنے والے اسباب سے اس کي پناہ مانگني چاہيے۔

ہميں چاہيے کہ نماز تہجد کي باقاعدہ ادائيگي کريں۔ پنج وقتہ نمازيں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت ادا کرنے کي کوشش کريں۔تلاوت قرآن کريم ميں زيادہ وقت گزاريں۔ قرآن کريم کوبامعني اور تفسير سے پڑھنے اور سمجھنے کي کوشش کريں۔ جس قدر بھي وقت ذکر الٰہي، استغفار اور درود شريف پڑھنے ميں گزارسکيں گزاريں۔

دعاؤں ميں خاص طور پر دو دعائيں روزانہ خود بھي پڑھيں اور بچوں کو بھي بار بار پڑھنے کي طرف توجہ دلائيں جو ہمارے خلفائے کرام نے بار بار ہميں سکھائي ہيں۔ مثلاً

1۔ سورہ فاتحہ۔ کثرت سے پڑھا کريں۔

2۔ رَبَّنَا اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً والي دعا

3 ۔ رَبِّ کُلُّ شَيْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا

4۔ يَا حَفِيْظُ يَا عَزِيْزُ يَا رَفِيْقُ

5۔درودشريف:اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ

6۔سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِيْمِ۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰي مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ

7۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّيْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْہِ

8۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ

کئي يورپين ممالک ميں مساجد، عبادت گاہوں اور ديگر اجتماع والي جگہوں پر اکٹھے ہونے کي پابندي لگا دي گئي ہے۔اس سے يقيناً ايک احمدي کو تکليف ہے کہ مساجد ميں اس موذي مرض کي وبا کي وجہ سے جانے پر پابندي ہو گئي ہے۔ ہمارے امام ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے نماز با جماعت کے حوالے سے متعدد مرتبہ يہ تاکيد اور نصيحت فرمائي ہوئي ہے کہ احباب جماعت حتي الوسع مساجد ميں نمازيں ادا کريں۔اگر مساجد دور ہوں تو قريبي نماز سينٹر ميں نمازيں پڑھيں اور جو وہاں بھي نہيں جا سکتے وہ گھروں ميں نماز باجماعت ادا کريں۔

 آنحضرت ﷺ نے ايک مومن کے بارے فرمايا کہ

رَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسَاجِدِ

کہ قيامت کے دن ايسے شخص پر بھي خدا کي رحمت کا سايہ ہو گا جس کا دل مسجد ميں اٹکا رہے گا۔ پس ہمارے دلوں کو کوئي طاقت بھي مساجد سے جدا نہيں کر سکتي۔ ہميں اس نيت کا ثواب مل جائے گا کہ ہمارے دل تو مسجد ميں ہي اٹکے ہوئے ہيں۔ اور پھر آنحضرت ﷺ نےيہ بھي فرمايا ہے کہ مجھے ايک فضيلت باقي انبياء پر يہ بھي دي گئي ہے کہ

جُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا ۔

ساري کي ساري زمين ميرے لئے مسجد بنا دي گئي ہے۔ پس گھروں ميں نماز باجماعت ادا کريں۔ نماز باجماعت سے کوئي روک نہيں سکتا۔ گھروں ميں پڑھيں۔ بچوں کے ساتھ پڑھيں۔ تاکہ ان ميں بھي نماز باجماعت کي اہميت پيدا ہو جائے۔ اس سے تربيتي پہلو نکاليں اور دل کو مسجد کي طرف جھکا رہنے ديں۔ مسجد کي محبت دل سے نہ مٹے اور نہ ہي کم ہو۔

حضرت مسيح موعود عليہ السلام نے فرمايا ہے:

’’ اے غافلو! يہ ہنسي اور ٹھٹھا کا وقت نہيں ہے يہ وہ بلا ہے جو آسمان سے آتي ہے اور صرف آسمان کے خدا کے حکم سے دور ہوتي ہے…… سو اپنے نفسوں، اپنے بچوں اور اپني بيويوں پر رحم کرو۔ چاہئے کہ تمہارے گھر خدا کي ياد اور توبہ اور استغفار سے بھر جائيں اور تمہارے دل نرم ہو جائيں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلدسوم،صفحہ 182)

پس ہميں تو ہر قسم کي بيماريوں سے نجات کا نسخہ حضرت اقدس مسيح موعودؑ نے پہلے سے ہي دے ديا ہے۔ ہميں اس آسماني نسخہ پر عمل کرنے کي فکر کرني چاہيے۔

کيونکہ حضرت مسيح موعودؑ نے يہ بھي فرمايا ہے کہ

’’زمين تمہارا کچھ بھي بگاڑ نہيں سکتي اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے۔‘‘( کشتي نوح)

پھر آپ فرماتے ہيں:

’’تم خدا کي آخري جماعت ہو سو وہ عمل نيک دکھلاؤ جو اپنے کمال ميں انتہائي درجہ پر ہو۔‘‘(کشتي نوح)

پھر آپ فرماتے ہيں: ’’ميں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ ميري سب جماعت ان لوگوں ميں ہو جائے جو خداتعاليٰ سے ڈرتے ہيں اور نماز پر قائم رہتے ہيں اور رات کو اٹھ کرزمين پر گرتے ہيں اور روتے ہيں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہيں کرتے اور بخيل اور ممسک اور غافل اور دنيا کے کيڑے نہيں اور ميں اميد رکھتا ہوں کہ يہ ميري دعائيں خداتعاليٰ قبول کرے گا اور مجھے دکھائے گا کہ اپنے پيچھے ميں ايسے لوگوں کو چھوڑتا ہوں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم 503-504)

حضرت اقدس مسيح موعودؑ نے اپنے ايک اشتہار ميں ’’قرب قيامت کي نشاني‘‘کے عنوان کےتحت لکھا ہے کہ

’’اس زمانہ کے فتويٰ دينے والے يعني مولوي اور محدث اور فقيہ ان تمام لوگوں سے بد تر ہوں گے جو روئے زمين پر رہتے ہوں گے پھر ايک اور حديث ميں ہے کہ وہ قرآن پڑھيں گے اور قرآن ان کے حنجروں کے نيچے نہيں اترے گا يعني اس پر عمل نہيں کريں گے۔ ‘‘

فرمايا: ’’آج کل اگر مولويوں کے وجود سے کچھ فائدہ ہے تو صرف اس قدر کہ ان کے يہ لچھن ديکھ کر قيامت ياد آتي ہے اور قرب قيامت کا پتہ لگتا ہے اور حضرت خاتم الانبياء ﷺ کي ايک پيشگوئي کي پوري پوري تصديق ہم بچشم خود مشاہدہ کرتے ہيں۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 353)

ايک واقعہ۔ امانت، ديانت، صداقت کا

آج کل سوشل ميڈيا کي وجہ سے منٹوں ميں ايک بات کہيں سے کہيں پھيل جاتي ہے ۔چند دن قبل کسي دوست نے خاکسار کو ايک ويڈيو کلپ بھيجا ۔ اس پر ايک مولوي صاحب نے جو وعظ کيا اس کا مفہوم ميں قارئين کي خدمت ميں رکھنا چاہتا ہوں۔اس سے پتہ لگ جائے گا کہ مسلمانوں کي موجودہ حالت کياہے۔ ان مولوي صاحب نے يہ واقعہ سنايا کہ

’ميں صحابہ کي باتيں نہيں کر رہا۔ ميں پيغمبروں کي باتيں نہيں کر رہا۔ ميں ان کي باتيں کر رہا ہوں جن کو آپ جہنمي سمجھتے ہيں۔ ہم پھر يہ نہيں سمجھتے کہ دنيا ميں ان کي ترقي کا راز کيا ہے؟ اللہ تعاليٰ يہ نہيں کہتا کہ يہ جہنمي ہے اگر يہ دنيا دار ہے اور ايماندار ہے۔ تو ميں اسے دنيا ميں نہيں جينے دوں گا۔ يہ اللہ کا قانون نہيں ہے۔…

ايک پاکستاني مسلمان آدمي ٹوکيو جاپان ميں ايک ٹيکسي ميں سوار ہوا۔ اس نے ٹيکسي والے سے کہا کہ ميں نے فلاں جگہ جانا ہے جہاں ايک بہت بڑا ہسپتال اور انسٹيٹيوٹ ہے وہ ڈرائيور جاپاني تھا۔ ٹوٹي پھوٹي زبان ميں اس نے بتايا کيونکہ جاپاني تو آتي نہيں تھي۔ خير ڈرائيور سمجھ گيا۔ ڈرائيور نے احترام کے ساتھ اسے بٹھا ليا۔ وہاں ٹيکسي ڈرائيور کا ايک کلچر ہے۔ جب ٹيکسي روکتے ہيں تو ڈرائيور آپ کے سامنے تعظيم کي خاطر اپنے سر کو جھکاتا ہے۔ تب respectfully ٹيکسي ميں بٹھاتا ہے ۔ وہ پاکستاني مسلمان ٹيکسي ميں بيٹھ گيا۔ تھوڑي دير کے بعد اس شخص نے ديکھا کہ ٹيکسي ڈرائيور نے ٹيکسي کے ميٹر کو بند کر ديا ہے۔ اسے يہ ديکھ کر حيرت ہوئي۔ زبان نہ جانتا تھا اس ليے کچھ پوچھ نہ سکا۔ قريباً دو اڑھائي ميل کے بعد اس نے پھر اپنا ميٹر آن کر ديا۔ جب مسافر اپني منزل پر پہنچا تو وہاں کے مقامي لوگوں نے اس کا استقبال کيا، وہ چونکہ سب زبان جانتے تھے۔ مسافر نے ان مقامي لوگوں سے کہا کہ ذرا اس ڈرائيور سے پوچھیےکہ اس نے راستہ ميں دو اڑھائي ميل تک اپنا ميٹر کيوں بند کيا تھا۔ ڈرائيور نے جواب ديا کہ اصل ميں مجھے جہاں سے مڑنا تھا وہاں سے ذرا سا چوک گيا اور آگے دو اڑھائي ميل تک چلا گيا۔ جو مسافت ميں نے اپني غلطي سے بڑھائي ہے اس کا ميں مسافر سے کرايہ نہيں لے سکتا کيونکہ وہ ميري غلطي تھي۔ ‘

مولوي صاحب نے يہ واقعہ بيان کرنے کے بعد کہا کہ ‘بھائيو! ديکھو، نہ وہ نماز پڑھتا تھا نہ کلمہ، نہ اس کي داڑھي تھي، نہ جبہ، نہ ٹوپي، نہ دستار۔ مگر اس ميں ايمان داري تھي۔ ہمارے پاس يہ سب کچھ ہے يعني داڑھي، جبہ، ٹوپي، نماز کلمہ وغيرہ مگر ہم ميں ايمان داري نہيں۔…

برنارڈ شا کا مشہور جملہ ہے کہ ميں نے يورپ ميں اسلام ديکھا ليکن مسلمان نہيں ديکھے۔ ميں نے عرب ملکوں ميں مسلمان ديکھے مگر اسلام نہيں ديکھا۔ ہم مسلمان تو ضرور ہيں مگر اسلام ہمارے پاس نہيں۔

مجھے صاف کہنے ديجئے کہ ہمارے پاس اسلام نہيں ہے۔ اسلام پگڑي کانام نہيں ،اسلام کُرتے، پاجامے اور داڑھي کا نام نہيں ہے۔

اسلام سچ کا نام ہے، اسلام ايمانداري کا نام ہے، اسلام صحيح ناپ تول کا نام ہے، اسلام وعدہ پورا کرنے کا نام ہے۔ اسلام وقت کي پابندي کا نام ہے۔‘

پس آئيے خدا سے صلح کريں اور خداتعاليٰ کے اپنے پيارے نبي آنحضرت ﷺ کي زبان مبارک سے نکلنے والي پيشگوئيوں کے مطابق آخري زمانے ميں جو امام آنےو الا تھا اس پر ايمان لا کر اس کے مقاصد ميں اس کا ہاتھ بٹائيں اور اپنے آپ کو جاہليت کي موت سے بچائيں۔ اللہ کرے ايسا ہي ہو۔ آمين

اللہ کرے موجودہ وبا جلد سے جلد ٹل جائے، ہمارا خدا ہم سے راضي ہو جائے۔ اور اس کو راضي کرنے کے ليے ہميں اللہ تعاليٰ کے حضور دعائيں کرني ہوں گي، اس سے تعلق قائم کرنا ہو گا، اور اس کي مخلوق کے ساتھ بھلائي اور ہمدردي سے پيش آنا ہو گا۔ اللہ تعاليٰ ہميں اس کي توفيق عطا فرمائے۔ آمين۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button