کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے

اللہ تعالیٰ کا یہ منشا نہیں کہ مسیح کی وفات کو ثابت کرنے والی ایک جماعت پیدا ہو جائے۔ یہ بات تو ان مولویوں کی مخالفت کی وجہ سے درمیان آگئی ہے ورنہ اس کی تو کوئی ضرورت ہی نہ تھی۔ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کا تو یہ ہے کہ ایک پاک دل جماعت مثل صحابہؓ کے بن جاوے۔ وفات مسیح کا معاملہ تو جملہ معترضہ کی مانند درمیان آگیا ہے۔ مولوی لوگوں نے خواہ مخواہ اپنی ٹانگ درمیان میں اڑا لی۔ ان لوگوں کو مناسب نہ تھا کہ اس معاملہ میں دلیری کرتے۔ قول خدا تعالیٰ ، رؤیت نبی اور اجماعِ صحابہؓ، یہ تین باتیں اس کے واسطے کافی تھیں۔ ہمیں تو افسوس آتا ہے کہ اس کا ذکر ہمیں خواہ مخواہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارا اصلی امر ابھی دیگر ہے۔ یہ تو صرف خس و خاشاک کو درمیان میں سے اٹھایا گیا ہے۔ سو چو کہ جو شخص دنیا داری میں غرق ہے اور دین کی پروا نہیں رکھتا۔ اگر تم لوگ بیعت کرنے کے بعد ویسے ہی رہو تو پھر تو تم میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ بعض لوگ ایسے کچے اور کمزور ہوتے ہیں کہ ان کی بیعت کی غرض بھی دنیا ہی ہوتی ہے۔ اگر بیعت کے بعد ان کی دنیاداری کے معاملات میں ذرا سا فرق آجاوے تو پھر پیچھے قدم رکھتے ہیں۔

یاد رکھو کہ یہ جماعت اس بات کے واسطے نہیں کہ دولت اور دنیاداری ترقی کرے۔ اور زندگی آرام سے گذرے۔ ایسے شخص سے تو خدا تعالیٰ بیزار ہے۔ چاہیے کہ صحابہؓ کی زندگی کو دیکھو، وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے، ہر وقت مرنے کے لیے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنی جان کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے؟ ایسا آدمی تو صرف رسمی بیعت کرتا ہے۔ وہ توکَل بھی گیا اور آج بھی گیا۔ یہاں تو صرف ایسا شخص رہ سکتا ہے جو ایمان کو درست کرنا چاہے۔ انسان کو چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہؓ کی زندگی کا ہر روز مطالعہ کرتا رہے۔ وہ تو ایسے تھے کہ بعض مَر چکے تھے اور بعض مرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس کے سوائے بات نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ کنارہ پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں تاکہ ابتلا دیکھ کر بھاگ جائیں وہ فائدہ نہیں حاصل کر سکتے۔ دنیا کے لوگوں کی عادت ہے کہ کوئی ذرا سی تکلیف ہو تو لمبی چوڑی دعائیں مانگنے لگتے ہیں اور آرام کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ امتحان میں سے گذرنے کے سوا ہی خدا خوش ہو جائے۔ خدا تعالیٰ رحیم کریم ہے۔ مگر سچا مومن وہ ہے جو دنیا کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر دے۔ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو ضائع نہیں کرتا۔ ابتدا میں مومن کے واسطے دنیا جہنّم کا نمونہ ہو جاتی ہے۔ طرح طرح کے مصائب پیش آتے ہیں اور ڈراؤنی صورتیں ظاہر ہوتی ہیں تب وہ صبر کرتےہیں اور خدا تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے۔ ؎

عشق اوّل سرکش و خونی بود

تا گریزد ہر کہ بیرونی بود

جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو جنت ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے ساتھ جو متفق ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور اس کو حیاۃ طیّبہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کی سب مرادیں پوری کی جاتی ہیں۔ مگر یہ بات ایمان کے بعد حاصل ہوتی ہے۔

ایک شخص کے اپنے دل میں ہزار گند ہوتا ہے۔ پھر خدا پر شک لاتا ہے اور چاہتا ہے کہ مومنوں کا حصہ مجھے بھی ملے۔ جب تک انسان پہلی زندگی کو ذبح نہ کر دے، اور محسوس نہ کر لے کہ نفس امّارہ کی خواہش مر گئی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت دل میں بیٹھ نہ جائے تب تک مومن نہیں ہوتا۔ اگر مومن کو خاص امتیاز نہ بخشا جائے تو مومنوں کے واسطے جو وعدے ہیں وہ کیونکر پورے ہوں گے۔ لیکن جب تک دورنگی اور منافقت ہو تب تک انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔

اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ(النساء:146)۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک ایسی جماعت بنائے گا جو ہر جہت میں سب پر فوقیت رکھے گی اللہ تعالیٰ ہر طرح کا فضل کرے گا۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ ہاں کمزوری میں اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ جو شخص کمزور ہے اور ہاتھ اٹھاتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑے اور اُٹھائے، اس کو اُٹھایا جائے گا۔ مگر مومن کو چاہیے کہ اپنی حالت پر فارغ نہ بیٹھے۔ اس سے خدا راضی نہیں ہے۔ ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے راضی کرنے کے جو سامان ہیں وہ سب مہیا کیے جائیں۔

ریاکاری

ریاکار انسان بے فائدہ کام کرتا ہے۔ مومن کو تو خداوند تعالیٰ خود بخود شہرت دیتا ہے۔ ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ مسجدوں میں لمبی نمازیں پڑھا کرتا تھا تاکہ لوگ اُسے نیک کہیں۔ لیکن جب وہ بازار سے گذرتا تو لڑکے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے اور کہتے کہ یہ ایک ریاکار آدمی ہے جو دکھلاوے کی نمازیں پڑھتا ہے۔ ایک دن اس شخص کو خیال ہوا کہ میں لوگوں کا کیوں خیال رکھتا ہوں اور بے فائدہ محنت اٹھاتا ہوں۔ مجھے چاہیے کہ اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو جاؤں اور خالص خدا کی خاطر عبادت کروں۔ یہ بات سوچ کر اس نے سچی توبہ کی اور اپنے اعمال کو خدا کے واسطے خاص کر دیا اور دنیوی رنگ کی نمازیں چھوڑ دیں، اور علیحدگی میں بیٹھ کر دعائیں کرنے لگا اور اپنی عبادت کو پوشیدہ رکھنا چاہا۔ تب وہ جس کوچہ سے گذرتا ۔ لوگ اس کی طرف اشارہ کرتے کہ یہ ایک نیک بخت آدمی ہے۔

(ملفوظات جلد8صفحہ 184تا 187۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button