سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام بر صغیر کے حاذق اور ماہر طبیب

(ابو سدید)

حضور علیہ السلام کی طب یونانی میں تحقیق ، اس کے خواص، مختلف امراض کے مجرب نسخہ جات اور میڈیکل سائنسزکے عجائبات پر مشتمل تحقیقات

حضرت مسیح موعود ؑکو اللہ تعالیٰ نے روحانی علوم کے قیمتی موتیوں اور لعل و جواہر سے مزین خزائن عطا فرمائے اور ساتھ ہی دنیا وی علوم کی تفصیلات اور حقائق سے بھی آگاہ فرمایا۔ ان علوم میں علم طب سرفہرست ہے جس کے ایسے اصول خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے جو اس زمانہ میں اور کسی کے حصہ میں نہ آئے۔قبل اس کے کہ دائمی شان کے حامل ان طبی اصولوں کو سپرد قرطاس کیا جائے حضرت اقدس ہی کے پیش فرمودہ اس اہم علم کے بنیادی حقائق، امراض، اس کی اقسام، حکمت اور ان کے علاج اور فلسفہ کے اصولوں سے آگاہی ضروری ہے ۔

مرض کی اقسام

‘‘مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک مرض مستوی اور ایک مرض مختلف ۔مرض مستوی وہ ہوتا ہے جس کا درد وغیرہ محسوس ہوتا ہے۔اس کے علاج کا تو انسان فکر کرتا ہے اور مرض مختلف کی چنداں پروا نہیں کرتا۔اسی طرح سے بعض گناہ تو محسوس ہوتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ انسان ان کو محسوس بھی نہیں کرتا۔اس لیے ضرورت ہے کہ ہر وقت انسان خداتعالیٰ سے استغفار کرتا رہے۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ529)

بعض عجیب و غریب امراض

‘‘مختلف امراض اس قسم کے ہیں کہ ان میں انسان کی پیش نہیں جاتی۔ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا اس نے بیان کیا کہ میرے پیٹ میں رسولی پیدا ہوئی ہے۔ اور وہ دن بدن بڑھ کر پاخانہ کے راستہ کو بند کرتی جاتی ہے۔جس ڈاکٹر کے پاس میں گیا ہوں وہ یہی کہتا ہے کہ اگر یہ مرض ہمیں ہوتی تو ہم بندوق مارکر خود کشی کر لیتے۔آخر وہ بیچارہ اسی مرض سے مرگیا۔

بعض لوگ ایسے مسلول ہوتے ہیں کہ ایک ایک پیالہ پیپ کا اندر سے نکلتا ہے۔ایک دفعہ ایک مریض آیا اس کی یہی حالت تھی۔صرف اس کاپوست ہی رہ گیا تھااور سمجھدار بھی تھا مگر تاہم وہ یہی خیال کرتا تھا کہ میں زندہ رہوں گا۔’’

(ملفوظات جلد سوم صفحہ437)

انبیاء کی خبیث امراض سے حفاظت

‘‘انبیاء علیہم السلام اور اللہ تعالیٰ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔مثلاً آتشک ہو،جذام ہو یااور کوئی ایسی ذلیل مرض۔یہ بیماریاں خبیث لوگوں ہی کو ہوتی ہیں۔

اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبْیِثْیِنَ (النور:27)

اس میں عام لفظ رکھا ہے اور نکات بھی عام ہیں۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ397)

بیمار پر دم کرنا

‘‘ایک شخص نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جائے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اس کو شفاء ہو۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا بے شک قرآن شریف میں شفاء ہے روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے۔مگر اس طرح کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے۔قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو۔خداتعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔’’

(بدر2؍اکتوبر1906ء)

بیماریوں کی کثرت کا فلسفہ

حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بیماریوں کی کثرت کا فلسفہ درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

‘‘اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تاکہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارض اور امراض میں گھرا ہوا پاکر اللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے ثباتی کا ہر دم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اور خدا سے بے پرواہ نہ ہو جاوے۔’’

(ملفوظات جلد سوم صفحہ صفحہ217)

اس ضمن میں مزید ہدایت فرمائی:

‘‘ سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا توبہ و استغفار بہت کرنی چاہیے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ242 )

‘‘ہر ایک مرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط ہوتا ہے جب اللہ چاہتا ہے مرض مٹ جاتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ295)

حضرت اقدس نے اپنے ملفوظات میں خصوصاًبیماری سے شفا کے لیے دعاؤں کی بار بار تحریک فرمائی ہے ۔فرماتے ہیں:

‘‘میں بہت دعا کرتا ہوں ۔ دعا ایسی شے ہے کہ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹر لاعلاج کہہ دیتے ہیں ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔’’(ملفوظات جلد چہارم صفحہ265)

لاکھوں بیماریاں

حقیقت یہ ہے کہ انسان کسی قدر بھی احتیاط کرے بیماریاں اتنی زیادہ اور مختلف اقسام کی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اُسے نہ بچائے تو بچنا ممکن نہیں ۔ اسی طرح ایک بیماری کا علاج دس نئی بیماریوں کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:

‘‘ہمارے والدصاحب مرحوم بھی مشہور طبیب تھے جن کا پچاس برس کا تجربہ تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ حکمی نسخہ کوئی نہیں اور اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ تصرف اللہ کا خانہ خالی رہتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے والا سعادت مند ہے۔ انسان مصیبت میں بددماغ نہ ہو اور غیر اللہ پر بھروسہ نہ کرے۔ یکدفعہ ہی خفیف عوارض شدید ہونے لگ جاتے ہیں۔ کبھی قلب کا علاج کرتے کرتے دماغ پر آفت آ جاتی ہے کبھی سردی کے پہلو پر علاج کرتے کرتے گرمی کا زور چڑھ جاتا ہے۔ کون ان بیماریوں پر حاوی ہو سکتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کرنا چاہئے۔ انسان ان حشرات الارض اور سمّیات کو کب گن سکتا ہے۔ صرف بیماریوں کو بھی نہیں گن سکتا۔ لکھا ہے کہ صرف آنکھ ہی کی تین ہزار بیماریاں ہیں۔ بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ایسے طور پر غلبہ کرتی ہیں کہ ڈاکٹر نسخہ ہی نہیں لکھ چکتا جو بیمار کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 166)

بیماریاں جہنم کا نمونہ بھی ہیں

‘‘برخلاف اس کے جو کچھ حالت انسان کی ہے وہ جہنم ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کے سوا زندگی بسر کرنا یہ بھی جہنم ہے۔ پھر حدیث شریف سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ تپ بھی حرارت جہنم ہی ہے۔ امراض اور مصائب جو مختلف قسم کے انسان کو لاحق حال ہوتے ہیں یہ بھی جہنم ہی کا نمونہ ہے اور یہ اس لئے کہ تا دوسرے عالم پر گواہ ہوں اور جزا و سزا کے مسئلہ کی حقیقت پر دلیل ہوں اور …۔ مثلاً جذام ہی کو دیکھو کہ اعضاء گر گئے ہیں اور رقیق مادہ اعضاء سے جاری ہے۔ آواز بیٹھ گئی ہے۔ ایک تو یہ بجائے خود جہنم ہے۔ پھر لوگ نفرت کرتے ہیں اور چھوڑ جاتے ہیں۔ عزیز سے عزیز بیوی، فرزند، ماں باپ تک کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ بعض اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ بعض اور خطرناک امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پتھریاں ہو جاتی ہیں اور پیٹ میں رسولیاں ہو جاتی ہیں۔ یہ ساری بلائیں اس لئے انسان پر آتی ہیں کہ وہ خدا سے دور ہو کر زندگی بسر کرتا ہے اور اُس کے حضور شوخی اور گستاخی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کی عزت اور پروا نہیں کرتا ہے۔ اُس وقت ایک جہنم پیدا ہو جاتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 372)

وبائی امراض

حضرت اقدس ؑفرماتے ہیں:

‘‘ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ بعض مرضیں مثلاً آتشک کی بیماری ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور ایک آتشک زدہ عورت سے مرد کو آتشک ہوجاتی ہے اور ایسا ہی مرد سے عورت کو اور یہی صورت ٹیکا لگانے میں بھی مشاہدہ ہوتی ہے کیونکہ جس پر چیچک والے کے خمیر سے ٹیکا کا عمل کیا جاوے اس کے بدن پر بھی آثار چیچک ظاہر ہو جاتے ہیں پس یہی تو عدوی ہے سو ہم کیوں کر اس کا انکار کر سکتے ہیں۔کیونکہ اس کا انکار علوم حسیہ بدیہیہ کا انکار ہے جو تجارب طبیہ سے ثابت ہو چکے ہیں اور ان میںان بچوں کو بھی شک نہیں رہا جو کوچوں میں کھیلتے پھرتے ہیںچہ جائے کہ عقلمند مردوں کو کچھ شک ہو۔’’

(نورالحق حصہ اول،روحانی خزائن جلد 8صفحہ14)

ایک عجیب مرض

‘‘طبیبوں نے ایک مرض لکھی ہے جس کی کیفیت یہ ہے کہ انسان جب چھینک لے تو اس کے ساتھ ہی ہلاک ہو جاتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ244)

باریک در باریک بیماریاں

‘‘یاد رکھنا چاہئے کہ انسان ایک نہایت ہی کمزور ہستی ہے۔ایک ہی بیماری میں باریک در باریک اور بیماریاں شروع ہوجاتی ہیں۔انسان غلطی سے کب تک بچ سکتا ہے انسان بڑا کمزور ہے۔غلطی ہو ہی جاتی ہے۔اکثر اوقات تشخیص میں ہی غلطی ہو جاتی ہے اور اگر تشخیص میں نہیں ہوتی تو پھر دوا میں ہو جاتی ہے۔غرض انسان نہایت کمزور ہستی ہے غلطی سے خود بخود نہیں بچ سکتا۔خداتعالیٰ کا فضل ہی چاہئے۔اس کے فضل کے بغیر انسان کچھ چیز نہیں۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ278)

دوا اور تدبیر

‘‘کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو۔اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو۔سو تمہاری عقلمندی اسی میں ہے کہ تم جڑ کو پکڑو نہ شاخ کو۔تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے اور آخر وہی ہو گا جوخدا کا ارادہ ہو گا۔’’

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19صفحہ 13)

بیماری بطور سزا اور عذاب

‘‘جب دنیا میں فسق و فجور پھیل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے لوگ دور جا پڑتے ہیں اور اس سے لاپروا ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی پروا نہیں کرتا ہے۔ ایسی صورت میں پھر اس قسم کی وبائیں بطور عذاب نازل ہوتی ہیں ان بلاؤں اور وباؤں کے بھیجنے سے اللہ تعالیٰ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دنیا پر اللہ تعالیٰ کی توحید اور عظمت ظاہر ہو اور فسق و فجور سے لوگ نفرت کر کے نیکی اور راستبازی کی طرف توجہ کریں اور خدا تعالیٰ کے مامور کی طرف جو اس وقت دنیا میں موجود ہوتا ہے توجہ کریں۔ اس زمانہ میں بھی فسق و فجور کے سیلاب کا بند ٹوٹ گیا ہے۔ راستبازی، تقویٰ عفت اور خدا ترسی اور خداشناسی بالکل اُٹھ گئی تھی۔ دین کی باتوں پر ہنسی کی جاتی تھی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق جو اُس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کی زبان پر کیا تھا کہ مسیح موعود کے وقت دنیا میں مری بھیجوں گا اس طاعون کو اصلاح خلق کے لئے مسلّط کیا ہے۔ طاعون کو برا کہنا بھی گناہ ہے یہ تو خداتعالیٰ کا ایک مامور ہے جیسا کہ مَیں نے ہاتھی والی رویا میں دیکھا تھا، لیکن مَیں دیکھتا ہوں کہ باجود اس کے کہ بعض دیہات بالکل برباد ہوگئے ہیں اور ہر جگہ یہ آفت برپا ہے تو بھی ان شوخیوں، شرارتوں اور بیباکیوں میں فرق نہیں آیا جو اس سے پہلے بھی تھیں۔ مکرو فریب، ریاکاری بدستور پھیلی ہوئی ہے۔’’

(ملفوظات جلدسوم صفحہ634)

بیماریوں کے فوائد

اللہ تعالیٰ نے بیماریوں اور تکالیف کا یہ سارا سلسلہ بھی بے فائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس میں بھی انسان کےلیے رحمت کے بہت سے پہلو ہیں۔ ایک غیر مومن کےلیےجہاں بیماری مصیبت دکھائی دیتی ہے وہیں ایک مومن ان تکالیف کی وجہ سے خداتعالیٰ کے قرب کے مدارج طے کرتا ہے۔ کثرت سے دعاؤں کی طرف توجہ ہوتی ہے اور ہر لمحہ خدا تعالیٰ یاد رہتا ہے۔

ایک مرتبہ آپؑ نے بیماریوں کے ذکر پر فرمایا کہ

‘‘بیماری کی شدت سے موت اور موت سے خدا یاد آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(النساء: 29) انسان چند روز کےلیے زندہ ہے۔ ذرہ ذرہ کا وہی مالک ہے جو حیّ و قیوم ہے۔ جب وقت موعود آ جاتا ہے تو ہر ایک چیز السلام علیکم کہتی اور سارے قویٰ رخصت کر کے الگ ہو جاتے ہیں اور جہاں سے یہ آیا ہے وہیں چلا جاتا ہے۔’’(ملفوظات جلدسوم صفحہ 240)

بیماریوں کی حکمت

ان مختلف امراض اور عوارض کے ذکر پر جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں ان کی حکمت بیان کرتے ہوئےفرمایا:

‘‘اللہ تعالیٰ قادر تھا کہ چند ایک بیماریاں ہی انسان کو لاحق کر دیتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے امراض ہیں جن میں وہ مبتلا ہوتا ہے۔ اس قدر کثرت میں خدا تعالیٰ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے تا کہ ہر طرف سے انسان اپنے آپ کو عوارض اور امراض میں گھرا ہوا پا کر اللہ تعالیٰ سے ترساں اور لرزاں رہے اور اسے اپنی بے ثباتی کا ہر دم یقین رہے اور مغرور نہ ہو اور غافل ہو کر موت کو نہ بھول جاوے اورخدا سے بے پروا نہ ہو جاوے۔’’

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 217)

پہلے مرض پھر طبیب کی شناخت

‘‘طبیب اس امر کو بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس سے وہی شخص فائدہ اٹھاسکتا ہے جو اول اپنے مرض کو شناخت کرے اور محسوس کرے کہ میں بیمارہوں اور پھر یہ شناخت کرے کہ طبیب کون ہے؟جب تک یہ دو باتیں پیدا نہ ہوں وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔یہ بھی یاد رہے کہ مرض دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک مرض مختلف ہوتا ہے جیسے قولنج کا درد یعنی جو محسوس ہوتا ہے اور ایک مستوی جیسے برص کے داغ کہ ان کا کوئی درد اور تکلیف بظاہر محسوس نہیں ہوتی۔انجام خطرناک ہوتا ہے مگر انسان ایسی صورتوں میں ایک قسم کا اطمینان پاتا ہے اور اس کی چنداں فکر نہیں کرتا۔اس لیے ضروری ہے کہ انسان اول اپنے مرض کو شناخت کرے اوراسے محسوس کرے۔پھر طبیب کو شناخت کرے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی معمولی حالت پر راضی ہو جاتے ہیں۔’’(ملفوظات جلد سوم صفحہ80)

امراض بدنی کے لیے ادویہ

‘‘یہ بات بتوجہ تمام یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے خدا نے امراض بدنی کے لئے بعض ادویہ پیدا کی ہیں اور عمدہ عمدہ چیزیں جیسے تریاق وغیرہ انواع اقسام کے آلام اسقام کے لئے دنیا میں موجود کی ہیں اور ان ادویہ میں ابتدا سے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جب کوئی بیمار بشرطیکہ اس کی بیماری درجہ شفایابی سے تجاوز نہ کرگئی ہو ان دوائوں کو برعایت پرہیز وغیرہ شرائط استعمال کرتا ہے تو اس حکیم مطلق کی اسی پر عادت جاری ہے کہ اس بیمار کو حسب استعداد اور قابلیت کسی قدر صحت اور تندرستی سے حصہ بخشتا ہے یا بکلی شفا عنایت کرتا ہے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ چہارم،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 354حاشیہ در حاشیہ)

عیاشیوں کے ذریعہ مہلک امراض

‘‘اکثر لوگ دنیا کی نفسانی عیاشیوں میں اس خوش حالی کو طلب کرتے ہیں اور دن رات میخواری اور شہوات نفسانیہ کا شغل رکھ کر انجام کار طرح طرح کی مہلک امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور آخر کار سکتہ ،فالج،رعشہ اور کزاز اور یا انتڑیوں یا جگر کے پھوڑوں میں مبتلاہو کر اور یا آتشک اور سوزاک کی قابل شرم مرض سے اس جہان سے رخصت ہوتے ہیں اور بباعث اس کے کہ ان کی قومیں قبل از وقت تحلیل ہو جاتی ہیں۔اس لئے وہ طبعی عمر سے بھی بے نصیب رہتے ہیں۔’’

(چشمہ مسیحی ،روحانی خزائن جلد 20صفحہ359)

مرگی کو ام الصبیان کہتے ہیں

‘‘مرگی کی بیماری کے مبتلااکثر شیاطین کو اسی طرح دیکھا کرتے ہیں وہ بعینہ ایسا ہی بیان کیا کرتے ہیں کہ ہمیں شیطان فلاں فلاں جگہ لے گیا اور یہ یہ عجائبات دکھلائے اور مجھے یاد ہے کہ شاید چونتیس برس کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک جگہ شیطان سیاہ رنگ اور بد صورت کھڑا ہے۔اول اس نے میری طرف توجہ کی اور میں نے اس کو منہ پر طمانچہ مار کر کہا کہ دور ہو اے شیطان تیرا مجھ میں حصہ نہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کی طرف گیا اور اس کو اپنے ساتھ کر لیا اور جس کو ساتھ کر لیا اس کو میں جانتا تھا اتنے میں آنکھ کھل گئی اسی دن یا اس کے بعد اس شخص کو مرگی پڑی جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ شیطان نے اس کو ساتھ کر لیا تھا اور صرع کی بیماری میں گرفتار ہوگیا اس سے مجھے یقین ہوا کہ شیطان کی ہمراہی کی تعبیر مرگی ہے…مرگی کو فن طبابت میں ام الصبیان کہتے ہیں یعنی بچوں کی ماں۔’’

(معیار المذاہب،روحانی خزائن جلد9صفحہ483حاشیہ)

مریض کا ہوش

‘‘بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق و سل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں۔’’(ملفوظات جلد پنجم صفحہ433)

ذات الجنب کی وجہ سے بخار

‘‘جب مرض الموت کاوقت آجاوے تو وہ وقت دعا کا نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ کو ظاہر کر دیتا ہے۔اسی طرح پر جو حالتیں مہلک بیماریوں کی ہوتی ہیں ان میں بھی نظر آجاتا ہے مگر خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ مولوی (عبدالکریم سیالکوٹی)صاحب کے معاملہ میں ایک عجیب بات دیکھی گئی کہ ان کی اصل مرض سرطان جس کو انگریزی میں کاربنکل کہتے ہیں بالکل اچھا ہو گیا بلکہ خود انہوں نے ہاتھ پھیر کر دیکھا اور یہی کہتے رہے کہ اب میں دو چار روز میں پھرنے لگوں گا۔آخر ذات الجنب کی وجہ سے سخت بخار ہو گیا جو ایک سو چھ درجہ تک پہنچ گیا اور اسی عارضہ میں وفات پائی۔’’

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ487)

تداخل طعام بیماری کا موجب

24؍دسمبر 1901ء کو آپ نے ایک آسٹریلوی سیاح عبدالحق صاحب سے دوران گفتگو فرمایا:

‘‘تداخل طعام درست نہیں ہے یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ اور کھا لیا پھر کچھ اور۔اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوء ہضم ہو کر ہیضہ یا قے یا کسی اور بیماری کی نوبت آجائے ۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ81)

دوران خون کا مسئلہ

‘‘دیکھو قلب دل کو کہتے ہیں اور قلب گردش دینے والے کو بھی کہتے ہیں۔دل پر مداردوران خون کا ہے۔آجکل کی تحقیقات نے تو ایک عرصہ دراز کی محنت اور دماغ سوزی کے بعد دوران خون کامسئلہ دریافت کیا لیکن اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پیشتر ہی سے دل کا نام قلب رکھ کر اس صداقت کو مرکوز اور محفوظ کر دیا۔’’ (ملفوظات جلد اول صفحہ170)

سلب امراض اور سلب ذنوب میں فرق

‘‘علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں۔دوا سے،غذا سے،عمل سے،پرہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ایک پانچویں قسم بھی جس سے سلب امراض ہوتا ہے،وہ توجہ ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلب امراض کیا کرتے تھے۔…ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تو جہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلب امراض ہوتا تھا،مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلب ذنوب ہوتا تھا۔…جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے۔مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی۔اس لئے سلب ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی۔کہ جو جماعت انہوں نے تیار کی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی۔اور یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی بااثر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سو برس کے بعد سلب ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اس وقت میں رکھتی تھی۔مسیح اس میدان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے۔’’(ملفوظات جلد دوم صفحہ280)

پیشاب کی بیماری

‘‘مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سلمہ ربہ ٗکو کثرت پیشاب کی دو تین دن سے پھر شکایت ہوگئی ہے اور آج اعلیٰ حضرت نے ان کا قارورہ منگوا کر دیکھا تھا جو کثیر مقدار میں تھا۔اس کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب کو مخاطب کر کے جو کچھ فرمایا اس سے آپ کی کمال شفقت اور ہمدردی کا ثبوت ملتا ہے اس لیے میں خلاصتہً اسے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں۔فرمایا:

‘‘میں آپ کا پیشاب دیکھ کر بہت حیران ہو گیا۔میں نے تو اس کے بعد دعا ہی شروع کر دی اور انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔

مجھے خود چونکہ کثرت پیشاب کی شکایت ہے میں جانتا ہوں کہ کس قدر تکلیف ہوتی دل گھٹتا ہے اور پنڈلیوں میں درد ہونے لگتا ہے۔بہت بے چینی اور گھبراہٹ ہو جاتی ہے۔میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس رسالہ(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ناقل) کو ختم کرلینے کے کچھ دنوں تک صرف دعا ہی میں لگا رہوں گا۔

میں نے جو گولی آپ کو بنا کر دی تھی وہ مفید ثابت ہوئی تھی۔آپ اس کا استعمال کریں میں بھیج دوں گا اور ختم ہونے پر اور دوا تیار ہو سکتی ہے۔آپ دودھ کثرت سے پئیں۔وہ اس مرض میں بہت مفید ہے اور میں انشاء اللہ بہت دعا کروں گا۔آپ کے پیشاب کو دیکھ کر مجھے تو حیرت ہی ہوئی کہ آپ کس طرح التزام کے ساتھ نمازوں میں آتے ہیں اور آپ کی آواز سے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو شکایت ہے۔’’

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ252)

احتراز وبائی امراض

‘‘جو لوگ اپنے گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں اور اپنی بدررئوں کو گندہ نہیں ہونے دیتے اور کپڑوں کو دھوتے رہتے ہیں اور خلال کرتے اور مسواک کرتے اور بدن پاک رکھتے ہیں اور بدبو اور عفونت سے پرہیز کرتے ہیں وہ اکثر خطرناک وبائی بیماریوں سے بچتے رہتے ہیں۔پس گویا وہ اس طرح پر یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَکے وعدے سے فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن جو لوگ طہارت ظاہری کی پرواہ نہیں رکھتے آخر کبھی نہ کبھی وہ پیچ میں پھنس جاتے ہیں اور خطرناک بیماریاں ان کو آپکڑتی ہیں۔’’

(ایام الصلح ،روحانی خزائن جلد14صفحہ337)

اللہ اپنے بندوں کو بچا لیتا ہے

‘‘وہ خداجو اندھیرے کے وقت اپنا نور بھیجتا ہے اور بیماری کی کثرت کے وقت دوا ظاہر کرتا ہے اور اپنے بندوں کو بےقراری کی حالت میں بچا لیتا ہے…آپ جانتے ہیں کہ ہر یک بیماری کی ایک دوااور ہر یک اندھیرے کے واسطے روشنی ہے سو میرے پروردگار نے اردہ کیا کہ دنیا کو اندھیرے کے بعد روشن کرے۔’’

(نور الحق حصہ اول،روحانی خزائن جلد8صفحہ564 )

بیمار مایوس نہ ہو

‘‘میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لاعلاج نہیں ہر ایک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے جس مرض کو طبیب لاعلاج کہتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سے بیماروں کو اطباء ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفاء پانے کے واسطے بیمار کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی۔بعض بیمار بالکل مایوس ہو جاتے ہیں یہ غلطی ہے خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اس کے ہاتھ میں سب شفاء ہے…بیمارکو چاہئے کہ توبہ استغفار میں مصروف ہو انسان صحت کی حالت میں کئی قسم کی غلطیاں کرتا ہے۔ کچھ گناہ حقوق اللہ کے متعلق ہوتے ہیں۔اور کچھ حقوق عباد کے متعلق ہوتے ہیں۔ہر دوقسم کی غلطیوں کی معانی مانگنی چاہئے اور دنیا میں جس شخص کو نقصان بے جا پہنچایا ہو۔اس کو راضی کرنا چاہئے اور خداتعالیٰ کے حضور میں سچی توبہ کرنی چاہئے تو بہ سے یہ مطلب نہیں کہ انسان جنتر منتر کی طرح کچھ الفاظ منہ سے بولتا رہے ۔بلکہ سچے دل سے اقرار ہونا چاہئے کہ میں آئندہ یہ گناہ نہ کروں گا اور اس پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہئے تو خدا تعالیٰ غفور الرحیم ہے وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ ستار ہے۔بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے تمہیں ضرورت نہیں کہ مخلوق کے سامنے اپنے گناہوں کا اظہار کرو۔ہاں خدا تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔’’

(بدر 4؍اکتوبر 1904ء صفحہ 4)

مریضوں کے لئے ادویات کی فراہمی

‘‘طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم ہو،لیکن اگر ادویہ نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتا ہے۔بڑی سوچ اور فکر سے ایک نسخہ لکھ دے گا لیکن بازار سے وہ دوا نہ ملے،تو کیا کرے گا۔کس قدر فضل ہے کہ ایک طرف علم دیا ہے اور دوسری طرف نباتات،جمادات،حیوانات جو مریضوں کے مناسب حال تھے پیدا کر دئیے ہیں اوران میں قسم قسم کے خواص رکھے ہیں جو ہر زمانہ میں نااندیشہ ضروریات کے کام آسکتے ہیں۔غرض اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بھی غیر مفید پیدا نہیں کی اور نہ جس کے خواص محدود ہوں ۔یہاں تک کہ پسو اور جوں تک بھی غیر مفید نہیں۔لکھا ہے کہ اگر کسی کا پیشاب بند ہو تو بعض وقت جوں کو احلیل میں دینے سے پیشاب جاری ہو جاتا ہے۔انسان ان اشیاء کی مدد سے کہاں تک فائدہ اٹھاتا ہے۔کوئی تصور کر سکتا ہے؟’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ314)

وبائی امراض کا الہامی علاج

فرمایا :’’مجھے الہام ہواسَلَامٌ عَلیْکُمْ طِبْتُمْپھر چونکہ بیماری وبائی کا بھی خیال تھا۔ اس کا علاج خداتعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اس کے ان ناموں کا ورد کیا جاوےیَاحَفِیْظُ۔ یَا عَزِیْزُ۔ یَا رَفِیْقُ۔رفیق خداتعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسماء باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔’’

(البدر18؍ستمبر1903ء۔ملفوظات جلد سوم صفحہ426)

کوئی بیماری لا علاج نہیں

‘‘ایک بیمار حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا اور اس نے دعا کے واسطے عرض کی اور اپنی حالت پر مایوسی کا اظہار کیا۔

حضرت نے فرمایا:

‘‘میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لا علاج نہیں۔ہر ایک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے جس مرض کو طبیب لا علاج کہتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سی بیماریوں کو اطباء اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفا پانے کے واسطے بیمار کے لیے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی بعض بیمار بالکل مایوس ہو جاتے ہیں۔یہ غلطی ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیںہونا چاہئے اس کے ہاتھ میں سب شفاء ہے۔

سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراس والے ایک ضعیف آدمی ہیں۔ان کو مرض ذیابیطس بھی ہے اور ساتھ ہی کاربنکل نہایت خوفناک شکل میں نمودارہوا اور پھر عمر بھی بڑھاپے کی ہے۔ڈاکٹروں نے نہایت گہرا چیرہ دیا اور ان کی حالت نہایت خطرناک ہوگئی یہانتک کہ ان کی نسبت خطرہ کے اظہار کے خطوط آنے لگے۔تب میں نے ان کے واسطے بہت دعا کی تو ایک روز اچانک ظہر کے وقت الہام ہوا۔’’

آثار زندگی

‘‘اس الہام کے بعد تھوڑی دیر میں مدراس سے تار آیا کہ اب سیٹھ صاحب موصوف کی حالت روبصحت ہے۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ59)

بیمار اپنا علاج کرائے

‘‘بیمار کو چاہئے کہ اول اپنا علاج کرائے۔اگر بیمار اپنا علاج نہ کرے اور چند قصے سننے لگے تو اس سے وہ اچھا نہ ہو جائے گا۔ایک شخص جو اپنی خراب صحت کے سبب دو چار روز میں مرنے والا ہے اگر وہ کہے کہ میں امریکہ کی سیر کے واسطے جاتا ہوں تاکہ دنیا کے عجائبات دیکھوں تو یہ اس کی نادانی ہے۔اس کو تو چاہئے کہ اول اپنا علاج کرائے۔جب تندرست ہو جائے تو پھر سیر بھی کر سکتاہے۔حالت بیماری میں تو سیرو سیاحت اور بھی نقصاں رساں ہوگی۔’’

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ105)

علاج اور توکل میں ہم آہنگی

علاج اور توکل میں ہر گز کو ئی تضاد نہیں ۔آپ فرماتے ہیں:

‘‘پیغمبر خدا ﷺ خود کس قدر متوکل تھے مگر ہمیشہ لوگوں کو دوائیں بتلاتے تھے۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 406)

کوئی مرض ناقابل علاج نہیں

‘‘حدیث میں آیا ہے مَا مِنْ دَاءٍ اِلَّا وَلَہٗ دَوَاءٌ ایک مشہور ڈاکٹر کا ہمیں قول یاد ہے وہ کہتا ہے کہ کوئی مرض بھی ناقابل علاج نہیں ہے بلکہ یہ ہماری سمجھ اور عقل و علم کا نقص ہے کہ ہمارے علم کی رسائی وہاں تک نہیں ہوتی۔ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مرض کے واسطے بعض ایسے ایسے اسباب پیدا کئے ہوں جن سے وہ شخص جس کو ہم ناقابل علاج یقین خیال کرتے ہیں قابل علاج اور صحت یاب ہو کر تندرست ہو جاوے پس قطعی حکم ہر گز نہ لگانا چاہئے بلکہ اگر رائے ظاہربھی کرنی ہو تو یوں کہہ دو کہ ہمیں ایسا شک پڑتا ہے مگر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسے سامان پیدا کردے کہ جن سے یہ روک اٹھ جاوے اور بیمار اچھا ہو جاوے۔دعا ایک ایسا ہتھیار خداتعالیٰ نے بنایا ہے کہ انہونے کام بھی جن کو انسان ناممکن خیال کرتا ہے ہو جاتے ہیں کیونکہ خدا کے لیے کوئی بات بھی انہونی نہیں۔’’(ملفوظات جلد پنجم صفحہ500)

ہر مرض کا علاج

‘‘یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو۔ اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔’’

(ملفوظات جلد5صفحہ102)

علاج کی پانچ صورتیں

‘‘علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں دوا سے،غذا سے،عمل سے،پر ہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ایک پانچویںقسم بھی جس سے سلب امراض ہے وہ توجہ ہے… دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چا ہئے۔’’

(ملفوظات جلد دوم صفحہ280)

لاعلاج امراض کا علاج

‘‘ جن امراض کو اطباء اور ڈاکٹرلاعلاج کہہ دیتے ہیں ۔ ان کا علاج بھی دعا کے ذریعہ سے ہوسکتاہے۔’’

(ملفوظات جلد4صفحہ 256)

علاج بذریعہ الہام

‘‘طبیب کے واسطے بھی مناسب ہے کہ اپنے بیمار کے واسطے دعا کیا کرے کیونکہ سب ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ خداتعالیٰ نے اس کو حرام نہیں کیا کہ تم حیلہ کرو۔ اس واسطے علاج کرنا اور اپنے ضروری کاموں میں تدابیر کرنا ضروری امر ہے لیکن یاد رکھو کہ مؤثر حقیقی خداتعالیٰ ہی ہے۔ اسی کے فضل سے سب کچھ ہوسکتا ہے۔ بیماری کے وقت چاہئے کہ انسان دوا بھی کرے اور دعا بھی کرے۔ بعض وقت خداتعالیٰ مناسب حال دوائی بھی بذریعہ الہام یا خواب بتلادیتا ہے اور اس طرح دعا کرنے والا طبیب علم طب پر ایک بڑا احسان کرتا ہے۔ کئی دفعہ اللہ تعالیٰ ہم کو بعض بیماریوں کے متعلق بذریعہ الہام کے علاج بتادیتا ہے۔یہ اس کا فضل ہے۔’’(ملفوظات جلد 5صفحہ53)

ِلکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ کا وسیع مفہوم

‘‘ہر ایک مرض کا علاج موجود ہے۔لِکُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ۔افسوس !لوگ آپؐ کے اس مبارک قول کی قدر نہیں کرتے اور اس کو صرف ظاہری امراض تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔یہ کس قدر نادانی اور غلطی ہے۔جس حال میں ایک فانی جسم کے لیے اس کی اصلاح اور بھلائی کے کل سامان موجود ہیں،تو کیا یہ ہو سکتاہے کہ انسان کی روحانی امراض کا مداوا اللہ تعالیٰ کے حضورکچھ بھی نہ ہو؟ہے! اور ضرورہے!!’’

(ملفوظات جلد اول صفحہ86)

علاج اور انسانی علم

‘‘بعض دنیا دار فلسفی اور ڈاکٹر حضرات اپنے علم کو یقینی اور قطعی سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ انسان خواہ کس قدر بھی ترقی کر جائے اس کا علم ایک دائرے تک ہے اور بہت زیادہ معاملات ایسے ہیں جس کے بارے میں اسے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔’’

حضور ؑفرماتے ہیں:

‘‘ بہت سے امراض اس قسم کے ہیں جن کی ماہیت ڈاکٹروں کو بخوبی معلوم نہیں ہو سکتی۔ مثلاً طاعون یا ہیضہ ایسے امراض ہیں کہ ڈاکٹر کو اگر پلیگ ڈیوٹی پر مقرر کیا جاوے تو اُسے خود ہی دَست لگ جاتے ہیں۔ انسان جہاں تک ممکن ہو علم پڑھے اور فلسفہ کی تحقیقات میں محو ہو جاوے لیکن بالآخر اُس کو معلوم ہوگا کہ اُس نے کچھ ہی نہیں کیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ جیسے سمندر کے کنارے ایک چڑیا پانی کی چونچ بھرتی ہو۔ اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور فعل کے معارف اور اسرار سے حصہ ملتا ہے۔’’

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 58)

دوا اور غذا کی تاثیرات

‘‘اللہ تعالیٰ علمی سلسلہ کو ضائع کرنا نہیںچاہتا اس لئے اس نے آدم کی پیدائش کے وقت ان ستاروں کی تاثیرات سے بھی کام لیا ہے جن کو اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھااور یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان میں تاثیرات ہیں۔جیسا کہ آیت وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیاَ ِبمَصَابِیْحَ وَ حِفْظًاسے،یعنی حِفْظًاکے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اسی قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوااور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ان کی تاثیرات خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اور تربد اور سقمونیا اور خیار شنبر کی تاثیرات کا تو قائل ہے مگر ان ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اول درجہ پرتجلی گاہ اور مظہر العجائب ہیں۔’’

(تحفہ گولڑویہ ،روحانی خزائن جلد17صفحہ282حاشیہ)

دوا کے استعمال میں بے احتیاطی نہیں کرنی چاہئے

غریب ممالک میں عام طور پردواؤں کا استعمال بلاسوچے سمجھے اور بے احتیاطی سے کیا جاتا ہے۔ کسی ایک مریض کے لیے ڈاکٹر نے جو دوا دی وہ گھر میں پڑی رہتی ہے اور کسی دوسرے مریض کو بغیر مناسب غوروفکر کے استعمال کروا دی جاتی ہے۔ دوا کے استعمال میں یہ بے احتیاطی مناسب نہیں ہے اور اس کے نتائج خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ دوا ہمیشہ معالج کے مشورے کے بعد استعمال کرنی چاہیے اور دوا کی خوراک کا بھی پورے طور پر خیال رکھنا چاہیے۔

حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘علم طبابت ظنی ہے کسی کو کوئی دوا پسند کسی کو کوئی۔ ایک دوا ایک شخص کے لئے مضر ہوتی ہے دوسرے کے لئے وہی دوا نافع۔ دوائیوں کا راز اور شفا دینا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی کو یہ علم نہیں کل ایک دوائی مَیں استعمال کرنے لگا تو الہام ہوا ‘‘خطرناک’’ دوائیں اندازہ کرنے پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے بلکہ ضرورتوں کو لینا چاہئے۔’’(ملفوظات جلد5صفحہ437)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button