خلاصہ خطبہ جمعہ

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت (بدری) صحابی حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ

کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی تلقین

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍مارچ 2020ءبمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے13؍مارچ 2020ء کو مسجد مبارک اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج جن بدری صحابی کا ذکرہوگا اُن کا نام ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ۔ آپؓ کا تعلق قبیلہ بنوتیم بن مرہ سےتھا۔ ساتویں پشت میں حضرت طلحہؓ کا نسب نامہ آنحضرتﷺ سے ملتا ہے۔ آپؓ کے والد عبیداللہ نے اسلام کا زمانہ نہیں پایا تھا تاہم آپؓ کی والدہ نے لمبی عمرپائی اور آنحضورﷺ پر ایمان لاکر صحابیہ کا درجہ پایا۔

غزوۂ بدر کےلیے روانگی سے دس روزقبل آنحضرتؐ نے قریش کے قافلے کی شام سے روانگی کا اندازہ لگا کر خبررسانی کی غرض سے حضرت طلحہؓ اور حضرت سعید بن زیدؓ کو روانہ فرمایا۔ ان دونوں اصحاب کی واپسی سے پیشتر ہی آنحضورﷺکو کفّار کےارادوں کی خبر مل گئی اور آپؐ صحابہ کے ہم راہ قریش کے قافلے کے قصد سے روانہ ہوگئے۔ حضرت طلحہؓ اور سعید بن زیدؓ جس روز مدینہ پہنچے تو یہ وہی دن تھا جب بدر کے مقام پر رسول اللہﷺ کی قریش سے جنگ ہوئی۔ یوں حضرت طلحہؓ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے لیکن رسول ِخدا ﷺ نے آپؓ کو مالِ غنیمت میں سے حصّہ دیا۔

حضرت طلحہؓ غزوۂ احد اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ آپؓ صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی موجود تھے۔طلحہؓ اُن دس خوش نصیب اصحاب میں شامل تھے جنہیں رسول اللہﷺ نے اُن کی زندگیوں میں ہی جنت کی بشارت دےدی تھی۔ آپؓ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے آٹھ لوگوں میں شامل تھے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی قائم کردہ شوریٰ کمیٹی کے چھ ممبران میں سے ایک تھے۔

حضرت طلحہؓ اور حضرت عثمانؓ ایک ہی دن اسلام لائے تھے۔ دونوں نے حضورِاکرمﷺ کو اپنے تجارتی سفر میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہ کیا۔ اِن دونوں اصحاب سے علیحدہ علیحدہ مقامات پرلوگوں نے قرائن اور ظہورِ علامات سےاندازہ قائم کرکے عرب میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کی بابت سوال کیاتھا۔

جب حضرت طلحہؓ نے اسلام قبول کیا تو نوفل بن خویلد بن ادویہ نے انہیں اور حضرت ابو بکرؓ کو رسّی سے باندھ دیا تاکہ یہ حضورِاکرمﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکیں اور اسلام سے باز آجائیں۔

حضرت مسعود بن خیاش ایک روز صفا اور مروہ کا چکر لگا رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک نوجوان کا پیچھا کر رہے ہیں جس کا ہاتھ گردن سے بندھا ہوا تھا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ طلحہ بن عبیداللہ ہیں جو بےدین ہوگئے ہیں۔ طلحہؓ کی والدہ غصّے میں انہیں گالیاں دیے جارہی تھیں۔

رسول اللہﷺ کے سفرِِہجرت کے دوران ،حضرت طلحہؓ شام سے واپس آتے ہوئے حضرت ابو بکرؓ اور حضور اکرمﷺ سے ملے اور آپؐ کی خدمت میں شامی کپڑے پیش کیے۔ طلحہؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی کہ اہلِ مدینہ بہت دیر سے آپؐ کے منتظر ہیں۔

حضرت طلحہؓ کی بعض مالی قربانیوں کے باعث حضورِ اکرم ﷺ نےآپؓ کو فیّاض قرار دیا تھا۔ غزوہ ذی قرد میں آپؓ نے ایک چشمہ خرید کر اسے مسلمانوں کے عام فائدے کے لیے وقف کردیا۔ سائب بن یزید سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت طلحہؓ سے زیادہ سخی کوئی نہیں دیکھا۔

حضرت طلحہؓ کو احد کے دن حضورِ اکرمﷺ کے قریب نہایت بہادری اور جاں فشانی سے لڑنے کی سعادت عطا ہوئی۔ اس روز آپؓ نے آنحضرتﷺ سے موت پر بیعت کی۔ مالک بن زہیر نے رسول اللہﷺ کو تیر مارا تو حضرت طلحہؓ نے آپؐ کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا۔ ایک قول کے مطابق آپؓ کے ہاتھ پر نیزہ لگا تھا اور اس سے اتنا خون بہا کہ کم زوری سے آپؓ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو سب سے پہلے حضورِاکرمﷺ کا حال دریافت کیا۔

جنگِ احد کے دن آنحضرتﷺ نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں دورانِ جنگ آپؐ نےایک چٹان پر چڑھنا چاہا ۔ لیکن چہرے اور سر پر زخم اور خون بہنے کے باعث اور زرہوں کےوزن کی زیادتی کی وجہ سے آپؐ چٹان پر چڑھ نہ سکے۔ حضورﷺ نے حضرت طلحہؓ کو نیچے بٹھایا اور اُن کے اوپر پیر رکھ کر چٹان پر چڑھے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ طلحہؓ نے اپنے اوپر جنت واجب کرلی ہے۔

حضرت طلحہؓ کی بیٹیاں عائشہ اور امِ اسحاق کہتی ہیں کہ احد کے دن ہمارے والد کو چوبیس زخم لگے جن میں سے ایک چوکور زخم سر میں تھا اور پاؤں کی رگ کٹ گئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ احد کے میدان میں حضرت طلحہؓ کی بہادری کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں کہ طلحہ جو قریش میں سے تھے اور مکّے کےمہاجرین میں شامل تھے انہوں نے جب دیکھا کہ کفّار سارے تیر حضورﷺ کے چہرے کی طرف پھینک رہے ہیں تو طلحہؓ نے اپنا ہاتھ رسول اکرمﷺ کے منہ کے آگے کھڑا کردیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانے پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا مگر جاں باز اوروفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔

غزوہ حمراء الاسد کے موقعے پر حضرت رسول کریمﷺ نے حضرت طلحہ سے ان کے ہتھیار کی بابت دریافت فرمایا۔ حضرت طلحہؓ کے جسم پر کُل ستّر سے زائدزخم تھے لیکن آپؓ بیان کرتے تھے کہ مَیں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرتﷺ کے زخموں کے متعلق زیادہ فکرمند تھا۔

غزوۂ تبوک کے موقعے پر منافقین سویلم یہودی کے گھر پر جمع ہورہے تھے۔سویلم انہیں رسول اللہﷺ کے ساتھ جنگ پر جانے سے روک رہا تھا۔ آنحضورﷺ نے طلحہ اور بعض دیگر صحابہ کو حکم دیا کہ اُس کے گھر کو آگ لگا دی جائے چنانچہ حضرت طلحہؓ نے ایسا ہی کیا۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طلحہ اور زبیرجنت میں میرے دو ہم سائے ہیں۔

غزوۂ تبوک میں پیچھے رہ جانے والوں کی جب چالیس روز بعد معافی ہوئی تو کعبؓ مسجد میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس موقعے پر سوائے طلحہؓ کے کسی نے ان کواٹھ کر مبارک باد نہ دی۔ حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ مَیں طلحہ کا یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔

حضرت سعید بن زیدؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے حرا ٹھہرا رہ!یقیناً تجھ پر ایک نبی اور صدیق اور شہید کے علاوہ اَور کوئی نہیں۔ عرض کیا گیا کہ وہ کون لوگ ہیں تو سعیدؓ نے کہا رسول اللہﷺ،ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،طلحہؓ،زبیرؓ،سعدؓ،زبیرؓاورعبد الرحمٰن بن عوفؓ۔ یہ نو لوگ تھے۔ دسویں کی بابت دریافت کرنے پر آپؓ نے توقف کے بعد فرمایا کہ وہ مَیں ہوں۔

حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی شہید کو چلتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے تو وہ طلحہ بن عبیداللہؓ کو دیکھ لے۔

ایک اعرابی نے آیتِ کریمہ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗکی نسبت حضوراکرمﷺ سے دریافت کیا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں کہ جنہوں نے اپنی منت کو پورا کردیا ہے۔ حضوراکرمﷺ نے کوئی جواب نہ دیا۔یہاں تک کہ آپؐ نے حضرت طلحہ کو دیکھا تو بار بار سوال کرنے والے اعرابی کوجواباً فرمایا کہ یہ یعنی طلحہؓ مَنْ قَضٰی نَحْبَہٗکے مصداق ہیں۔

حضرت طلحہؓ نے اپنی ایک زمین حضرت عثمانؓ کے پاس سات لاکھ درہم میں فروخت کی۔ جب طلحہؓ یہ رقم لے کر گھر پہنچے تو اس خیال سے کہ زندگی موت کا کیا بھروسہ۔ اتنی رقم کے ساتھ رات بسر کرنے والے کی نسبت اللہ تعالیٰ نامعلوم کیا حکم نازل فرمادے۔ آپؓ نے وہ رات اس حال میں گزاری کہ اُن کےقاصد سارا مال لے کر مدینے کی گلیوں میں پھرتے اور مستحقین میں تقسیم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب صبح ہوئی تو اُس مال میں سے طلحہ ؓکے پاس ایک درہم بھی نہ بچا تھا۔

حضرت طلحہؓ کو عراق کی زمینوں سے چار پانچ لاکھ مالیت کا غلّہ ہوتا تھا ۔ آپؓ مفلسوں کی حاجت روائی فرماتے، اُن کے اہل وعیال کا خیال رکھتے، بیواؤں کا نکاح کراتے، مقروضوں اور تنگ دستوں سے حسنِ سلوک فرماتے۔ اس سب کے ساتھ جب آپؓ کو غلّے سے آمدنی ہوتی تو حضرت عائشہؓ کو ہرسال دس ہزار درہم بھی بھیجا کرتے۔

حضرت طلحہؓ جنگِ جمل کے دن 10 جمادی الثانی 36 ہجری میں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی عمر 64 برس تھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اِن کی شہادت جنگِ جمل میں ہوئی جیسا کہ ذکر ہوا ہے اس کی تفصیل ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا کیونکہ اس کی تفصیل علیحدہ بیان چاہتی ہے تاکہ ہمارے ذہنوں میں جوابھرنے والے بعض سوال ہیں اُن کے جواب مل جائیں۔

خطبے کے آخر میں حضورِ انورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جیسا کہ مَیں نے گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا جو وبا کورونا وائرس کی پھیلی ہوئی ہے اس سے متعلق احتیاطی تدابیر کرتے رہیں۔ مسجدوں میں بھی جب آئیں تو احتیاط کرکے آئیں۔ ہلکا سا بخار یا جسم میں تکلیف وغیرہ ہو تو ایسی جگہوں پر نہ جائیں جہاں پبلک ہو۔ خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو آفات سے بچائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button