خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین فرمودہ 06؍مارچ 2020ء

غزوۂ احد کے موقع پر اسلامی لشکر کے عَلم بردار ہونے کی حالت میں شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والے اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی رسولؐ حضرت مُصْعَب بن عُمیر رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ

دنیا میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی وبا کے بارے میں احتیاطی تدابیر اور نصائح نیز دعاؤں کی تحریک

بے دردی کے ساتھ شہید کیے جانے والے عزیز تنزیل احمد بٹ (واقفِ نَو) ابن عقیل احمد بٹ آف لاہور، مکرم بریگیڈیئر بشیر احمد صاحب سابق امیر جماعتِ احمدیہ راولپنڈی اور مکرم ڈاکٹر حمید الدین صاحب آف گوکھووال، فیصل آباد کی وفات ۔ مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍مارچ 2020ء بمطابق 06؍امان1399 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ٪﴿۷﴾

گذشتہ خطبےمیں حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکا ذکر ہوا تھا جس کا کچھ حصہ رہ گیا تھا جو آج مَیں بیان کروں گا۔ حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ذکر کرتے ہوئے کہ مدینےکے مبلغ کے طور پر ان کو بھیجا گیا تھا اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا کہ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے لیے ہجرت کا وقت آ رہا ہے اور آپؐ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپؐ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے آپؐ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا مگر جلد ہی یہ خیال آپؐ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپؐ اس انتظار میں لگ گئے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لیے پیش کرے گا۔ اسی دوران میں حج کا زمانہ آ گیا۔ عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لیے جمع ہونے شروع ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے ان کے پاس جا کر انہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جدا ہو جاتے۔ بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر ان کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے۔ بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اڑا کر آپ سے جدا ہو جاتے۔ اسی حالت میں آپ منیٰ کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپؐ کی نظر پڑے۔ آپؐ نے ان سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ خزرج قبیلہ کے ساتھ۔ آپؐ نے کہا کہ وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپؐ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ ان لوگوں نے چونکہ آپؐ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپؐ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی، انہوں نے آپؐ کی بات مان لی اور آپؐ کے پاس بیٹھ کر آپؐ کی باتیں سننے لگ گئے۔ آپؐ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آ رہی ہے۔ بت اب دنیا سے مٹا دیے جائیں گے۔ توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا۔ نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے۔ کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟’’ ان لوگوں نے کہا ‘‘انہوں نے آپؐ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا آپؐ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں اس کے لیے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپؐ کو بتائیں گے۔ یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپؐ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا۔ اس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اَوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع۔ اَوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مدتوں کی لڑائی کے بعد ان میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہیے۔ آخر باہمی مشورے سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن اُبی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے۔ یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے۔ جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو اس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے۔ اس کا وقت قریب آ رہا ہے۔ جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے۔ یہود کے دشمن تباہ کر دیے جائیں گے۔ جب ان حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سنا آپؐ کی سچائی ان کے دلوں میں گھر کر گئی اور انہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے۔ پس بہت سے نوجوان’’ یہ سن کر ‘‘محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متاثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں ان کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں۔’’ مددگار ہو گئیں۔ ‘‘چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے۔ بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے۔ منیٰ میں وہ آپ سے ملے اور انہوں نے آپؐ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اَور کسی کی پرستش نہیں کریں گے۔ وہ چوری نہیں کریں گے۔ وہ بدکاری نہیں کریں گے۔ وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے۔ وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے۔ نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے۔

یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اَور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی۔ مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے۔ بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گردنیں اٹھا کر چلنے لگے۔ خدا کے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہ تھے۔ یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پیدا کر دی۔ توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھاؤ لیکن مدینہ کے نَو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ ان کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتاسکیں۔ اس لیے انہوں نے مکہ میں ایک آدمی بھجوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَبؓ نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لیے بھجوایا۔ مُصْعَبؓ مکہ سے باہرپہلا اسلامی مبلغ تھا۔’’

(دیباچہ تفسیر القرآن ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 214 تا 216)

ایک اَور جگہ اسی امر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ‘‘جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقعہ پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپؐ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر ان کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپؐ کی طرف بھجوایا اس وفد نے جب آپؐ سے تبادلۂ خیالات کیا تو آپؐ پر ایمان لے آیا اور آپؐ کی بیعت کر لی۔ چونکہ اس وقت مکہ میں آپؐ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی۔ اس لیے اسے بیعت عقبہ کہتے ہیں۔’’ عقبہ کا مطلب ہے کہ دشوار گزار گھاٹی یا پہاڑی، دشوار گزار پہاڑی راستہ۔ تو ‘‘رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لیے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لیے اپنے ایک نوجوان صحابی مُصْعَب ابن عمیر کو بھجوایا تا کہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں …… یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپؐ مدینہ تشریف لے چلیں۔ جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمرؓ بھی تھے … اس کے بعد ہجرت کا حکم ملنے پر آپؐ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؐ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہلِ مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے۔’’

(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ 171) (فرہنگ سیرت صفحہ 203 ‘‘عقبہ’’ زوار اکیڈمی پبلی کیشنز کراچی 2003ء)

ہجرتِ مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مُصْعَب بن عمیرؓاور حضرت ابوایوب انصاریؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔

( الطبقات الکبریٰ الجزء الثالث صفحہ 88 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

حضرت مُصْعَب بن عمیرؓغزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے۔ غزوۂ بدر اور احد میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکے پاس تھا۔ غزوہ بدر میں مہاجرین کا بڑا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکے پاس تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دیا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89 مُصْعَب بن عُمیرمطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

پھر دوسری روایت اس طرح ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیین میں لکھی ہے کہ غزوۂ احد میں بھی مہاجرین کا جھنڈا حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکے پاس تھا۔

‘‘ آپؐ نے لشکر اسلامی کی’’ ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر اسلامی کی صف بندی کی اورمختلف دستوں کے جداجدا امیر مقرر فرمائے۔ اس موقعہ پر آپؐ کو ایہ اطلاع دی گئی کہ لشکرقریش کاجھنڈا طلحہ کے ہاتھ میں ہو۔ طلحہ اس خاندان سے تعلق رکھتا تھاجوقریش کے مورث اعلیٰ قُصَیّ بن کِلَاب کے قائم کردہ انتظام کے ماتحت جنگوں میں قریش کی علمبرداری کا حق رکھتا تھا۔ یہ معلوم کرکے’’ جب یہ پتا لگا تو ‘‘آپؐ نے فرمایا۔ ہم قومی وفاداری دکھانے کے زیادہ حق دار ہیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت علیؓ سے مہاجرین کا جھنڈا لے کر مُصْعَب بن عمیرؓکے سپرد فرما دیا جو اسی خاندان کے ایک فرد تھے جس سے طلحہ تعلق رکھتا تھا۔’’

(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ488)

حضرت مُصْعَب بن عمیرؓغزوۂ احد میں شہید ہوئے۔ غزوۂ احد کے روز حضرت مُصْعَب بن عمیرؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لڑ رہے تھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپؓ کو ابن قَمِئَہْ نے شہید کیا۔

(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 383، غزوہ احد، مقتل مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)

تاریخ میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے علمبردار حضرت مُصْعَب بن عمیرؓنے جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا۔ غزوۂ احد کے روز حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے کہ ابن قَمِئَہْنے جو گھوڑے پر سوار تھا حملہ آور ہو کر حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دائیں بازو پر جس سے آپؓ نے جھنڈا تھام رکھا تھا تلوار سے وار کیا اور اسے کاٹ دیا۔ اس پر حضرت مُصْعَبؓ یہ آیت تلاوت کرنے لگے کہ وَمَا مُحَمَّدٌاِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۔اور جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا۔ ابن قَمِئَہْنے بائیں ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا تو آپؓ نے دونوں بازوؤں سے اسلامی جھنڈے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد ابن قَمِئَہْ نے تیسری مرتبہ نیزے سے حملہ کیا اور حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینے میں گاڑ دیا۔ نیزہ ٹوٹ گیا۔ حضرت مُصْعَبؓ گر پڑے۔ اس پر بنو عبدالدار میں سے دو آدمی سُوَیبِط بن سعد بن حَرْمَلَہ اورابورُوم بن عُمیر آگے بڑھے اور جھنڈے کو ابو رُوم بن عُمیر نے تھام لیا اور وہ انہی کے ہاتھ میں رہا یہاں تک کہ مسلمان واپس ہوئے اور مدینہ میں داخل ہو گئے۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

شہادت کے وقت حضرت مُصْعَبؓ کی عمر چالیس سال یا اس سے کچھ زائد تھی۔

(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الخامس صفحہ 176 مُصْعَب بن عُمیر دارالکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرت خاتم النبیینؐ میں اس طرح لکھا ہے کہ‘‘قریش کے لشکر نے قریباً چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے پے در پے حملوں سے ہر آن دباتا چلا آتا تھا اس پر بھی مسلمان شاید تھوڑی دیر بعد سنبھل جاتے مگر غضب یہ ہوا کہ قریش کے ایک بہادر سپاہی عبداللہ بن قَمِئَہْنے مسلمانوں کے علمبردار مُصْعَب بن عمیرؓپر حملہ کیا اور اپنی تلوار کے وار سے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ گرایا۔ مُصْعَبؓ نے فوراً دوسرے ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا اور ابن قَمِئَہْکے مقابلہ کے لیے آگے بڑھے مگر اس نے دوسرے وار میں ان کا دوسرا ہاتھ بھی قلم کر دیا۔ اس پر مُصْعَبؓ نے اپنے دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو جوڑ کر گرتے ہوئے اسلامی جھنڈے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے چھاتی سے چمٹا لیا۔ جس پر ابن قَمِئَہْنے ان پر تیسرا وار کیا اور اب کی دفعہ مُصْعَبؓ شہید ہو کر گر گئے۔ جھنڈاتو کسی دوسرے مسلمان نے فوراً آگے بڑھ کر تھام لیا مگر چونکہ مُصْعَبؓ کا ڈیل ڈول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا تھا ابن قَمِئَہْ نے سمجھا کہ مَیں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی طرف سے یہ تجویز محض شرارت اور دھوکا دہی کے خیال سے ہو۔ بہرحال اس نے مُصْعَبؓ کے شہید ہوکر گرنے پر شور مچا دیا کہ میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں کے رہے سہے اوسان بھی جاتے رہے اور ان کی جمعیت بالکل منتشر ہو گئی۔’’

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ493)

جنگ احد میں مسلمانوں کا جو حوصلہ تھا اس کے پست ہونے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ ہوئی تھی لیکن بہرحال بعد میں اکٹھے بھی ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت مُصْعَبؓ کی نعش کے پاس پہنچے تو ان کی نعش چہرے کے بل پڑی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی کہ

مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَابَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا۔ (الاحزاب:24)

کہ مومنوں میں سے ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا ۔پس ان میں سے وہ بھی ہے جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہے جو ابھی انتظار کر رہا ہے اور انہوں نے ہرگز اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ إِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ يَشْهَدُ أَنَّكُمُ الشُّهَدَاءُ عِنْدَ اللّٰهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ۔ کہ خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی اللہ کے ہاں شہداء ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ان کی زیارت کر لو اور ان پر سلام بھیجو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے۔ حضرت مُصْعَبؓ کے بھائی حضرت ابورُوم بن عُمیر حضرت سُوَیبط بن سعد اور حضرت عامر بن ربیعہ نے حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قبر میں اتارا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ89-90 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ

‘‘احد کے شہداء میں ایک صاحب مُصْعَب بن عمیرؓتھے۔یہ وہ سب سے پہلے مہاجر تھے جو مدینہ میں اسلام کے مبلغ بن کر آئے تھے۔زمانہ جاہلیت میں مُصْعَبؓ مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوش پوش اوربانکے سمجھے جاتے تھے اوربڑے نازونعمت میں رہتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کی حالت بالکل بدل گئی۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ان کے بدن پرایک کپڑا دیکھا جس پر کئی پیوند لگے ہوئے تھے۔ آپؐ کو ان کا وہ پہلازمانہ یاد آ گیا تو آپؐ چشم پُرآب ہو گئے۔ احد میں جب مُصْعَبؓ شہید ہوئے تو ان کے پاس اتنا کپڑا بھی نہیں تھا کہ جس سے ان کے بدن کو چھپایا جا سکتا۔ پاؤں ڈھانکتے تھے تو سر ننگا ہوجاتا تھا اور سر ڈھانکتے تھے تو پاؤں کھل جاتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سر کو کپڑے سے ڈھانک کر پاؤں کو گھاس سے چھپا دیا گیا۔’’

(سیرت خاتم النبیینؐ از صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ501)

صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے افطار کے وقت کھانا لایا گیا اور وہ روزے سے تھے۔ کہنے لگے کہ مُصْعَب بن عمیرؓ شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ وہ ایک ہی چادر میں کفنائے گئے۔ اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو ان کے پاؤں کھل جاتے۔ اگر پاؤں ڈھانپےجاتے تو ان کا سر کھل جاتا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ بھی کہا کہ حمزہ شہید ہوئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے۔ پھر ان کے بعد وہ کہنے لگے ہمیں دنیا کی وہ کشائش ہوئی جو ہوئی یا یوں کہا کہ ہمیں دنیا سے وہ کچھ دیا گیا جو دیا گیا اور ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہماری نیکیوں کا بدلہ جلدی ہی نہ مل گیا ہو۔ پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ کھانا چھوڑ دیا۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا لم یوجد الا ثوب واحد حدیث 1275)

اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کا سلوک ان کے سامنے آ گیا جس کی وجہ سے وہ جذباتی ہو گئے کہ ایسی کشائش ہمیں مل گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہیں بدلہ نہ دے دیا ہو یہ نہ ہو کہ وہاں جا کے ہمیں کچھ نہ ملے۔

حضرت خَبَّابْ بن اَرَتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وطن چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ ہی کی رضامندی ہم چاہتے تھے اور ہمارابدلہ اللہ کے ذمہ ہو گیا۔ ہم میں سے ایسے بھی ہیں جو مرگئے اور انہوں نے اپنے بدلے سے کچھ نہیں کھایا ۔انہی میں سے حضرت مُصْعَب بن عمیرؓبھی ہیں اورہم میں ایسے بھی ہیں جن کا میوہ پک گیا اور وہ اس میوے کو چن رہے ہیں۔ حضرت مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ احد کے دن شہید ہوئے اور ہمیں صرف ایک ہی چادر ملی جس سے ہم ان کو کفناتے۔ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر کھل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا۔ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔

(صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا لم یجد کفنا الا ما یواری راسہ …… حدیث 1276)

ترمذی کی ایک روایت ہے حضرت علی بن ابوطالبؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے سات نجیب رفیق عنایت فرمائے ہیں یا فرمایا کہ نقباء عنایت فرمائے ہیں اور مجھے چودہ عطا کیے گئے ہیں تو ہم نے عرض کیا وہ کون سے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا میں اور میرے دونوں بیٹے، جعفر اور حمزہ، ابوبکر، عمر، مُصْعَب بن عُمیر، بلال، سلمان، مقداد ، ابوذر، عَمَّار اور عبداللہ بن مسعود۔

(سنن الترمذی ابواب المناقب حدیث 3785)

حضرت عامر بن ربیعہ روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ حضرت مُصْعَب بن عمیرؓجب ایمان لائے اس وقت سے غزوۂ احد میں شہید ہونے تک میرے دوست اور ساتھی رہے۔ وہ ہمارے ساتھ دونوں ہجرتوں میں حبشہ گئے۔ مہاجرین میں وہ میرے رفیق تھے۔ میں نے ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ خوش اخلاق ہو اور ان سے کم جس سے اختلاف ہو۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ87 مُصْعَب بن عُمیر مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احد کے بعد مدینہ لوٹے تو آپؐ کو حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکی بیوی حضرت حَمْنَہ بنت جَحْشْ ملیں۔ لوگوں نے انہیں ان کے بھائی حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے ماموں حضرت حمزہ کی شہادت کی خبر دی۔ اس پر انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ پھر لوگوں نے انہیں ان کے خاوند حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکی شہادت کی اطلاع دی۔ اس پر وہ رونے لگیں اور بے چین ہو گئیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے اس کے خاوند کا ایک خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔

(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ 396، غزوہ احد مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)

ایک دوسری روایت میں حضرت حَمْنَہ بنت جحش کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ جب ان سے کہاگیا کہ تمہارا بھائی شہید کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا اللہ اس پر رحم کرے اور کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ لوگوں نے کہا تمہارے خاوند بھی شہید کر دیے گئے ہیں وہ کہنے لگیں ہائے افسوس! اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کو خاوند سے ایسا تعلق ہے جو کسی اَور سے نہیں۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء فی البکاء علی المیت حدیث 1590)

یہ واقعہ ایک خطاب میں حضرت خلیفة المسیح الرابع نے اپنے انداز میں بھی بیان فرمایا ہے جس میں حضرت مُصْعَب بن عمیرؓکی شہادت کا واقعہ اور ان کی شہادت پر ان کی بیوی کے جو جذبات تھے ان کا ذکر فرمایاہے۔ اس طرح آپؒ فرماتے ہیں کہ وہ صحابہ یا صحابیات جن کے اقرباء کی تعداد ایک سے زیادہ ہوتی ان کو ٹھہر ٹھہر کر اس انداز میں خبر دیتے کہ صدمہ یکلخت دل کو مغلوب نہ کر لے۔ چنانچہ جس وقت حضور کی خدمت میں حضرت عبداللہ کی بہن حمنہ بنت جحش حاضر ہوئیں تو آپؐ نے فرمایا اے حمنہ! تو صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! کس کے ثواب کی؟ آپؐ نے فرمایا اپنے ماموں حمزہ کی۔ تب حضرت حمنہ نے کہا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ اس کے بعدحضورؐ نے فرمایا کہ اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ اس نے عرض کی کہ یہ کس کے ثواب کی۔ آپؐ نے فرمایا اپنے بھائی عبداللہ کی۔ اس پر حمنہ نے پھر یہی کہا کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن غَفَرَ لَہٗ وَ رَحِمَہٗ ھَنِیْئًا لَہُ الشَّھَادَةَ۔ پھر آپؐ نے فرمایا اے حمنہ! صبر کر اور خدا سے ثواب کی امید رکھ۔ انہوں نے عرض کیا حضور یہ کس کے لیے؟ فرمایا مُصْعَب بن عمیرؓکے لیے۔ اس پر حمنہ نے کہا ہائے افسوس! یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واقعی شوہر کا بیوی پر بڑا حق ہے کہ کسی اَور کا نہیں۔ اس سے پوچھا مگر تو نے ایسا کلمہ کیوں کہا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! مجھے اس کے بچوں کی یتیمی یاد آ گئی تھی جس سے میں پریشان ہو گئی اور پریشانی کی حالت میں یہ کلمہ میرے منہ سے نکل گیا۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مُصْعَب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے حق میں یہ دعا کی کہ اے اللہ! ان کے سرپرست اور بزرگ ان پر شفقت اور مہربانی کریں اور ان کے ساتھ سلوک سے پیش آویں۔

(ماخوذ از خطابات طاہر قبل از خلافت صفحہ 363)

اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ اچھا سلوک رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ یہاں حضرت مُصْعَبؓ کا ذکر ختم ہوا۔ ان شاء اللہ آئندہ اگلے صحابی کا ذکر ہو گا۔

آج کل جو کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اب مَیں چند باتیں اس کے بارے میں بھی کہہ کر احباب کو توجہ دلانی چاہتا ہوں ۔جیسا کہ حکومتوں اور محکموں کی طرف سے حکومتوں کے اعلان ہو رہے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر پر ہمیں، سب کو عمل کرنا چاہیے۔ بعض ہومیو پیتھی دوائیاں بہت شروع میں مَیں نے ہومیوپیتھ سے مشورہ کر کے بتائی تھیں جو حفظِ ماتقدم کے طور پر بھی ہیں اور بعض علاج کے طور پر بھی۔ ان کو استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ایک ممکنہ علاج ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد علاج ہے یا اس وائرس کا ہومیوپیتھک کو پتا ہے۔ یہ ایسی وائرس ہے جس کا کوئی علم نہیں لیکن اس کے قریب ترین اس قسم کی بیماری کا جو ممکنہ علاج ہو سکتا تھا اس کے مطابق یہ دوائیاں تجویز کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں شفا بھی رکھے۔ اس لیے استعمال کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں جیسا کہ اعلان ہو رہے ہیں۔

اس بارے میں یہ بھی ضروری ہے کہ مجمعے سے بچیں۔ مسجد میں آنے والوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ اگر ہلکا سا بھی بخار ہے، جسم ٹوٹ رہا ہے یا چھینکیں نزلہ وغیرہ ہے تو پھر مسجد میں نہیں آنا چاہیے۔ مسجد کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ مسجد کا حق ہے کہ وہاں کوئی ایسا شخص نہ آئے جس سے دوسرے متاثر ہو سکتے ہوں۔ کسی بھی لگنے والی بیماری کا مریض جو ہے اس کو مسجد میں آنے سے بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ ویسے تو عمومی طور پر بھی اور آج کل خاص طور پہ چھینک لیتے وقت بھی ہر ایک کو چاہیے کہ چھینک لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھے یا منہ پر رومال رکھنا چاہیے۔ بعض نمازی بھی یہ شکایت کرتے ہیں کہ بعض لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے چھینکتے ہیں اور منہ کے سامنے نہ ہاتھ رکھتے، نہ رومال رکھتے ہیں اور پھر اتنی زور سے چھینک ہوتی ہے کہ اس کے چھینٹے ہم پر بھی پڑ جاتے ہیں تو یہ جو ساتھ کے نمازی ہیں ان کا بھی حق ہے اس لیے ہر ایک کو، نمازیوں کواس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور آج کل جیسا کہ میں نے کہا خاص طور پر اس کی احتیاط کی ضرورت ہے۔ آج کل جو ڈاکٹرز احتیاط بتاتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہاتھ اور چہرہ صاف رکھیں۔ ہاتھ اگر گندے ہیں تو چہرے پر ہاتھ نہ لگائیں اور ہاتھوں پر سینیٹائزر(sanitizer) لگا کر رکھیں یا دھوتے رہیں لیکن مسلمانوں کے لیے، ہمارے لیے اگر کوئی پانچ وقت کا نمازی ہے اور پانچ وقت باقاعدہ وضو بھی کر رہے ہیں، ناک میں پانی بھی چڑھا رہے ہیں اور اس سے ناک صاف ہو رہا ہے اور صحیح طرح وضو کیا جا رہا ہے تو یہ صفائی کا ایک ایسا اعلیٰ معیار ہے جو سینیٹائزر کی کمی بھی پورا کر دیتا ہے۔ آج کل کیونکہ مارکیٹ سے سینیٹائزر بھی سنا ہے غائب ہو چکے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے پینک (panic)میں سب کچھ خرید لیا ہے، دکان کے شیلف خالی ہیں اور خاص طور پہ ایسی چیزیں جو اس کام کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ بہرحال جو وضو ہے اور اگر صحیح طرح وضو کیا جائے تو ظاہری صفائی بھی ہے اور انسان جب وضو کرے گا اور پھر نماز بھی پڑھے گا تو یہ ایک روحانی صفائی کا بھی ذریعہ بن جاتا ہے۔ اور پھر آج کل تو خاص طور پر دعاؤں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے اس طرف ہمیں خاص توجہ دینی چاہیے۔ مسجدوں کے حق کے بارے میں مَیں نے ذکر کیا تو یہ بھی ذکر کر دوں کہ خاص طور پر سردیوں میں بھی اور عام بھی مسجد میں آنے والوں کو جو جرابیں پہن کے آتے ہیں جرابیں بھی روزانہ تبدیل کرنی چاہئیں اور دھونی چاہئیں۔ اگر جرابوں میں سے، پیروں میں سے بو آ رہی ہو تو ساتھ کھڑے نمازیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے یا جو پیچھے نمازی ہے صف میں سجدہ کر رہا ہے اس کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے ۔حکم تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بو والی چیز مثلاً لہسن پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آؤ۔

(سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی اکل الثوم حدیث 3823)

بعض دفعہ ڈکار وغیرہ بھی آتے ہیں یا ویسے منہ سے بو آتی ہے اس کی وجہ سے دوسرے جو نمازی ہیں ان کی طبیعت پہ یہ گراں گزرتا ہے اور نمازیوں کے لیے اور مسجد کے ماحول کے لیے بھی یہ تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے بلکہ یہ حکم ہے کہ مسجد میں آؤ تو خوشبو لگا کر آیا کرو۔(صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الدھن للجمعۃ حدیث 883)بلکہ اتنی احتیاط ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچا گوشت لے کر مسجد کے اندرسے بھی نہ گزرو۔(سنن ابن ماجہ کتاب المساجد باب ما یکرہ فی المساجد حدیث 748)کجا یہ کہ انسان وہاں بیٹھا ہو۔ پس جسم کی صفائی اور فضا کی صفائی بھی ایک نمازی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ اس بہانے سے مسجد میں آنا چھوڑ دیں۔ اپنی ظاہری حالت کو دیکھ کر اپنے دل سے فتویٰ لینا چاہیے اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال کو جانتا ہے اور اس لیے اگر کوئی بیماری ہے تو ڈاکٹر سے تسلی بھی کروا لیں کہ یہ کس قسم کی بیماری ہے لیکن ایک دو دن پرہیز کرنا بھی بہتر ہے۔

پھر یہ ہے کہ آج کل کہا جا رہا ہے مصافحوں سے پرہیز کرو ۔یہ بھی بڑا ضروری ہے۔ کوئی پتا نہیں کس کے ہاتھ کس قسم کے ہیں۔ اس لحاظ سے گو مصافحوں سے تعلق بڑھتا ہے، محبت بڑھتی ہے لیکن آج کل اس بیماری کی وجہ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ اب دنیادار جو ہیں جو پہلے شور مچایا کرتے تھے وہ بھی مصافحے نہیں کرتے۔ عورتوں سے مصافحے نہیں کرتے۔ مردوں سے مصافحے نہیں کرتے۔ ان کے بھی لطیفے بننے لگ گئے ہیں۔ اب جرمنی کی چانسلر جو ہے اس سے اس کے وزیر نے مصافحے سے انکار کر دیا اور اس پر ایک لطیفہ بنا ہوا ہے۔ یہاں بھی ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم جو یہ مصافحے کر رہے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے ہم اس سے بچ رہے ہیں اور یہ بڑا اچھا ہے کیونکہ ہماری تو روایت ہی یہ نہیں کہ مصافحے کریں۔ ہماری تو روایت یہ ہے کہ سلیوٹ کیا کرتے تھے یا سر پر سے ہیٹ اتار کے جھکا کرتے تھے۔ تو یہ رواج جو پڑ گیا ہے۔ پھر اس نے یہاں تک بھی یہ کہہ دیا کہ عورتوں کو ہم مصافحے کرتے ہیں بلکہ گلے مل کے kiss کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھی ہمیں پتا نہیں کہ عورت کو پسند بھی ہے کہ نہیں اور بلا وجہ ہم زبردستی یہ ساری حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بات تو ماننے کو تیار نہیں تھے لیکن اس بیماری نے، اس وبا نے ان کو کم از کم اس طرف توجہ دلا دی ہے۔ اللہ کرے خدا تعالیٰ کی طرف بھی ان کی توجہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تو ان کو اختلاف تھا جب ہم کہتے تھے اور بڑے پیار سے کہتے تھے کہ اس طرح عورت مرد کا سلام کرنا، مصافحہ کرنا ہمیں منع ہے تو اس پر ان کے بڑے شور تھے لیکن اب سنا ہے اکثر محکموں میں اور مختلف جگہوں پہ بھی یہ لوگ انکار کرتے ہیں اور بڑے rude طریقے سے کرتے ہیں۔ ہم تو پھر پیار سے اور بڑی نرمی سے کہا کرتے تھے کہ یہ ہماری تعلیم ہے لیکن اب یہ کورونا وائرس کے ڈر سے اس حد تک محتاط ہو گئے ہیں کہ وہاں اخلاق کا بھی کوئی پاس نہیں ہے۔ بہرحال اس وبا نے اس لحاظ سے کچھ حد تک ان کی اصلاح کر دی ہے ۔ اور جیسا کہ میں نے کہا اللہ کرے کہ یہ اصلاح اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والی ہو۔

اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس وبا نے اور کتنا پھیلنا ہے اور کس حد تک جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی کیا تقدیر ہے لیکن اگر یہ بیماری خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے ظاہر ہو رہی ہے اور اس زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کے بعد مختلف قسم کی وبائیں ،امراض ،زلزلے، طوفان بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے بداثرات سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور ہر احمدی کو ان دنوں میں خاص طور پر دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے اور اپنی روحانی حالت کو بھی بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دنیاکے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ وہ بجائے دنیاداری میں زیادہ پڑنے کے اور خدا تعالیٰ کو بھولنے کے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے والے بھی ہوں۔

اب اس کے بعد مَیں بعض جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ عزیزم تنزیل احمد بٹ کا ہے جو عقیل احمد بٹ صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ چھوٹا بچہ گیارہ سال کاتھا۔ ستائیس فروری 2020ء کو اس کی وفات ہوئی۔ وفات کیا ہے میرے نزدیک تو یہ شہادت ہے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ تنزیل احمد بٹ شاہدرہ کالونی دہلی گیٹ لاہور کو اس کی ہمسائی خاتون نے 27؍فروری کو ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مولویوں کے فتووں نے وہاں پاکستان میں احمدیوں کو کسی بھی بہانے سے قتل کرنا بڑا آسان بنا دیا ہے۔ یہ قتل بھی اس کا نتیجہ ہے اوراس لحاظ سے مَیں تو اس عزیز کو شہداء میں شامل کرتا ہوں۔ وجہ جو بھی ہوئی لیکن اس کے پیچھے احمدیت کا جو ایک بغض ہے وہ بہرحال ہے اور معصوم بچہ تھا ۔اب تک جو رپورٹیں ملی ہیں اس کے مطابق اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔

اس وقوعےکی تفصیلات کے مطابق عزیزم تنزیل احمد بٹ کی والدہ نے مؤرخہ 27؍فروری کو اسے ہمسایوں کے گھر سے اپنی چھوٹی بہن کی گڑیا لانے کے لیے بھجوایاجو وہ وہاں چھوڑ آئی تھی۔ حالانکہ اس گھر میں آنا جانا بھی تھا۔ کیا محرک ہوا اللہ بہتر جانتا ہے۔ ایک دن پہلے وہاں چھوڑ آئی تھی تواس کو بھجوایا کہ جا کے اس کی گڑیا لے آؤ۔ کافی انتظار کے بعد جب وہ بچہ واپس نہ آیا تو والدہ خود ہمسائے کے گھر گئیں۔ پہلے تو ہمسایوں نے دروازہ نہیں کھولا اور کافی دیر کے بعد دروازہ کھولا تو بچے کے بارے میں پوچھنے پر ہمسائی نے بتایا کہ وہ گڑیالے کر واپس چلا گیا ہے۔ اس پر عزیزم کی والدہ نے اپنے خاوند عقیل صاحب کو اطلاع دی۔ انہوں نے فوری طور پر جماعتی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بچے کی تلاش شروع کی اور پولیس میں بھی رپورٹ درج کرا دی۔ پھر جب گلی کے سی سی ٹی وی کیمرے پر دیکھا گیا تو اس میں بچہ ہمسایوں کے گھر جاتا ہوا تو نظر آیا لیکن واپس نہیں نکلا۔ اس پر پولیس کی مدد سے گھر کی تلاشی لی گئی تو ایک ٹرنک میں سے بچےکی لاش برآمد ہوئی جس پر پولیس نے بتایا کہ ان کو قاتلہ عورت کے خاوند نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اس کی بیوی نے بچے کو قتل کر کے لاش ٹرنک میں چھپا دی ہے۔ اس خاتون نے مالک مکان کے لڑکے کے ساتھ مل کر اس بچے کو قتل کیا تھا جس کا اب اس نے اعتراف بھی کر لیا ہے۔

عزیزم تنزیل احمد بٹ 20؍نومبر 2009ء کو لاہور میں پیدا ہوا۔ وقفِ نو کی تحریک میں شامل تھا۔ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کا فعال رکن تھا۔ جماعتی پروگرام میں باقاعدگی سے شامل ہوتا تھا۔ اپنی کلاس کے ذہین طلباء میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ چوتھی کلاس کا، چہارم کا طالب علم تھا۔ اور وفات کے بعد جب اس کا رزلٹ آیا تو 750 میں سے 729 نمبر لے کرکلاس میں یہ بچہ فرسٹ آیا تھا ۔عزیزم کی والدہ نے بتایا کہ تنزیل میرے بچوں میں سے سب سے زیادہ فرمانبردار تھا اور کوئی بھی کام کرناہو تو ہمیشہ پہلے مجھ سے اجازت لے کر کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی ہمسایہ اور عہدیدار بھی اسے کوئی کام کہتا تو فوراً کام کرتا۔ کبھی انکار نہیں کرتا تھا یہاں تک کہ قتل کرنے والی ہمسائی بھی اس سے بعض اوقات کام لیتی تھی اور یہ اس کی ہمیشہ فرمانبرداری کرتا تھا اور اس کے کام کرتا تھا۔ سکول کے اساتذہ اور جماعتی عہدیداران بچے سے بہت خوش تھے۔ ہمیشہ اس کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ایم۔ٹی۔اے کے پروگرام باقاعدہ دیکھنے والا تھا خاص طور پر بچوں کے پروگرام اور خطبات سننے والا تھا۔ نماز کی ادائیگی کے لیے بڑی باقاعدگی سے مسجد جاتا تھا۔ اگر کبھی اس کے والد فیکٹری سے تھکے ہوئے واپس آتے اور مسجد جانے کے لیے ذرا سستی دکھاتے تو عزیزم ان کو زبردستی اصرار کر کے مسجد لے کے جایا کرتا تھا۔ عزیزم مرحوم نے پسماندگان میں اپنے والد عقیل احمد بٹ، والدہ نائلہ عقیل اور چار بہن بھائی یادگار چھوڑے ہیں۔ دو بھائی ہیں اور دو بہنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے پیار کی آغوش میں جگہ دے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور ماں باپ کو بھی صبر اور سکون عطا فرمائے۔

دوسرا جنازہ بریگیڈیئر بشیر احمد صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی کا ہے جو ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے بیٹے تھے۔ یہ 16فروری کو راولپنڈی میں 87 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

بریگیڈیئر بشیر احمد صاحب 1931ء میں ضلع گجرات کے ایک انتہائی مخلص خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب نے خود بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے قادیان سے حاصل کی۔ بریگیڈیئر صاحب نے 1947ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1952ء میں پاکستان کی ملٹری اکیڈمی کے sixth long course میں پاک فوج میں کمیشن لیا۔ 1982ء میں فوج سے بحیثیت بریگیڈیئر ریٹائر ہوئے۔ پھر ایک لمبا عرصہ تک اسلام آباد کے پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کے طور پر ملک کی خدمت کی توفیق پائی۔ اس طرح آپ کو چھیاسٹھ سال تک ملک کی خدمت کی توفیق ملی۔

جماعتی خدمات بریگیڈیئر صاحب کی یہ ہیں کہ 2012ء میں ان کو مَیں نے جماعت راولپنڈی کا امیر مقرر کیا تھا اور 9؍فروری 2020ء تک ان کو بطور امیر راولپنڈی شہر اور ضلع خدمت کی توفیق ملی۔ 1979ء میں آپ کا تبادلہ راولپنڈی میں ہوا۔ سولہ سال تک نائب امیر اور سیکرٹری تعلیم جماعت احمدیہ راولپنڈی شہر اور ضلع کی خدمات کی توفیق ملی۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر اور مجلس شوریٰ کی متعدد کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ بریگیڈیئر صاحب مرحوم بہت مخلص تھے۔ اخلاص کے ساتھ خدمت دین بجا لاتے تھے۔ ملنسار، شفیق، خدمت خلق کرنے والے اور ضرورت مند کے کام دل جمعی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ خدمت دین کے معاملات میں بڑے بااصول اور وقت کے پابند تھے۔ خود بھی سرعت سے خدمات کرتے تھے اور اپنے رفقائے کار کو بھی اس کی تلقین کرتے اور دین کے کاموں میں بلکہ کسی کام میں بھی سستی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اپنی عاملہ کے ممبران کو جو کام تفویض کرتے، وقت آنے پر ان کا فالو اَپ (follow up) ضرور کرتے۔ بہت دعا گو، عبادت گزار اور خلافت سے محبت کرنے والے مخلص وجود تھے۔ آخر عمر تک آپ کی یادداشت بھی بڑی اچھی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق تھے اور اپنے احمدی ہونے پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم اورحدیث نبویؐ اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ آپ کے سرھانے موجود رہا کرتی تھیں۔ ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا ۔غرباء اور ضرورت مندوں کی فراخ دلی اور خاموشی سے مالی اعانت کیا کرتے تھے۔خصوصاً بیواؤں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت زیادہ فکر مند ہوتے تھے اور ہر وقت مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ اور اعانت بھی اتنی کرتے تھے کہ کئی افراد اور خاندان آپ کی مستقل مالی اعانت سے مستفیض ہو رہے تھے۔ ایک شخص نے یہ بھی لکھا کہ اس کی دکان جل گئی نقصان ہوا تو خاموشی سے ایک رقم مجھے دی اور کہا کہ کبھی بعد میں اس کا ذکرنہ کرنا ۔ پھر گھر جا کے اس نے کھولا تو وہ رقم دو لاکھ روپیہ تھی اور جب کاروبار ٹھیک ہو گیا اور اس نے واپس کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا میں نے اس لیے دیا ہی نہیں تھا۔

طاہر محمود صاحب جو مربی سلسلہ ضلع راولپنڈی ہیں لکھتے ہیں کہ امیر صاحب انتہائی دھیمے مزاج کے مالک تھے۔ رحم دل ، کم گو اور انتہائی دعا گو تھے۔ جمعے کے دن جمعے سے کافی پہلے ایوانِ توحید میں تشریف لے آتے اور انتہائی تضرّع اور ابتہال سے نوافل ادا کرتے۔ جلدی جلدی نماز ادا کرنے والوں کو قادیان کے صحابہ اور بزرگوں کے واقعات سناتے جہاں انہوں نے تربیت حاصل کی۔ ٹھہرٹھہر کر نماز پڑھنے والوں پر خوشنودی کا اظہار کرتے۔ مسنون دعاؤں اور تسبیحات کی طرف توجہ دلاتے۔ خود بھی دعا کرنے والے اور لمبی نمازپڑھنے والے تھے اور لوگوں کو نماز کی طرف خاص توجہ دلانے والے تھے۔ ضرورت مندوں، دوستوں کی مدد کرنے والے تو ہر ایک نے لکھا ہے۔ اگر کوئی شکریہ بھی ادا کرتا تواس سےبھی منع کرتے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے تو عشق تھا اور ان کتب کے معارف کا میٹنگ میں ذکر کیا کرتے تھے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ ناصر شمس صاحب جو وہاں فضل عمر فاؤنڈیشن کے سیکرٹری ہیں وہ لکھتے ہیں کہ 2011ء کے اوائل سے 2019ء کے آخرتک فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر رہے۔ بورڈآف ڈائریکٹرزکے تمام اجلاسات میں باوجود پیرانہ سالی اور کمزوریٔ صحت کے بڑی باقاعدگی سے شامل ہوتے۔ آپ کی دعا اورصائب مشوروں سے بھرپور رہ نمائی ایک دہائی تک ہمیں میسر رہی۔ مرحوم بے حد مخلص، تقویٰ شعار اور خلافت کے ساتھ سچے وفادار خادم سلسلہ تھے۔ ایک خاص خوبی جس کا کہتے ہیں میں نے خود مشاہدہ کیا وہ تعلق باللہ اور بہت خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تیسرا جنازہ ڈاکٹر حمید الدین صاحب ابن محمد دین صاحب کا ہے جو 121 ج ب گوکھووال، فیصل آباد کے رہنے والے تھے۔ 29؍فروری 2020ء کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد محترم محمد الدین صاحب اور دادا محترم فتح الدین صاحب آف ہرسیاں ضلع گورداسپور کے اکٹھے بیعت کرنے سے آئی تھی جنہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں بیعت کی تھی۔ مرحوم کی پیدائش قادیان میں ہوئی۔ آپ کی والدہ کے حقیقی چچا حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب قادیانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔عیسائیت کے وہ مشہور عالم تھے اور لمبا عرصہ تک مدرسہ احمدیہ قادیان کے استاد بھی رہے۔ تقسیم ہند کے بعد مرحوم کا خاندان فیصل آباد آ کے آباد ہو گیا۔ پیشے کے لحاظ سے ڈسپنسر تھے اور اس حوالے سے ان کو پورے علاقے میں انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ ضرورت مندوں کا مفت علاج کیا کرتے تھے۔ بڑے سادہ مزاج، متقی، بچپن سے نماز روزوں کے پابند تھے۔ شعائراللہ کا احترام کرنے والے تھے۔ خلافت سے محبت کرنے والے نہایت شفیق، متوکل علی اللہ، ایک ایمان داراور دیانت دار انسان تھے اور کبھی کسی کوکسی بات کا انکار نہیں کرتے تھے ۔ ایک خیر خواہ اور سب کی مدد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ جماعت کے مختلف عہدوں پرانہوں نے خدمت کی بھی توفیق پائی ۔ ان کے ایک بیٹے کریم الدین شمس صاحب مربی سلسلہ آج کل تنزانیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں جو کہ میدان عمل میں مصروف ہونے کی وجہ سے آپ کے جنازے میں بھی شامل نہیں ہو سکے۔ آپ کے داماد مربی سلسلہ اور ایک داماد معلم سلسلہ ہیں۔ ایک نواسہ جامعہ احمدیہ ربوہ میں درجہ شاہد کا طالب علم ہے۔ اسی طرح کئی پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں وقف نَو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی نسلوںمیں بھی ان کو وفا کے ساتھ اپنی بیعت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا نمازوں کے بعد جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button